سی اے اے تحریک اور جامعہ! کیا جامعہ کو اس کے ملّیہ اور اسلامیہ ہونے کی سزا دی جارہی ہے؟

عمارہ رضوان – جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی

این ڈی اے دوم میں حکومت کے تیور اوّل روز سے بدلے ہوئے تہے -وہ تو اپنے نظریاتی کرم فرماؤوں کے خاکے میں رنگ بہرنے میں صرف مہروں کی حیثیت سے کا م کر رہے تہے، انہیں اس بات کی بڑی جلدی تہی کہ کس طرح ہندوستان کے نقشے کو بدل دیں، وہ نقشہ جسے گاندہی جی کے ساتھ ساتھ بلا تفریق مذہب وملت ہر ہندوستانی نے دیکہا تہا، ایسا ہندوستان جس میں سب کے حقوق یکساں ہوں، ہر کوئی پوری قوت اور اعتماد کے ساتھ اپنے ہندوستانی ہونے پر فخر کرسکے مگر اس شتربے مہار حکومت کو پارلیمنٹ میں اپنی واضح اکثریت پر ناز تہا، میڈیا کو تو اس نے پہلے ہی دن سے زیر ِ دام کرلیاتہا، بیوروکریسی تو ہروقت حکومت وقت کیابروِ چشم کی طرف دیکہتی تہی کہ آقا حکم فرمائیں اور ہم اس کو نافذ کریں، عدلیہ نے بہی مختلف متنازع فیصلوں سے اپنے وقار کو بٹّہ لگا دیا تہا، اپوژیشن کی کمر میں وہ طاقت ہی نہ بچی تہی جس کے سہارے وہ مزاحمت کرسکیں، ایسے میں حکومت کا شتر بے مہار ہونا کوئی تعجب کی بات نہ تہی.

مودی حکومت نے دوسری بار زمامِ اقتدار سنبہالتے ہی ہندوستانی مسلمانوں کو یکے بعد دیگرے کئی جھٹکے دئے، پارلیمنٹ تو ایسے لگ رہا تہا کہ قانون سازی کی فیکٹری کی شکل اختیار کر گیا ہے، ہر شیسن میں ایک آرڈیننس، قانون کی شکل اختیا ر کر رہا تہا، پہلے تو مسلم خواتین کی مظلومیت کے سہارے طلاق ثلاثہ بل پاس کراکے مسلمانوں کے پرسنل لا میں سیندھ لگائی گئی اور ہندوستانی مسلمان اس فیصلے سے ابہی اُبر بہی نہ پائے تہے کہ کشمیر کے خصوصی اختیار کو ختم کردیا گیا اور اس سے یہ پیغام دیا گیا کہ حکومت ہر فیصلہ لینے میں خود مختار ہے، اسے کسی رائے عامہ کے سہارے کی ضرورت نہیں، اور جب ضرورت ہوگی، نام نہاد میڈیا چینلس کے سہارے رائے عامہ ہموار کرلی جائے گی – دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد رہی سہی کسر عدلیہ کے ہاتہوں پوری کردی گئی جب شواہد اور دلائل کے برخلاف یک طرفہ فیصلہ سنادیا گیا اور مسلم ملت نے بہی اس پر بحالت مجبوری تسلیم کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجہی. کہ چلو کسی طرح سے سہی معاملہ ختم تو ہوا.

ان سب اہم اور تاریخی فیصلوں سے حکومت کے حوصلے اور بلند ہوئے اور اس نے یہ یقین کرلیا کہ اب مسلم قوم میں مزاحمت کی کوئی رمق باقی نہیں ہے، اب تو جو بہی فیصلے کئے جائیں گے اس میں ہم آزاد ہیں، اپوژیشن بہی خواہی نہ خواہی حکومت کا ساتھ دے گی اور ہندوستان کی سب بڑی اقلیت کے سامنے سرِ تسلیم خَم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے، کیونکہ ان کے اندر اتحاد واتفاق کی کیفیت نہیں ہے اور ہرکوئی ”شیخ اپنی اپنی دیکھ” کے فارمولے پر عمل کر رہاہے –

انہیں نہیں معلوم تہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں گرچہ انہوں نے طلبہ تحریک پر پابندی لگارکہی ہے، یونین کے انتخاب نہیں کرائے جاتے کہ کہیں یونین کا اسٹیج طلبہ کے اندر طلبائی سیاست کے ساتھ ساتھ ملکی سیاست کے گُر نہ سکہانے لگے اور وہ بہی اپنے مطالبات ببانگ ِ دہل یونیورسٹی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ حکومت کے ایوانوں کو ہلانے لگیں، ان سب کے باوجود جامعہ کے طلبہ وطالبات اتنے باشعور ہوں گے کہ وہ دستورہند کی روح کو بچانے کے میدان میں آ جائیں گے اور مزاحمت کی وہ تاریخ رقم کریں گے کہ دنیا کی نام ور یونیورسٹیاں بہی اس سبق لینے پر مجبور ہو ں گی،

سی اے اے کے خلاف جامعہ کی تحریک، خالص طلباء تحریک تہی جس نے بعد عوامی تحریک کی شکل اختیارکی – اس تحریک میں جامعہ کے صد فی صد طلبہ شریک تہے، کچھ میدان میں تہے تو کچھ میدان کو سجا رہے تہے اور کچھ میدان کے پیچہے بہی اس تحریک کو قوّت پہونچار ہے تہے. تو کیا دستور ِ ہند کی روح کی بقا ء کے لئیجمہوری جدّوجہد کرنا ایسا کام ہے جو ملک کے خلاف بغاوت ٹہہرے اور وہ چہرے جنہوں نے جامعہ کے بانیان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اس ملک کو گاندہی جی اور مولانا محمد علی جوہر کے ہندوستان کو باقی رکہنے کے لئے پولیس کی لاٹہیاں کہائیں، وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ ان پر بغاوت کا فردِجرم لگایا جائے اور انہیں سلاخوں کے پیچہے ڈہکیل دیا جائے –

یہ تحریک جب اپنے عروج پرتہی اور طلبہ جامعہ کے علاوہ پورے دہلی کے انصاف پسند و حق پسند طلبہ وطالبات کی آواز بن چکی تہی اس وقت ملک وملّت سے وابستہ بہت سے نامور چہرے جامعہ کے اسٹیج کو استعمال کرنے میں اپنا فخر محسوس کرتے تہے اور وہاں تک پہونچنے کے لئے واسطوں کا سہارا لیتے تہے اور پہر اپنے خطابات کے بعد اپنی سوشل میڈیا کی پروفائل پر بڑے فخر سے لگاتے تہے، آج ان کی مجرمانہ خاموشی ہم طلبہ جامعہ کو بہت کھَلتی ہے، وہ کچھ کرنہیں سکتے تو کم ازکم ہمدردی کے دو بول تواپنی زبان ِ مبارک سے نکال سکتے ہیں –

یہ تحریک طلبہ جامعہ نے کسی کی ایما پر نہیں بلکہ اپنی ذمے داری سمجھ کر برپا کی تہی، کیونکہ جامعہ کے ساتھ ملّیہ اور اسلامیہ کے لاحقے نے ہی ہمیں یہ سبق دیاتہا کہ ہم ملک اور ملت سے الگ نہیں رہ سکتے، ملک کا مسئلہ بہی ہمارا مسئلہ ہے اور ملت کا مسئلہ بہی ہمارا مسئلہ. چاہے ملک والے اس کو نہ سمجہیں اور چاہے ملّت کے رہمنا اس کا ادراک نہ کریں. لاک ڈاؤن کے زمانے میں اس تحریک نے ایک وقفہ لیا ہے، کیونکہ ہم قانون کی پاسداری کرنے والے لوگ ہیں، اور قانون پر عمل کرنا ہم اپنے لئے اتنا ہی لازم سمجہتے ہیں جتنا کلاس رومس میں اساتذہ سے گوہر علم کو سمیٹنا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم اپنے ملک کے تئیں اتنے ہی بیدار ہیں – ہم جیتے جی اپنے ملک کی عزت کو خوار ہوتے نہیں دیکھ سکتے، ہم نے تو اپنی ذمے داری بخوبی نبہائی مگر تُف ہے قانون کے ان رکہوالوں پر جنھوں نے اس لا ک ڈاؤن کو دہلی میں کریک ڈاؤن میں تبدیل کردیا ہے، اور رات کے اندہیروں میں جامعہ کے ان سپوتوں کو سلاخوں کے پیچہے ڈہکیل رہے ہیں جنھوں نے صرف اپنی ذمے داری کا ثبوت دیا ہے،جامعہ کے تئیں، اس ملک عزیز کے تئیں اور اس ملت ناگفتہ کے تئیں.

جامعہ کے جو بہی سپوت اس وقت حکومت وقت کے عتاب کا شکارہیں اور انہیں ناکردہ گناہوں میں گرفتار کیا جارہا ہے ، ان سب کو ان کی جرأت رندانہ کی سزا دی جارہی ہے، پولیس کا بیانیہ سراسر نا انصافی پر مبنی ہے، ہاں انہوں نے یہ ضرور جرم کیا ہے کہ ان سب نے ہمیں جامعہ کے قیام کے مقاصد کو دوبارہ پڑہنے پر مجبور کیا اور ہمیں سر اٹہا کر جینا سکہایا. اور میرے خیال سے یہ سب اس کے اقراری مجرم ہوں گے.

*مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بارہویں کی طالبہ ہیں

[email protected]

Comments are closed.