ہاشم پورہ میرٹھ، قتل ِ عام کے33؍ سال بعد

پروفیسر اسلم جمشید پوری
بعض تاریخیں اتنی اہم اور یاد گار ہو جاتی ہیں کہ وہ کلینڈر کے اوراق سے نکل کر لوح دِ ل پر نقش ہو جاتی ہیں۔ان میں کچھ ایسی تاریخیں ہیں جو نہ صرف لوگوں کے ذہن و دل پر نقش ہیں، بلکہ تاریخ کا حصّہ بن چکی ہیں۔ ان میں سے بعض پر ہم فخر کر تے ہیں۔ خوش ہوتے ہیں۔ جشن مناتے ہیں مثلاً 15؍ اگست 1947ء یوم آزادی ، 26؍ جنوری1950 ء یوم جمہوریہ02؍ اکتوبر 1869ء گاندھی جینتی، 25؍ جون 1983ء پہلی بار ہندوستان کی کرکٹ ورلڈ کپ فتح ،02؍ اپریل 2011ء دوسری بار ہندوستان کا ورلڈ کرکٹ کا فاتح بننا ، جیسی تاریخیں ہمیں مسرت آگیں۔ لمحات بخشتی ہیں ۔جبکہ 30۔جنوری 1948مہاتما گاندھی کا قتل، 11؍ اپریل1979 جمشید پورکا تاریخ ساز فساد، 31؍ اکتوبر 1984ء اندرا گاندھی سابق وزیر اعظم کا قتل،21؍مئی 1991راجیو گاندھی کی خود کش بم حملے میں موت، 6؍ دسمبر 1992ء بابری مسجد انہدام، ، 12؍ مارچ 1993ء بمبئی بم دھماکے،11؍ ستمبر 2001 امریکہ پر ہوائی حملہ، 13؍ دسمبر 2001ء ہندوستانی پارلیامنٹ پر دہشت گردانہ حملہ، 17؍ جولائی2005ء لندن بم دھماکہ 26؍نومبر 2008ء ممبئی پر دہشت گردانہ حملہ اور اسی کڑی میں22؍مئی 1987ء ہاشم پورہ، میرٹھ قتل ِعام ، ایسی تاریخیں ہیں ، جنھیں کوئی بھی یاد کرنا نہیں چاہے گا۔ ان میں سے بعض تو ہم پر غیر ممالک کی دہشت گرد تنظیموں کے حملے کی یاد ہیں۔ بعض ہمارے معروف سیاست دانوں کا بے رحمانہ قتل ہے تو بعض ہمارے ملک کی فرقہ پرست تنظیموں اور اداروں کے ذریعہ اقلیتوں کا بے دریغ قتل ہے۔ ایسی تاریخیں ہمارا سر شرم سے جھکا دیتی ہیں اور ہمارے ملک کی سیکولرشبیہ۔ کو نہ صرف داغدار کرتی ہیں بلکہ عالمی سطح پر ہمارے وقار کو بھی مجروح کرتی ہیں۔ 22؍مئی 1987ء ایسی ہی تاریخ ہے، جس سے ہمارے سیکولر کردارپر سوالیہ نشان لگ جاتاہے۔ یہ وہ واقعہ ہے جب اقلیتوں پر ہوئے مظالم نے ظلم کی ساری حدیں توڑ ڈالی تھیں۔
22؍مئی 1987ء رمضان کا الوداع جمعہ ۔ شدید ترین گرمی کے دن ۔ تقریباً ایک ماہ سے میرٹھ کرفیو کی زد میں تھا۔ مسلم محلوں میں افطار وسحر کے کھانے کے سامان کی قلّت ، دودھ اور برف کا بحران ( اس زمانے میں فریج عام نہیں تھے۔ روزہ دار افطار کے وقت برف کا استعمال کرتے تھے) نمازوں پر پابندی ۔ لوگ گھروں میں قید تھے۔ ہر طرف خوف ودہشت کا ماحول تھا۔ ہر وقت دھڑکا لگا رہتاکہ کب ، کس جانب سے کوئی گولی آجائے اورلمحوں میں انسان لقمہء اجل بن جائے۔ سنسان راستے، ویران بازار، غم زدہ محلّے، سسکتے بلکتے بچے، معذورو بیمار ضعیف العمرلوگ۔ ایسے میں 22؍ مئی الوداع جمعہ۔ نماز بھی ادا نہیں ہوئی۔ عصر کا وقت ، افطار کا انتظام کرتے مسلمان۔ پی اے سی نے ہاشم پورہ میں تلاشی شروع کی ۔ چن چن کر نوجوانوں اور صحت مند افراد کو گھروں سے نکال کر ہاپوڑ اڈہ۔بیگم پُل روڈ پر قطار میں ہاتھ اُٹھا کر کھڑاکیا گیا۔ پھر ایک ایک کر کے ٹرکوں میں لاد ا گیا۔ تقریباً 50 افراد ایک ٹرک میںسوار کئے گئے۔ بھوکے پیاسے ، روزے دار، افطار کے انتظار میں مسلمان ایک نامعلوم جگہ لے جائے گئے۔ مراد نگر گنگ نہر کی پٹری پر کچھ دور لے جاکر ٹرک سے لوگوں کو اُتار اُتار کر گولیاں ماری گئیں اور نہر میں بہادیا گیا۔ باقی بچے لوگوں کو لے کر ٹرک پھر چل پڑا اور غازی آباد میں موہن نگر سے آگے بائیں چل کر مکن پور نہر پر جاکے وہی منظر دوبارہ فلمایا گیا۔
میں واضح کردوں کہ اس پورے معاملے کو منظر عام پر لانے ،قانونی چارہ جوئی تک پہنچانے اوراس پر کتاب ’’ہاشم پورہ ۲۲ مئی‘‘ رقم کرکے اسے ملک کی تاریخ کا ہمیشہ کے لیے حصّہ بنانے والے معروف ترقی پسند ہندی ادیب اور سابق آئی پی ایس آفیسر اور حادثے کے وقت غازی آباد کے پولیس کپتان محترم وبھوتی نارائن رائے کے کردار کی ہم سب کو تعریف کرنی چاہیے ۔ یہ وہی وی این رائے تھے ، جن کی کاوش سے مرادنگر گنگ نہر کی پٹری اور مکن پور نہر پر پولیس نے پہنچ کر جائے واقعہ کا معائنہ کیا۔ زخمی زندہ لوگوں کو طبی امداد پہنچائی اورمعاملے میں ایف آئی آر درج کرائی۔ حیرت اورافسوس کی بات تو یہ بھی ہے کہ میرٹھ کے اس بے حد سنگین فرقہ وارانہ واردات قتل کی خبر کئی دن تک اخبارات نے بھی شائع نہیں کی تھی۔ اس طرف پہل دی ہندو ، انڈیا ٹوڈے اور چوتھی دنیا نے کی اور خبر کو مرکزی حیثیت دیتے ہوئے شائع کیا۔محترم وی این رائے نے اس پورے معاملے کو جس قدر باریکی اور قریب سے دیکھا ، محسوس کیا اور سہا ، اس کا کوئی متبادل نہیں۔ وی این رائے نے سروس میں رہتے ہوئے اور بعد میں بھی اس پورے معاملے کے اسباب و علل انتظامیہ کی کاروائی ، گرفتاریاں، قتل عام اور پھر بعد میں ہونے والی کاروائیاں اور خانہ پُری کو ایک سیکولر ہندوستانی ادیب اور انصاف پسند آئی پی ایس آفیسر کی حیثیت سے بیان کیا ہے۔ محترم وی این رائے نے کی اس کتاب کا ہندی سے اردو ترجمہ، دہلی یونیورسٹی کی پروفیسر محترمہ ارجمند آرا نے کیا ہے۔ وی این رائے اپنی کتاب سے قبل تمہید میں ہاشم پورہ واقعہ کے تعلق سے لکھتے ہیں:
’’ہاشم پورہ آزادی کے بعد کی سب سے بڑی کسٹوڈیل کلنگ کی واردات ہے 1984ء کے سکھ فسادات یا نیلّی کا قتل عام بھی ،جس میں پولیس کی موجودگی میں لوگ مارے گئے تھے،ان معنوں میں مختلف ہیں کہ ہاشم پورہ میں نہ صرف مرنے والے پولیس کی حراست میں تھے بلکہ ان کے قاتل بھی پویس والے ہی تھے۔اتنی بڑی تعداد میں پولیس نے پہلے کبھی لوگوں کو اپنی حراست میں لے کر نہیں مارا تھا۔ ‘‘
(ہاشم پورہ ۲۲مئی،وبھوتی نارائن رائے،ص ۱۵۔۱۴،عرشیہ پبلی کیشنز،دہلی،۲۰۱۸)
یہ واقعہ بھی ہے کہ آزاد ہندوستان میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جب پولیس حراست میں ،پولیس والوں کے ذریعہ 42 لوگوں کو مارا گیا ہو۔ آزادی کے بعد فسادات تو عام سی بات ہو گئے ہیں ۔ بڑے بڑے فرقہ وارانہ فسادات ہوتے رہے ہیں۔ جن میں کافی لوگ مارے گئے ہیں۔ یہ لوگ ایک دوسرے فرقے کے ذریعہ مارے گئے تھے۔ لیکن پولیس بھی یک طرفہ ہوجائے اور فرقہ پرست ذہنیت کے ساتھ ایک ہی مذہب اور طبقے کے لوگوں کو قتل کر دے یہ 1987 ء سے قبل نہیں ہوا تھا۔ اتنے بڑے واقعے پر کاروائی کے نام پر بھی بس خانہ پری ہوئی۔
محترم وی این رائے نے اپنی کتاب میں واقعے کی پوری تفصیل بیان کی ہے۔ ایک نظر مرادنگر گنگ نہر کے قتل عام کے فوراً بعد کے منظر پر ڈالیں۔کتاب کا مصنف بھی بذات خود موجود ہے۔
’’گاڑیوں کی ہیڈلائٹس کی روشنیاں جھاڑیوں سے ٹکرا کر ٹوٹ ٹوٹ جاتی تھیں اس لیے ٹارچوں کا بھی استعمال کرنا پڑرہا تھا۔ جھاڑیوں اور نہر کے کنارے خون کے تھکے ابھی پوری طرح سے جمے نہیں تھے ، ان میں سے خون رس رہا تھا۔ پٹری پر بے ترتیبی سے لاشیں پڑی تھیں کچھ پوری جھاڑیوں میں پھنسی تو کچھ آدھی تہائی پانی میں ڈوبی ہوئی لاشوں کی گنتی کرنے یا نکالنے سے زیادہ ضروری مجھے اس بات کی پڑتال کرنا لگا کہ ان میں سے کوئی زندہ ہے یا نہیں۔ وہاں موجود ہم سب لوگوں نے الگ الگ سمتوں میں ٹارچوں کی روشنیاں پھینک پھینک کر اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ کوئی زندہ ہے یا نہیں۔ بیچ بیچ میں ہم ہانک بھی لگا تے رہے کہ اگر کوئی زندہ ہو تو جواب دے۔۔۔۔ ہم لوگ دشمن نہیںدوست ہیں۔۔۔۔ اسے اسپتال لے جائیں گے۔ لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ مایوس ہو کر ہم میں سے کچھ لوگ پلیا پر بیٹھ گئے۔‘‘
(ہاشم پورہ ۲۲مئی،وبھوتی نارائن رائے،ص ۲۲،عرشیہ پبلی کیشنز،دہلی،۲۰۱۸)
اس پورے معاملے میںچھ سات لوگ شدید زخمی حالات میں کسی طرح بچ گئے تھے۔ کہا جا سکتا ہے کہ ان کا وقت نہیں آیا تھا اور پھر اللہ جسے بچانا چاہے اُسے کون مار سکتا ہے۔ ایسے ہی ایک جوان ذوالفقار ناصر ہیں جو آج کل عمر کی تقریباً 48ویں منزل پر ہیں،اسوقت پندرہ سال کے تھے۔ناصر اس پورے معاملے کے چشم دید گواہ بھی ہیں اور درج کیس میں بھی ان کا نام روز اول سے شامل ہے۔ ذوالفقار ناصر سے راقم کے یہ پوچھے جانے پرکہ 33؍ برس بعد آج پھر 22؍مئی آئی ہے۔رمضان کا مہینہ ہے۔ الوداع جمعہ بھی ہے۔لاک ڈائون ہے، مسجدیں ویران ہیں۔ سناٹے اورخاموشی کا پہرا ہے۔ آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں اور کیا فرق لگ رہا ہے، کے جواب میں بتانے لگے کہ اس وقت بڑی شدید گرمی تھی۔ تپتی دوپہری ، سورج کی شدید تپش تھی۔ کرفیو کی سختی ، اشیاء کا فقدان، ہر وقت خوف و دہشت سوار رہتی تھی کہ نجانے کس طرف سے حملہ ہو جائے اور کس جانب سے کوئی گولی آلگے۔ بھوک پیاس تو رمضان کا مہینہ تھا، لیکن افطار ، سحری کے بھی لالے تھے۔ جان کا تحفظ بڑا مسئلہ تھا۔ آج بھی ماحول ویساہی لگنے لگا ہے۔ مسجدیںویران ہیں ، لوگ گھروں میںقید ہیں، لیکن آج خوف ودہشت کا اتنا اثر نہیں ہے۔ بیماری کا ڈر ہے۔ بے روزگاری ہے، کام کاج بند ہیں۔ تعصب آج بھی بہت ہے۔
22؍مئی 1987ء کو یاد کرتے ہوئے ذولفقار ناصر لرز جاتے ہیں’’شام پانچ بچے کے آس پاس ہم لوگوں کو ہاشم پورہ سے نکال کر پہلے باہر سٹرک پر ہاتھ اُپر کراکے قطار میں کھڑا کیا۔ پھر ٹرک میں بھر کر ، پیچھے سے بند کر کے انجان راہوں اور علاقوں کی طرف لے گئے۔ اندھیرا ہو گیا تھا۔ کافی دیر تک ٹرک چلتا رہا۔ اندر ہمارے ساتھ جو پولس (پی اے سی) والے تھے۔ ان کا رویہ بہت خطرناک تھا۔ ٹرک رکا۔ ڈالہ کھولا گیا۔ ایک ایک کر کے ہم میں سے لوگوں کو اُتارا جانے لگا۔ اوپر سے پولیس والے دھکا دے کر نیچے گرارہے تھے۔ نیچے کھڑے پولیس والے، گرنے والے میں گولیاں داغ رہے تھے۔ سب سے پہلے اُتارے جانے والے میرے پڑوسی ساٹھ سالہ یٰسین تھے۔ انہیں گولی ماردی گئی اورنہر میں بہادیا گیا۔ میرا نمبر تیسرا تھا۔ ہم میں سے کوئی بھی نیچے اُترنے کو تیار نہیں تھا۔ سب اندر کی طرف گھسے جارہے تھے۔ مگر اندر کے پولیس والے زبردستی نیچے پھینک رہے تھے۔ مجھ سے پہلے 24 سالہ اشرف کو نیچے پھنکا گیا۔ نیچے گرتے ہی گولی مار دی گئی۔ بیچارے کی تین چار ماہ قبل ہی شادی ہوئی تھی۔ اگلا نمبر میراتھا۔ مجھے جیسے ہی نیچے پھینکاگیا، میں نے بہت زوروں سے چیخ ماری ۔ نیچے والوں نے گولی داغ دی۔ گولی لگتے ہی میں نے مرنے کی ادا کاری کی اور ایک جانب کولڑھک گیا۔ انہوں نے مردہ سمجھ کر مجھے نہر کی طرف دھکا دے دیا۔گولی میر سیدھے کندھے سے گذرتی ہوئی پشت کی طرف سے باہر نکل گئی تھی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھاگویا گرم سرخ سلاخ آر پار کر دی گئی ہو۔ نہر کا پانی کافی تیز تھا۔ کنارے کے جھاڑیوں کو پکڑ کر میں دم سادھے پڑا رہا۔ بے حساب درد اور تکلیف مجھے توڑ رہی تھی۔گولیاں چلتی رہیں۔ لاشیں خون میں لت پت ، نہر میں سماتی رہیں۔ کچھ دیر بعد گولیاں چلنی بند ہو گئیں ۔نیچے کے سپاہی بھی اُوپر چڑھ گئے اور ٹرک باقی لوگوں کو لے کر واپس چلا گیا۔ میں نے ہمت کی اورباہر آیا۔ ایک اور ساتھی بہت زیادہ زخمی حالت میں آخری سانسیں لے رہا تھا۔ یہ قمرالدین تھا ۔ اس کے پیٹ میں گولی لگی تھی اور پیٹ باہر کو لٹک رہاتھا۔ گولی مجھے بھی لگی تھی،پھر بھی میں ،ہمت سے کام لے رہاتھا۔ میں نے اپنی شرٹ اُتار کر قمرالدین کے پیٹ پر باندھ دی، اور اسے کندھے سے اُٹھا تے اُٹھاتے ،پلیا تک لے کر آیا۔ وہاں کھوکھے پر کچھ ہندو موجود تھے۔ وہ آگئے بات چیت ہوئی پوچھنے پر ہم نے بتایا بدمعاشوں نے مار دیا ہے۔ وہ مدد کے لیے مرادنگر سے کسی کو بلانے چلے گئے۔ قمر الدین کی حالت خراب ہو رہی تھی۔ ان کی باتوں سے اندازہ ہو گیا تھا کہ انہوں نے پولیس کو خبر کر دی ہے۔ قمرالدین موت کے قریب تھا۔ اُس نے مجھ سے جانے کو کہامیں بے بسی اور اللہ کی مرضی جان کر اُسے چھوڑ کر مرادنگر بس اسٹینڈ کی طرف نکل گیا۔ جہاں میں نے کئی گھنٹے ایک پیشاب گھر میں چھپ کر گذارے۔ پھر کسی طرح مراد نگر پہنچا ۔ وہاںلوگوں نے مدد کی اور بالآخر دو تین دن میں دہلی پہنچا ۔ مرحوم شہاب الدین نے اپنے گھر رکھا۔ پریس کانفرنس کرائی ۔ تب جاکے معاملہ سرخیوں میں آیا۔
22؍مئی کے دن ضروری ہے کہ ہم اس واقعے کی کاروائی پر بھی ایک نظر ڈالیں۔ گذشتہ برسوں میں 19 پولیس والوں میں سے کئی کی موت ہو چکی ہے۔ 16 لوگوں کو31؍ اکتوبر2018ء میں سیشنز کورٹ نے عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ ملزمیں نے بڑی عدالتوں میں ضمانت کی عرضی داخل کر دیا ہے۔ ایک آدھ کو ضمانت مل گئی ہے۔ہو سکتا ہے سب کو ضمانت مل جائے،کیوں کہ کیس ڈائری اس طرح کی بنائی گئی تھی کہ مارنے والوں کی صحیح پہچان ثابت نہیں ہو پائی تھی۔مقدمہ ابھی چل رہا ہے۔ نجانے فیصلہ کیاہو۔ ہو سکتا ہے ملزمین کو ضمانت مل جائے۔ ہوسکتا ہے سزا برقرار رہے۔ اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑیگا۔ ہاں ہندو مسلم نفرت کی چنگاری جو اب شعلہ بن چکی ہے اور اندر اندر سماج کو جلارہی ہے۔ آج مہلک بیماری کے وقت ، جبکہ ہمیں مل کر لڑنے کی ضرورت ہے اور ملک کو اس مشکل دور سے نکالنا ہے ، وہیں کچھ فرقہ پرست طاقتیں ، اس ماحول میں بھی نفرت پھیلا نے سے باز نہیں آرہی ہیں۔ سبزی اور پھل فروشوں سے نام پوچھ کر خریداری کی جارہی ہے۔ سماج میں نفرت کا یہ زہر اتنے اندر تک اتر گیا ہے کہ یہ کورونا سے بھی زیادہ مہلک ہو گیا ہے۔ میں وی این رائے جیسے سیکولر ذہن رکھنے والے دانشور کی بات پر اپنی بات ختم کروں گا۔
’’سیشنز کورٹ کے فیصلے کے بعد ہاشم پورہ کانڈ کے پہلے باب کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ جیسا کہ متوقع تھا، اس کے بعد سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے ڈھنگ سے اسے بھنانے کی کوشش کی ہے۔ فیصلے کے خلاف اپیل کر دی گئی ہے اور اگلے کچھ سالوں کے لیے انتظار کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ افسوس یہی ہے کہ ہندوستانی حکومت نے ابھی تک آزادی کے بعد کے اس سب سے بڑے حراستی قتل عام کو ایک چنوتی کے روپ میں نہیں لیا ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ تھاجس میں ملک کے سارے اسٹیک ہولڈر ، سیاسی لیڈر شپ، نوکر شاہی ، پولیس ، میڈیا، عدلیہ نا کام اور بے بس ثابت ہوے۔ اسے ہندوستانی جمہوریت کے سیکولر کردار کے لیے سب سے بڑے خطرے کے روپ میں لیا جانا چاہیے تھا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔‘‘
(ہاشم پورہ ۲۲مئی،وبھوتی نارائن رائے،ص ۱۸۰،عرشیہ پبلی کیشنز،دہلی،۲۰۱۸)
٭٭٭
Prof. Aslam Jamshedpuri
HOD, Urdu , CCS University,Meerut ,U.P. Mob: 09456259850
email: [email protected],
Mob: 8279907070
Comments are closed.