موجودہ حالات میں مساجد میں نماز جمعہ وعید  كا حكم

 

ڈاكٹر مفتی محمد مصطفی عبد القدوس ندوی

(عمید كلیۃ البحث والتحقیق جامعۃ العلوم ،گڑہا   – گجرات)

   روز اول ہی سے نماز جمعہ كا مساجد سے بڑا گہرہ رشتہ قائم ودائم ہے ، اس كا انكار دن میں سورج كا انكار  سے عبارت ہوگا؛ یہی وجہ ہے كہ  كچھ شرطوں كے ساتھ مسجدوں میں نماز جمعہ كی صحت كے بارے میں كسی  كااختلاف نہیں پایا جاتا ہے ۔ بنیادی طور پر تعداد كے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے كہ كتنے لوگوں سے جمعہ كی جماعت قائم ہوسكتی ہے ، اس سلسلہ میں احناف  كے یہاں  راجح قول كے مطابق امام كے علاوہ  كم از كم تین بالغ مردوں كا  ہونا ضروری  ہے (رد المحتار:۳/ ۲۴)؛ كیونكہ اللہ تعالی  كا ارشاد  ہے: {فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ} [الجمعة:۹] “تو اللہ كے ذكر كی طرف دوڑ پڑو” {فَاسْعَوْا}جمع ہے، اور اقل جمع كی تعداد تین ہے ، جو مقتدی ہونگے،  امام وخطیب  ذاكر ہیں ، جو ان  تین مقتدیوں كے علاوہ ہونگے  ؛ اس لئے  كہ امام و خطیب كا ذكر{ذِكْرِ اللَّهِ}میں  كیا گیا ، جو اللہ كے ذكر كو انجام دینے والے ہیں ۔

اب رہی بات  موجودہ حالات میں  مسجدوں میں جمعہ كی نماز كی صحت كی ، تو  چند معاصرین مفتیان كرام كو چھوڑ كر تمام معاصرین فقہاء  ومفتیان عظام نے جواز و صحت  كا فتوی دیا ہے ، ان میں سے چند مشہور  ومعروف اور  قد آور مؤقر  ارباب افتاء كے فتاوی اختصار كے ساتھ  ملاحضہ ہو:

فقیہ عصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی  (ناظم المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد، جنرل سكریٹری اسلامك فقہ اكیڈمی (انڈیا)، ركن مجمع الفقہ الاسلامی ، مكہ مكرمہ ): مسجد میں چند افراد جمعہ پڑھ لیں ، جس میں  نہایت مختصر خطبہ دیا جائے اور مختصر نماز پڑھ لی جائے ؛ تاكہ مسجدیں جمعہ سے  محروم نہ  رہ جائیں، ، ۔

حضرت محمود الحسن ؒ كے خلیفہ حضرت مولانا مفتی محمد طاہر (مظاہر العلوم سہارنفور) كا واضح الفاظ میں دوٹوك فتوی  ہے :“ موجودہ حالات میں حكومت كی اجازت كے مطابق چار  پانچ افراد مسجد میں جمعہ پڑھ لیں ، باقی حضرات اپنے اپنے گھروں میں ظہر ادا كریں”۔

جہاں تك  دلائل كی بات ہے تو سردست مختلف نوع كی  دلائل  میں  سے چند درج ذیل سطور میں  ملاحظہ ہو:

۱ –   امام بخاریؒ اور امام مسلم نے حضرت ابن عباس ؓ سے  نقل كیا  ہے كہ انہوں نے اپنے مؤ ذن سے كہا : جب تم “ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ” كہہ لوگے تو تم “حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ” مت كہنا ، ا س كی جگہ “صَلُّوا فِي بُيُوتِكُمْ” كہنا ، یعنی تم لوگ اپنے اپنے ٹھكانوں   میں نماز پڑھ لو، لوگو ں نے اس كو برا سمجھا ،  تو حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : ایسا اس شخص نے كیا جو مجھ سے بہتر ہیں ، بیشك جمعہ واجبی عمل ہے ، لیكن میں نے ناپسند سمجھا  كہ میں تم لوگوں كو مشقت  وحرج میں ڈالوں، كہ تم لوگ كیچڑ  اور پھسلائٹ میں آؤ”۔ (بخارى، باب الرخصة ان لم یحضر الجمعة فی المطر، حدیث :۹۰۱، مسلم، با ب الصلاۃ فی الرحال فی المطر ، حدیث: ۲۶ –  ۶۹۹)۔–––   اس حدیث  میں  مسجد میں جمعہ قائم نہ كئے جانے  یا عدم صحت  كا ذكر نہیں ہے ۔ معلوم ہوا كہ جن لوگوں كے ساتھ عذر ہے وہ  اپنے گھروں میں نماز ظہر  ادا كریں گے  اور جن كے ساتھ كوئی عذر نہیں ہے ، اس طور  پر كہ وہ پہلے سے مسجد میں  مو جود ہیں تو وہ مسجد میں نماز جمعہ پڑھیں گے ، جیساكہ حدیث كے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت ابن عباس ؓ ، مؤذن  اور كچھ  دوسرے لوگ وہاں  ہونگے جن  كے ساتھ جمعہ قائم كئے ہونگے، جن كے گھر مسجد سے دور ہو نگے ان  كے لئے اعلان كروایا گیا كہ وہ معذور ہیں   وہ اپنے گھروں میں  نماز ظہر ادا كریں۔ مسجد میں حضرت ابن عباس ؓ كے ساتھ  كچھ لوگوں كے  موجود ہونے پر حدیث شریف كے یہ الفاظ“فَكَأَنَّ النَّاسَ اسْتَنْكَرُوا ذَاكَ، فَقَالَ:«أَتَعْجَبُونَ مِنْ ذَا” (مسلم،  با ب الصلاۃ فی الرحال فی المطر ، حدیث: ۲۶ –  ۶۹۹)۔  )واضح طور پر دلالت كر رہے  ہیں ۔

پس موجود ہ حالات میں جو لوگ  مسجد  میں پہلے  سے موجود ہیں ، یااتنے لوگ پہنچے  ہیں جن سے نماز جمعہ قائم ہوسكتی ہے تو نماز جمعہ قائم كرنے میں  كوئی شرعی قباحت نہیں ، بلا كراہت درست  وصحیح ہوگی۔

۲ – نیز اس وجہ سے بھی كہ  اسلام كا ایك شعار پورا ہو جائے اور انسانی زندگی كی  مصلحت بھی برقرار رہے

 ۳ –   نیز سدّاً للذریعہ قاعد ہ كا تقاضا ہے  كہ موجودو حالات میں مساجد میں جمعہ كا قیام جاری  رہے ؛ كیونكہ  اگر آج  مساجد میں جمعہ كا قیام روك دیا گیا تو   آنے والے دنوں میں  ہندوستان اور اس جیسے غیر مسلم جمہوری حكومت انتظامیہ  كو موقع ملے گا كہ وہ معمولی  عذر  كو بہانہ بناكر  جمعہ كے قیام  كو روكوا دے اور دلیل  كے طور پر آج كی اس نظیر كو پیش كرے۔ ظاہر ہے كہ  اس طرح سے  حكومت كو شریعت میں مداخلت  كے  لئے  راستہ  كو مزید ہموار كرنے   میں  یہ معین و مدد گار ثابت ہوگا۔

۴ –  قرآن كریم كی آیت كریمہ  {فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ} [الجمعة:۹] “تو اللہ كے ذكر كی طرف دوڑ پڑو” كی رو سے جتنے لوگ یعنی  اقل ترین مطلوبہ تعداد اور  اس سے  زیادہ  جتنےبھی   مسجد میں جمع ہوجائیں   اتنے لوگوں  سے جمعہ  قائم كیا جائے  ؛ اس لئے كہ ذكر اللہ كی طرف سے  سعی  پا یا جارہا ہے ۔ واضح رہے كہ  لوگ مسجد میں پہلے سے موجود ہوں  یا اذان كے بعد مسجد میں آئیں  سب  سعی  الی ذكر اللہ   میں  شامل ہیں ۔

۵ – جن لوگوں نے مسجد میں جمعہ قائم كرنے روكا ہے ، ان كا كہنا ہے كہ جمعہ كی صحت كے لئے  “اذن عام ” شرط ہے ،  موجودہ حالات میں یہ شرط مفقود ہے ۔ –––    قابل غور بات   یہ ہے كہ “اذن عام ” كی شرط  منصوص نہیں ہے ،اور مسجد میں جمعہ كا قیام منصوص ہے ، عمل رسول ﷺ اور صحابہ كرامؓ سے ثابت ہے ، تو مسئلہ منصوص كو محض اجتہادی شرط كی بناء پر كیسے ترك كیا جا سكتا ہے ؟  اور كیا ترك كیا جانا قرین صواب ہوگا ؟–––   دوسری بات یہ ہے كہ ائمہ ثلاثہ كے نزدیك “اذن عام ” كی شرط نہیں ہے ، رہے احناف تو ان كے درمیان اختلاف ہے بعض كے   یہاں یہ شرط ہے اور  بعض  كے یہاں نہیں ہے ، امام محمد ؒ نے  ظاہر روایت  میں اس  شرط كا ذكر نہیں كیا ہے ؛ نوادر میں اس كا تذكر ہ كیا ہے، اورنوادر كی روایت كو بڑی شہرت ملی ہے۔ اس رو سے دیكھا جائے تو جمہور علماء اور احناف كی ظاہر روایت كے مطابق جمعہ كی نماز مسجد میں بلاكراہت درست ہے ۔   –––    تھوڑی دیر كے لئے اذن عام كی شرط ما نا جائے تو یہاں اذن عام  پایا جارہا ہے اس طور پر كہ حكومت انتظامیہ  كی طرف  سے محددو جماعت كا  اذن موجود  ہے ، مسجد كا  باہر  سے مقفل ہونا اس اذن عام كے مغائر نہیں ؛ كیونكہ مسجد كھلی رہے یا مقفل رہے بہر صورت حكومت  انتظامیہ  كی طرف سے محدود جماعت كے قیام  میں كوئی رخنہ  نہیں ۔   واضح رہے كہ اذن عام كے تحقق كے لئے زیادہ سے زیادہ تعداد كی كوئی تحدید نہیں ہے ،  ہاں اقل تعداد  كی  تحدید   ضرور ہے  اور وہ كم سے كم امام كے علاوہ تین بالغ مردوں كا  ہونا  ہے، گویا كہ  اذن عام  ایك جنس ہے ، جس كے اقل ترین افراد  بشمول امام  چار  ہیں ، جیسا كہ اس آیت كریمہ {فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ} [الجمعة:۹] “تو اللہ كے ذكر كی طرف دوڑ پڑو” كی تفسیر  سے واضح ہے ۔

اب جہاں تك نماز عید الفطر كی  بات ہے تو بلا اختلاف مسجد وںمیں نماز عید الفطر درست ہے  بلكہ موجودہ حالات میں بھی  صحیح ہے ؛ كیونكہ جب مذكورہ بالا دلائل كی بناء پر نماز جمعہ مسجد میں درست ہے تو نماز عید الفطر بھی درست ہوگی  ، نیز حدیث شریف میں آیا ہے  كہ آپ ﷺ نے بارش كے عذر كی وجہ سے عید كی نماز مسجد  میں ادا فرمائی ہے(أبوداؤد، باب يصلي بالناس في المسجد إذا كان يوم الفطر:1/ 80، ابن ماجه, باب ماجاء في صلاة العيد في المسجد إذا كان مطرا:1/ 94)۔ اس وقت ہمار ے سامنے كورونا وائرس  كی وباء اور  اس كے باعث لاك ڈاؤن  نافذ ہے ،  یہ ایك عذر ہے ، جس كی وجہ سے عیدگاہوں میں نماز عید الفطر كی ادائیگی دشوار ہے ؛ لہذا مسجدوں میں اس كی ادائیگی  درست ہو گی ، گو مقتدیوں كی تعداد  محدود ہو،جس كی تفصیل اوبر گذ ر چكی ہے ۔

  

 

 

 

Comments are closed.