کیا ’’آتم نربھرتا‘‘ اور’’ نیو انڈیا‘‘ یہی ہے۔۔۔؟

عارف شجر،حیدرآباد، تلنگانہ
سمجھ میں نہیں آتا کہاں سے شروع کروں مزدوروں، اور معصوم بچوں کے حالات دیکھ کر جگر پیٹوں یا سر پکڑ کر روئوں۔ ان دومہینوں کے اندر اپنے ہی وطن میں مہاجر کہلانے والے مزدوروں کے حالات زار اس قدر ابتر ہونگے یہ کسی نے بھی نہیں سوچا تھا۔ہندوستان کی سڑکوں پر لاکھوں کی تعداد میں بے یارو مددگار مزدوروں کا قافلہ ہوگا یہ کسی کے تصور میں نہیں تھا اس سے قبل بھی ملک میں کئی ایسے آفات آئے لیکن اس قدر دل دوز منظر آنکھوں کے سامنے ہوگا یہ کسی کے خواب و خیال میں نہیں تھا۔ یہ تاریخ کے صفحوں میں لکھا جائے گا کہ مودی حکومت کی نااہلی کے وجہ کر ملک کا غریب طبقہ زندگی اور موت سے لڑتے ہوئے بھوکے پیاسے اپنے خاندان کے ساتھ 700,1200 اور1500 کیلو میٹر کی دوری پیدل اپنے اپنے آبائی وطن ہجرت کرنے کے لئے بے بس،لاچار اور مجبور ہیں جن کے پیٹ میں اناج کا ایک دانا نہیں جن کے پیروں میں چپل نہیں جن کے سر پر سایا نہیں جنکا کوئی ہمدرد نہیں سب کی آنکھیں کسی مسیحا کی جانب ٹکی ہوئی ہیں کہ کوئی تو انکی ابتر حالات پر رحم کرے گا کسی کا تو دل نرم ہوگا لیکن نہ تو کوئی مسیحا انہیں راستے میں نظر آیا اور نہ ہی کوئی ہمدرد۔ ایک بیٹا جب اپنی ضعیف ماں کو گودمیں اٹھا کرسیکڑوں کیلو میٹر پیدل لے کر نکل پڑتا ہے، ایک ماں جب ا پنے چھوٹے معصوم بچے کو اٹیچی پر سلا کر اسے کھینچتے ہوئے نکل پڑتی ہے تو یقیناًایسے منظر دیکھ کر روح کانپ جاتا ہے اور آنکھیں نم ہو جاتی ہے دل رو پڑتا ہے۔ پی ایم مودی نے ٹی وی چینلز میں آ کر ملک کے لوگوں سے خطاب کیا تھا اور کہا تھا کہ ’’ آتم نربھرتا‘‘ بنیں توکیا اسے ہی ’’ آتم نربھرتا‘‘ کہتے ہیں ،کیا یہی نیو انڈیا ہے مودی جی اگر یہی ہے آتم نربھرتا اور نیو انڈیا تو یہ الفاظ بولنے سے بچئے مودی جی کیوں کہ عالمی دنیا نے اس نیو انڈیا کو دیکھ لیا ہے جہاں ہماری کافی بدنامی ہو رہی ہے۔مجھے کہہ لینے دیجئے کہ ان چھ سالوں کے دوران ملک کو بی جے پی حکومت سے کافی نقصان ہوا ہے جو بدستور جاری ہے وہ کسی کی حکومت میں نہیں ہوا تھا۔ جس طرح سے ملک کے غریب،مزدور اور مڈل کلاس طبقہ کو حاشیئے میں رکھ کر ملک میں حکومت کی جا رہی ہے وہ یقیناً ملک کے لئے نقصان دہ ہے جو آئے دن دیکھنے کو بھی مل رہے ہیں۔تعجب تو تب ہوتا ہے جب لاک ڈائون کے دو مہینے بعد یعنی مزدوروں اور بچیوں کی دردناک موت سے بی جے پی حکومت کی نیند کھلتی ہے کہ مزدوروں کے لئے اسپیشل ٹرین چلائی جائے اور بسیں مہیا کرائی جائیں تاکہ وہ اپنے اپنے گھروں تک پہنچ جائیں لیکن عجب تو یہ ہے کہ حکومت کے یہ بھی منصوبے فیل ثابت ہو رہے ہیں لاکھوں مزدور اب بھی سڑکوں پر نظر آ رہے ہیں انہیں لانے لے جانے کے لئے حکومت کے پاس مزید ٹرینوں کا انتظام نہیں ہے اور نہ ہی رجسٹریشن کے قائدے کو آسان کیا گیا ہے۔جیتنے بھی فارم ہیں وہ انگریزی میں ہیں زیادہ تر مزدور انگریزی سے نابلد ہوتے ہیں جس کے سبب بھی انہیں کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔دوسری جانب اگر ہم بات کریں مزدوروں کی روزی روٹی کی توابھی تک اس معاملے میں حکومت کی کوئی ٹھوس حکمت عملی سامنے نہیں آئی ہے صرف اعلانات تک ہی محدود ہے۔ حدتو یہ ہے کہ پی ایم مودی12 مئی کی شام8بجے اپنے انداز میں پہلے عوام کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے اسکے بعد 20لاکھ کروڑ روپئے کا مالی پیکیچ کا اعلان کر دیا جاتا ہے حالانکہ یہ اعلان کرنے میں انہیں30منٹ لگے لیکن یہ بھی تشفی بخش نہیں رہے کہایہ جا رہا ہے کہ یہ بغیر سر پیر کا پیکیج ہے اسکے کئی حصوں کا انکشاف اور پوسٹ مارٹم ہندوستان میں طویل وقت تک ہونا باقی ہے 20 لاکھ کروڑ اور2020 کی تک بندی، لیبر، لاء لینڈ، لیکو یڈیٹی کو بنیاد مان کر آگے بڑھنے کا فلسفہ لوگوں کے سر سے یہ ساری باتیں فوراً ہوا ہو جاتی ہیں۔ وہیںکانگریس نے الزام لگایا ہے کہ کرونا بحران کے درمیان وزیراعظم نریندر مودی نے ملک میں معاشی سرگرمیاں شروع کرنے کے لئے بیس لاکھ کروڑ روپے کا جو پیکج اعلان کیا ہے اس میں کسان کے لئے کچھ نہیں ہے۔ ان کے لئے یہ صرف جملہ پیکج ہی ثابت ہورہا ہے۔کانگریس نے کہا ہے کہ جس معاشی پیکج کو ملک کو کرونا بحران کے درمیان اعلان کیا اس میں دعوی کیا گیا ہے کہ اس سے کسان بھی کھڑا ہوسکے گا اور کھیتی باڑی کی اس کی پریشانی ختم ہوجائے گی لیکن یہ اعلان کسان کے لئے صرف ’جملہ پیکج‘ ہی ثابت ہواہے۔یہ پیکج ’وعدوں کا سبزباغ‘ کے علاوہ کچھ نہیں ہے اس میں کسان کی کوئی مدد نہیں ہورہی ہے۔ یہ پیکج حقیقت سے بہت دور ہے اس نے ملک کے کسان کو مایوس کیا ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بے حال کسان کو حکومت مرہم لگانے کی جگہ زخم دے رہی ہے اوراس کو قرض کے جنجال میں دھکیل رہی ہے۔ اس اعلان سے یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ مودی حکومت نے کسان کی تکلیف نہ سمجھتی ہے اورنہ ہی کھیتی کے مسائل کا اسے علم ہے۔
بہر حال! یہ بات کتنے مزدوروں اور غریب طبقہ کو پتہ ہے کہ پی ایم مودی نے 20لاکھ کروڑ روپئے کا اعلان ملک کو معاشی بحران سے نکالنے اور مزدوروں کی تقدیر بدلنے کے لئے کیا ہے۔اگر انہیں اس بات کا علم ہو بھی جائے تو مزدور اور غریب اسے دھوکہ اور چھلاوا ہی سمجھیں گے کیوں کہ پی ایم مودی کے15لاکھ والے اعلان وہ ابھی بھی بھولے نہیں کہ ہر غریبوں کے اکائونٹ میں براہ راست15لاکھ روپئے چلاجائے گا انکے اس اعلان کے کئی سال گذر گئے لیکن اب تک غریبوں کے اکائونٹ میں 15 15 لاکھ روپئے نہیں آئے ہیں جس سے غریبوں کا پی ایم مودی کے وعدے سے یقین اٹھ گیا ہیِ اب یہ 20لاکھ روپئے کے پیکج سے کس کس کی تقدیر بدلے گی کہا نہیں جا سکتا کیوں کہ غریبوں اور کسانوںکے حالات بہتر کرنے کے لئے حکومت نے کئی پیچیدہ ضابطے لگا دئے ہیں انہیںفی الحال زندگی سنبھالنے کے لئے براہ راست انکے انکائونٹ میں پیسے نہیں دئے جا رہے ہیں بلکہ پیکج کے نام پر انہیں بینک کے ذریعہ قرض لینے ہونگے۔ مجھے یہ بات کہہ لینے دیجئے کہ اصل میں ملک کو ’’ آتم نربھرتا‘‘ یعنی خود کفیل بنانے کی جانب لے جانے کا دم بھرنے والے پی ایم مودی ہندوستان کو سرمایا دارانہ نظام کے تحت مزدوروں کو غلامی کی جانب دھکیل رہے ہیں جو آگے چل کر مودی حکومت کے لئے مشکلیں پیدا کرسکتی ہے۔اپوزیشن قائدین کا کہنا ہے کہ پی ایم مودی اپنی ناکامی کو چھپانے کے لئے لبھائونے پیکج کا علان کیا ہے جو دراصل پیکج نہیں ہے بلکہ یہ لون ہے اور اسے غریبوں کو چکانے پڑیں گے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مہاجر مزدوروں کو ابھی مزید کچھ دن خالی جیب بھوکوں مرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے۔ اب کئی سوال مزدوروں کے سامنے کھڑے ہو گئے ہیں کہ دو ماہ سے خالی جیب وہ کس بھروسے گائوں چھوڑ کر کام دھندے پر لوٹیں گے ، انہیں کام پر کب بلانے کے بات ہوگی۔ مجھے یہ بات کہہ لینے دیجئے کہ ملک کے لاکھوں مزدوروں نے پہلی بار اپنے ہی ملک کی منتخب حکومت کے ہاتھوں اپنی بدحالی کا اتنا تلخ ذائقہ چکھا ہے کہ انہیں حکومت کی سنگدلی اور گندی سیاست سے نفرت ہو گئی ہے۔ بہر کیف اب یہ بات مزدوروں اور کسانوں کو سمجھ لینی چاہئے کہ مودی حکومت غریبوں کے تئیں اتنی ہمدرد نہیں ہے جتنی ہمدرد سرمایا داروں کے لئے ہے انہیں لانے کے لئے طیارے کا انتظام فوراً کر دیا جاتا ہے لیکن غریب مزدوروں کے سلسلے میں حکومت کی نیند دو مہینے کے بعد ٹوٹتی ہے لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
Comments are closed.