صدقہ فطر نکالنے میں اپنی حیثیت کا خیال  رکھیں

 

ڈاکٹر جہاں گیر حسن مصباحی

اس میں دورائے نہیں کہ رمضان دین اور دنیا دونوں اعتبارسے ایک پُربہاراور مقدس مہینہ ہے۔ اس پُرنور مہینے کے حسنات وبرکات سے کون واقف نہیں؟ چھوٹی چھوٹی نیکیوں کے بدلے غیرمعمولی اجر اِسی مبارک مہینے کی برکت سے حاصل ہوتا ہے، اور یہ بات بھی ہم بندوں کے لیے کسی معراج سے کم نہیں کہ رمضان میں روزہ رکھنے کا اجر خود اللہ تعالیٰ اپنے دست خاص سےعطا فرماتا ہے، جیساکہ حدیث قدسی ہے: اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ روزہ میرے لیےہے اور میں ہی اُس کا اجر دوںگا۔ (بخاری،حدیث:۱۹۰۴)

اِس ماہِ مقدس میں روزہ، سحری، افطار، تراویح، اعتکاف، شب قدراورتلاوت جیسے نیک اعمال کے ساتھ صدقہ فطر بھی ایک بنیادی اور قابل توجہ عمل ہے،لیکن افسوس کہ صدقہ فطر کے معاملے میں ہم لوگ بڑی سردمہری کے شکار رہتے ہیں۔ مثال کے طورپر سحر و افطار کے لیے  ایک سے بڑھ کر ایک لذیذ پکوان، انتہائی مقوی اور قوت بخش پھلوں کا بندوبست، اورپُرسکون تراویح کے لیے ہوادار کولر اور اِے.سی. کا بہترین انتظام کیا جاتا ہے، یہ بڑی اچھی بات ہے کہ سحر و افطار اور تراویح میں اللہ تعالیٰ کی جدید ترین نعمتوں سے خوب خوب فائدہ حاصل کیا جاتا ہے،لیکن جب صدقہ فطر کی باری آتی ہے تو ہم اللہ کی مقوی اور قوت بخش نعمتوں کو کیوں  بھول جاتے ہیں اور محض گیہوں ہی کیوں یاد رہتا ہے، جب کہ حدیث پاک میں گیہوں کا کہیں ذکر نہیں ہے بلکہ اُمت کی سہولت کے پیش نظر علما و فقہا نے گیہوں کو مشروع قرار دیا ہے، اور صدقہ فطر سے متعلق دوسری اشیا مثلاً: کشمش، منقیٰ، کھجور،چھوہارے کیوں یاد نہیں رہتے جن کا ذکر صراحت کے ساتھ حدیث پاک میں موجود ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟

ہمارے خیال میں صدقہ فطر کی ادائیگی کے وقت صاحب ثروت اور صاحب حیثیت افراد اِس پر ضرور غورکریں کہ کشمش- منقیٰ اور  کھجور-چھوہارے کے مقابلے گیہوں کی کیا حیثیت ہے؟ اورکیا وہ کھانے پینے کے معاملے میں گیہوں کی بہ نسبت وہ منقیٰ-کشمش کو زیادہ  اہمیت نہیں دیتے؟  دیتے ہیں اور یقیناً دیتے ہیں، پھر جب صدقہ فطر کی باری آتی ہے تو وہ گیہوں ہی پر کیوں اکتفاکرتے ہیں اورکشمش ومنقیٰ یا کجھور- چھوہارے وغیرہ اشیا کی قیمت صدقہ فطر کے طور پر کیوں نہیں دیتے؟

اِس لیے ہمارا  ماننا ہے کہ ہم میں سے میں جو جس حثییت کا مالک ہے وہ اسی اعتبار سے صدقہ فطر نکالے،ہم نے اس کو تین خانوں میں تقسیم کیا ہے، مثلاً:

۱۔ عوام: جس کی آمدنی دس پندرہ ہزارماہانہ سےتیس ہزار تک ہو۔ یہ لوگ گیہوں، جَو/اُن کی قیمت ادا کریں۔

۲۔ خواص: جس کی آمدنی پچاس ہزارماہانہ سےڈیڑھ دولاکھ تک ہو۔ یہ لوگ کھجور، چھوہارہ/ اُن کی قیمت ادا کریں۔

۳۔ اخص الخواص: جس کی آمدنی ایک لاکھ ماہانہ سے زیادہ ہو۔ یہ لوگ منقیٰ، کشمش، پنیر/ اُن کی قیمت ادا کریں۔

اِنتباہ: یاد رہے کہ گھر کا ہرفرد توایک طرح کماتا نہیں ، اس لیے گھرمیں جتنے کمانے والے ہوں اور جس قدر کمانے والے ہوں اُسی اعتبار سے صدقہ فطر نکالیں، مثلاً: ایک فرد کمانے والا ہے تو وہ ایک فرد اپنی آمدنی کے مطابق صدقہ فطر نکالے اور باقی مروجہ صدقہ فطر نکالے۔لیکن گھر میں دیگر افراد بھی حیثیت والا ہےاور اُن کے پاس جمع پونجی ہے  تو وہ بھی اپنی حیثیت کے مطابق بھی صدقہ فطر نکالیں۔

اِس طرح صدقہ فطر نکالنے کے دو فائدے ہیں:

۱۔ حدیث پاک پر لفظ اور معنی    دونوں اعتبار سےعمل ہوگا۔

۲۔ صدقہ فطر کا جو اصل مقصد ہے کہ اُس سے محتاجوں کی حاجتیں پوری ہوں تو یہ بھی مقصد پورا ہوجائےگا۔ 

پھر صدقہ فطر دیتے وقت یہ بات بھی بطورخاص یاد رکھنا چاہیے کہ کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں جو باوجود کہ حاجتمند ہوتے ہیں مگر  وہ حیا اور غیرت کے مارےدست سوال دراز نہیں کرپاتے، اور کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں جن کا پیشہ ہی ہاتھ پھیلانا اورذخیرہ اندوزی کرنا ہوتا ہے، چنانچہ ایسی صورت میں دینی، سماجی اور اخلاقی اعتبارسے مسلمانوں کے اوپر ایک اور اضافی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اُن غیرتمند افراد کو تلاش کریں جو محتاج ہونے کے باوجود سوال نہیں کرپاتے، اور اُن کی حاجتیں بھی ہم اس طورپر پوری کریں کہ اُن کی غیرت وحمیت پر کوئی آنچ نہ آنے پائےکہ ایک مومن کی عزت کی حفاظت بہرحال واجب ہے۔  مزید اللہ تعالیٰ کا یہ بھی ارشاد ہےکہ اگر تم صدقات و خیرات ا علانیہ طور پر دو توبھی درست ہے، لیکن اگر پوشیدہ طور پر حاجتمندوں کو دو، تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے، اس سے اللہ تمہارے گناہ کو مٹادے گا اور اللہ کو تمہارے سب کاموں کی خبر ہے۔ (بقرہ:۲۷۱)

پھر بےشک ظاہراً صدقات وخیرات کرنا بھی درست ہے لیکن خفیہ طور پر محتاجوں کی حاجتیں پوری کرنا زیادہ بہتر اور پسندیدہ عمل ہے، کیوں کہ پہلی والی صورت میں ریاکاری اور کبر ونخوت کا اندیشہ ہے جب کہ دوسری صورت میں نہیں۔ یہی وجہ ہے غریبوں اور ناداروں کی حاجتیں پوری کرتے وقت مال داروں کو ریاکاری اور نام و نمائش سے بچنے کی تاکید کی گئی اوریہ ہدایت بھی کی گئی کہ اس حال میں صدقات وخیرات کریں کہ بائیں ہاتھ کوبھی خبر نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا دیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ انسان جب کوئی صدقہ کرے تو اُسے یہاں تک چھپائےکہ بائیں ہاتھ کو معلوم نہ ہوکہ دائیں نے کیا خرچ کیا ہے۔  (بخاری،کتاب الزکاۃ،باب الصدقہ بالیمین)

پھر ایک  مومن کی یہ شان بھی نہیں کہ وہ خود تو پیٹ بھر کر کھائے اورسو جائے،لیکن اُس کا ہمسایہ اور پڑوسی بھوکا رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ وہ شخص مومن نہیں ہے جو خود پیٹ بھر کر کھائے اور اُس کے بازو میں رہنے والا اُس کا پڑوسی بھوکا رہے۔ (شعب الایمان، باب اکرام الجار، حدیث:۹۰۸۹)ا

اور بہترین صدقے کی نشاندہی اِس طور پر کی گئی کہ افضل صدقہ یہ ہے کہ بھوکے کو پیٹ بھر کھلایا جائے۔ (شعب الایمان،باب ماجاء فی اطعام الطعام،حدیث:۳۰۹۵)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ارشادہے کہ اللہ تعالیٰ نے دولتمندوں کے مال میں محتاجوں کے لیے ایک حصہ لازمی طورپر مقرر کررکھا  ہے۔  لہٰذا محتاجوں کویہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی بھوک اور تنگی کو دور کرنے کے لیے دولتمندوں سے بقدرِ حاجت مال حاصل کرتے رہیں، اورایسے دولتمندجو حاجتمندوں کی حاجتوں کا خیال نہیں رکھتے ،قیامت میں اللہ تعالیٰ اُن سے باز پُرس فرمائےگا۔

یعنی محتاج اور نادار لوگ دولتمندوں کے مال میں ایک معقول حق رکھتےہیں، جووہ مالداروں سے بوقت حاجت حاصل کرسکتے  ہیں، اگر دولتمند خوشی سے محتاجوں کایہ حق دیں تو بہتر، ورنہ دولتمند لوگ گنہگار ہوں گے اور قیامت میں اُن کی پکڑبھی ہوگی ۔

غرض کہ صدقات وخیرات کرنا، پڑوسی کا خیال رکھنا اور دولتمندوں کے مال سے محتاجوں کا ایک معقول حصہ دینا تمام  باحیثیت مسلمانوں پر بہرحال لازم ہے مگر بالخصوص رمضان کے دنوں میں اگراِن باتوں پر پابندی سے عمل کیا جائےتو نہ صرف رمضان کے حسنات وبرکات سے ہر مسلمان ایک معقول حصہ حاصل کرلےگا بلکہ خدمت خلق کا جذبہ فروغ پانے کے ساتھ انسانی ہمدردی کی فضا بھی قائم ہوگی۔ (ان شاءاللہ) (ایڈیٹر ماہنامہ خضرراہ، الہ آباد،9910865854)

Comments are closed.