مسلمان نہ ہوتے تو…!

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی
جب سے آزادی ملی ہے، اس وقت سے لے کرآج تک مسلمان ہندوستان کی گنگاجمنی تہذیب پرفخرکرتے رہے ہیں،اپنے بچوں کواسی کی تعلیم دیتے رہے ہیں، عوامی خطاب میں اسی کوواضح کرتے رہے ہیں، تحریری طورپراسی کولکھتے رہے ہیں، ہرمجلس، ہرمحفل، ہربزم، ہرجلسہ، ہرکانفرنس، ہرسمپوزیم ، ہرورک شاپ اورہرسیمینارمیں اسی کے گن گاتے رہے ہیں، اس کے لئے ہم نے اپنے اسٹیجوں کو دیگر اقوام کے نمائندوں سے سجایا، ان سے تقریریں کروائیں، ان کی تقریروں پرتالیاں بجوائیں۔
دیگران اقوام کے بھی بہت سارے جلسے جلوسوں میں مسلمانوں کونمائندگی دی گئی، جوگنگاجمنی تہذیب کے متوالے رہےہیں، انھیں رونق اسٹیج بنایاگیا، ان سے تقریریں کروائی گئیں، ان کے لئے بھی تالیاں بجوائی گئیں، گویامسلمانوں اوردیگراقوام کے لوگوں میں یہ بات رچی بسی رہی ہے کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی سے ہی یہ ملک ترقی کے بام عروج تک پہنچ سکتاہے اورجب بھی اس ہم آہنگی میں کمی آئے گی، ملک خطرہ میں پڑجائے گا، اس کی ترقی رک جائے گی۔
آج سے چھ سات سال پہلے کی ملکی معیشت پرنظرڈالئے اورآج کل کے اقتصادی حالت کودیکھئے، زمین آسمان کافرق نظرآئے گا، اسی طرح چھ سات سال پہلے کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی پرنظردوڑایئے اورآج کل کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کوملاحظہ کیجئے، واضح فرق ملے گا، اس فرق کااثرملک کی ترقی پرنظرآئے گا، آج ہم بہت سارے معاملوں میں یوروپ وامریکہ کی تقلیدکرتے ہوئے سینہ پھلاتے ہیں، لباس میں وپوشاک میں، کھان پان میں، رہن سہن اورطرززندگی میں، تعلیم وتعلم میں، تربیت وپرداخت میں اورنہ جانے کن کن چیزوں میں ان کی تقلید ہی نہیں؛ بل کہ کورانہ تقلید کرتے ہیں؛ لیکن افسوس ! کہ ان کی ترقیاتی منصوبوں کی طرف توجہ نہیں دیتے۔
ان کے یہاں مذہب پرآزادی کی پاس داری کی جاتی ہے، ہمارے یہاں قانون ضرور ہے؛ لیکن اس پرعمل دارآمدگی میں کوتاہی ہوتی ہے، ان کے یہاں آزادی رائے پرکچھ زیادہ عمل ہوتاہے، ہمارے یہاں کچھ لوگوں کے لئے توآزادیٔ رائے کادستورہے؛ لیکن کچھ لوگوں کے لئے اس کوپسند نہیں کیاجاتا ،بعض کو یہاں کھانے پینے کی آزادی ہے، جب کہ بعض کواس کاحق نہیں دیاجاتا، کچھ لوگ یہاں آزادی سے جیناچاہتے ہیں؛ لیکن یہی کچھ لوگ دوسروں کویہ حق نہیں دیناچاہتے، یہی وجہ ہے کہ کسی بھی موقع پران کوزک پہنچانے سے گریزنہیں کیاجاتا۔
آج ملک کے اندراقلیتوں کے تعلق سے جوسوچ بن گئی ہے، یقینا ملک کی ترقی کی راہ میں وہ روڑاہے، جب تک اسے دورنہیں کیاجائے گا، ملک کی ترقی ممکن نہیں، خواہ زبانی طورپراس کی ترقی کاجتنابھی ہم راگ الاپ لیں، کیاکوئی بتا سکتاہے کہ ملک کے وزیراعظم نے ملکی معیشت کودرست کرنے اورتجارتی روابط کوبڑھاوادینے کے نام سے ملکوں ملکوں کاسفرکیا؛ بل کہ اتناسفرکیاکہ تقریباً اس میں۶۶؍ہزارکروڑروپے خرچ ہوگئے؛ لیکن کیاکسی بھی ملک کی کسی بڑی کمپنی نے یہاں سرمایہ کاری کی؟ ملک میں لنچنگ کاایک سلسلہ شروع ہوا، جوآج تک رک نہیں سکااورعجیب بات ہے کہ ملک کے وزیراعظم ہونے کی حیثیت سے کبھی اس کی روک تھام کے تعلق سے ’’من کی بات‘‘ بھی نہیں کی، آپ کیاسمجھتے ہیں کہ اس سے ملک کونقصان نہیں ہواہے؟
ملک میں اقلیتوں کے خلاف غلط فیصلے بالخصوص سی اے اے اوراین آرسی کی وجہ سے ملک میں جوافراتفری مچی اوران قوانین کے خلاف جس طرح احتجاجی دھرنے منعقد کئے گئے، یہ سب ملک ہی نہیں؛ بل کہ بیرون ملک کے اخبارات کی زینت بنے اور ان چیزوں کی وجہ سے ملکی معیشت پرزبردست جھٹکاپڑاہے، حکومت چاہے اس کا اعتراف نہ کرے؛ لیکن زمینی حقیقت یہی ہے، اقلیتوں کوہراساں کرنے والے قانون کی چنداں ضرورت نہیں تھی؛ کیوں کہ شہریت دینے کاقانون پہلے سے موجودتھا؛ لیکن وہاں عمومی قانون تھا، جس سے کسی بھی مذہب کافردخارج نہیں تھا؛ لیکن ظاہرہے کہ آرایس ایس جیسی تنظیم کویہ کیسے گواراہوسکتاتھا؟ اس لئے اقتدارپرقبضہ کے بعداس پربھی قانون بنایاگیا، جس سے خصوصی طورپرمسلمانوں کوخارج کیاگیا، یہ اس کی مسلم دشمنی کی بالکل واضح مثال ہے۔
ملک کی جی ڈی پی میں تقریباً ۶؍ فیصدسیاحتی صنعت کی حصہ داری ہوتی ہے؛ لیکن افسوس ! مودی حکومت کے غلط فیصلے کے نتیجہ میں۶۰؍فیصد سیاحوں کی آمد میں کمی واقع ہوئی ہے، دسمبر۲۰۱۹ء میں دولاکھ سیاحوں نے آگرہ کادورہ منسوخ کیااور۱۰؍ ملکوں نے اپنے شہریوں کوہندوستان سے منع کردیاتھا، سوچئے! ملکی معیشت کا کتنا بڑانقصان ہوا؛ لیکن یہاں نقصان کون دیکھتاہے؟ یہاں توبس لفظوں کے جادوسے ہی لوگ ڈھیرہوتے رہے ہیں اورہمیشہ ہوتے ہی رہتے ؛ لیکن کوروناکی آمدنے لفظوں کے جادوکاکچھ بھرم توڑدیا۔
ملک کی گنگاجمنی تہذیب کوآرایس ایس نے ختم کرنے کی کوشش کی ہی تھی؛ لیکن جمہوریت کاچوتھاستون کہے جانے والے یہاں کی میڈیانے بھی اس کوختم کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی، ایسامحسوس ہوتا ہے کہ ان کوملک کی اقتصادی حالت کی بالکل بھی فکرنہیں ہے، انھیں اس بات کی بھی فکرنہیں ہے کہ عام آدمی کی روزی روٹی کاتعلق قصرسلطانی سے ہی وابستہ نہیں ہوتا؛ بل کہ اس کاتعلق کاخ فقیرسے بھی ہوتا ہے، بڑے لوگوں نے اعلان کردیاکہ مسلمانوں سے کوئی خریداری نہیں کرنی ہے اوران بڑوں نے ٹھیلوں اورسبزی فروشوں کی دوکانوں پربڑے بڑے بینربھی لگوادئے؛ لیکن دیکھنے میں آیاپوراپورادن گزرگیا، ایک بھی خریدارنہیں آیا، رمضان کے مہینے میں بالخصوص مسلمان فروٹ کاکثرت سے استعمال کرتے ہیں، بینردیکھ کروہ آگے بڑھ گئے، نقصان کس کاہوا؟ بے چارے غریب کا، مارکس پرپڑی؟ بے چارے غریب پر؛ لیکن غریب کودیکھتاکون ہے؟ ان کے نزدیک توغریب کسی بھی رعایت کے حق دارنہیں ہوتے، وہ توبس کام کرنے کے لئے ، بڑوں کے کام آنے کے لئے اوردنگوں میں پٹنے کے لئے ہوتے ہیں، ایسے موقع پرملک کے ہرباشعورفردکی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی قوم کواس تعلق سے بیدارکرے، گنگاجمنی تہذیب کے فائدے بتائے، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کامطلب سمجھائے، ان کے سامنے پرکھوں کی تاریخ بھی کھول کررکھے اورنفرت کانقصان بھی واضح کرے، اگرایساکیاگیاتوجلدہی یہ ملک دوبارہ ’’سارے جہاں سے اچھا، ہندوستاں ہمارا‘‘ بن سکتاہے۔
آرایس ایس اوراس کی سیاسی پارٹی بھارتیہ جنتاپارٹی کی دشمنی صرف مسلمانوں سے ہی نہیں ہے؛ بل کہ اسے ان تمام سے ہے، جوبرہمنیت کے خلاف ہیں، جوانسانیت نوازہیں، جوغلامی کی تہذیب کوپسند نہیں کرتے، مسلمانوں کوتوبلی کابکرابنایاجارہاہے، وہ اس لئے کہ یہی قوم زندۂ جاویدقوم ہے، جوش سے بھرپور، جذبات سے لبریز، غلامی کے طوق کواتارپھینکنے والی، طاقت وروں سے پنگالینے والی اورظلم کوبہت دنوں تک نہ سہنے والی قوم ہے، جب اس پرقابوپالیاجائے گاتودیگراقوام توجوتوں کی نوک پرہیں، بس اسی لئے مسلمانوں کوٹارگٹ کیاجارہاہے، دیگراقوام کوہندومسلم کے چکرویومیں پھنسا کر بے وقوف بنایاجارہاہے، کیادیکھتے نہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دلتوں کی بھی لنچنگ کی گئی ہے، سرعام کپڑے اترواکرماراپیٹاگیاہے، ظاہرہے کہ یہ ٹریلرہے، اصل فلم ابھی باقی ہے، جس کی شروعات اس وقت ہوگی، جب مسلمانوں کوبے بس کردیاجائے گا۔
مسلمانوں کوبے بس کرنے کاکام تیزی سے جاری ہے، حکومتی سطح سے لے کرعوامی سطح تک اس کاہوم ورک سرعت رفتاری کے ساتھ کیاجارہا ہے، ملک کے محافطین کو بھی اس میں جھونک دیاگیاہے، زمینی خدایعنی ڈاکٹرس بھی اس میں حصہ لینے کوقابل فخرسمجھ رہے ہیں، پڑھے لکھے ہوکربھی یہ لوگ یہ نہیں سوچ رہے ہیں کہ یوروپ وامریکہ کی ترقی میں بھید بھاؤ کاعمل دخل نہیں ہے، وہاں کی ترقی کا راز بھید بھاؤسے پاک سماج ہے، کچھ عناصروہاں بھی ترقی کے دشمن ہیں؛ اس لئے وہ بھی بھید بھاؤکرتے ہیں؛ لیکن اگرہندوستان کے ساتھ موازنہ کیاجائے توہندوستان بڑھاہواہے، اتنابڑھ گیاہے کہ اقوام متحدہ اورخودامریکہ سے بھی اس خلاف آوازبلندکی جارہی ہے، چین اورسری لنکاکی حالت بھی تکلیف دہ ہے؛ لیکن جس ہندوستان کومسلمانوں کے لئے جنت کہاجارہاہے، اس جنت کی کیاحالت ہوچکی ہے، وہ اب دنیاکے سامنے آرہی ہے ؛ بل کہ آچکی ہے۔
اس ملک کوہندوستان بنانے میں مسلمانوں کابڑاہاتھ رہاہے، خصوصی طور پر مسلمانوں کے دورحکومت میں ہی اس ملک کو’’سونے کی چڑیا’’کاروپ ملاتھا، جس کو دیکھ کر انگریزوں کے منھ میں بھرآیاتھا، بالآخراپنے ہی لوگوں کے بے وفائی کے نتیجہ میں اس پرقبضہ بھی کرلیا، اس ملک میں آریہ بھی باہرسے آئے؛ لیکن انھوں نے یہاں کے باشندوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک روارکھا، جب کہ مسلمانوں نے انسانوں کوانسان ہی درجہ دیا، مسلمان رہیں گے توانسانیت قائم رہے گی، اگروہ نہیں رہے توجنگل راج شروع ہوجائے گا، جہاں ہرطاقت وراپنے سے کمزورکوکھاجائے گا، آرایس ایس کی آئیڈیالوجی بھی یہی ہے، مسلمان چوں کہ اس کے خلاف ہیں؛ اس لئے وہی اس کے اولین ٹاگٹ ہیں، چندر بھان خیال نے اس کی عمدہ تصویرکشی ہے، جوان کی نظم ’’ہاں! وے مسلمان ہیں‘‘کے نام سے ہے، اسی پراس مضمون کوختم کیاجاتاہے، وہ کہتے ہیں:
ہاں! وے مسلمان تھے
ٹھیک کہتے ہو
وہ آسمان سے نہیں اترے تھے
لیکن آسمانی دھوپ لے کرآئے تھے
وے مساوات، مساوات چلاتے آئے تھے
وے یقینایہیں کہیں دورسے آئے تھے
اورآریوں کی طرح آئے تھے
فرق بس اتناتھا
آریوں نے کھدیڑاتھااناریوں کو
وندھیاچل کے اس پارتک
جوبچے رہ گئے تھے، وہ سیوک بنائے گئے
یعنی بھنگی، چمار، نائی، دھوبی وغیرہ وغیرہ
لیکن وے مسلمان تھے
اہل قرآن تھے
مسلمان نہ ہوتے تو
قبیلوں، ورنوں، طبقوں اورجاتیوں کے
جنگل میں
تنفرکی آگ لگی ہوتی
جنگل جل چکاہوتا
پھرآرکشن کی دھوپ میں کیسے سینکتے
آرکشن کاورودھ کون کرتا
جمہوریت کی مینا کہاں چہچہاتی
سمتا، سنتولن، سماج سدھارشبدکوش میں دھرے رہتے
اینٹ پتھرکی عمارت کوئی بھی بناسکتاہے
شہربستے ہی رہتے ہیں
وے نہ ہوتے توبہت کچھ نہ ہوتا
وے ہیں تووقت کیاہے؟
وے مسلمان ہیں
ہاں! وے مسلمان ہیں
دوسوبرس سے زیادہ انگریزوں سے لڑتے رہے
انھوں نے پاکستان بنایا
وے پاکستان کے خلاف جنگ میں شہیدہوئے
وے مسلمان ہیں
ان کے پرکھوں کی ہڈیاں یہیں دفن ہیں
وے کہیں سے نہیں آئے
وے کہیں نہیں گئے
وے کہیں نہیں جائیں گے
وے پاکستان سمیت پھرآئیں گے
کیوں کہ وے مسلمان ہیں
وے اہل ہندوستان ہیں
Comments are closed.