ایک دن میں ایک زمانہ گزر گیا

محمد برہان الدین قاسمی
ڈائریکٹر: مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر، ممبئی
ہم ممبئی والے رمضان میں رات کو عموماً سوتے نہیں. آج مجھے فجر کے بعد سونے کی غرض سے لیٹنے کے با وجود پتہ نہیں کیوں نیند بالکل نہیں آرہی تھی. تقریباً صبح ساڑھے ساتھ بجے (19 مئی 2020, مطابق 25 رمضان المبارک 1441ھ) مومن نگر سے ایک صاحب کا فون آیا جن سے گزشتہ رات ساڑھے بارہ بجے ہی حضرت مفتی صاحب کی صحت کے تعلق سے بات ہوئی تھی اور وہ ہمیشہ حضرت کی تیمارداری میں ساتھ رہتے ہیں، انہوں نے اطلاع دی کہ حضرت مفتی سعید الرحمٰن صاحب پالنپوری (رح) اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں. انا للہ وانا الیہ راجعون.
میں نے مزید تحقیق کے بعد کچھ خاص افراد کو اطلاع دینے کے لئے فون کردیا. بعدازاں عمومی اطلاع کے لئے انگریزی میں ایک پیغام ٹائپ کر کے سوشل میڈیا پر خبر پوسٹ کردی.ہمارے بس میں دعاء کرنے کے علاوہ اور کچھ تھا بھی نہیں.
مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر اور ابنائے قدیم مرکز المعارف کے واٹس ایپ گروپ، جس میں دنیا بھر سے فضلاء دارالعلوم اور حضرت مفتی صاحب (رح) کے تلامذہ جڑے ہوئے ہیں، نے با قاعدہ تلاوت قرآن پاک کا سلسلہ شروع کیا جو الحمدللہ دن بھر جاری رہا اور تادم تحریر بھی جاری ہے.
جوگیشوری میں اوشیواڑہ مسلم قبرستان مرکز المعارف سے بالکل متصل ہے. تقریباً گیارہ بجے ہم کچھ اساتذہ و ذمہ داران قبرستان گئے تو پتہ چلا قبر کی تیاری میں ضرورت سے زیادہ دیر ہورہی ہے اور باہر ہمارے کچھ طلباء جو تالابندی میں گھر نہیں جا پائے تھے گیٹ کے آس پاس کھڑے ہیں. قبر پر کام کرنے والے مزدور موجود نہیں تھےاور چونکہ قبر کو دس فٹ گہرا بنانا تھا، مزید یہ کہ قبرستان پتھریلی زمین پر ہونے کی وجہ سے ڈریل مشن کی بھی ضرورت پڑھ رہی تھی اس لئے کچھ پریشانی ہورہی تھی. مرکز المعارف کے کچھ اساتذہ مع کچھ طلباء کوشش کر کے اندر گئے، دوسرے رضاکاروں، خاص طور پر مومن نگر کے ساتھیوں کے ساتھ مل کر قبر بنانے میں مدد کی اور تقریباً 3 بجے قبر تیار ہوئی۔
اس وقت تک آس پاس اور قبرستان کے اندر بھی سرکاری اجازت کے اعتبار سے جتنے لوگ ہونے چاہیے تھے اس سے کہیں زیادہ بھیڑ جمع ہوگئی تھی. سینئر پولیس انسپکٹر خود آئے اور تاکیدا کہا کہ بغیر پی پی ای والے تمام افراد باہر چلے جائیں. مجبوراً تین چار کے علاوہ سب کو باہر آنا پڑا. پھر بھی کافی لوگ باہر روڈ اور آس پاس کی دکانوں میں انتظار کر رہے تھے.مجھے ایک ساتھی نے تقریباً پانچ بجے فون کیا کہ جنازہ ہاسپٹل سے لیکر نکل چکے ہیں اس لئے ہم قبرستان کے گیٹ پر پہلے سے آگئے تھے. پولیس نے کچھ پچیس سے تیس لوگوں کو شرکت کی اجازت دی جو جنازہ اور تدفین میں شریک ہوپائے۔ حضرت کا جسم کچھ مخصوص طریقہ سے پیک تھا، میت کا کفن کھولنے اور چہرہ مبارک کو دیکھنے کی اجازت نہیں تھی اور نہ ایسا کرنا مناسب تھا. نماز جنازہ حضرت مفتی صاحب (رح) کے بڑے صاحب زادے مولانا احمد سعید صاحب نے پڑھائی. اللہ کے فضل وکرم سے تمام امور شرعی طریقہ پر انجام پائے. تقریباً چھ بجے شام کو ہمارے محبوب استاذ محترم سپرد خاک ہو گئے۔ گویا آج ایک دن میں ہمارے سامنے ہی پورا ایک زمانہ گزر گیا ۔
ہم مرکز المعارف، ممبئی کے خدام کے لئے اس غم میں بھی گویا ایک نعمت مل گئی ہے کہ ہم سب کے مشفق استاذ، دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اور صدر المدرسین ہمارے ہی قریب میں مقبور ہیں، جس طرح دارالعلوم کے طلباء و اساتذہ مزار قاسمی میں زیارت کے لئے جاتے ہیں مرکز المعارف کے افراد بھی اب اپنے استاذ کے ایصال ثواب کیلئے مزید پابندی اور لگن کے ساتھ اوشیواڑہ مسلم قبرستان جایا کریں گے انشاءاللہ.
اللہ سبحانہ و تعالیٰ حضرت الاستاذ کی قبر کو اپنے نور سے منور فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام پر فائز فرمائے، دارالعلوم اور ہم سب کو ان کے نعم البدل عنایت فرمائے، نیز ان کے آل اولاد کو صبر جمیل عطا فرمائے- آمین والسلا م
25 رمضان المبارک 1442 ھج مطابق 19 مئی 2020

Comments are closed.