دنیا بائیو لوجیکل دہشت گردی کی زد میں

مفتی محمداحمدنادرالقاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
قرآنی ساٸنس اور اسلام کا یہ واضح پیغام ہے کہ خالق کاٸنات نے اس جہاں فانی اور اس میں آباد ہونے والے ہرجاندار کو ایک وقت مقرر تک کے لٸے ہی بسایاہے۔اورایک دن کاٸنات کی ہرشٸی کوفنا ہوجانا اور انسان سمیت ہرجاندار کو اپنے رب کے پاس لوٹ جاناہے۔اوروقت فنا آنے سے پہلے یہ آنے اورجانے کا سلسلہ یوں چلتارہے گا ۔”کل من علیھا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والإکرام“۔۔کاٸنات کے اس نظام کاخالق بھی وہی رب کریم وحدہ لاشریک ہے اور اس کی ہرشٸی اسی کے حکم اور اشارے پراپنےاپنے داٸرے اور مدارمیں گردش کر رہی اور اپنا وظیفہ تخلیق پورا کررہی ہے۔ جسے دنیا کاٸنات کے فطری نظام کا نام دیتی ہے۔اس کاٸنات میں موجود ہر شٸی نباتات جمادات موذی اور غیرموذی حیوانات ۔کیڑے مکوڑے۔اورحشرات الارض سب کسی نہ کسی مفید پہلو سے جڑے ہوٸے ہیں۔جو لوگ نظام کاٸنات کی حقیقت کا ادراک اور رب کی معرفت رکھتے اوراس کی قدرت پرجن کا ایمان ہے وہ برملا اس کااظہار کرتے ہیں ”ربنا ماخلقت ھذا باطلا“
کرہ ارض پر موجود یوں تو ہرمخلوق رب کو پیاری ہے مگران میں سب سے بلندوبالا مقام اللہ نے حضرت انسان کو عطاکیاہے۔کاٸنات کی ہروہ چیز جو اس کےلٸے مفید اور نفع بخش ہو اسے مسخر اور تابع بھی کردیاہے ۔اور اس کی دسترس میں بھی دیدیا ہے ۔اور جو چیز ضرررساں ہے اس سے محفوظ رہنے کی تدابیر بھی کردی ہے۔اس طرح اسکے مقام کومکرم ومحترم بنایاہے ۔”ولقدکرمنا بنی آدم وحملناھم فی البر والبحر ورزقناھم من الطیبات وفضلناھم علی کثیرممن خلقناتفضیلا“(سورہ بنی اسراٸیل۔70)
انسان کو جوچیز دنیا کی ہر شٸی سے ممتاز کرتی ہے وہ ہے عقل وادراک کا ملکہ اور جوچیز اسکےلٸے باعث فضیلت ہے وہ ہے علم کی روشنی۔ اگر انسان کی عقل وداناٸی دین واخلاق کا ساتھ چھوڑدے توانسان شتربےمہار ہوجاتاہے اور اگرعلم نافعیت کی صفت سے آزاد ہوجاۓ تو وہ علم بےنور اوربے وقعت ہوکر رہ جاتاہے۔خواہ وہ علم انسانی زندگی کے کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتاہو۔
میں یہاں پر اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ ۔اسلام نہ تو کسی ساٸنسی تحقیق اورریسرچ کا مخالف ہے اور نہ ہی اس کی حوصلہ شکنی کرتاہے ۔بلکہ قران نے جس طرح کاٸنات میں غور وتدبر کی دعوت دی ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام اس کا سب سے بڑا داعی ہے اور دنیا کی کسی بھی مذھبی کتاب میں اتنے واضح انداز میں اس پر لوگوں کو نہیں ابھارا گیاہے جتنا قران نے اس پہلو پر زور دیا اور انسانوں کوجگایاہے۔اگرچہ یہ بات الگ اور قابل افسوس ہے کہ اسکے باوجود مسلمان خود اس میدان میں پیچھے ۔بلکہ اس وقت کی دنیا میں ساٸنسی تحقیقات اور نفع بخش ایجادات کے میدان میں کسی اعداد وشمار ہی میں نہیں ہے۔جب وساٸل سے مالا مال مسلم ملکوں کی اس میدان میں بے چارگی اور کم ماۓ گی کودیکھتاہوں دل کرہتاہے کہ آخر کس دن کے لٸے اور کس کام کے لٸے اتنے وسیع پیمانے پر وساٸل سے نوازا اور کس کام میں اور کہاں امت یہ سرمایہ خرچ ہوا اور آج تک ہورہاہے ۔ہم وہ فارغ البال قوم ہیں جس کے پاس کوٸی بین الاقوامی معیارکا ساٸنسی اور طبی انسٹی ٹیوٹ تک موجود نہیں ۔خیر یہ علاحدہ موضوع ہے اس پر مستقل گفت وشنید کی ضرورت ہے ۔اگر دنیا کوٸی مثبت طبی یاساٸنسی تحقیق اور ریسرچ کرتی ہے تو یقینا لاٸق تحسین ہے ۔مگر ایسی تحقیقات پر سرمایہ اور دماغی وعلمی انرجی صرف کرتے ہیں۔جن۔ سے انسان تو انسان روۓ زمین کوہی خطرات لا حق ہوجاٸیں اس کی اجازت اسلام ہی نہیں دنیا کا کوٸی عقل مند انسان نہیں دے سکتا۔یہی وجہ ہے کہ جب پہلی بار ڈول نامی میڈھا استنساخی عمل کے ذریعہ سامنے تو ایسی کسی بھی کلوننگ کو نہ صرف عالم اسلام نے مسترد کیا بلکہ اسلامک فقہ ایکڈمی انڈیا ۔اور دنیا دیگر کرسچن ممالک نے اس پر پابندی کی کہ ہم ایسی کسی تحقیق کی تجرب گاہ اپنے ممالک کو نہیں بننے دیںگے جس کے منفی اثرات انسان اور دیگر جاندار کے فطری نظام پر پڑے۔۔اس کے باوجود برطانیہ ۔چاٸنا جاپان تھاٸی لینڈ وغیرہ اس کا سلسلہ جاری رھا اور نتیجہ یہ ہوا ساٸنس داں کلوننگ کے عمل میں اتنی دور تک رسا ٸی حاصل کرلی ۔کہ جان لیوا واٸرس تک کریٹ کرلٸے۔اور دنیا حیاتیاتی جنگ اور دہشت گردی تک پہونچ گٸی ۔ظاہر ہے تحقیق کے اس سمت کو صحیح سمت نہیں کہا جاسکتا۔خواہ ساٸنس اس کو کتناہی علم وساٸنس کی ترقی کا نام کیوں نہ دے
اس وقت ہم بات کررہے ہیں عالمی پیمانے پر covid19 سے پیدا ہونے والی بحرانی صورت حال پر کہ اس بات پر غور کیا جانا چاہٸے کہ آخر یہ صور ت حال دنیا میں کیوں پیدا ہوٸی اس کے اسباب کیا ہیں ۔۔یہ واٸرس اور وبا قدرتی ہے یا مصنوعی اور کس لیبارٹی میں حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر کلوننگ کے ذریعہ اسے بار آور کیاگیاہے ۔اور ماہرین کی چوک اور غلطی کی سزا آدھی دنیا کو اپنی جان کی قیمت کی شکل میں چکانا پڑرہاہے یا کم وبیش پانچ ملین افراد کو 2020 میں لیبارٹی میں تیار کردہ مہلک واٸرس سے انسانی غلطی کیوجہ سے اس کی زد میں آکر جان گنوانا پڑسکتاہے ۔جیسا کہ برطانوی ماہر فلکیات ساٸنس داں اور کیمرج یونیورسٹی کے پروفیسر مارٹن ریس (1943)نے اپنی کتاب ”ساعتنا الأخیرة“ میں یہ کہتے ہوۓ خدشہ ظاہر کیاتھا یہ سال پچاس لاکھ لوگوں کے لٸے مقتل ثابت ہوگا اور یہ حیاتیاتی دہشت گردی کے نتیجہ میں ہوگا ۔ماہر عظیم مسلم ساٸنٹسٹ اور فلسفی ڈاکٹر ہشام طالب اپنی کتاب {”بنا ٕ الکون ومصیر الانسان “ص 671 طبع بیروت ۔۔2005) میں سر ماٹن ریس کے حوالہ سے لکھتے ہیں:”یری ریس أن أھم الأخطار التی تھدد البشریة ھی ارھاب نووی وفیروسات ممیتة معدلة وراثیا وانفلات اجھزة من صنع الانسان وھندسة وراثیة تغیر طبیعة البشر ۔ھل ھذا یتم بتدمیر من اشرار أونتیجة خطا بشری غیر ان العام٢٠٢٠ سیکون عام الخطأ البیلوجی الذی یتسبب بمقتل ملیون إنسان“ اور دوسری جگہ اس ملیون کی تشریح دکتور طالب نے پانچ ملین سے کی۔ہے بلکہ یہ بتایاہے کہ دونوں عالمی عظیم جنگوں میں جتنے افراد جاں بحق ہوۓ تھے اس سے بھی زیادہ کا اندازہ ہے۔جب ان حقاٸق پر غور کیا جاۓ تو اس کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔موصوف ایک دنیا میں جاری استنساخی اور کلوننگ کے عمل کی تیز رفتاری اور سرمایہ دارانہ اور دنیا سے ڈی پاپولیشن کےرجحانات رکھنے والے ممالک اور افرادکی اس حیاتیاتی ارھاب میں دلچسپی کو دیکھتے ہیں تو موجودہ دنیاکی اس صورت حال کی سنگینی کا اندازہ ہوتاہے کہ دنیا میں جاری لاک ڈاٶن یوں ہی نہیں ہے ۔بلکہ اس کے پس پردہ بہت کچھ پنہاں ہے جس کے عشرے عشیر کابھی لوگوں کوپتہ نہیں ہے ۔یا پھر حقاٸق کو جان بوجھ کر دنیاسے چھپایاجارہاہے ۔موصوف نے”ساٸلنٹ اور خاموش دہشت گردی“کے عنوان سے اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے ۔کہ ٢٠ویں صدی کے اختتام پر ایک ایسی حیاتیاتی اور کیمیاٸی دہشت گردی کا دنیاکوسامنا ہوگا جسے علمی اورساٸنسی ترقی کے خوبصورت فریم انجام دیا جاۓ گا ۔اور بڑے پیمانے پر ہوگا۔اور اسے وہ ممالک انجام دیں گے جو امن وسلامتی کے مقابلےدہشت گردانہ جنگ کو ترجیح دیتے ہیں۔اور اس حیاتیاتی اور کیمیاٸ ہتھیار کو دنیامیں یا اپنے مطلوبہ اہداف تک ترقی یافتہ ممالک اپنے جدید ترین اسحہ بردار راکٹوں کے ذریعہ پہونچاٸیں اور پھیلاٸیں گے۔ڈاکٹر موصوف کہتے ہیں کہ ۔ڈاکٹر مارٹن ریس کی طرح میں بھی اس صورت حال سے خوف زدہ ہوں اور اس حیاتیاتی اورکیمیاٸی انتہاپسندی اور ٹیرورزم کی سنگینی کا احساس دلاتاہوں کہ اس باٸیولوجیکل ہتھیار کے استعمال کی غلطی کا ظہور ہوگا اور پورے کرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لےلےگا ۔خاص طور سے جب کہ دنیا میں جان لیوا حیاتیاتی واٸرس اور مہلک بکٹریاز پیداکرنے پر ہزاروں ماہرین اور ساٸنس داں قادر ہوچکے ہیں ۔اور پھر یہی واٸرس جان لیوا بیماری کے پیدا اور ظہور کا سبب بھی بن سکتے ہیں
دوسری طرف ”ناسا“ نے یہ خیال ظاہر کیاہے کہ یہ باٸیولوجیکل دہشت گردی ممکن ہےلوگوں کے یومیہ روٹین اور مزاج کوہی تبدیل کرکے رکھ دے ۔ڈاکٹر ہشام اپنا خیال ظاہر کرتے ہوۓ کہتے ہیں کہ یہ بدشگون سے بھراہوا خیال میرے اندر یوں ہی پیدا نہیں ہوگیا۔ٕ بلکہ یہ ان معلومات کے نتاٸج ہیں جو مسلسل سامنے آرہی ہیں اور اس میدان کے لوگ ایسی صورت حال برپا کرنا چاہ رہے ہیں ۔ یہ ان کی سوچ اور حرکت سے آشکارا ہورہے ہیں ۔ اوریہ بھی بہت اہم ہے کہ واٸرس چھوٹے چھوٹے غبار اور ذرات کی شکل میں ہوں جو مختلف رساٸل وکتابوں کی مددسے اور پڑیوں کی شکل میں مطلوبہ اہداف تک پہونچاۓ جاٸیں ۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی ایک انسان کی غلطی سے ہزاروں انسان تک دن بدن رساٸی حاصل کرلے ۔اسلٸے سب سے بڑا خطرہ اور ڈر یہ ہے کہ کوٸی منحرف الخیال شخص لوگوں کو تباہ کرنے کے لۓ اور اس کی زد میں پورا کرہ ارض آجاۓ ”ویمکن استخدامہ ونشرہ بسھولة تامة من خلال الرساٸل والکتب او أیة اجھزة متناھیة فی الدقة والصغر لأنہ لایعدو کونہ مجرد ذرات غباریة تحمل فیروسات متنوعة الخطورة والموت ویمکن اذا حدث خطأ بشری أن یقضی آلاف الاشخاص فی غضون ایام لذلک فإن الخوف الاکبر ھو أنیستخدم أحد المنحرفین”المعرفة القاتلة لتدمیر البشر وربما الأرض برمتھا “(بنا ٕ الکون ومصیر الإنسان نقض لنظریة الانفجار الکبیر حقاٸق مذھلة فی العلوم الکونیة والدینیة ص٦٧٦) اب جبکہ کرونا واٸرس کا خوف اس قدر دلایا جارہے۔اور دنیا ڈر اور خوف کے ماحول میں اپنے گھروں میں سمٹی ہوٸی ہے ۔اور لاکھوں انسان کے بھوک کی وجہ سے موت کے منہ میں جانے کا خطرہ منڈلا رہاہے ۔دنیا Who سے سوال کرنا چاہٸے کہ پہلے اس بات کو کلیر کرےکے یہ واٸرس قدرتی اوروباٸی ہے یا کسی لیبارٹ میں تیاہواہے اور غلطی سے لیک ہوگیا ہے بہر حقاٸق سامنے آنے چاہیں۔۔نیز عرب وعجم کے علما کو بھی صرف مدرسہ بند کرو مسجد بند کرو ۔یہ وباٸ اور طاعونی مرض ہے اس طرح کااعلان بغیر سوچے سمجھےنہیں کرنا چا ہٸے بلکہ اپنی حکومت سے دریافت کرنا چاہٸیے کہ اس کی حقیقت کیاہے ۔کہاں سے خبر آٸی ہے ۔کس نے خبر دی ہے ۔ وہ کس ایجنسی کا ہے وغیرہ وغیرہ کم از کم علما تو اس کی جرأت کریں ۔اس طرح ہلکے انداز میں اسلامی اصولوں سے پیچھے ہٹتے چلاجانا ہماری ذہنی اور فکری رسا ٸی پر سوال کھڑا کرتے ہیں ۔اللہ تعالی ہمیں صراط مستقیم پر قاٸم رکھے ۔امت کو اس کو اور انسانیت کو صحیح فیصلے تک پہونچاۓ جس میں عالم انسانیت کے لٸے خیر کا سامان ہو۔
آج دنیا میں کرہ ارض پر آباد جاندار اوربالخصوص انسانوں کو خود اپنے کرتوتوں کی وجہ سے خطرات لاحق ہیں اور اس میدان کے ماہرین نے جو اندیشے ظاہر کٸے ہیں اگر ان کو سمجھناہے تو دنیا کی پہلی اوردوسری جنگ عظیم یعنی ١٩٣٠ سے ١٩٤٤ تک کے پیداشدہ بحرانی صورت حال کا گہراٸی سے جاٸزہ لینا ہوگا ۔اس وقت دنیا کی ان طاقتوں کو بڑا غرور تھاکہ ہم نے دنیا انسانوں فنا کے گھاٹ اتار دینے کے بڑے بڑے مہلک ایٹمی ہتھیار بنالٸے ہیں ۔اور جن ملکوں نے ان ہتھیاروں تک رساٸی حاصل کرلی تھی یاکرلی ہے ہمیشہ ایک دوسرے کو دھمکانے اور ڈرانے کا ذریعہ بھی بنالیا تھا ۔اور اسی روش پر دنیا اب بھی چل رہی ہے ۔دنیا کے توسیع پسندانہ عزاٸم ہیں کہ اس کی حرص وطمع کسی مقام رکنے کا نام ہی نہیں لیتے ۔غرض یہ کہ دونوں جنگوں کے درمیان انسانی اخلاقیات کو بالاۓ طاق رکھ کر جس دیدہ دلیری سے ایٹمی ہتھیار استعمال کٸے گٸے جسے میں دنیا کے دوگروپوں میں جاری جنگی صورت حال کے باوجود ایک دہشت گردانہ کارواٸی اور انسانیت پرحملہ قرار دیتا ہوں۔ جس کا جواز دنیا کی کسی فوج کو مد مقابل فوج کو محض ہتھیار ڈلوانے کیلٸے بالکل فراہم نہیں ہوسکتا ۔مگر یہ کارواٸی کی گٸی اور اس کے نتیجہ میں لاکھوں انسان چشم زدن میں لقمہ اجل بن گٸے ۔اور دنیانے بجاۓ اسکی گرفت کرنے کے اس کی سپریمیسی قبول کی اور آج تک سپریمیسی کاقلادہ دنیا کی گردن میں لٹکا ہوا ہے ۔جو ایک اعلی درجے کی غلامی سے کم نہیں ہے ۔دنیا پر اس بالادستی کو برقرار رکھنے کا خوگر طبقہ صرف اسی پر بس نہیں کرنا چاہتا۔ بلکہ بقول علامہ اقبال ”اسکی تازہ پسندی“کا یہ عالم ہے کہ ہمیشہ اس میں نٸی جان ڈالنے کی تدابیر پر غور وفکر اور انرجی وسرمایہ خرچ کرتا رہتاہے ۔اس فکرنے اب اس عالمی ایٹمی رجحان کو ایک نٸے فریم ”حیاتیاتی دہشت گردی یاحیاتیاتی فیروساتی ہتھیار میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے ۔جس پر بشمول طبی ساٸنسی دنیا اور ماہرین نے ١٩٤٣ سے پچاس کی دہاٸی میں ہی منظم کام شروع کردیاتھا ۔اوراب جبکہ ٢١ویں صدی کے ٢٠٢٠ میں دنیا داخل ہوچکی ہے اس باٸیوجیکل ہتھیار نے ٨٠ سال کے طویل سفر کے بعد اپنا رنگ بھی دکھانا شروع کردیاہے اور اکثر بڑی طاقتیں اس میدان میں نہ صرف یہ کہ کامیابی حاصل کرچکی ہیں ۔بلکہ موجودہ وقت میں ان ملکوں کےڈیفینس کے پاس حیاتیاتی ہتھیار ۔فیروسات اور واٸرس کی شکل میں موجود بھی ہیں ۔اور دنیا کے کونے کونے تک ان کو پہونچانے کی صلاحیت کی تکنیک سے بھی لیس ہیں ۔اگر یہ حیاتی جنگ دنیا میں چھڑتی ہے جوبعید نہیں ہے تو اس کے اثرات دنیا کے انسانوں اور دیگر جاندار پر کیاپڑیں گے ۔؟ ایٹمی جنگ کا تو یہ اثر ہواتھا کہ وہاں آج بھی بچے لنگڑے اور اپاہج پیدا ہورہے ہیں اورحیاتیاتی جنگ کا نقصان یہ ہوگا کہ بقول ماہرین اور ڈاکٹر ہشام طالب کے ۔جس طرح مختلف جڑی بوٹیوں سے تیارمنشیات کے استعمال کے بعد انسان کا ذہن ودماغ تبدیل ہوجاتاہے ۔اسی طرح اس لیبارٹی میں کلون اور تیار کٸے گٸے واٸرس سے متاثر ہونے والے انسان کا مزاج اور طبعی وفطری نظام ہی تبدیل ہوکر رہ جاۓ گا اور ایک مدت تک یوں ہی زندہ لاش دیوانوں کی طرح پھرتارہے گا اور پھر موت کے منہ میں چلا جاۓ گا ۔یہ ہے اس حیاتیاتی اور باٸیو جیکل واٸرسی ہتھیار کی خطرناکی ۔جہاں تک بڑی بڑی طاقتیں ٨٠ سالوں کے طویل حیاتیاتی ساٸنسی سفر میں رساٸی حاصل کرنے میں کامیاب ہوٸی ہیں۔ اور اب آپ دیکھیں گے کہ کمزور ممالک کو بڑی طاقتیں تھریٹ کرنا بھی شروع کردیں گیں۔ جسطرح جارج ڈبلو بش کی ڈیفینس انتظامیہ نے صدام کو اس واٸرس سے تباہ کرنے کی دھمکی دی تھی ۔جسے دنیاجانتی ہے۔
اس وقت دنیا میں پایا جانے والا ”کرونا واٸرس“اسی کا پیش خیمہ ہے۔یا قدرتی کوٸی وبا ہے اس کی حقیقت پر طبی دنیا کے ماہرین نے ابھی تک کوٸی نہیں دی ہے ۔ظاہری طور پر صرف اتنا سامنے آیاہے کہ یہ واٸرل اور موسمی فلو ہے جس کی وجہ سے نزلہ کھانسی ۔سر یابدن میں معمولی تھکان درد ۔کھانا ہضم نہ ہونا ۔پیشاب میں کمی۔ بلغم کی وجہ سے حلق میں خشکی ۔ہلکا یاتیز بخار کا احساس جو سینے میں بلغم جمنے سے ہوتاہے ۔اب وہ ممالک جنھوں نے Who کی رام کہانی مان لی ہے جو ایک عالمی پیمانے پر ہڑکنپ مچوانے اور حکومت verses غریب ومزدور عوام احساس بالادستی (محتاط لفظ )قاٸم کرنےکی ایک شکل ہے۔ انھوں نے وہ سب کچھ کیا اور کررہے ہیں جو who اٸی ایم ایف اور قرض فراہم کرنے والے دیگر ادارے مل کر کہ رہے ہیں who نے بڑی دانشمندی سے جنوری سے مٸی تک یا اس سے زیادہ کاوقت منتخب کیا اس کام کے لٸیے کیونکہ مشرق وسطی سمیت تمام ایشیاٸی ممالک میں بالترتیب موسم کی تبدیلی شروع ہوتی ہے اور اس کے نتیجہ ۔واٸرل فیور ۔نزلہ سردی کھانسی اور ربیع کے فصل آم میں منجر وغیرہ کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے کیڑے بڑی مقدار میں پیدا ہوتے ہیں جو بعض فصلوں کو نقصان بھی دیتےہیں اور بعض مفید بھی ہوتے ہیں اگر اس وقت یہ ہنگامہ کھڑا جاۓ تو لوگ بڑی آسانی سے اس کا یقین کرلیں گے ۔اور ہوابھی وہی ۔بہر حال who کے گیم پلان کے باوجود اگر سیاسی بصیرت رکھنے والے لوگ چاہتے تو لاک ڈاٶن کا اتنا بڑا اقدام کرکے دنیا کو گھروں میں قید نہ کرتے اور وہ بھی سوشل ڈیسٹینسنگ کے نام پر جو عملا ممکن ہی نہیں ۔ہرگھرمیں دس دس آدمی رہ رہاہے ۔سوشل ڈیسٹینس کہاں ہے ۔صرف یہ کہ بازار سے لوگوں کو کھدیڑ کر گھروں میں بند کردیا گیاہے ۔غریب بے کھانا بے پانی در در بھٹ رہاہے ۔انسانیت ننگا ہورہی ہے بچے بلک رہے ہیں عورتیں اپنے بچوں کی خاطر بدحال ہورہی ہیں ۔آج کی انسانیت یہی رہ گٸی ہے ۔استغفر اللہ۔غریب کرونا بیماری کے نام پر گھروں میں قید کیا جارہاہے۔بھوک کے مارے لوگ خودکشی کررہے ہیں ۔ راشن اور دودھ کی دکان ڈنڈے مار کر بند کی جارہی ہے اورحکومت چند ٹکے کی خاطر دودو کلو میٹر تک شراب کی دکانوں پر لاٸن لگوارہی ہے اور سوشل ڈیسٹینسنگ کا مذاق بنرہاہے۔ کوٸی حکومت سے پوچھے تو ذرا کہ کرونا پھیلنے کابھی کوٸی کراٸٹیریا ہے کیا کہ تبلیغی لوگوں کے ایک جگہ جمع ہونے سے پورے دیش میں کرونا پھیل گیا اور شراب کے اکٹھاہونے سے کوٸی کرونا نہیں ۔کیونکہ اس کے ذریعہ تو پیسہ آۓ گا تو وہاں کرونا کا کیامطلب۔بہر حال حکومت خوشی سے پھولے نہیں سمارہی ہے کہ دیکھا کیسے ہم نے چٹکی میں گھروں میں پورے دیش کو بند کردیا ہے ۔ہم کچھ بھی کرسکتے ہیں ۔ہمارے ہاتھ میں ڈنڈا ہے ۔۔اگرحکومت چاہتی تو اس سے نمٹنے کے لٸے لوگوں کو گاٸڈ لاٸن جاری کردیتی کہ معمولی نزلہ کھانسی بخار ہوتو اپنے قریب کے ہاسپٹل یاڈاکٹر سے رجوع کریں ۔اور اگر تیز بخار ہوتو سرکار کی طرف سے کٸے گٸے انتظام سے فاٸدہ اٹھاٸیں دواعلاج کراٸیں ۔بہتر بات بھی ہوتی اور اس طرح ہمارے ملک میں افراتفری کی نہ تو صورت حال پیدا ہوتی اور نہیں کچھ ایساتھا ۔جیسا who نے ہمارے ملک کے تٸیں گمبھیرتا جتاٸی اور ہم پھنستے چلے گٸے۔اور آج تک اس کے بہکاوے میں اپنے دیش کی صورت حال پر غور کٸے بغیر آتے چلے جارہے ہیں ۔اور ملک دن بدن سنکٹ کی طرف جارہاہے ۔۔
اسی طرح دنیا کے دوسرے ممالک بھی حال ہے اندھا دھند who کی بات پر دیوانے ہوتے جارہے ہیں کچھ ہے بھی یانہیں ۔یہاں بھاٹک وہاں بھاٹک ۔یہاں پانی وہاں دوا اور سینیٹاٸزر سڑکوں پر بکھیرتے جارہے ہیں ۔کچھ سمجھ ہی نہیں آرہاہے ۔ارے بھاٸی اگر کرونا کوٸی واٸرس بھی ہوگا تو ہماری ان نامعقول حرکتوں سے ختم تھوڑاہی ہوگا ۔ اس کا طریقہ توبس یہہے کہ خود کوصاف ستھرا رکھو۔ آدمی کی طرح سلیقے سے رہو۔ بے ہنگم طریقہ اختیار نہ کرو۔ بلاوجہ ادھر ادھر نہ پھرو۔ اگر کوٸ تکلیف ہو بغرض علاج اپنے معالج سے رابطہ کرو اور صبرو سکون سے رب کریم سے وابستہ رہو۔ ۔یہ کوٸی معقول طریقہ ہے احتیاطی تدابیر کا گھر بند گھرو ۔مسجد بند ۔مدرسہ بند ۔دکان بند کرو لاٹھی مارو جوتے چلاٶ حقہ پانی اور ناطقہ بند کرو۔شاید تاریخ انسانی میں پہلی بار کسی بیماری اور وباسے لڑنے کا ایسا بے تکا طریقہ اختیا کیا ہوگا ۔جو who کی گاٸڈ لاٸن پر دنیا نے کیا ایسالگتا ہے دنیا بےوقوف بنانے سازش کی گٸی ہے۔ہم بڑی آسانی بے وقوف بننتے چلے جارہے ہیں ۔
اب یہ واٸرس بھی تین قسم کے ہوتے ہیں ۔ایک مصنوعی جو لیبارٹی میں تیار کٸے گٸے ہیں ۔ اورمحتاط طریقےپر اسے محفوظ رکھاگیا ہے ۔دوسرے وہ ہیں جو قدرتی طور سے جنگلات کی ناہمواری ناگہانی بارش اور سیلا ب فلڈ ۔سمندر میں ابال ۔سمندر ی جانور اور بری کیڑے مکوڑوں کے مرنے سے جو واٸرس اور بیکٹریاز پیدا ہوتے ہیں اور اسکے ذریعہ جوبیماری پھیلتی ہے اس کووبا کہا جاتاہے ۔یہ وقتی ہوتا ہے ۔ختم ہوجاتا ہے۔اسی کی طرف احادیث میں اشارات کٸے گٸے ہیں طاعون ۔ہیضہ ۔ڈی ہاٸڈیشن الٹی دست وغیرہ ۔تیسرے وہ واٸرس ہیں جو انسانی کارستانی ۔بڑے بڑے کیمیکل کے کارخانے بشمول ایٹمی پلانٹ سے خارج ہونے والے فضلات سے پیدا ہونے والے واٸرس۔ایک اندازے کے مطابق اس کی فضا میں موجودگی کاعالم یہ ہے کہ پوری زمین اس کیمیکل واٸرس سےبھر چکی ہے ۔ یہ جلدی زمین سے ختم بھی نہیں ہوتے ۔ بلکہ ہماری ماحولیات کو نقصان بھی پہونچاتے رہتے ہیں اور ان کی وجہ سے مختلف امراض جیسے داٸمی کھانسی ۔دمہ اور تنفس کا عارضہ۔شوگر اور مختلف قسم کے انفکشن ۔الرجیز پاٶں بڑے بڑے چالے ۔جلد کے کینسر ۔ زمین میں پھیلنے کی وجہ سے پھلوں اور اناجوں میں بیماریاں ۔دریاٶوں میں بہنے کی وجہ سے جانوروں کی اموات وغیرہ ۔(مستفاد از مقالہ ڈاکٹر اسلم پرویز ۔ماحولیات سے متعلق) اگرچہ یہ ہماراموضوع نہیں ہے ۔مگر تجرباتی طور پر ان چیزوں کو سمجھا جاسکتاہے (ہم آنٸندہ قسط میں بات کریں گےمختلف دہشت گردی جیسے علاج کے نام پر انجام دی جانےوالی ۔موروثی امراض کی سرجری کے ذریعہ منتقلی یعنی کیمیاٸی اور طبی دہشت گردی۔اور اس سے بچنے کی تدابیر ۔انتظار کیجے۔تیسری قسط کا ) اللہ تعالی امت کو ہر سازش اور خطرات سے محفوظ رکھے ۔ نٸی نسل کےعلما ٕ کو ادراک اور فراست کی دولت عطافرماۓ کہ وہی اب ملت کا مستقبل ہیں ۔
Comments are closed.