ماں انمول شئے ہے ، انھیں ذریعۂ نجات بنائیں

نثار احمد حصیر القاسمی
(شیخ الحدیث معہد البنات بورہ بنڈہ و جامعۃ النور یوسف گوڑہ حیدرآباد
سکریٹری جنرل : اکیڈمی آف ریسرچ اینڈ اسلامک اسٹیڈیز ، حیدرآباد)
[email protected] 0091-9393128156

اس وقت ساری دنیا میں ایک روایت سی چل پڑی ہے کہ لوگ سال میں ایک دن مدر ڈے کے طورپر مناتے ہیں ، جس میں بچے اپنی ماؤں کی گل پوشی کرتے ، ان کی عزت و توقیر کرتے ، ان کی خدمات و جانفشانی کا اعتراف کرتے ، انھیں تحفے تحائف پیش کرتے ، انھیں مبارکباد دیتے ، ان کے حسن تربیت اور شفقت و عنایت پر ہدیۂ تشکر پیش کرتے ہیں ، یہ دنیا کے مختلف ملکوں میں مختلف تاریخوں میں منایا جاتا ہے ، کہیں ۸؍ مارچ کو ، کہیں ۲۱؍ مارچ کو ، کہیں ۷ ؍ اپریل کو کہیں مئی کے دوسرے اتوار کو ، کہیں ۱۰؍ مئی کو ، کہیں ۲۷؍ مئی کو کہیں ۱۹ سے ۲۹ ؍ مئی تک ، کہیں ۸؍ مئی کو ، کہیں ۲۶؍ مئی کو ، کہیں ۱۲؍ اگست کو ، کہیں اکتوبر کے تیسرے اتوار کو ، کہیں نومبر کے آخری اتوار کو اور کہیں ۲۲ ؍ دسمبر کو منایا جکاتا ہے ۔
اسلامی تعلیمات کی رو سے مدر ڈے منانا بلا شبہ بدعت منکرہ ہے ، اسلام نے تو سال کے پورے ایام اور ہر دن کی ہر ساعتوں میں ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے ، ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے ، صلہ رحمی کرنے اور ان کی خدمت کرتے رہنے کی تاکید کی ہے ، اور جنت کے حصول کو ان کی رضا پر موقوف رکھا ہے ، اسلام نہیں چاہتا کہ ماں کی صرف رسمی و دِکھاوے کی عزت و توقیر کی جائے اوراس کے لئے سال میں بس ایک دو دن مقرر کئے جائیں ؛ بلکہ اسلام چاہتا ہے کہ ہمہ وقت ان کی عزت کی جائے اور زندگی کے ایک لمحہ میں بھی ان کی توقیر و احترام میں ذرہ برابر حرف نہ آنے دیا جائے ؛ بلکہ اولاد ہمیشہ والدین خاص طوپر ماں کے سامنے فرش راہ بنے رہیں ، اسلام نے ماں کا مقام و مرتبہ بہت بلند کیا ، انھیں بڑی قدر و منزلت عطا کی اور ان کی عزت و احترام کو اپنی تعظیم کے ساتھ مربوط کیا ہے ۔
تاریخ انسانی کے اندر کوئی دین و مذہب یا کوئی نظام ایسا نہیں جس نے عورتوں کو بحیثیت ماں وہ مقام و مرتبہ عطا کیا ہو جو اسلام نے عطا کیا ہے ، اسلام نے ماں کا مقام نہایت بلند کیا اور ان کی فرمانبرداری و حسن وسلوک کو اسلام کے بنیادی اُصولوں میں سے قرار دیا ہے ، اسلام نے ماں کے حق کو باپ کے حق کے اوپر و برتر رکھا ہے ، اور اسے عظیم الشان قرار دیا ہے ؛ کیوںکہ ماں ہی وہ ذات ہے جو حمل کی ، ولادت کی ، دُودھ پلانے کی اور تربیت کی گوناگوں مشقت برداشت کرتی ہے ، خود قرآن کریم نے ماں کی ان قربانیوں کا اعتراف کیا اور مختلف آیتوں میں اسے دُہرایا اور بار بار اس کا تذکرہ کیا ہے ؛ تاکہ اولاد کے دل و دماغ میں ماں کی قدر و منزلت راسخ ہو ۔
سورہ اسراء کی آیت نمبر : ۲۳ و ۲۴ میں ہے جس کا ترجمہ ہے :
اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنا ، اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے سامنے اُف تک نہ کہنا ، نہ انھیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا ؛ بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا اور عاجزی و محبت سے ان کے سامنے تواضع کا بازو پست کئے رکھنا اور دُعاء کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان پر ویساہی رحم کر جیساکہ انھوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے ۔
سورہ عنکبوت کی آیت نمبر : ۸ میں ہے :
ہم نے ہر انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی نصیحت کی ہے ، ہاں اگر وہ یہ کوشش کریں کہ آپ میرے ساتھ کسی کو شریک کریں جس کا آپ کو علم نہیں تو ان کا کہنا نہ مانیں ، تم سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے ، پھر میں ہر اس چیز کی جو تم کرتے تھے تمہیں خبر دوںگا ۔
اس میں واضح کیا گیا ہے کہ والدین اگر شرک کا یا معصیت کا یا اولاد پر جو بھی دوسرے کا حق واجب ہے اس کی حق تلفی کرنے کو کہیں تب تو ان خلافِ شرع کسی بات میں ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی ؛ لیکن نیکی کے ہر کام میں ان کی اطاعت مطلوب ہوگی ، اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا ہے : ’’ اللہ کی نافرمانی میں کسی کی بھی اطاعت نہیں ‘‘ ۔ ( مسند احمد : ۵؍۶۶)
سورہ احقاف کی آیت نمبر : ۱۰ میں ہے :
اور ہم نے اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف جھیل کر جنا ، اس کے حمل اور اس کے دُودھ چھڑانے کا زمانہ تیس ماہ کا ہے ، یہاں تک کہ جب وہ اپنی پختگی اور چالیس سال کی عمر کو پہنچ گیا تو کہنے لگا : اے میرے پروردگار مجھے توفیق دے کہ میں تیری اُس نعمت کا شکر بجالاؤں جو تونے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کی ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک عمل کروں جن سے تو خوش ہوجائے اور تو میری اولاد بھی صالح بنا ، میں تیری طرف رُجوع کرتا ہوں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں ۔
سورہ لقمان کی آیت نمبر : ۱۴ میں ہے :
ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے بارے میں نصیحت کی ہے ، اس کی ماں نے دُکھ پر دُکھ اُٹھاکر اسے حمل میں رکھا اور اس کا دُودھ چڑھانا دو سال میں ہوا کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کا شکر بجالاؤ ، تم سب کو میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے اور ماں باپ اگر تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ دوسرے کو شریک کرے جس کا تجھے علم نہیں ہے ( اور خلاف شرع بات اور حق تلفی وغیرہ کا حکم دیں ) تو ان کا کہنا نہ مانو ، ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا ؛ البتہ ان لوگوں کی روش اختیار کرنا جو میری طرف جھکنے والے ( اور حکم خداوندی کے مطابق عمل کرنے والے ہوں ) تم سب کا میری ہی طرف لوٹنا ہے ، تم (اس دنیا میں ) جو کچھ کرتے ہو ، (شریعت کے مطابق یا اس کے خلاف ) اس سے پھر ہم تمہیں خبردار کردیں گے ۔
حدیث میں آتا ہے کہ :
ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور دریافت کیا کہ میرے حسن صحبت اور اچھے سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے ؟ اے اللہ کے رسول ! تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تیری ماں ، اس نے کہا : پھر اس کے بعد کون ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ماں ، اس نے پھر تیسری مرتبہ دریافت کیا کہ پھر اس کے بعد کون ؟ تو آپ ﷺنے اس بار بھی فرمایا تیری ماں ، پھر چوتھی مرتبہ میں آپ ﷺ نے فرمایا : تیرا باپ ۔
مسند بزار کی روایت میں ہے کہ ایک شخص اپنی ضعیف و ناتواں بوڑھی ماں کو کندھے پر اُٹھائے طواف کررہا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے دریافت کیا کہ کیا تم نے ماں کا حق ادا کردیا تو اس نے کہا نہیں ، ان کی ایک سانس کا بھی حق ادا نہیں کرسکا ہوں ، یعنی حمل وولادت کے وقت اور اولاد کی راحت کے لئے مشقت برداشت کرتے وقت نکلنے والی سانس و کراہنے کی ایک آواز کا بھی حق ادا نہیں کرسکا ہوں ۔
دوسری روایت میں یہ واقعہ اس طرح موقوفا ہے : کہ یمن سے ایک شخص حج کے لئے مکہ آیا وہ اپنی ایک ضعیف بوڑھی ماں کو گردن پر اُٹھائے کعبۃ اللہ کا طواف کررہا تھا ، جب حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے اسے دیکھا تو اس سے پوچھا ، تیرا کیا گمان ہے ، تونے اپنی ماں کی خدمت و فرمانبرداری کا حق ادا کردیا ، اس نے جواب دیا نہیں ہرگز نہیں ، میں نے ان کی تکلیف کی ایک سسکی ، آہ ، اور ایک سانس کا بھی حق ادا نہیں کرسکا ہوں ، واقعی ماں اپنے بچوں کو بڑی تکلیف سے پالتی پوستی اور بڑا کرتی ہے ، بچوں کی راحت کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردیتی ہے ، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اولاد کو ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا پابند بنا اور انھیں تکلیف پہنچانے سے سختی سے نہ صرف منع کیا ہے ؛ بلکہ اس پر وعیدوں کا ذکر کیا ہے ۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
اس شخص کی ناک خاک آلود ہو ، اس شخص کی ناک خاک آلود ہو ، اس شخص کی ناک خاک آلود ہو ، صحابہ نے عرض کیا : کس کی اے اللہ کے رسول ! تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے اپنے والدین کو یاان میں سے ایک کو بڑھاپے میں پایا پھر وہ انھیں جنت میں داخل نہ کرسکیں ، یعنی ان کی خدمت نہ کرکے ۔ (مسلم ، بر وصلہ )
صحابہ کا مقام و مرتبہ اتنا بلند ہے کہ کوئی کتنا ہی بڑا اللہ کا ولی کیوں نہ بن جائے ایک معمولی درجہ کے صحابہ کے گرد و پا کے برابر نہیں ہوسکتا ، مگر رسول اللہ ﷺ نے اویس قرنی ؒ کو ماں کی خدمت پر مامور کرکے اپنے پاس آنے سے منع کردیا اور وہ اس شرف سے محروم رہے ، یہ اور بات ہے کہ اطاعت رسول کی وجہ سے ان کا مقام اللہ کے نبی ﷺ کی دُعاء کی وجہ سے اتنا بلند ہوا کہ حضرت علی وعمررضی اللہ عنہما کو بھی رسول اللہ ﷺ نے ان سے دُعا کرانے کے لئے کہا تھا ۔
ماں کی فرمانبرداری کا مطلب ہے ان کے ساتھ حسن سلوک ، ان کی عزت و احترام کرنا ، ان کے سامنے فرش راہ بنے رہنا اورمعصیت و خلاف شرع باتوں کے علاوہ میں ان کی فرمانبرداری کرنا اور ان کی رضا و خوشنودی کا متلاشی رہنا ۔
ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ میں جہاد میں شرکت کرنا چاہتا ہوں ، آپ کے پاس آپ سے مشورہ لینے آیا ہوں ، تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تیری ماہ زندہ ہے ؟ اس نے کہا ہاں ، تو اللہ کے نبی ﷺنے اسے حکم دیا کہ ماں کو لازم پکڑو ؛ کیوںکہ جنت ماں کے قدموں کے پاس ہے ۔
اسلام سے پہلے کے ادیان و مذاہب میں ماں کے رشتے کی کوئی اہمیت نہیں تھی ؛ بلکہ زمانۂ جاہلیت میں ماں میراث میں بڑے لڑکے کی طرف منتقل ہوا کرتی تھی ، اسلام نے آکر ان کی ناقدری کا نہ صرف خاتمہ کیا ؛ بلکہ خالہ و ماموں ، چچا اور پھوپھی کو بھی اونچا مقام دیا اور ان کے ساتھ بھی ماں ہی کی طرح حسن سلوک کرتے رہنے کی ہدایت دی ۔
حدیث کے اندر ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ، مجھ سے گناہ کا صدور ہوگیا ہے ، کیا میں توبہ کرسکتا اور میری توبہ قبول ہوسکتی ہے ، تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : کیا تیری ماں زندہ ہے ؟ اس نے کہا نہیں ، تو رسول اللہ ﷺ نے اشاد فرمایا : کیا تیری خالہ ہے ؟ تو اس نے کہا ہاں ہے ، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جا ان کی فرمانبرداری اور ان کے ساتھ حسن سلوک کر ۔
یہ اسلام ہی کا امتیاز اور اسی کی خصوصیت ہے کہ اس نے ہر حال میں ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے ، خواہ وہ مشرک و بت پرست ہی کیوں نہ ہو ۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کی صاحبزادی ، اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کی بڑی بہن حضرت اسماءؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اپنی مشرکہ ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں سوال کیا ، جب کہ وہ اپنی بچی سے ملنے مدینہ ان کے پاس آئی تھیں ، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ، ان کے ساتھ صلہ رحمی اور حسن سلوک کا برتاؤ کرو ۔
ماں کا اپنی اولاد کے ساتھ جو فطری لگاؤ ، والہانہ تعلق اور بے لوث محبت و شفقت ہوتی ہے ، اسی کے پیش نظر اسلام نے ماں کو چھوٹے بچے کی پرورش اور اپنے پاس رکھنے کا حق دیا ہے ؛ جب کہ ماں باپ کے درمیان علاحدگی ہوگئی ہو ۔
ایک خاتون رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور کہا :یا رسول اللہ ! میرا یہ بیٹا ہے ، میرا پیٹ اس کے لئے تھیلی تھی ، میری چھاتی اس کے لئے مشکیزہ ( سیرابی کا ذریعہ ) تھا ، میری گود اس کے لئے محفوظ آغوش تھا ، پھر اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی اور اب وہ اسے مجھ سے چھیننا چاہتا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اس کی زیادہ حقدار ہو جب تک کہ تم دوسری شادی نہ کرلیتی ہو ۔
اسلام نے ماں کو یہ مقام و مرتبہ عطا کیا ہے ، اس کا تقاضہ ہے ؛ بلکہ ماں پر واجب ہے کہ وہ اولاد کی دینی و اسلامی خطوط پر تربیت کرے ، دینی تعلیم سے اولاد کو آراستہ کرے ، غلط صحبتوں سے اسے بچائے ، بُرے اور حرام کاریوں میں مبتلا لوگوں کے ماحول میں جانے اُٹھنے بیٹھنے اور ان کے عادات و اطوار اپنانے سے بچائے ، ان میں اونچے اقدار و اخلاق کا بیج بوئے ، گھٹیے سوچ اور گھٹیے کردار سے محفوظ رکھے ، اللہ کے حکم پر عمل کرنے کی فہمائش کرے ، دین پر چلنے کی حوصلہ افزائی کرے ، انھیں خلاف شرع باتوں سے روکے ، دوسروں کے حقوق غصب کرنے اور واجبات کو نظر انداز کرنے سے منع کرے نہ کہ خود اس طرح کے خلاف شرع باتوں پر اُکسائے اورحوصلہ افزائی کرکے ، اس کی عاقبت برباد کرنے اور اسے جہنم کا ایندھن بننے کے لئے نہ چھوڑدے ۔
ماں کے مقام و مرتبہ کا اندازہ اس حدیث سے بھی کیا جاسکتا ہے جسے امام بخاریؒ نے کتاب التہجد ، کتاب الایمان ، کتاب الانبیاء اور دوسرے مقامات پر ذکر کیا ہے ، حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : گود میں تین بچوں کے سوا اور کسی نے گفتگو نہیں کی ، ایک عیسیٰ علیہ السلام ، دوسرے بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جن کا نام جریج راہب تھا ، وہ نماز پڑھ رہے تھے کہ ان کی ماں ان کے پاس آئی اور جریج کہہ کر ان کو پکارا یہ اپنے دل دل میں کہنے لگے کہ میں نماز جاری رکھوں یا ماں کا جواب دوں ؟ انھوں نے جواب نہیں دیا ، اس طرح ماں نے تین بار پکارا اور انھوں نے جواب نہیں دیا ، ماں نے خفا ہوکر بددُعا کی کہ اے اللہ اسے اس وقت تک موت نہ آئے جب تک کہ کسی زانیہ عورت کا چہرہ نہ دیکھ لے یعنی اس سے سابقہ نہ پڑجائے ، پھر ایسا ہوا کہ جریج اپنے عبادت خانہ کے بالائی منزل پر تھا کہ ایک فاحشہ عورت جو حسین و جمیل صحت مند تھی اور بکریاں چراتی تھی ، اس کے پاس آئی اور ان سے گفتگو کی یعنی بدکاری کرنے کا اظہار کیا اور وہ اس عبادت خانے میں اکثر عبادت کے لئے آتی رہتی تھی ، جریج نے اس کی خواہش پوری کرنے سے انکار کردیا ، وہ یک چرواہے کہ پاس گئی اور اسے اپنے اوپر قابو دیا یعنی بدکاری کرنے کی ، وہ حاملہ ہوگئی اور اس سے ایک لڑکا پیدا ہوا ، سماج میں ہنگامہ شروع ہوا اور لوگوں نے اس سے پوچھا کہ یہ لڑکا کس کا ہے ؟ تو اس عورت نے کہا جریج نامی راہب کا ہے ، لوگ جریج کے پاس آئے ، ان کے عبادت خانے کو ڈھا دیا اور انھیں نیچے اُتار کر انھیں زد و کوب کیا ، گالیاں دیں ، جریج نے وضوء کیا ، نماز پڑھا اور اللہ سے اپنی صفائی کے لئے دُعا ء کی ، پھر وہ لڑکے کے پاس آئے اور پوچھا ، اے لڑکے بتا تیرا باپ کون ہے ؟ لڑکا اللہ کے حکم سے بول پڑا کہ میرا باپ فلاں چرواہا ہے ، یہ کرامت دیکھ کر لوگ شرمندہ ہوئے اور جریج سے کہنے لگے ، ہم آپ کا عبادت خانہ سونے کا بنادیتے ہیں ، جریج نے کہا نہیں صرف مٹی کا بنادو ۔
تیسرا واقعہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل ہی کی ایک عورت تھی جو اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی ، اتنے میں اس عورت کے پاس سے ایک سوار نہایت وجیہ خوش وضع بڑے آب و تاب سے گذرا ، عورت اس کو دیکھ کر کہنے اور دُعاء کرنے لگی کہ اے اللہ میرے اس بچے کو اسی سوار جیسا بنادے ، یہ سنتے ہی اس بچے نے ماں کی چھاتی چھوڑ دی اور سوار کی طرف رُخ کیا اور اللہ کے حکم سے بول اُٹھا کہ اے اللہ مجھے اس سوار جیسا مت بنا ، بچہ اتنا کہنے کے بعداپنی ماں کی چھاتی پر منھ رکھ کر دُودھ چوسنے لگا ، پھر ایک باندی اس کے قریب سے گذری جسے لوگ مار رہے تھے تو اس عورت نے دُعا کی کہ اے اللہ میرے اس بیٹے کو اس جیسا نہ بنانا ، پھر بچے نے پستان چھوڑ دیا اور کہنے لگا ، اے اللہ مجھے اسی جیسا بنادے ، اس وقت ماں نے اپنے اس معصوم شیر خوار بچے سے پوچھا کس وجہ سے ؟ تو خوش وضع خوبصورت سوار کی طرح نہیں بننا چاہتا اور اس ذلیل و خوار معمولی باندی کی طرح بننا چاہتا ہے ، بچے نے کہا وہ سوار ظالموں اور جابروں میں سے ایک ظالم و جابر شخص تھا اور یہ بیچاری باندی بالکل بے قصور اور اللہ کی محبوب ہے ، لوگ اس پر جھوٹی تہمت لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم نے چوری کی اورزنا کی ؛ حالاںکہ اس نے کچھ نہ کیا اور وہ پاکدامن و مقرب الی اللہ ہے ۔
اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد اللہ کے نبی ﷺ نے یہ بھی فرمایا : ’’ لو کان جریج فقیھا لعلم أن إجابۃ أمہ أولی من عبادۃ ربہ ‘‘ (اگر جریج فقیہ ہوتے تو انھیں معلوم ہوتا کہ ماں کے بلانے پر لبیک کہنا اور ان کا جواب دینا ، رب کی نفلی عبادت سے بہتر ہے ) — اسی لئے محدثین و فقہاء نے کہا ہے کہ ماں کے بلانے پر فرض نماز تو نہیں البتہ نفلی نماز توڑ دی جاسکتی ہے ۔
ہماری شریعت نے ہم پر واضح کردیا ہے کہ جشن منانے کے لئے اسلام میں صرف دو دن ہیں : ’’ عید الفطر و عید الاضحی ‘‘ ان دونوں کے علاوہ کوئی بھی جشن منانے کا دن غیر اسلامی ہے ، نیز اس میں غیر مسلموں کی مشابہت بھی ہے ، جس سے اسلام نے سختی سے روکا ہے ، اس لئے ’ یوم مادر ‘ یا ’ مدر ڈے ‘ منانا دین میں پیدا کی ہوئی نئی بات ہے جسے مسترد کرنا ہر مسلمان کا فریضہ ہے ، اس جشن کو منانے اورمدر ڈے کو عالمی دن کے طورپر قبول کرنے میں یہود و نصاریٰ کی موافقت بھی ہے کہ جیسے ہم ان کے اعیاد کو اپنا رہے اور قبول کررہے ہوں ، جب کہ اسلام نے ان کی مشابہت اختیار کرنے سے نہ صرف منع کیا ہے ؛ بلکہ سختی سے مخالفت کرنے کو کہا ہے ، اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’ مدر ڈے ‘ کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ، اس کا ثبوت کتاب و سنت میں تو ہے ہی نہیں ، انبیاء سابقین کے ادیان و مذاہب اور ان کی شریعتوں اور تعلیمات میں بھی اس کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا ، اس لئے مسلمانوں کو اس سے بچنا اور سمجھنا چاہئے کہ ہمارے لئے ہمارا اسلام اس کی تعلیمات اور اس کی تہذیب و ثقافت ہی کافی ہے ، ہمیں اغیار کے کلچر کو اپنانے کی ضرورت نہیں ، اس کی ضرورت انھیں ہے جن کے یہاں ماں باپ کی کوئی قدر و قیمت نہیں اور انھیں بڑھاپے میں جب کہ انھیں سہارے کی ضرورت ہوتی ہے ، انھیں اولڈ ایچ سنٹروں میں ڈال دیا جاتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی اس رسم و بدعت منکرہ سے حفاظت فرمائے اور ماں کی قدر کرنے کی توفیق دے ، آمین ۔

= = =

Comments are closed.