میرے ہی لہوپرگزراوقات کروہو

محمدجمیل اختر جلیلی ندوی
دنیاوی اعتبارسے دیکھیں توانسان کی بنیادی ضرورتیں تین چیزوں کوقراردیاگیاہے، روٹی ، کپڑا اورمکان، روٹی انسان کے آتش بھوک کومٹانے کے ساتھ ساتھ اس کی صحت وتندرستی اورطاقت وقوت کاذریعہ بنتی ہے، کپڑاجسم انسانی کوچھپانے کے ساتھ ساتھ سردوگرم سے حفاظت اورزینت وزیبائش کاسبب بنتاہے اورمکان ایک ایساٹھکانہ ہوتا ہے، جہاں انسان راحت اورسکون کی سانس لیتاہے۔
پوری دنیا انھیں تین چیزوں کے لئے سرگرداں ہیں ، حتی کہ اس کے حصول کے چکرمیں اس ذات کوبھول گئی ہے، جس نے شئیٔ غیرمذکورسے قابل ذکربنایا، پھراس سرگردانی میں امیربھی ہیں اورغریب بھی، امیروں کی سرگردانی ان کے اپنے لحاظ سے ہوتی ہے اورغریب کی سرگردانی ان کے اپنے لحاظ سے، تاہم سرگرداں ہرفرد ہے، سرگردانی کی اسی شدت کی وجہ سے آج کے دورکومادیت کادورکہاجاتاہے۔
امیراوردولت مندلوگ ان تین چیزوں کے حصول کے لئے بڑی بڑی کمپنیاں، فیکٹریاں اورکارخانے بنواتے ہیں اوران میں مختلف قسم کی اشیائے زندگی تیار کروا کر بازار میں فروخت کرواتے ہیں، اس کے ذریعہ سے وہ اپنی بنیادی ضرورتیں فراہم کرتے ہیں، جب کہ غریب انھیں فیکٹریوں، کمپنیوں اورکارخانوں میں محنت ومشقت اورکام کاج کرتے ہیں اوراشیائے زندگی کی تیاری میں ہاتھ بٹاتے ہیں اوراس طرح وہ اپنی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کرتے ہیں۔
ہماراملک ایک کثیرآبادی والاملک ہے؛ لیکن آبادی کے تناسب سے روزگارکی فراہمی کے لئے آزادی کے بعدسے آج تک حکومتی تدابیرنہیں کی گئیں، جس کی وجہ سے ہمارے ملک میں غربت’’ خط افلاس ‘‘ کی نچلی سطح پرپہنچی ہوئی ہے؛ حالاں کہ قدرتی اعتبارسے اس ملک کواتنانوازاگیاہے کہ یہ ملک دوسروں کادست نگربننے کے بجائے دوسروں پر احسان کرنے والابن جائے؛ لیکن اس کے لئے شرط یہی ہے کہ حکومتی توجہ اس کی طرف ہونی چاہئے۔
حکومتی عدم توجہی کے وجہ سے بعض علاقے ایسے ہیں، جہاں روزگارکے نام پرکچھ بھی نہیں، ظاہرہے کہ وہاں کے لوگ اپنی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے بعض ان علاقوں کے لئے رخت سفرباندھتے ہیں، جہاں روزگارکے تعلق سے کچھ کام ہواہے، جہاں فیکٹریاں اورکارخانے ہیں؛ حالاں کہ ان علاقوں کاسفردشوارترین کام ہوتاہے؛ لیکن بنیادی ضرورتوں کاپوراکرنابھی توضروری ہے؛ اس لئے دشواریوں کو برداشت کرناپڑتاہے۔
جن علاقوں میں یہ لوگ جاتے ہیں، بسااوقات ان کے ساتھ علاقائی تعصب بھی برتاجاتاہے، ماضی میں اس تعلق سے بعض علاقوں میں زبردست فسادبھی بھڑکایا گیا ہے، جس کے نتیجہ میں کتنوں کی جان توگئی ہی، کتنوں کواپنی جان بچانے کے لئے ظاہری طورپرہی سہی، مذہب تک بدلنے کاڈھونگ رچاناپڑاہے؛ لیکن کریں توکیاکریں؟ جانابھی توضروری ہوتاہے، نہ جانے کی صورت میں بنیادی ضرورتیں بھی پوری نہیں ہوسکتیں۔
یہ لوگ جب کام کاج کی تلاش میں جاتے ہیں تویہ سوچ کرجاتے ہیں کہ خواہ کتنی بھی آزمائش سے گزرناپڑے، ہم لوٹ کرنہیں آئیں گے، اپنی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے جوبھی کرناپڑے ، ہم ہچکچائیں گے نہیں، پھروہ اس کے لئے دھوپ کی تمازت برداشت کرتے ہیں، زمہریری ہواؤوں کوجھیلتے ہیں، طوفانی بارش کاتحمل کرتے ہیں، ڈانٹ بھی کھاتے ہیں، پھٹکاربھی سنتے ہیں، جسم کاپسینہ بھی بہاتے ہیں، بدن کاخون بھی جلاتے ہیں، خون کے آنسوبھی روتے ہیں، غصہ کاکڑواگھونٹ بھی پیتے ہیں، خواربھی ہوتے ہیں، ماربھی سہتے ہیں، اوریہ سب صرف اس لئے نہیں کرتے کہ وہ اپنی ضرورتوں کی تکمیل کرسکیں؛ بل کہ وہ آپ کی ضرورتیں بھی پوری کرتے ہیں، اس لحاظ سے اگردیکھاجائے تو وہ ہمارے محسن ہوئے، جس کابدلہ ہماری طرف سے کیادیاجاتاہے؟ سال میں ایک دن کا’’یوم مزدور‘‘اوروہ بھی اس طرح کہ اس دن بھی کام سے فراغت نہیں۔
اس وقت ملک میں کورناکی مہاماری ہے اوراس مہاماری سے ہمارے ملک کے دوہی طبقے سب سے زیادہ متاثرہوئے ہیں، ایک مسلم طبقہ اوردوسرا مزدورطبقہ، بقیہ لوگوں کو کوئی ٹینشن نہیں، کوروناان کے لئے ہے ہی نہیں، کوروناصرف انہی دوطبقوں کے لئے ہندوستان میں آیاہے، مسلم طبقہ کے ساتھ تووہ سلوک کیاگیا، جس کی نظیراس ملک کی تاریخ میں نہیں ملتی، ایساہی کچھ مزدورطبقہ کے ساتھ ہوا اوراتفاق یہ ہے کہ اسی دوران ’’یوم مزدور‘‘بھی آیا؛ لیکن گزرگیااوران کے ساتھ ارباب اقتدارکے رویہ میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آیااوراگریہ کہاجائے توبے جانہ ہوگاکہ اس وقت سب سے کورونامہاماری کے شکاریہی طبقہ ہواہے۔
جب سے بغیرسوچے سمجھے ملک بندی کی گئی ہے، اس وقت سے لے کرآج تک مزدوروں کاکوئی پرسان حال نہیں، بڑے بڑے دعوے کئے گئے؛ لیکن یہ دعوے الیکشن کے دعوے کی طرح بالکل کھوکھلے ثابت ہوئے، وہ کھانے پینے کی بھی محتاج ہوگئے، رہنے سہنے کی بھی محتاج ہوگئے، بچے بھوک سے بلبلانے لگے، مرنے لگے؛ لیکن نہ توان کے لئے راشن پانی کاانتظام کیاگیااورناہی گھروں تک آنے کے لئے کوئی سبیل پیدا کی گئی، نتیجہ یہ ہواکہ بے چارے بھوک کے مارے پیدل ہی گھرنکل پڑے، سودوسو کیلو میٹرکے لئے نہیں؛ بل کہ ہزاروں ہزارکیلومیٹرکے لئے، بھوک کی وجہ سے ہی کتنوں کی جان چلی گئی، کتنے بیماری کی تاب نہ لاکرچل بسے، کتنوں نے تھکن سے چورہوکرجان گنوادی، دلخراش منظرتووہ تھا، جب مال گاڑی نے سترہ مزدوروں کے پرخچے اڑادئے؛ لیکن پھربھی حکومت کورحم نہیں آیا؛ حالاں کہ یہ وہی لوگ ہیں، جن کے ووٹوں سے حکومت ملی ہے، وہ بھی دل دوز منظرتھا، جب ٹرکوں میں بیٹھے مزدورایکسی ڈینٹ کی وجہ سے موت کے منھ میں چلے گئے اورکوئی تین چارلوگ نہیں تھے؛ بل کہ پچیس تیس کے قریب تھے، پھربھی حکومت کوترس نہیں آیا اورآئے بھی توکیسے؟ یہ حکومت ہے ہی ظالم ، یہ حکومت ہے ہی خونی اورجس کوظلم اورخون کاچسکالگ جاتاہے، وہ شیرکوخون کی لت لگنے کی طرح ختم نہیں ہوتا؛ تا آں کہ وہ خود ختم ہوجائے۔
کوروناسے اتنے مزدورنہیں مرے ہوںگے، جتنے بھوک، بیماری، خود کشی اورایکسی ڈینٹ وغیرہ سے مرگئے، آخرحکومت ہے کہاں؟ کورونا اورسوشل ڈسٹینسنگ کے نام پرسواری گاڑیوں کی آمدورفت بندکردی گئی ہے؛ لیکن بے حال مزدورکس طرح ٹرکوں میں ٹھسے چلے آرہیں، وہ حکومت کونظرکیوں نہیں آتا؟ حکومت کی آغوش میں بیٹھ کرنیوزچلانے والی میڈیاکویہ تونظرآجاتاہے کہ عیدکی شاپنگ میں سوشل ڈسٹینسنگ کی دھجیاں اڑرہی ہیں؛ لیکن مزدوروں کی حالت انھیں کیوں نظرنہیں آتی؟ عزت مأب وزیرداخلہ کوتین دن کے اندریہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ ان کی بیماری کے تعلق سے جھوٹی خبرپھیلی ہوئی ہے اوراس کی وجہ سے وہ وضاحت کوضروری سمجھتے ہیں؛ لیکن انہی وزیرکوٹرکوں میں ٹھسے ہوئے لوگوں کی تصویریں نظرنہیں آتیں، آخرحکومت چاہتی کیاہے؟ مزدورں کے ساتھ اس طرح کابدبختانہ سلوک کیوں روارکھا گیاہے؟ کیوں حکومت ان کوبے موت مارنے پرتلی ہوئی ہے؟ جومزدورمرگئے، کیااسے صرف ایک ایکسی ڈینٹ قراردے دیاجائے اوربس؟ یا اسے مرڈرکہاجائے؟ یہ توایک طرح سے مرڈرہی ہے، قتل عمدنہ سہی؛ لیکن قتل خطاء سے توانکار نہیں کیاجاسکتا؛ بل کہ شبہ عمد میں شمارکئے جانے کے لائق ہے۔
مزدوروں کی ان اموات پرمعتدل مزاج وکلاء کوچاہئے کہ وہ عالمی عدالت میں مقدمہ دائرکریں اوربعدازمرگ ہی سہی، انھیں انصاف دلانے کی کوشش کریں، بے چارے مزدوروں کے جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں اورحکومت ان پریہ احسان کررہی ہے کہ پیسے وصول کرے گھرتک کے لئے ٹرین مہیاکررہی ہے؛ بل کہ ڈبل احسان یہ کررہی ہے کہ میل وایکسپریس میں راجدھانی کاکرایہ وصول کررہی ہے، بے چارے مزدور، جن کی وجہ سے ملک میں صنعتی ترقی ہوتی ہے، جن کی وجہ سے ملکی معیشت میں اضافہ ہوتاہے، جن کی وجہ سے بڑی بڑی عمارتیں تعمیرہوپاتی ہیں، جن کی وجہ سے صفائی ستھرائی ہوپاتی ہے، ان کے لئے کوئی رعایت نہیں، جب کہ ان لوگوں کے لئے رعایت ہی رعایت ہے، جودولت مندہیں، دولت مندوں کے گھرکے پروردہ ہیں، ان کے لئے جہاز کاسفر مفت ہے اورمزدوروں کے لئے ٹرین کاسفر بھی مفت نہیں۔
ان سب کے ساتھ ساتھ انھیں مزدوروں پرپولیس کاقہربھی برپاہے، لاٹھی ڈنڈے برس رہے ہیں، دوڑایاجارہاہے، ماراجارہاہے، کمال ہے بھئی! ایک توانھیں کھانا نہیں دیتے، انھیں پانی نہیں دیتے، ان کے پاس رہنے کے لئے ٹھکانہ نہیں، کمائی کے ذرائع مسدودہیں، بھلاوہ کیاکریں گے؟ اب اپنے گھربھی نہ جائیں توکیاکریں؟ حکومت توبے حس ہے، مزدوروں کے دردکاانھیں احساس نہیں، ارباب اقتدارکے پاؤوں میں چھالے پڑے ہوتے توسمجھ میں آتا، ان کے بچے بھوک پیاس میں تڑپتے توسمجھ میں آتا؛ لیکن چوں کہ وہ مالدارہیں، مالداروں سے ربط ضبط ہے؛ اس لئے انھیں کوئی پریشانی نہیں، دوسرے جائیں بھاڑمیں، انھیں اس سے کیالینادینا؟
اس پردریدہ دہنی کی حدہے کہ بے چارے کسی طرح گھرجارہے ہیں، انھیں چور اورڈاکوکہاجارہاہے، اگران کے لئے کچھ کرنہیں سکتے توکم از کم ایسی دریدہ دہنی تو نہ کروصاحب! آپ کی کوٹھی بنگلہ، آپ کی گاڑی مرسڈیز، آپ کے کپڑے لتے ، آپ کے جوتے چپل ، حتی کہ آپ کے راشن پانی کا انتظام بھی انھیں مزدوروں کی رہین منت ہیں، انھیں کے خون پسینے کی بدولت ہے صاحب! گر یہ مزدورنہ ہوں توبھوکاننگارہناپڑے گا صاحب، بھوکاننگا، مزدورفخرسے کہہ سکتے ہیںکہ :
میرے ہی لہوپرگزراوقات کروہو
مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کروہو
Comments are closed.