فلم پھولے پر تنازعہ اور بھارت کےعدم مساوات کے تہذیبی پس منظر میں ایک تجزیہ

شاہجہاں مخدوم (سینئر صحافی، ممبئی)
جوتی راؤ پھولے اور ساوتری بائی پھولے کی انقلابی زندگی پر مبنی فلم پھلے 25 اپریل 2025 کو ریلیز ہونے سے پہلے ہی تنازعات میں پھنس گئی تھی۔ اننت مہادیون کی ہدایتکاری میں بننے والی اس فلم میں پرتیک گاندھی اور پتر لیکھا نے اداکاری کی ہے اور اس میں خواتین کی تعلیم، ذات پات کے امتیاز کے خاتمے اور سماجی مساوات کے حصول کی جدوجہد پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ تاہم، ٹریلر اور کچھ مناظر نے سماجی، ثقافتی اور سیاسی حلقوں میں شدید رد عمل کو جنم دیا ہے۔ یہ تجزیہ پھولے کے ارد گرد کے تنازعہ میں جھانکتا ہے، سماجی حساسیت، تاریخی سچائی اور سنسرشپ کے باہمی تعامل کا جائزہ لیتا ہے۔
تنازعہ کی جڑ: ٹریلر اور اعتراضات
پھولے کا ٹریلر مہاتما پھولے کے کٹھن سفر اور 19 ویں صدی کے ہندوستان میں ذات پات کے امتیاز، چھواچھوت اور خواتین کی تعلیم پر پابندی کے معاشرتی مسائل پر مرکوز ہے۔ ایک خاص منظر جس میں ایک برہمن لڑکے کو ساوتری بائی پھولے پر گوبر اور پتھر پھینکتے ہوئے دکھایا گیا ہے، کو برہمن مہاسنگھ کی طرف سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ تنظیم کے رہنما آنند دوے نے فلم پر ذات پات کی بنیاد پر کشیدگی کو بھڑکانے اور برہمن برادری کو غیر منصفانہ طور پر پیش کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ فلم پھولے جوڑے کو کچھ برہمنوں کی طرف سے فراہم کی گئی حمایت کو اجاگر کرے اور زیادہ جامع بیانیہ اپنائے۔ ان اعتراضات کی وجہ سے فلم کی اصل ریلیز کی تاریخ، جو 11 اپریل، 2025 (مہاتما پھولے کی یوم پیدائش) کے لئے طے کی گئی تھی، 25 اپریل تک ملتوی کردی گئی تھی۔
سینٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفکیشن نے تقریبا 12 مناظر کو ہٹانے یا ان میں ترمیم کرنے کا حکم دے کر تنازعہ کو مزید بڑھا دیا ، جس میں ذات پات کےنام کا استعمال بھی شامل ہے۔ جیسے ’شودر‘، ’منگ‘، اور’مہار‘، اور گوبر پھینکنے کا منظر جس میں ساوتری بائی شامل ہیں۔ اس فیصلے نے سماجی کارکنوں، سیاسی رہنماؤں اور فلم سازوں میں غم و غصے کو جنم دیا۔ ونچت بہوجن اگھاڑی کے رہنما پرکاش امبیڈکر نے سی بی ایف سی دفتر کے باہر احتجاج کی دھمکی دی جبکہ ڈائریکٹر اننت مہادیون نے بورڈ کی تبدیلیوں کو ’بے معنی‘ اور سماج کی انتہاپسندانہ حساسیت کی عکاسی قرار دیا۔
تاریخی سچائی اور سنیما کی آزادی
مہاتما پھولے نے اپنے کام کے ذریعے ذات پات کے امتیاز، چھواچھوت اور سماجی عدم مساوات کو سرعام چیلنج کیا۔ شودر اور اتیشودر برادریوں کو آزاد کرانے اور خواتین کی تعلیم کو فروغ دینے کی ان کی کوششوں نے اس وقت اونچی ذاتوں کے غلبے کو متاثر کیا۔ گلگیری اور سروجنک ستیہ دھرما جیسے ان کے اہم کاموں نے سماجی استحصال کی جڑوں کا تجزیہ کیا اور انقلابی خیالات پیش کیے۔ فلم پھولے اس تاریخی سچائی پر مبنی ہے، لیکن کہانی کو ڈرامائی انداز دینے کے لئے سنیما کی آزادی کا استعمال ضروری ہے۔متنازعہ مناظر، خاص طور پر ساوتری بائی پر گوبر پھینکے جانے کی تصویر، تاریخی طور پر درست ہیں، جیسا کہ کئی اسکالرز اور پھولے کی اولاد نے تصدیق کی ہے۔ ساوتری بائی نے جب لڑکیوں کے لیے اسکول شروع کیے، تو انھیں سماج کے قدامت پسند طبقوں کی طرف سے شدید مخالفت اور ذلت کا سامنا کرنا پڑا۔ نیلو پھولے کی بیٹی اور پھولے خاندان کی اولاد اور تجربہ کار اداکارہ گارگی پھولے نے کہا، سچ کو بدلا نہیں جا سکتا۔ کہانی کے لیے ضروری مناظر کو ہٹانا غلط ہے۔ اس کے برعکس، برہمن مہاسنگھ کا استدلال ہے کہ اس طرح کے مناظر غیر منصفانہ طور پر ایک مخصوص برادری کو نشانہ بناتے ہیں، جس سے ممکنہ طور پر ذات پات کے تناؤ کو ہوا ملتی ہے۔
ہدایت کار اننت مہادیون نے واضح کیا کہ یہ فلم تاریخی دستاویزات اور کتابوں کے حوالے سے بنائی گئی ہے اور اس بات پر زور دیا کہ ’پھلے جوڑے کی خوبصورتی تمام برادریوں کے ساتھ ان کی ہم آہنگی میں ہے‘۔ یہ فلم کسی کمیونٹی کے خلاف نہیں ہے۔ تاہم، انہوں نے نوٹ کیا کہ ٹریلر سے اخذ کردہ قبل از وقت نتائج نے تنازعہ کو ہوا دی ہے۔
سماجی حساسیت اور سنسرشپ
پھولے سے متعلق تنازعہ نے ایک بار پھر ہندوستان میں سماجی حساسیت اور سنسرشپ کے کردار کے مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ سی بی ایف سی کے فیصلوں نے اہم سوالات اٹھائے ہیں: تاریخی سچائی پیش کرتے وقت فلم سازوں کو کتنی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا؟ کیا سماجی تناؤ سے بچنے کے نام پر سچائی کو دبانا جائز ہے؟ سینئر صحافی راجدیپ سردیسائی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا، برہمن ازم اور ذات پات کے نظام کے خلاف ان کی لڑائی کا حوالہ دیے بغیر پھولے کے بارے میں ایک منصفانہ فلم کیسے بنائی جا سکتی ہے؟ ناگوار سچائیوں کا سامنا کرنے کے مقابلے میں مذہبی خراج عقیدت پیش کرنا آسان ہے۔
سی بی ایف سی کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (شرد پوار ) کے جینت پاٹل نے کہا، دی کشمیر فائلز اور دی کیرالہ اسٹوری جیسی فلمیں، جو پروپیگنڈا کرتی ہیں، پر سی بی ایف سی کو کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن پھولے خاندان کے خیالات کو محدود کیا جاتا ہے۔ اس سے سنسرشپ کی غیر جانبداری کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں۔ عام آدمی پارٹی نے سی بی ایف سی پر مرکزی حکومت کے دباؤ میں کام کرنے کا بھی الزام لگایا، جس سے تنازعہ میں ایک سیاسی جہت کا اضافہ ہوا۔
سیاسی اور ثقافتی جہتیں
پھولے سے متعلق تنازعہ سنیما یا تاریخی خدشات سے بالاتر ہے، جس میں سیاسی اور ثقافتی جہتیں شامل ہیں۔ مہاتما پھولے کے خیالات سماجی انصاف کے لئے شاہو ،پھولےاورامبیڈکر ،تحریک کی بنیاد بناتے ہیں۔ لہٰذا ان کی زندگی پر مبنی فلم کی مخالفت کو بہت سے لوگ نہ صرف فلم پر حملے کے طور پر دیکھتے ہیں بلکہ ان کے انقلابی نظریے کو چیلنج کرنے کی کوشش کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔ ونچت بہوجن اگھاڑی اور دیگر سماجی تنظیموں نے اس تنازعہ کو دلت اور پسماندہ برادریوں کے جذبات پر حملہ قرار دیا ہے۔
اس کے برعکس، برہمن مہاسنگھ کا دعویٰ ہے کہ فلم غیر منصفانہ طور پر ایک کمیونٹی کو مورد الزام ٹھہراتی ہے، جس سے سماجی ہم آہنگی کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ اس سے ہندوستان میں ذات پات پر مبنی سماجی حرکیات کی حساسیت اور تاریخی ناانصافیوں کے دیرپا اثرات پر روشنی پڑتی ہے۔ اس تنازعہ نے ایک بار پھر طبقاتی اور ذات پات کے تناؤ کو سطح پر لا کھڑا کیا ہے۔
انوراگ کشیپ کا تنازعہ
فلم ساز انوراگ کشیپ کی جانب سے فلم کی حمایت کرتے ہوئے برہمن برادری کے بارے میں قابل اعتراض تبصرہ کرنے کے بعد تنازعہ شدت اختیار کر گیا۔ اس کے نتیجے میں رد عمل سامنے آیا ، جس میں ممبئی میں ان کے خلاف درج ایف آئی آر بھی شامل ہے۔ کشیپ نے بعد میں معافی مانگی، لیکن اس واقعہ نے تنازعہ میں ایک ثقافتی اور ذاتی پرت شامل کردی۔ نغمہ نگار منوج منتشر نے کشیپ کو ملک مخالف قرار دیا جس پر سوشل میڈیا پر شدید رد عمل سامنے آیا۔
میکرز کا ردعمل اور عوامی رد عمل
اس تنازعہ کو کم کرنے کے لئے ، فلم کے میکرز نے نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے رہنما چھگن بھجبل سے ملاقات کی ، جنہوں نے فلم کی حمایت کرتے ہوئے کہا ، ’مہاتما پھلے کا کام دنیا تک پہنچنا چاہئے‘۔ تاہم کچھ لوگوں نے اس تنازعہ کو پبلسٹی اسٹنٹ قرار دیا ہے۔ مراٹھی اداکارہ کرن مانے نے اس پر تنقید کرتے ہوئے کہا، یہ صرف ایک پبلسٹی اسٹنٹ ہے۔ ایک فلم تاریخ نہیں ہے، لہذا ہمیں اسے مفت تشہیر دینے کے جال میں نہیں پھنسنا چاہئے۔
سوشل میڈیا پر فلم کی حمایت اور مخالفت دونوں دیکھی گئی ہیں۔ کچھ لوگوں نے اسے سماجی بیداری بڑھانے کا ذریعہ قرار دیا ہے، جبکہ دوسروں نے اسے ذات پات پر مبنی نفرت کو فروغ دینے کے طور پر لیبل کیا ہے۔ یہ معاشرے میں نظریاتی تقسیم اور تاریخی سچائیوں کو قبول کرنے کے آس پاس کی بے چینی کی عکاسی کرتا ہے۔
سچائی، حساسیت اور سماجی تبدیلی
پھولے پر تنازعہ صرف ایک فلم کے بارے میں نہیں ہے بلکہ ہندوستان میں سماجی تبدیلی، تاریخی سچائی اور ثقافتی حساسیت کے درمیان پیچیدہ باہمی تعامل کی عکاسی کرتا ہے۔ مہاتما پھولے نے پسماندہ طبقات کو آواز دی اور استحصال سے پاک معاشرے کا تصور پیش کیا۔ ان کے خیالات کو اب بھی مزاحمت کا سامنا ہے، جیسا کہ اس تنازعہ میں واضح ہے۔ یہ فلم ان کے انقلابی خیالات کو نئی نسل تک لانے کی کوشش کرتی ہے لیکن اسے سماجی اور سیاسی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سنسرشپ کی آڑ میں تاریخی سچائی کو دبانا معاشرتی ترقی میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سماجی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لئے زیادہ جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ پھولے صرف تفریح کا ایک ٹکڑا نہیں ہے بلکہ ایک فکر انگیز دستاویز ہے جو معاشرے کو اس کی تاریخ اور موجودہ چیلنجوں سے جوڑتا ہے۔ یہ تنازعہ تبدیلی کی ضرورت اور حساسیت میں اضافے کی نشاندہی کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم سچائی کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں یا ہم حساسیت کے نام پر اسے دبانے کی کوشش کریں گے؟
فلم ’پھولے‘ مہاتما پھولے کے خیالات اور جدوجہد کو روشناس کرانے کا ذریعہ ہے، جبکہ گہری جڑیں رکھنے والے معاشرتی تناؤ کو بے نقاب کرتی ہے۔ یہ تنازعہ سچائی کو گلے لگانے اور سماجی مساوات کی طرف قدم اٹھانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس کے لیے سنیما، سماج اور سیاست کے درمیان تعمیری مکالمہ ضروری ہے۔
ساوتری بائی پھولے پر گوبر پھینکنے کے واقعات کے تاریخی اور ادبی ثبوت
ساوتری بائی پھولے پر گوبر پھینکنے کے واقعات تاریخی اور ادبی مصادر میں اچھی طرح سے درج ہیں، جو خواتین کی تعلیم میں ان کے کام کے لئے انہیں شدید مخالفت کا سامنا کرنے کی علامت ہے۔ جب ساوتری بائی نے ۱۸۴۸ میں پونے کے بھیڑے واڈا میں لڑکیوں کے لیے ایک اسکول شروع کیا، تو سماج کے قدامت پسند طبقوں نے ان پر گوبر، گائے کا پیشاب، پتھر اور کچرا پھینک کر ان کی توہین کی۔ ذیل میں تاریخی اور ادبی حوالہ جات ہیں جو ان واقعات کا ثبوت فراہم کرتے ہیں:
تاریخی حوالہ جات
1۔ ساوتری بائی کی معاصر تحریریں اور خطوط
ساوتری بائی اور جوتی راؤپھولے کے درمیان خط و کتابت کے ساتھ ساتھ ستیہ شودھک سماج کے ریکارڈ میں بھی ان واقعات کا ذکر ملتا ہے۔ ساوتری بائی نے خود سماجی مخالفت کے بارے میں لکھا ہے، جس میں جسمانی اور نفسیاتی ہراسانی بھی شامل ہے، جس میں ان پر گوبر اور کچرا پھینکے جانے کا خاص حوالہ دیا گیا ہے۔
فاطمہ شیخ سے متعلق ریکارڈ
ساوتری بائی کے ساتھ کام کرنے والی فاطمہ شیخ نے بھی ان کے اسکول کی مخالفت کو دستاویزی شکل دی۔ فاطمہ اور ساوتری بائی نے جب عثمان شیخ کے گھر پر اسکول شروع کیا، تو مقامی برادریوں نے ان پر گوبر اور کچرا پھینکا، جیسا کہ کچھ تاریخی دستاویزات میں درج ہے۔
3۔برطانوی دور کے انتظامی ریکارڈ
برطانوی حکومت نے ساوتری بائی اور جوتی راؤ کی تعلیمی کوششوں کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں درپیش سماجی مخالفت کا ذکر کیا۔ 1850 کی دہائی کی کچھ انتظامی رپورٹوں میں پونہ میں قدامت پسند گروہوں کے رد عمل کا حوالہ دیا گیا ہے ، جس میں گوبر پھینکنے کے واقعات بھی شامل ہیں۔
ادبی حوالہ جات اور کتابیں
مندرجہ ذیل کتابیں اور لٹریچر گوبر پھینکنے کے واقعات کا ثبوت فراہم کرتے ہیں:
1۔’ساوتری بائی پھلے: سماگرا وانگمے‘ (مدیر: ڈاکٹر ایم جی مالی)
o اس مجموعے میں ساوتری بائی کی نظمیں، خطوط اور تحریریں شامل ہیں۔ ان کی کچھ تحریروں میں اسکول جاتے ہوئے ان کی بے عزتی کا ذکر کیا گیا ہے، جن میں گوبر اور کچرا پھینکنے کے واقعات بھی شامل ہیں۔ ان کے کام کو سمجھنے کے لئے یہ مجموعہ بہت اہم ہے۔
2۔’کرانتی جیوتی ساوتری بائی پھلے‘(مصنف: این اے جی پوار)
o اس سوانح حیات میں ساوتری بائی کو اسکول جانے کے دوران پیش آنے والی مخالفت کی تفصیل دی گئی ہے۔ مصنفہ نے گوبر پھینکنے کے واقعات کا سامنا کرتے ہوئے ان کی ہمت اور استقلال کو اجاگر کیا ہے۔
3۔’ساوتری بائی پھولے: بھارتیہ اسٹریموکتیشیا جنک‘ (مصنف: شیلجا مولک)
o یہ کتاب ساوتری بائی کے تعلیمی کام کی مخالفت کی تفصیلی تاریخ فراہم کرتی ہے۔ گوبر اور پتھراؤ کے واقعات کا ذکر اس وقت کی قدامت پسند ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔
2۔’ذات پات، تنازعہ اور نظریہ: انیسویں صدی کے مغربی ہندوستان میں مہاتما جوتی راؤ پھولے اور نچلی ذات کا احتجاج‘ (مصنف: روزلنڈ او ہینلون)
o یہ انگریزی کتاب پھولے جوڑے کی سماجی اصلاحات کی مخالفت کا جائزہ لیتی ہے۔ اس میں ساوتری بائی پر جسمانی اور سماجی حملوں کا ذکر ہے، جس میں گوبر پھینکنے کے واقعات بھی شامل ہیں۔
3۔’ساوتری بائی پھولے فرسٹ میموریل لیکچر 2008 (مصنف: ٹی سندررمن) نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (این سی ای آر ٹی) کے ذریعہ شائع ہونے والے اس لیکچر سیریز میں ساوتری بائی کے اسکول کی مخالفت کا ذکر کیا گیا ہے، جس میں ان کے حوصلوں کے تناظر میں گوبر اور کچرا پھینکنے کے واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے۔
6۔’استری شکشناچیا اگردوت: ساوتری بائی پھلے‘ (مہاراشٹر ٹائمز اور دیگر معاصر مضامین)
مہاراشٹر ٹائمز کے مضامین میں ساوتری بائی کو اسکول جاتے وقت پیش آنے والے توہین آمیز سلوک کا ذکر ہے۔ مٹی پھینکنے کے بعد بدلنے کے لیے اضافی ساڑی لے جانے کی ان کی روایت نوٹ کی جاتی ہے، جسے گوبر پھینکنے کے واقعات سے جوڑا جاتا ہے۔
7۔’لیک ساوتریچی‘(مصنف: نرملا تائی کاکڑے، مدیر: یو ایم پٹھان)
o اس سوانح حیات میں ساوتری بائی کی جدوجہد کی تفصیل ہے، جس میں گوبر اور کچرا پھینکنے کے واقعات کا ذکر بھی شامل ہے۔ یہ کتاب ان کے کام کو سمجھنے کے لئے قابل قدر ہے۔
8۔’ساوتری بائی پھولے یانچی سماجی و شیکشانک کاریہ‘ (مصنف: جی اے اگالے)
o یہ کتاب ساوتری بائی کے تعلیمی کام کی مخالفت کا خاکہ پیش کرتی ہے، جس میں گوبر پھینکنے کے واقعات کو ان کے عزم کے تناظر میں پیش کیا گیا ہے۔
9۔ سوشل میڈیا اور معاصر مضامین
کچھ معاصر مضامین اور سوشل میڈیا پوسٹس (مثال کے طور پر ڈیلیُو، ۲۰۱۹، اور سولس ڈیلی، ۲۰۲۳) میں گوبر پھینکنے کے واقعات کا ذکر کیا گیا ہے، جس میں ساوتری بائی کو بھیڑے واڈا میں اپنے اسکول جانے کے دوران اونچی ذات کے گروپوں کی طرف سے ہونے والی بد سلوکی کا حوالہ دیا گیا ہے۔
10۔ مراٹھی وشوکوش
• ساوتری بائی کی زندگی پر مراٹھی وشوکوش انٹری میں اسکول جانے کے دوران انہیں پیش آنے والی سماجی مخالفت کا ذکر ہے، جس میں گوبر اور کچرا پھینکنے کے واقعات بھی شامل ہیں۔
نوٹ: ان واقعات کا ثبوت بنیادی طور پر ساوتری بائی کے بیان سے ملتا ہے۔سوانح حیات، اور تاریخی دستاویزات۔ یہ واقعات اس وقت کی قدامت پسند ذہنیت کا نتیجہ تھے، اور ساوتری بائی نے اس طرح کی ذلت کے باوجود اپنا کام جاری رکھا۔ مندرجہ بالا کتابیں اور حوالہ جات ان واقعات کی تاریخی سچائی کی نشاندہی کرتے ہیں۔
(مضمون نگار ممبئی سے شائع ہونے والے مراٹھی ہفت روزہ اخبار شودھن کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں، رابطہ: 8976533404)
Comments are closed.