یس بک نگراں کمیٹی میں توکل کرمان کی شمولیت پراعتراض کیوں؟

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی
۱۰؍دسمبر۱۹۴۸ء کوپیرس کے مقام پراقوام متحدہ کی جانب سے انسانی حقوق کی حفاظت کے لئے ایک قراردادمنظورکیاگیا، جسے ’’انسانی حقوق کاآفاقی منشور‘‘ (United Declaration Of Human Rights)کانام دیاگیا، یہ تیس(30) دفعات پرمشتمل ہے، جس میں متعدد شقیں بھی ہیں، اس قراردادکاتقریباً تین سو پچھتر (375) زبانوں ترجمہ کیاگیاہے، میرے سامنے اس کااردوترجمہ ہے، جس کے دفعہ نمبر(۱) میں ہے: تمام انسان آزاداورحقوق وعزت کے اعتبارسے برابرپیداہوئے ہیں، انھیں ضمیر اور عقل ودیعت ہوئی ہے؛ اس لئے انھیں ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارے کاسلوک کرناچاہئے۔
دفعہ نمبر(۲) میں ہے: (۱) ہرشخص ان تمام آزادیوں اورحقوق کامستحق ہے، جواس اعلان میں بیان کئے گئے اوراس حق پرنسل، رنگ، جنس، زبان، مذہب اورسیاسی تفریق کایاکسی قسم کے عقیدہ، قوم، معاشرے، دولت یاخاندانی حیثیت وغیرہ کاکوئی اثرنہ پڑے گا، دفعہ نمبر(۱۸) میں ہے: ہرانسان کوآزادیٔ فکر، آزادیٔ ضمیراورآزادیٔ مذہب کاپوراحق ہے، اس حق میں مذہب یاعقیدے کوتبدیل کرنے اورپبلک میں یانجی طورپر، تنہایادوسروں کے ساتھ مل جل کرعقیدے کی تبلیغ، عمل، عبادت اورمذہبی رسمیں پوری کرنے کی آزادی بھی شامل ہے اوردفعہ نمبر(۱۹) میں ہے:ہرشخص کواپنی رائے رکھنے اوراظہاررائے کی آزادی کاحق حاصل ہے، اس حق میں یہ امربھی شامل ہے کہ وہ آزادی کے ساتھ اپنی رائے قائم کرے اورجس ذریعے سے چاہے، بغیرملکی سرحدوں کا خیال کئے علم اورخیالات کی تلاش کرے۔
یہ ہیں وہ بین الاقوامی حقوق، جواقوام متحدہ کے مطابق تمام فردبشرکوحاصل ہیں؛ لیکن جب ہم زمینی حقیقت کودیکھتے ہیں توانھیں لوگوں کوان حقوق کی دھجیاں اڑاتے ہوئے پاتے ہیں، جنھوں نے اس منشورپراپنے دستخط ثبت کئے ہیں، بالخصوص قوم مسلم کے تعلق سے تویہی رویہ سامنے آیاہے، جب دیگرقوم کی بات آتی ہے تویہ حقوق سب کویاد آتے ہیں؛ لیکن جب مسلمانوں کی بات آتی ہے توپھریہ حقوق کلاحقوق کے درجہ میں ہوجاتے ہیں۔
اگرتاریخ کامطالعہ کیاجائے تو۱۹۴۸ء کے بعدسے سب سے زیادہ ان حقوق کی دھجیاں ارض فلسطین میں اڑائی گئی ہیں اورمنشوربنانے والوں کی ملی بھگت سے اڑائی گئی ہیں اوریہ صرف اس لئے کہ وہ سرزمین مسلمانوں کے ساتھ منسوب ہے، چیچنیااوربوسینیامیں ان حقوق کی پامالی کی گئی، عرصۂ دراز سے کشمیرمیں بھی ان حقوق کی پامالی ہوتی رہی ہے ، جس پرآخری کیل ۳۷۰ختم کرکے ٹھونکی گئی، کئی دہائیوں سے برمامیں ان حقوق کی پامالی ہوتی رہی ہے، ظاہرہے کہ ان کی پامالی زیادہ ترمسلمانوں کے تعلق سے ہی ہوئی ہے اورکمال یہ ہے کہ منشوربنانے والے خاموش تماشائی بنے رہے، ان ممالک کی طرف سے بھی کوئی آوازبلندنہیں کی گئی، جن کے دستخط اس منشورپرثبت ہیں۔
لیکن مسلم ممالک کی طرف سے کسی وجہ سے بھی اگرکوئی جھوٹامعاملہ بھی پیش آیاتووہ واویلامچایاگیاکہ بس اللہ کی پناہ!گویاان حقوق کی پامالی سب سے زیادہ انھیں ممالک میں ہورہی ہے، یہی نہیں؛ بل کہ ان حقوق کی آڑمیں اسلامی احکامات پرمسلسل اعتراض کئے جاتے رہے ہیں، خصوصاً حدودوتعزیرات کے تعلق سے اوراس شدت کے ساتھ شور مچاتے رہے کہ خالص اسلامی ممالک بھی تدریجاً کچھ نہ کچھ پیچھے ہٹتے گئے، ابھی حالیہ ایام میں خود سعودی عرب میں تعزیرات سے کوڑے کی سزاکومنسوخ کردیاگیا۔
یہ بات سمجھ سے بالاترہے کہ کیاان حقوق کی پاس داری کے لئے صرف مسلم قوم ہی ذمہ دارکیوں ہے؟ دیگراقوام سے اس بابت سوال کیوں نہیں ہوتے؟ منصوبہ بندطریقہ سے پوری مسلم قوم پر’’دہشت گرد‘‘ کالیبل چسپاں کیاگیا؛ حالاں کہ کسی بھی خطہ میں مسلمانوں نے دہشت گردانہ کارروائی نہیں کی، جہاں بھی اورجوبھی کارروائی ان کی طرف سے ہوئی، وہ سب دفاعی طورپرہوئی اوریہ بات مسلم ہے کہ اپنی جان، اپنی عزت وآبرواوراپنے مال ومتاع کے تحفظ کے لئے کارروائی کرنادنیاکے کسی قانون میں دہشت گردانہ کارروائی نہیں کہلاتا؛ لیکن چوں کہ مسلم قوم کامعاملہ تھا؛ اس لئے منشور کوطاق نسیاں رکھ دیاگیااوردفاعی کارروائی کوبھی دہشت گردانہ کارروائی میں شمارکیاگیا، اس کے برخلاف مسلمانوں پرکیمیائی ہتھیارسے حملے ہوئے، ڈرون سے حملے ہوئے، میزائلوں سے حملے ہوئے، عورتوں اورمعصوم بچوں تک کونہیں بخشاگیا، ان کے پرخچے اڑادئے گئے، کہیں مسلمانوں کواجتماعی طورپرجلادیاگیا، ان کی عورتوں کی عزتوں پربٹہ لگایاگیا، پوری قوم کوتباہ وبربادکردیاگیا؛ لیکن بربادکرنے والوں کو، جلانے والوں کو، میزائل سے حملے کرنے والوں کو، کیمیائی ہتھیارسے حملے کرنے والوں کواورمعصوم بچوں کے پرخچے اڑانے والوں کودہشت گرد قرارنہیں دیاگیا، فلسطینی اگرپتھروں سے اپنادفاع کریں تووہ دہشت گردہیں، جب کہ اسرائیلی میزائل سے حملہ آورہوں تووہ دہشت گرد نہیں، برمی فوج دہشت گرد نہیں، سری لنکاکے تامل ٹائیگرس دہشت گرد نہیں، ہندوستان کے نکسلی دہشت گرد نہیں، آسام کے الفاوالے دہشت گرد نہیں،آر ایس ایس ، جوکئی بم دھماکوں میں ملوث پائے گئے ہیں، دہشت گرد نہیں، عراق اورافغانستان کوتباہ کرنے والا امریکہ دہشت گردنہیں،پوری دنیامیں قتل کرنے کے ماہرموساددہشت گردنہیں، اخوان المسلمون دہشت گرد ہے، فلسطینی دہشت گردہے، کشمیری دہشت گرد ہیں؛ بل کہ ہرداڑھی ڈوپی والادہشت گردہے۔
یہ حقوق کاکیساعالمی منشورہے، جس میں ایک قوم کو اپنے حقوق کے حصول کے لئے لڑائی لڑنی پڑتی ہے اورجب وہ حقوق کے لئے لڑتی ہے تواسے الٹے سیدھے ناموں سے مخاطب کیاجاتاہے، جب کہ اس کے برخلاف دیگراقوام کے حقوق کی پاس داری کی جاتی ہے؟ انھیں مسلم قوم کی طرح حقوق کے لئے لڑائی نہیں لڑنی پڑتی ہے، اس تعلق سے پوری دنیاکی سوچ کیابن چکی ہے، اس کااندازہ اس سے لگاسکتے ہیں کہ ابھی چند دنوں قبل توکل عبدالسلام خالدکرمان، جوایک یمنی نوبل انعام یافتہ، صحافی، سیاست داں، انسانی حقوق کی کارکن اورامریکی کانگریس کی اسلام پسندرکن خاتون ہیں، ان کوفیس بک اورانسٹاگرام کے مشمولات کے لئے عالمی سطح پرنگراں بورڈکے من جملہ بیس ممبروں میں شامل کیاگیاہے، ظاہرہے کہ نگراں بورڈ میں ان کی شمولیت ان کی قابلیت اورصلاحیت اورعالمی سطح پران کی کارکردگی کی وجہ سے ہوئی ہے؛ لیکن چوں کہ وہ باحجاب رہتی ہیں، مسلم ہیں؛ اس لئے لوگوں کویہ گورانہیں؛ اس لئے ان کے خلاف اعتراض اورشکایات کاسلسلہ شروع ہوگیاہے۔
فرانسیسی اخبار’’لی ویگارو‘‘(Le Figaro)میں شائع ایک مضمون میں اس پراعتراض جتاتے ہوئے کہاگیاہے کہ یہ کمیٹی ۲۰؍ آزادشخصیات پرمشتمل ہے، جوآزادی اظہار اور سلامتی کے مابین توازن کویقینی بنانے کے ذمہ دارہوں گے، ان میں سابق ڈینش وزیراعظم ہیلی ٹورنگ، شمٹ، گارڈین اخبارکے سابق ایڈیٹران چیف ایلن راسپرجر اور انسانی حقوق کے سابقہ یوروپی عدالت اندراس ساگوجیسے لوگ شامل ہیں، ان میں توکل کرمان کی شمولیت افسوس ناک ہے۔
توکل کرمان کی شمولیت پراظہارافسوس اس وجہ سے بھی کیاجارہاہے کہ انھیں اخوان المسلمون سے ہم آہنگ متعصبانہ مذہبی سوچ کی حامل ماناجاتاہے، یہ عجیب بات ہے کہ جس کرمان کواس کی رواداری کی وجہ سے نوبل انعام دیاگیا، اسی کرمان کی شمولیت پراظہارافسوس کیاجارہاہے اورصرف اس وجہ سے کیاجارہا ہے کہ اس نے اپنے حقوق سے دست برداری اختیارنہیں کی، اس نے اپنے ضمیرکی آزادی پرعمل کیا،وہ اپنی مذہبی آزادی پر عمل پیرارہی، اس نے اظہاررائے کی آزادی پرعمل کیا، فکرکی آزادی پرعمل کیا، وہ اپنے حجاب کے ساتھ اوراپنے دین پرعمل پیرارہتے ہوئے امریکی کانگریس کی رکن بھی بنی اورنوبل انعام برائے امن بھی حاصل کیا۔
یہ ہے وہ دہراپیمانہ، جوبرسہابرس سے پوری دنیامیں رائج ہے،یہ ہے وہ نفاق، جوسالہاسال سے عالم انسانی میں چلاآرہاہے، ان لوگوں کے یہاں بھی ، جواقوام متحدہ کے رکن ہیں اورجنھوں نے ’’انسانی حقوق کاآفاقی منشور‘‘پر دستخط بھی کئے ہیں، پھراس منشورکاکیافائدہ؟ یہ توبس ایک دھوکہ اورفریب ہوا، یہ توپوری دنیاکے لوگوں کے لئے سراب کی مانندہے ، اس کی مثال ہاتھی کے دانت کی سی ہوگئی، جودکھانے کے اورہوتے ہیں اورکھانے کے اور، غورکرنے اورسوچنے کی بات ہے کہ جولوگ سب سے زیادہ حقوق کی پاس داری کانعرہ لگاتے ہیں، جولوگ اپنے کوسیکولرکہتے ہیں، جولوگ اپنے کوروشن خیال سمجھتے ہیں، جولوگ لبرل کہلائے جاتے ہیں، جن لوگوں کی سوچ آزادنہ سمجھی جاتی ہے، جن لوگوں کے رہن سہن ا ورطرززندگی اورلباس و پوشاک کوحریت کاسیمبل قراردیاجاتاہے، جولوگ اپنے آپ کواپ ٹوڈیٹ کہتے نہیں تھکتے، ان کی سوچ کتنی آؤٹ آف ڈیٹ ہے؟ ان کی روشن خیالی کتنی تاریک زدہ ہے؟ ان کاسیکولرزم اورلبرلزم کتنامنافقانہ ہے؟ رجعت پسندی اوردقیانوسیت کاالزام مسلمانوں پردھرتے ہیں اورخودرجعت پسند اوردقیانوس واقع ہوئے ہیں، اس سے بڑی اورزیادہ رجعت پسندی کیاہوسکتی ہے کہ ایک نوبل انعام یافتہ، صحافی، سیاست داں اورحقوق انسانی کے رکن رکین کی فیس بک کی نگراں کمیٹی میں شمولیت پراعتراض کیاجائے؟! افسوس !ایسی روشن خیالی پر!
Comments are closed.