موجودہ حالات میں عید کی نماز

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی
تدریجاًلاک ڈاؤن میں اضافہ کی وجہ سے جہاں دوسرے بہت سارے امورکے تعلق سے لوگ تشویش میں مبتلاہیں، وہیں اس بات کولے کربھی پریشان ہیں کہ اس مرتبہ عید کی نماز کس طرح اداکی جائے گی؟کیوں کہ محسوس ایساہورہاہے کہ لاک ڈاؤن کاسلسلہ شیطان کی آنت کی طرح درازسے درازترہوتی جائے گی اورشایداتنی دراز ہوجائے کہ عید توکیابقرعیدبھی اس کی لپیٹ میں آجائے اورچوں کہ پیدائش کے بعدسے اس طرح کاموقع پہلی بارپیش آرہاہے؛ اس لئے لوگوں کاتشویش میں مبتلاہوناایک فطری بات ہے، ذیل میں اسی کے تعلق سے وضاحت کی کوشش کی جارہی ہے۔
اس سلسلہ میں تین باتوں کی تنقیح ضروری معلوم ہوتی ہے: (۱) عیدکی نماز کی شرعی حیثیت کیاہے؟(۲) عیدکی نمازمنعقدہونے کی شرطیں کیاہیں؟(۳) اوراس نماز کی ادائے گی کاطریقہ کیاہے؟اول کے سلسلہ میں فقہاء کے مابین اختلاف ہے؛ چنانچہ حضرات شوافع کے نزدیک اس سلسلہ میں دوقول ہیں: (الف) یہ سنت مؤکدہ ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ جب سے یہ نمازمشروع ہوئی ہے، آپ ﷺ نے کبھی اسے ترک نہیں فرمایاہے اورآپﷺ کے بعدصحابہ نے بھی اس کی پابندی کی ہے، نیز اس حدیث میں اس کاذکرنہیں ہے، جس میں آپﷺ نے سائل کے سوال کے جواب میں یہ فرمایاتھا کہ اللہ تعالیٰ نے دن ورات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں اوراس کے علاوہ نفل ہیں۔(ب) یہ فرض کفایہ ہے، اس کے قائل ابوسعید اصطخری ہیں، ان کی دلیل یہ ہے کہ یہ اسلام کے ظاہری شعائرمیں سے ہے، جوجہادکی طرح فرض کفایہ ہونے کامتقاضی ہے، نیزاس میں تکبیرات کاتسلسل ہوتاہے، لہٰذا(فرض کفایہ ہونے میں)نمازجنازہ کے مشابہ ہوا(الحاوی الکبیر،باب صلاۃ العیدین: ۲؍۴۸۲، أسنی المطالب: ۲؍۱۹۹، نہایۃ المحتاج: ۲؍۱۷۲)؛ لیکن صحیح قول اس کے سنت ہونے کاہے، امام نووی فرماتے ہیں: ہی سنۃ علی الصحیح المنصوص۔ (روضۃ الطالبین، کتاب صلاۃ العیدین:۱؍۵۷۷)’’منصوص صحیح قول کے مطابق یہ سنت ہے‘‘۔
مالکیہ کے نزدیک بھی دوقول پائے جاتے ہیں: (الف) یہ سنت مؤکدہ ہے،سنت مؤکدہ ہونے کے دلائل وہی ہیں، جوشوافع کے یہاں بیان کئے جاتے ہیں(شرح التلقین، باب صلاۃ العیدین: ۴؍۲۳) (ب) یہ ان لوگوں کے حق میں فرض کفایہ ہے، جن پرجمعہ کی نماز واجب ہوتی ہے، یہ قول بعض اندلسیوں کااختیارکردہ ہے، ان کی دلیل یہ ہے کہ اس میں شعائراسلام کااظہارہے اورآپ ﷺ اوراپﷺ کے اصحاب نے پابندی کے ساتھ اس کی ادائے گی ہے(التوضیح فی شرح مختصرابن الحاجب: ۱؍۵۶۵، روضۃ المستبین فی شرح کتاب التلقین، باب صلاۃ العیدین:۱؍۴۱۳)، تاہم مذہب کامشہوراورمعروف قول سنت ہونے کاہے، علامہ حطاب مالکیؒ لکھتے ہیں: والمشہور المعروف من المذہب أنہاسنۃ۔ (مواہب الجلیل فی شرح مختصرالخلیل، فصل فی صلاۃ العیدین:۲؍۵۶۸)۔
حنابلہ کے نزدیک بھی دوقول ہیں: (الف) فرض کفایہ ہے، جس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے عورتوں کونمازعیدکے لئے نکلنے کاحکم فرمایا؛ حتی کہ حائضہ اورپردہ نشین عورتوں کوبھی نکلنے کاحکم فرمایا، آپ کایہ حکم فرماناوجوب کاتقاضاکرتاہے اورجب جب عورتوں کوحکم دیاگیاتومردتوبدرجۂ اولیٰ اس حکم میں داخل ہوں گے، نیز آپﷺ اورآپﷺ کے اصحاب نے اس کی ادائے گی پرمواظبت اورپابندی کی ہے اورپھریہ دین کے ظاہری شعائرمیں سے ہے، جوفرض ہواکرتاہے، جیسے کہ اذان۔(ب) یہ سنت ہے، جس کی دلیل یہ ہے کہ آپﷺ نے سائل کے سوال کے جواب میں یہ فرمایاتھا کہ اللہ تعالیٰ نے دن ورات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں اوراس کے علاوہ نفل ہیں؛ البتہ حنابلہ میں سے شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اس کے فرض عین ہونے کے قائل ہیں، جس کی دلیل یہ ہے کہ عورتوں کواس کی ادائے گی کے لئے نکلنے کاحکم آپﷺ نے فرمایا(الشرح الممتع علی زاد المستنقع، باب صلاۃ العیدین:۵؍۱۱۵-۱۱۶ )،تاہم فرض کفایہ ہونے کاقول راجح ہے، ابن قدامہ حنبلیؒ فرماتے ہیں: وصلاۃ العیدفرض علی الکفایۃ فی ظاہرالمذہب، إذا قام بہامن یکفی سقطت عن الباقین۔(المغنی، باب صلاۃ العیدین: ۲؍۱۱۱) ’’عیدکی نماز ظاہرمذہب میں فرض علی الکفایہ ہے، جب کفایت کرنے والے لوگ اس کواداکرلیں توباقی لوگوں سے ساقط ہوجاتاہے‘‘۔
احناف کے یہاں بھی اس تعلق سے ایک سے زائداقوال ملتے ہیں:(۱) عیدین کی نمازواجب ہے؛ چنانچہ حسن بن علی شرنبلالی لکھتے ہیں: صلاۃ العیدین واجبۃفی الأصح۔ (نورالإیضاح، باب العیدین، ص:۱۰۶ ) ’’اصح قول کے مطابق عیدین کی کی نماز واجب ہے‘‘۔ (۲) سنت مؤکدہ ہے(مجمع الأنہر، باب صلاۃ العیدین: ۱؍۲۵۵)، علامہ سرخسیؒ نے اس کے سنت ہونے کواظہرقراردیتے ہوئے فرمایاہے: والأظہرأنہاسنۃ؛ ولکنہا من معالم الدین، أخذہا ہدی وترکہاضلالۃ۔ (المبسوط، باب صلاۃ العیدین: ۲؍۳۷)’’اظہریہ ہے کہ یہ سنت ہے؛ لیکن دین کے شعائراورعلامت میں سے ہے، جس کواختیارکرناہدایت اورچھوڑنا گمراہی ہے‘‘، علامہ ابن نجیم مصریؒ نے اس کے اظہرہونے کی دو وجہیں بتائی ہیں: ایک: یہ کہ جامع صغیراصل کے بعدکی تصنیف ہے، لہٰذا وہ معتمدعلیہ ہے، دوم : یہ کہ اصل کے برخلاف جامع صغیرمیں اس کے سنت ہونے کی صراحت ہے، اورظاہرہے کہ حقیقت کے اعتبارسے اصل سے مختلف نہیں ہے؛ کیوں کہ سنت سے مرادسنت مؤکدہ ہے اورسنت مؤکدہ واجب ہی کے درجہ میں ہے؛ اس لئے کہ اصح یہ ہے کہ سنت مؤکدہ کاچھوڑنے والاواجب چھوڑنے والے کی طرح گناہ گارہوتاہے (البحرالرائق، باب العیدین: ۲؍۲۷۶)۔ (۳) فرض کفایہ یا سنت واجبہ ہے، اس کے قائل امام ابویوسفؒ ہیں، ابوموسی ضریرنے بھی اسے فرض کفایہ نقل کیاہے(مجمع الأنہر، ۱؍۲۵۵، تحفۃ الفقہاء، باب صلاۃ العیدین: ۱؍۱۶۵)، ان حضرات کے دلائل بھی وہی ہیں، جودیگرائمہ کے دلائل ہیں۔
جہاں تک دوسری بات یعنی عیدکی نمازکی شرطوں کاتعلق ہے تواحناف کے نزدیک اس کے درست ہونے کے لئے وہی شرطیں ہیں، جوجمعہ کے درست ہونے کے لئے ہیں، جب کہ جمعہ کے درست ہونے کے لئے ان کے یہاں شہریااس کے مضافات کاہونا، بادشاہ یااس کے نائب کاہونا، وقت ظہرکاہونا، خطبہ کاہونا، خطبہ کانمازسے پہلے ہونا، جماعت کاپایاجانااور اذن عام کاہوناہیں (الدرالمختارمع ردالمحتار:۳؍۵-۲۶ )تاہم عیدین میں خطبہ کی شرط نہیں ہے،مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک وقت اورجماعت کی شرط ہے، جب کہ شوافع کے نزدیک صرف وقت کی شرط ہے(حاشیۃ العدوی:۱؍۳۸۹، الموسوعۃ الفقہیۃ:۲۷؍۲۴۲)۔
جب عیدکی نمازکی شرعی حیثیت اوراس کے درست ہونے کی شرطیں معلوم ہوگئیں تواب اس کی ادائے گی کاطریقہ معلوم کرناچاہئے، یہ بات یادرہنی چاہئے کہ یہاں طریقہ سے مرادیہ ہے کہ کن کن طریقوں سے اسے اداکیاجاسکتاہے؟ چنانچہ شوافع کے نزدیک عیدکی نمازجماعت کے ساتھ بھی پڑھی جاسکتی ہے اورفرداً فرداًبھی، مصلی میں بھی پڑھی جاسکتی ہے اورگھرکے اندربھی، ’’مغنی المحتاج‘‘میں ہے: تشرع للمنفردوالعبدوالمسافر، فلاتتوقف علی شروط الجمعۃ من اعتبارالجماعۃ والعددوغیرہما، ویسن الاجتماع لہافی موضع واحد۔ (مغنی المحتاج: ۱؍۵۸۷، المجموع: ۵؍۲۶) ’’منفرد، غلام اورمسافرکے لئے مشروع ہے، پس یہ جماعت اورتعداد کے لحاظ سے جمعہ کی شرطوں پرموقوف نہیں ہوگا اورایک ہی جگہ میں اجتماع کرنامسنون ہے‘‘۔
مالکیہ کے نزدیک عیدکی نمازکے لئے’’جماعت‘‘شرط ہے؛ چنانچہ علامہ عدوی لکھتے ہیں: …صلاۃ العید کصلاۃ الجمعۃ فی اشتراط الجماعۃ حتی تقع سنۃ۔ (حاشیۃ العدوی:۱؍۳۸۹) ’’عیدکی نمازجماعت کی شرط میں جمعہ کی طرح ہے؛ یہاں تک سنت کے موافق واقع ہوگا‘‘، یہ جماعت امام کوچھوڑکرکم ازکم بارہ افرادپرمشتمل ہونی چاہئے(الفواکہ الدوانی، باب فی صلاۃ الجمعۃ:۱؍۲۵۸)؛ البتہ اگرامام کے ساتھ کسی ایسے شخص کی نمازچھوٹ گئی ہو ، جس کے لئے یہ نمازمسنون تھی توراجح قول کے مطابق اس کے لئے تنہاعیدکی نمازپڑھ لینامندوب ہے(منح الجلیل شرح مختصر خلیل:۱؍۳۱۵)۔
حنابلہ کے نزدیک بھی عیدکی نمازکے لئے جماعت (جوچالیس افرادپرمشتمل ہو)شرط ہے؛ البتہ اگرامام کے ساتھ نمازادانہ کرسکے توپھرتنہاپڑھنے کی گنجائش ہے، فقیہ مرداوی کہتے ہیں: وإن فاتتہ الصلاۃ، استحب لہ أن یقضیہاعلی صفتہا۔(الإنصاف: ۲؍۴۰۳) ’’اوراگرعیدکی نماز فوت ہوجائے تواس کی ہیئت پرقضاء کرنامستحب ہے‘‘، اورابن قدامہ حنبلی کہتے ہیں: ٰوہومخیر، إن شاء صلاہا وحدہ، وإن شاء صلاہا جماعۃً۔ (المغنی: ۲؍۱۹۰) ’’وہ بااختیارہے، چاہے توتنہاپڑھے اورچاہے توجماعت کے ساتھ‘‘۔
فقہائے کرام رحمہم اللہ کے مذکورہ اقوال سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ نمازعیدایک ایسامسئلہ ہے، جس میں اجتہاد کی گنجائش ہے اورہرفقیہ نے دلائل کی روشنی میں اجتہاد کرتے ہوئے اسے سنت، فرض کفایہ یاواجب قراردیاہے، لہٰذا ہرمقلدکوچاہئے کہ عام حالت میں وہ اپنے مذہب کے راجح قول کے موافق عمل کرے؛ البتہ ضرورت کے وقت مرجوح قول یادیگرائمہ کے قول پرعمل کی بھی گنجائش ہوگی؛ چنانچہ علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں: رائے کی تین قسمیں ہیں: ایک بغیرکسی شک کے باطل، دوسری صحیح اورتیسری شبہ والی… تیسری میں ایسے اضطرارکے وقت عمل کرنے، فتوی دینے یافیصلہ کرنے کی گنجائش ہوگی، جب کہ اس کے بغیرچارۂ کارنہ ہو، کسی کواس پرعمل کرنے کولازم قرارنہ دیاجائے، اس کی مخالفت کوحرام قرارنہ دیاجائے، اس کے مخالف کودین کامخالف نہ گردانہ جائے؛ بل کہ اس کے قول کے قبول یاردکرنے کااختیاردیاگیاہو تویہ اس درجہ میں ہے، جس میں مضطرکے لئے ضرورت کی وجہ سے حرام چیزکاکھاناپینادرست ہوجاتاہے(اعلام الموقعین:۱؍۷۵-۷۶)۔
اس وقت کوروناکی وجہ سے اجتماع پر جس طرح کی پابندیاں ہیں، اس میں ظاہر ہے کہ عیدکی نمازاس طرح نہیں پڑھی جاسکتی، جس طرح پڑھی جاتی رہی ہے، ایسی صورت میں فقہاء کے مذکورہ اقوال کی روشنی میں راقم حروف کے نزدیک نمازعیدکے اداکرنے کی درج ذیل صورتوں کی گنجائش ہوسکتی ہے:
۱- نمازعیداس طریقہ پراداکی جائے، جس طریقہ پراس وقت نمازجمعہ اداکی جارہی ہے؛ کیوں کہ عید کی نمازدرست ہونے کے لئے احناف کے نزدیک وہی شرطیں (خطبہ کوچھوڑکر)ہیں، جوجمعہ کے درست ہونے کے لئے ہیں اورموجودہ حالت میں مسجدے علاوہ میں بھی جمعہ کی گنجائش دی گئی ہے، لہٰذا عیدکے لئے بھی وہی گنجائش رہے گی؛ چنانچہ الجامعۃ العلوم الإسلامیۃ علامہ محمدیوسف بنوری ٹاؤن کے دراالإفتاء سے جب اس بابت استفسارکیاگیاتووہاں سے جوجواب دیاگیا، وہ یہ ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ سے خوب تضرع کے ساتھ دعاکرنی چاہئے کہ رمضان المبارک میں ہی یہ حالات بہترہوجائیں اورتمام عبادات بشمول عیدکی نمازباجماعت کی اجازت مل جائے، تاہم اگرعیدکے موقع پربھی یہی صورت حال رہی ، یعنی عیدکی نماز مساجدیاعیدگاہ میں اداکرنے پرپابندی ہوئی تواس صورت میں لوگوں کوچاہئے کہ شہریابڑی بستی میں مساجدکے علاوہ جہاں چاریاچارسے زیادہ بالغ مردجمع ہوسکیں اوران لوگوں کی طرف سے دوسرے لوگوں کی نماز میں شرکت کی ممانعت نہ ہو، عیدکی نمازقائم کرنے کی کوشش کریں، شہر، فنائے شہریاقصبہ میں عیدکی نمازمیں مسجد کاہونا شرط نہیں، لہٰذا امام کے علاوہ کم ازکم تین مردمقتدی ہوںتوبھی عیدکی نمازصحیح ہوجائے گی؛ چنانچہ عیدکی نمازکاوقت (یعنی اشراق کاوقت)داخل ہوجانے کے بعدامام دورکعت نمازپڑھادے اورخطبہ مسنونہ دے، چاہے گھرمیں ہوں یاکسی اورجگہ جمع ہوکرنمازعیدپڑھ لیں…واضح رہے کہ مذکورہ حکم مجبوری کی حالت کاہے، ورنہ عیدکی نمازمیں یہی مطلوب ہے کہ مسلمانوں کاجتنابڑااجتماع ہواورعیدگاہ یاجامع مسجدمیں عیدکی نمازاداکی جائے، اتناہی زیادہ بہترہے‘‘ (https://www.banuri.edu.pk/readquestion/eid-ki-namaz-per-03-05-2020،فتوی نمبر:144109200980)۔
۲- عیدکی نمازکے بجائے چاررکعت چاشت کی اداکی جائے، یہ ان لوگوں کے حق میں ہے، جوموجودہ حالت میں دی گئی گنجائش کے مطابق عید کی نماز ادانہ کرسکیں؛ چنانچہ علامہ حصکفیؒ لکھتے ہیں: فإن عجز صلی أربعاً کالضحی ’’اگرعاجزہوجائے توچاشت کی طرح چاررکعت نمازپڑھے‘‘، علامہ شامیؒ نے لکھاہے کہ یہ حکم استحبابی ہے اوریہ نمازعیدکی قضاء نہیں ہے کہ نمازعیدکی ہیٹت میں نہیں پڑھی جائے گی(ردالمحتار مع الدرالمختار:۱؍۵۸-۵۹)؛ البتہ ثواب کے حصول کے لئے پڑھ لینابہترہے، علامہ کاسانیؒ لکھتے ہیں: فلوصلی مثل صلاۃ الضحی لینال الثواب کان حسناً ’’اگرثواب کے حصول کے لئے چاشت کی نمازکی طرح پڑھ لیتاہے توبہترہے‘‘ (بدائع الصنائع، فصل صلاۃ العیدین: ۲؍۲۴۹) —– یہ دونوں شکلیں فقہ حنفی پرعمل کرتے ہوئے اختیارکی جاسکتی ہیں، یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ عیدکی نمازاحناف کے یہاں راجح قول کے مطابق واجب ہے اورواجب کے چھوڑنے پرانسان گناہ گارہوتاہے؛ لیکن جب کسی عذرکی وجہ سے واجب چھوڑناپڑے تو ایسی صورت میں گناہ گارنہیں ہوتا، ابن نجیم مصریؒ لکھتے ہیں: أماإذاترک واجباً لعذرفلاشئی علیہ۔(البحرالرائق:۳؍۴۰) ’’جہاں تک عذرکی وجہ سے واجب کوترک کرنے کاتعلق ہے تو اس میں کچھ بھی نہیں ہے‘‘۔
۳- نمازعیدکوفرض کفایہ کے حکم میں مان لیاجائے، جیساکہ حنابلہ کاراجح، جب کہ شوافع اورمالکیہ کامرجوح قول اوراحناف میں سے امام ابویوسفؒ کاقول ہے، اس کافائدہ یہ ہوگاکہ مساجدمیں دی گئی گنجائش کے مطابق نمازعیدکی ادائے گی ہوجانے کے بعدتمام لوگ وجوب کے عدم ادائے گی کے مؤاخذہ سے بری ہوجائیں گے، نیزاس میں بہت ساری دوسری قسم کی دشواریوں سے بھی بچناممکن ہوجائے گا، ہذاماعندی واللہ اعلم بالصواب!
Comments are closed.