راستے بندہوں جب کوچۂ قاتل کے سوا؟!

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی
سن چھ ہجری کی بات ہے، آپﷺ اپنے چودہ سوقدسی صفات اصحاب کے ساتھ عمرہ کی غرض سے مکہ کے لئے رخت ِسفرباندھتے ہیں، مقام عسفان پہنچ کرمعلوم ہوتاہے کہ قریش نے آپ ﷺکومکہ میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے ایک لشکرجرارتیارکررکھاہے؛ بل کہ ہراول دستہ کے طورپرخالد بن ولید دوسوشہ سواروں کے ہمراہ’’ غمیم‘‘ تک پہنچ چکے ہیں، اس خبرکوسن کرآپ ﷺااپناراستہ تبدیل کرلیتے ہیں کہ مقصودلڑائی نہیں؛ بل کہ اس خواب کوشرمندۂ تعبیرکرناتھا، جو آپ ﷺنے اپنے اصحاب کے ساتھ حلق کرائے ہوئے امن وسکون کے ساتھ مکہ میں داخل ہونے کے تعلق سے دیکھاتھا۔
حدیبیہ پہنچنے سے کچھ قبل ہی آپ ﷺ کی سواری کے بڑھتے قدم رُک گئے، لوگوں نے ’’اونٹنی بیٹھ گئی، اونٹنی بیٹھ گئی‘‘کی آواز لگانی شروع کی، آپ ﷺنے فرمایا: ’’اونٹنی نہیں بیٹھی اورناہی اِس کی یہ عادت ہے؛ بل کہ اِسے اُس ذات نے روک لیاہے، جس نے ہاتھی کوروکاتھا‘‘،پھرآپ ﷺ نے فرمایا:’’اُس ذات کی قسم، جس کے قبضہ میں میری جان ہے! اگروہ لوگ میرے سامنے کوئی ایسی تجویز رکھیں گے، جس میں اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کی تعظیم ہوتی ہوتومیں اُسے قبول کروں گا‘‘، پھر آپﷺمقامِ حدیبیہ کے ایک سِرے پر خیمہ زن ہوئے۔
قریش کسی قیمت پرحضورﷺاورآپ کے صحابہ کوعمرہ کی ادائے گی کے لئے اجازت دینے پرراضی نہ ہوئے، مسلمان بھی کسی نتیجہ پرپہنچے بغیرواپسی کے لئے تیارنہ تھے، پھر سہیل بن عمروکی نمائندگی میں قریش نے آپ ﷺسے ایک معاہدہ کیا، جس کی شقیں یہ تھیں۔(۱) دس سال تک حرب وضرب موقوف رہے گی۔(۲) قریش کا جومرد مسلمان ہوکراپنے اولیاء اورموالی کی اجازت کے بغیرمدینے آجائے، اُسے واپس کردیاجائے گا۔(۳) مسلمانوں میں سے جومرد(راہِ ارتداداختیارکے)مکہ آجائے، اُسے واپس نہ کیاجائے گا۔(۴) مدتِ معاہدہ میں کوئی دوسرے پرتلوارنہیں اُٹھائے گااورناہی کسی سے خیانت کرے گا۔(۵) محمداِس سال واپس چلے جائیں اورآئندہ سال مکہ میں صرف تین دن رہ کرعمرہ کرکے واپس ہوجائیں، سوائے تلواروں کے اورکوئی ہتھیارساتھ نہ ہواوروہ بھی نیام میں رہیں۔(۶) قبائل ِمتحدہ جس کے حلیف بنناچاہیں، بن سکتے ہیں۔
اِس معاہدہ میں آپ ﷺ نے قریش کی وہ تمام شرطیں منظورکرلیں، جوبظاہر مسلمانوں کے خلاف تھیں، جس کی وجہ سے صحابہ ایک قسم کی اندرونی گھٹن میں مبتلا ہوگئے؛ حتیٰ کہ حضرت عمرؓ نے آپﷺکی خدمت میں حاضرہوکراِس طرح سوال کرناشروع کردیا: کیاآپ اللہ کے برحق نبی نہیں ہیں؟ کیاہم حق پراوردشمن باطل پرنہیں ہیں؟آپﷺنے ہرسوال کے جواب میں’’کیوں نہیں‘‘ (یعنی ہاں! ہم حق پرہیں اورمیں اللہ کابرحق نبی ہوں) فرمایا۔تب حضرت عمرؓ نے کہا:’’پھرہم دین میں کمی کیوں برداشت کریں؟‘‘۔ آپ ﷺنے جواب دیا: ’’میں اللہ کارسول ہوں، اس کی نافرمانی نہیں کرسکتا اوروہ میراحامی وناصرہے‘‘۔ حضرت عمرؓنے پھرسوال کیا: کیاآپﷺنے ہمیں نہیں بتایا تھا کہ ہم بیت اللہ جاکراُس کاطواف کریں گے؟ آپﷺنے جواب دیا: توکیامیں نے تمہیں یہ بات بھی بتائی تھی کہ اِسی سال کریں گے؟تم ضرورجاؤگے اوربیت اللہ کاطواف کروگے، پھرقربانی اورحلق کے بعدحلال ہوئے اورمدینہ واپسی کے لئے نکل پڑے، راستہ میں سورۂ فتح{إنافتحنالک فتحاًمبیناً } نازل ہوئی، صحابہ انگشت بدانداںرہ گئے اوردریافت کیا: ائے اللہ کے رسول! کیا یہ فتح ہے؟ آپﷺنے جواب دیا: قسم ہے اُس ذات کی، جس کے قبضے میں میری جان ہے! بے شک یہ عظیم الشان فتح ہے۔
جب رسول اللہ ﷺ مدینہ پہنچ گئے توابوبصیرؓکفارقریش کی قیدسے بھاگ کر مدینہ پہنچے، قریش نے فوراًاِن کی واپسی کے لئے دولوگوں کومدینہ روانہ کیا، آپﷺ نے ایفائے عہدکرتے ہوئے ابوبصیرؓکواُن کے ساتھ مکہ کے لئے روانہ کردیا، ابوبصیرؓاُن کے ساتھ روانہ توگئے؛ لیکن راستہ میں اُن میں سے ایک کوقتل کردیا، جب دوسرے نے یہ حال دیکھاتوبھاگ کھڑاہوااورسیدھامدینہ آپﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اورکہا: میراساتھی توماراگیااوراب میں بھی ماراجانے والاہوں،اُسی کے پیچھے ابوبصیرؓ بھی مدینہ پہنچے اور حضور اکرمﷺکی خدمت میں حاضرہوکرعرض کیا: ائے اللہ کے رسول ﷺ! اللہ تعالیٰ نے آپ کے عہدکوپوراکردیا، آپ نے تومجھے اُن کے حوالے کردیاتھا۔ پھراللہ تعالیٰ نے اُن سے نجات کی میرے لئے ایک سبیل مہیافرمادی ہے، میں نے یہ جوکچھ کیا، محض اس لئے کیاکہ میرے اوراِن کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہے، آپﷺنے فرمایا: ویل أمہ! مسعرحرب۔ لوکان لہ أحد!’’ناس ہو! جنگ بھڑکانے والاہے،کاش! کوئی اِس کے ساتھ ہوتا‘‘، حضرت ابوبصیرسمجھ گئے کہ آپ ﷺ کومیرایہاں ٹھہرناپسندنہیں؛ چنانچہ اُنھوں نے ساحل ِسمندرکوٹھکانہ بنایا، اب جوبھی مکہ سے فرارہوکرآتا، سیدھے ساحل پرپہنچتا، اِس طرح ستر(۷۰) یاتین سو(۳۰۰)لوگوں کی ایک بڑی تعداد اکٹھی ہوگئی، یہ ساحل مکہ سے شام جانے والے تاجرین ِقریش کی راہ میں پڑتاتھا؛ چنانچہ اِن لوگوں نے اُن کے مال واسباب کو اپنی غذائی قلت دورکرنے کاذریعہ بنایا، جب قریش اِن سے تنگ آگئے تو آپ کو اِن لوگوں کو اپنے پاس بلالینے اجازت دیدی اوراِس طرح معاہدہ کی اس شق کو اُن لوگوں نے خود ہی کالعدم قراردے دیا، جومکہ سے مسلمان ہوکرآنے کے بعد واپس کئے جانے کے تعلق سے تھی۔
اس پورے واقعہ میں دیکھئے کہ مشرکین مکہ سے جومعاہدہ ہواتھااورجس میں بظاہر مسلمانوں نے دب کرصلح کی تھی، اس کی پوری پاس داری کرتے ہوئے مکہ سے مسلمان ہوکرآئے ہوئے ایک فردابوبصیرکومسلمانوں نے واپس بھیج دیاتھا؛ حالاں کہ انھیں معلوم تھاکہ مکہ میں ان کے ساتھ ظلم روارکھاجاتاہے، انھیں ستایاجاتاہے، جب ابوبصیر نے دیکھاکہ اب پھراسی جہنم میں جاناپڑے گا، جہاں سے کسی طرح جان بچاکربھاگ نکلا تھاتوانھوں نے ظلم نہ سہنے کاتہیہ کرکے ایک پلاننگ کی ؛ کیوں کہ ظالم اورمظلوم کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہوتا، اوراگرخدانخواستہ معاہدہ ہوبھی جائے توصرف کاغذی ہوتاہے، مظلوم تواس کی پاس داری کرتاہے اورکرناچاہتاہے؛ لیکن ظالم اپنے اناکے خول سے باہر نکلنا گوارا نہیں کرتا، وہ تو بس ظلم کے نشہ میں چورہوتاہے اورمظلوم پر قہر برپا کرناجانتاہے، اس کی بہت ساری مثالیں جیسے: فلسطین ، کشمیروغیرہ کی موجودہیں، کتنے معاہدہ ہوئے؟ لیکن ہربار ظالم کی طرف سے اس کی خلاف ورزی ہی کی گئی۔
مظلوم بھی آخرگوشت پوست کاہی بناانسان ہوتاہے، جب ظلم کاپانی سرسے اونچا ہوجاتا ہے اوراس کے صبرکاپیمانہ لبریزہوجاتاہے توپھراس کے سامنے دوہی راستے رہ جاتے ہیں، یاتومرویاپھرکچھ کرو،جوبے ہمت ہوتا ہے، وہ مرنے کوترجیح دیتا ہے؛ لیکن جو باہمت ہوتا ہے، وہ کچھ کرنے کوترجیح دیتا ہے، ابوبصیرنے بھی کچھ کرنے کوترجیح دی اورانھوں نے اس کے لئے ساحل سمندرکے اس علاقہ کومنتخب کیا، جہاں سے ظالم کو چوٹ پہنچایاجاسکتاتھا، جب مکہ کے مظلوموں کویہ بات معلوم ہوئی تووہ بھاگ بھاگ وہیں پناہ لینے لگے اورظالموں کوچوٹ پہنچانے لگے، ان لوگوں نے ظالموں کواتنی چوٹیں پہنچائیں کہ وہ تنگ وبے بس نظرآنے لگے؛ کیوں کہ مظلوموں کی طرف سے پہنچائے جانے والی چوٹ تھی ہی ایسی خطرناک، یہ چوٹ تھی معاشی اورتجارتی چوٹ!
ظالم خواہ کتناہی بڑاکیوں نہ ہو، اسے جب معاشی اورتجارتی چوٹ پہنچائی جاتی ہے تووہ بلبلااٹھتاہے، آج بھی دنیامیں معاشی چوٹ پہنچاکرہی اپنی بات منوانے کی رسم چل رہی ہے؛ لیکن یہ رسم انھیں ظالموں کی طرف سے اداکی جارہی ہے، اس تعلق سے غزہ کی مثال روشن کتاب ہے، ایران کوبھی بارباراس کی دھمکی دی جاتی رہی ہے، ابوبصیرنے بھی اسی طریقہ کواختیارکیااورانھوں نے ظالموں کے تجارتی قافلہ سے اپنے اس حق کوچھیننے کی رسم کی بناڈالی، جوانھوں نے مکہ میں ان سے چھین لیاتھا، پھرلوگ آتے گئے اورکارواں بنتاگیا، جب مشرکین کی یہ چوٹ گہری ہوتی گئی توانھوں نے خودہی مسلمانوں سے درخواست کی کہ انھیں اپنے پاس بلالیں اوراس طرح معاشی چوٹ سے بچنے کے لئے معاہدہ کی ایک شق کوکالعدم قراردے دیا۔
اس وقت پوری دنیامیں اگرنظردوڑائیں توبہت سارے لوگ مظلوم نظرآئیں گے؛ بل کہ ہرطاقت وراپنے کم ترکوستاتانظرآئے گا، ملکی سطح سے لے کرعالمی سطح تک یہی بات نظرآئے گی، پھرلوگ بھی ظالم ہی کے ساتھ کھڑے نظرآئیں گے، چوں کہ اس وقت پوری دنیاکی حالت ’’جس کی لاٹھی، اس کی بھینس‘‘والی ہے، لہٰذا ہرشخص لاٹھی والے کی چمچاگیری کرتانظرآتاہے، وہ دھتکارے، پھٹکارلگائے، دوستی ختم کرنے کے لئے دوستوں کی فہرست سے نام ہٹادے، پھربھی اسی کی ہاں میں ہاں ملانے کی کوشش کی جائے گی؛ کیوں کہ اس کے ہاتھ میں لاٹھی ہے، کب پیٹھ پربرس پڑے، معلوم نہیں، اس خوف کی وجہ سے اس کے سارے کرتوت، اس کے سارے مظالم یک لخت معاف ، اس کی تازہ مثال ہمارے ملک کی موجودہے۔
دراصل اس وقت پوری دنیامیں خوف کاکاروبارعروج پرہے، جوجتنازیادہ خوف پیداکرسکتاہے، وہی سب سے بڑادادا کہلائے جانے کامستحق ہے اورلوگ اس کی دل جوئی کے لئے ہزارجتن کرتے پھریں گے،خواہ اس کے لئے خوارہی کیوں نہ ہوناپڑے اورخواہ اس کی وجہ سے اپنے گھرکوبرباد کرناپڑجائے، اس کی ہرغلطی قابل ستائش اورلائق تاویل نظرآئے گی؛ لیکن جوکمزورہوں گے، اس کی ہر بات، خواہ کتنی ہی سچ کیوں نہ ہو، اس میں زہرنظرآئے گا،اس میں غداری کی بومحسوس ہوگی، یہ اوربات ہے کہ یہ بوخودکی ناک کی سڑاندھ کی وجہ سے ہو، ظاہرہے کہ یہی وہ موقع ہوتاہے، جس کے لئے ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘کامحاورہ تخلیق کیاگیاہے۔
پوری دنیامیں اس وقت کتنے لوگ ہیں، جن کاکوئی پرسان حال نہیں ہے، وہ ظلم سہہ سہہ کرہمت وحوصلہ ہاربیٹھے ہیں، ان کے سامنے کرنے کے دوکاموں میں سے ایک مرنے کاکام رہ گیاہے، وہ اگرآوازاٹھانابھی چاہتے ہیں تواٹھانے نہیں دیاجاتا، وہ کسی سے شکایت بھی نہیں کرسکتے؛ کیوں کہ کوئی ان کی اشک سوئی کرنے والانہیں، وہ عدالت بھی نہیں جاسکتے کہ وہاں سے انصاف کی امیددم توڑچکی ہے، ایسے مظلوموں کوبھی اس کے پیداکرنے والے نے عقل سلیم سے نوازاہے، جب کوچۂ قاتل کے سواسارے راستے بندہوں تودماغ کااستعمال کرکے اس طرح راستہ ڈھونڈھ نکالنے کی ضرورت ہے، جس طرح ابوبصیرنے دماغ کااستعمال کرکے ایساراستہ ڈھونڈ نکالاتھا کہ خودظالم کوطمطراق سے کئے ہوئے اپنے معاہدہ کوختم کرناپڑا۔

Comments are closed.