گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی!!

ڈاکٹر آصف لئیق ندوی، مانو، حیدرآباد۔
موبائل:8801589585
ارشاد با ری ٔتعالی ہے ۔جسکا مفہوم ہے: ”ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور خشکی اور تری دونوں کی قوتیں اس کے تابع کردیں کہ اسے اٹھائے پھرتی ہیں اور اچھی چیزیں اس کی روزی کے لیے مہیا کردیں نیز جو مخلوقات ہم نے پیدا کی ہیں، ان میں سے اکثر پر اسے برتری دے دی، پوری برتری جیسی کہ ہونی چاہیے۔” (اسراء ،ترجمان القرآن)
مذکورہ بالا آیت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس کرۂ ارض پر صرف اور صرف آدم اور انکی اولاد کو ہی وہ امتیاز ی فضیلت دی گئی ہے، جو کسی دیگر مخلوقات کو حاصل نہیں، بنی آدم کے اندر علم و معرفت سے محبت، بحث و تحقیق کی فطرت، تلاش وجستجو کی چاہت اور ایجاد واختراع کی صلاحیت ودیعت کی گئی ہے، نفس انسانی، حیات انسانی، کائنات اور اس کے و مظاہر اور تصورات و ملامح کو جاننے کی طلب و رغبت بنی آدم کے ایسے امتیازی کمالات واوصاف ہیں، جن میں کائنات کی دوسری مخلوقات کو ان کا شریک و سہیم نہیں بنایا گیا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے:جسکا ترجمہ ہے: ـــاور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے، پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ ۔(بقرہ)۔ ”اللہ نے آدم پر تمام اشیاء پیش فرمائیں اور بطورِ الہام کے آپ کو ان تمام چیزوں کے نام، کام، صفات، خصوصیات، اصولی علوم اور صنعتیں سکھا دیں”۔(بیضاوی)
اسی فطرت و صلاحیت نے ابتداء آفرینش سے انسان کو غور وخوض، فکر و تدبر، استدلال و استنباط، تجربہ و عمل اور استقراء و اختراع کی طرف مائل کیا، جن سے بحث و تحقیق کا قوام اور ڈھانچہ تیار ہوتا ہے، بحث و تحقیق ہی انسانی معرفت کی وہ اساس ہے بلکہ وہ بنیاد اور منہج ہے جو انسان کو نفس، حیات اور کائنات کے حقائق و دقائق کی چھان بین اور متعدد نتائج اخذ کرنے تک پہنچاتی ہے اور اسے اس کرۂ ارض پر اللہ کا خلیفہ قرار دیتی ہے اور کائنات کا سرتاج بناتی ہے اور بسا اوقات اسے فرشتوں سے بھی بالاتر درجہ عطا کرتی ہے جب انسان ان امتیازی اوصاف سے متصف ہو جو ایک صاحب ایمان اور صالح انسان کے لئے ضروری ہیں، اسی طرح جب وہ اپنی فوقیت و برتری کا سبب تلاش کرلیتا ہے، اپنے خالق و تخلیق اور زندگی کا مقصد ڈھونڈ لیتا ہے اور اس کے مطابق اپنے فرائض و واجبات کو بحسن و خوبی انجام دینے لگتا ہے، تو صحیح معنوں میں انسان اسوقت اپنے مقصدِ تخلیق اور سراغِ زندگی کا ادراک کر لیتا ہے۔ اسی بات کو شاعر مشرق نے کیا ہی خوب انداز میں پیش کیا ہے۔اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی ۔۔۔۔تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
جب ایک انسان اپنی عقل و خرد سے راز کن فکاں، اسرارِ حیات اور تخلیقِ انسانی کے اغراض ومقاصد کو سمجھ جاتا ہے، تو اسی دن سے انسان اور اسکا ضمیر انسانی حقوق اور فرائضِ الہی کی پاسداری کرنے لگتا ہے، اس کی انفرادی و اجتماعی زندگی سے انسانیت اور اس کی ہمدردی و غم خواری کا احساس ٹپکتا ہے، وہ انسانیت کے درد و الم میں تڑپتا ہے، حقیقت میں اسوقت اس کا ضمیر حسن و احسان، ایثار و قربانی، اخوت و رواداری، حسنِ معاملات اور اخلاق حسنہ کا جامع و پیکر ہو جاتا ہے، وہ ایک مہذب ومثقف انسان اور انسانیت کا سچا خیر خواہ بن کر انسانی معاشرے کو ترقی و عروج کی راہ پر سفر کراتا ہے، باہمی یکجہتی، بھائی چارہ اور مساوات کو بلاامتیازِ مذہب و ملت انسانی آبادی میں فروغ دیتا ہے، اور انسانوں میں عمدہ اوصاف و اخلاق کو پروان چڑھاتا رہتا ہے، کبھی صحتمند، قوی اور باصلاحیت قوم کے وجود و استحکام اور تحفظ و بقا کی اجتماعی فکر و کوشش کرتا ہے تو کبھی معاشیات و اقتصادیات اور تعلیمات و اخلاقیات کے پہلوؤں کو مضبوط و مستحکم بنانے کے لیے تگ و دو کرتا ہے، انسانیت کی ہر تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتا ہے، انکی ضرورت کو اپنی ضرورت سمجھ کر پورا کرتا ہے، اور تمام حوائج بشریہ کی تکمیل کے لیے رات و دن ایک کردیتا ہے، مزدوروں کی بھوک و پیاس کو اپنی بھوک و پیاس تصور کرتا ہے، انکے آرام و راحت کو اپنے آرام و راحت پر ترجیح دیتا ہے۔ الغرض کہ وہ انسانیت کی آواز بن جاتا ہے، خواہ وہ کسی ذات اور دھرم کا ہی کیوں نہ ہو خواہ ہندو ہو یا مسلمان۔ لوگ اسکی انسانیت نوازی کے عاشق و مداح ہوجاتے ہیں۔
اسی طرح جب انسان کا ضمیر زندہ ہوجاتا ہے تو وہ انسانی مجتمع اور معاشرے کو بگڑنے سے بھی بچاتا ہے، ظلم و ستم اور فساد و بگاڑ کا خاتمہ بھی کرتا ہے، ملک کے دستور و آئین اور اس پر اپنے حلف و قسم کا بھی پاس و لحاظ کرتا ہے اور سبھی کے حقوق و فرائض کو عادلانہ نظر سے دیکھتا ہے، ملک کی متعدد برادریوں کو ہر گز دو قومی نظریے سے نہیں دیکھتا ہے بلکہ وہ زندہ ضمیر انسان خونی درندوں اور وحشیوں کے ہاتھوں انسانیت کے حقوق کو پامال ہونے سے بھی بچاتا ہے اور حیوانی صفت انسانوں کی پرورش و پرداخت پر سخت سے سخت پابندیاں عائد کرتا ہے، جن کیوجہ سے معاشرہ کی دیگر برائیاں اور جرائم و مظالم خود بخود ناپید ہونے لگتے ہیں، کیونکہ اخلاق و کردار سے ہی انسان اور جانور کے درمیان فرق و امتیاز ہوتا ہے، اگر اچھے اخلاق نہیں! تو پھر انسان اور جانور میں کیا فرق بچتا ہے؟ اچھے اخلاق کے بغیر انسانوں کی جماعت انسانی آبادی نہیں بلکہ حیوانوں کا ریوڑ کہلانے کی مستحق ہوتی ہے، وہ قوم کبھی مہذب قوم نہیں کہلا سکتی! جس کے معاشرے و مجتمع میں نفرت و عداوت، ذات پات، فرقہ پرستی، نسل پرستی، ہندو مسلم بھید بھاؤ، جھوٹ و پھوٹ، چوری و چپاٹی، بے حیائی و بددیانتی، حق تلفی وناانصافی کو کھلے عام رواج دیا جارہا ہو اور بڑے پیمانے پر بلکہ سرکاری سطح پر اسکی ناپاک کوششیں کی جارہی ہو!! نفرت و عداوت کی معاشرے میں ترویج ہورہی ہو اور حاکم وقت خاموش تماشائی بنے ہوئے ہوں؟ ہائے افسوس!! کہاں پہونچ گئی انسانیت!! بڑی ذلت و رسوائی ہے انسانیت کی!! اور کیا ہو گیا ہندوستان کی انسانوں کی بستیوں کو!! ألیس فیکم رجل رشید؟؟ انسانیت کے درد کی سچی ترجمانی کرتے ہوئے کسی شاعر نے کہا ہے!دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسانوں کو۔۔ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں
یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ بلند اخلاق اور اعلی اوصاف ہی قوموں کی حیات و زندگی میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہیں، خواہ وہ کسی قوم کسی بھی مذہب سے کیوں نہ ہو، ہندو ہو یا مسلم قوم! کیونکہ حسن اخلاق اور اچھے اوصاف ہی دنیا کے تمام مذاہب و اقوام کا وہ مشترکہ باب ہے، جن پر سب کا اتفاق ہے، کسی مذہب وقوم کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے! مگر یاد رہے کہ اچھے اخلاق اور بلند پایہ مقام کا حصول بنا تعلیم و تربیت اور انسانیت کے اسباق کے بغیر ناممکن اور محال ہے۔ خواہ اس قوم و مذہب نے بحث و تحقیق، ایجادات اور اختراع و ابداع کے میدان میں بے شمار ترقی ہی کیوں نہ کرلی ہو! بغیر حسن اخلاق اور اوصاف حمیدہ کے وہ قوم زوال پذیر ہے۔ یورپ کی واضح مثال آپ کی آنکھوں کے سامنے ہے، جہاں کثرت سے لوگ سکون دل اور اطمینان قلب کے واسطے اب اسلام کے دامن میں پناہ لے رہے ہیں۔ روز وہاں اسلام کی آبادی کا تناسب ترقی پذیر ہے، مغربی تہذیب کا زوال یقینی ہے۔ وہ تہذیب کب تک انسانیت کی رہنمائی کرسکتی ہے!؟ جس تہذیب کی بنیاد فطرت انسانی پر قائم نہ ہو، یورپ کی تہذیب تو خواہشات انسانی کی بلاحد وقید تکمیل پر مبنی ہے؟!
اخلاق و تعلیم میں یقیناً قوموں کی تعمیر و ترقی اور عظمت و رفعت پنہاں ہے، مگر انکا فطرت سے ہم آہنگ ہونا لازمی شیٔ ہے، جس طرح اخلاق سے عاری قوم بہت جلد انحطاط وزوال کا شکار ہوجاتی ہے اور دنیا میں کوئی اسکا نام لیوا بھی نہیں رہتا، بالکل اسی طرح تعلیم و تربیت کے بغیر بھی کوئی قوم ترقی اور بلندی کے مقام پر نہیں پہنچ سکتی! اور نہ ہی معاصر اقوام میں اپنی کوئی شناخت اور پہچان بنا سکتی ہے! اس قوم اور معاشرے کا صفحہ ہستی سے مٹ جانا بھی یقینی ہوجاتا ہے۔ دنیا میں عروج و ترقی حاصل کرنے والی قوم وہی قوم اور وہی نسل انسانی رہی ہے، جس کے اخلاق بلند اور تعلیم و تحقیق ٹھوس رہی ہو!! کتنی قومیں آئیں اور صفحہ ٔہستی سے مٹ کر رہ گئیں! مگر ہزار گردشِ ایام کے باوجود مسلم قوم کا نام و نشان باقی رہنا کسی آسمانی معجزے اور الہی کرشمے سے کم نہیں ہے! حقیقت میں مسلمانوں کیساتھ خدا کی مدد و اعانت، بلند پایہ اخلاق کی طاقت وقوت اور قرآنی علم و ادب کا جوہر و گوہر اور شریعت مطہرہ کی حقانیت وابدیت کے اثرات و نتائج ہیں۔ جن کی وجہ سے یہ قوم لاکھ تدابیر و حربے کے بعد بھی صفحۂ ہستی سے مٹائی نہیں جا سکی!اور نہ ہی واللہ کبھی مٹائی جاسکتی ہے!جبکہ دوسری قوموں کی ہستیاں نیست ونابود ہوکر رہ گئیں!جو اُسوقت کی سپر پاؤر قومیں تھیں۔ اسی چیلنج کی علامہ اقبال نے ترجمانی کی ہے۔ یونان مصر و روماں سب مٹ گئے جہاں سے۔۔۔۔ اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا
کیونکہ اسلام ہی وہ واحد آسمانی دین اور حقانی مذہب ہے جو اپنی آن بان اور شان کیساتھ ابتک رواں اور دواں ہے۔ اور قیامت تک باقی رہے گا۔ اگرچہ مسلم قوم ماضی اور حال کے آئینے میں اپنے اعمال و اخلاق سے قیادت کے میدان میں عروج و زوال سے ہم کنار ہوتی رہی، مگر دائمی فنا اسکی تقدیر نہیں بنی!اسی طرح تعلیم و ہنر کے میدان میں دوسری قوموں کی بنسبت پچھڑ جانے کیوجہ سے وہ عارضی زوال و انحطاط کا شکار ہوئی!حالانکہ یہ قوم جب تک حامل اوصاف و کمالات رہی تو صدیوں تک دنیا کی انہوں نے حکمرانی کی اور قیادت و سیادت کے میدان میں بھی انسانیت کی بہترین نمائندگی اور خیرخواہی کی۔ جسکی مثال پیش کرنے سے دنیا اور اسکے حکمراں پیش کرنے سے عاجز ہیں، اخلاقی، تعلیمی اور تحقیقی گرواٹ کیوجہ سے آج مسلمان پچھڑے دکھائی دے رہے ہیں جو ہمارے لیے بہت بڑا لمحۂ فکریہ ہے؟ اگرآج بھی ہماری امت کا ہر فرد اپنا محاسبہ شروع کردے اور اسکے اٹھ کھڑا ہوجائے اور اپنی کوتاہیوں، خامیوں اور کمیوں کو پوری کرلے تو زمامِ اقتدار و قیادت انکے ہاتھوں اور قدموں تلے ہونگے!!جسکے لیے انسانیت پھر سے ترستی نظر آرہی ہے! نوجوانو! دنیا آپکی بیداری سے خوف کھارہی ہے!جبکہ آپکی اور آپکی نمایاں قیادت کی انسانیت کو شدید ضرورت ہے!جو تعلیم و تربیت، اخلاق و اوصاف، بحث و تحقیق اور ایجاد و اختراع میں زبردست پیش قدمی کئے بغیر ناممکن ہے!یہی ہماری اور آپکی اصل میراث ہے۔ جس سے ہم مسلمانوں نے اپنی آنکھیں صدیوں قبل بند کرلی ہیں اور غیروں نے ہماری میراث ہم سے چھین لی ہے، وہ علم و تحقیق ہماری ہی تھی جس کی بدولت یورپ نے دنیا پر اب تک راج کیا اور ہم نے کئی بر اعظموں پر صدیوں تک حکمرانی کی ہے، مگرآج عالمی پیمانے پر جب ہم ہر طرح سے کمزور ہوگئے، ایمانی و اخلاقی، علمی و تحقیقی میدان میں کافی پیچھے اور بہت گرتے چلے گئے، تو ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا!مزید ہم سے اب غفلت اور کوتاہی برداشت نہیں ہوسکتی! اپنے خدا کو راضی کیجئے! اپنی کمیاں پوری کیجئے! ورنہ ہمیں اور ہماری نسلوں کو خصوصاً ملک ہندوستان میں کیا بھگتنا پڑے گا! اور ہم کس ڈیٹینشن سینٹر میں ڈال دیے جائیں گے!اور کس کسمپرسی کے عالم میںکس غار کی تہ میں دھکیل دئے جائیں !کہنا مشکل ہے!ہم اور آپ آج کے موجودہ حالات سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگا ہی سکتے ہیں!ہمیں اپنے مستقبل کا لائحہ ٔعمل آج ہی سے طے کرنا ہو گا۔ ہمیں اپنے قیمتی اوقات کو فضولیات اور لغویات سے بچاتے ہوئے تعمیر و ترقی اور تعلیم و تحقیق کا سفر آج ہی سے شروع کرنا ہوگا۔ورنہ۔۔ یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے ۔۔۔۔لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
علامہ اقبال نے مسلمانوں کے موجودہ حالات اور کمزوریوں کی صحیح صحیح نشاندہی کرتے ہوئے بڑی اچھی عکاسی کی ہے، کاش! اس سے ہم سبق حاصل کرلیتے!
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبّر بھی کِیا تُو نے وہ کیا گردُوں تھا تُو جس کا ہے اک ٹُوٹا ہوا تارا
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی کہ تُو گُفتار وہ کردار، تُو ثابت وہ سیّارا
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی ثُریّا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
مگر وہ عِلم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
Comments are closed.