قصہ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم!

عاقل حسین،مدھوبنی(بہار)
موبائل۔9709180100
جو آواز بھوکے پیٹ سے نکلتی ہے وہ انقلاب لاتی ہے۔ خاموش وہ رہیںگے جو ظلم برداشت کرتے ہیں صاحب۔ جی ہاں! جس بھوک نے ایک وقت کی روٹی کے لئے اپنے گھروں سے بڑے شہروں کی جانب نقل مکانی کے لئے مجبوروں کو بے بس بنادیا تھا آج پھر وہی بھوک مزدوروں کو اپنی ریاستوں میں لوٹنے کو مجبور بنارہی ہے۔ ہندوستان کی سڑکوں پر امڈ پڑے اس ہجوم کے درد کے ساتھ جنہیں شہر لائی تھی آج وہی بھوک اب واپس گھر بلارہی ہے۔130؍ کروڑ کی آبادی والے ہندوستان کی کسی بھی ریاست، کسی بھی ہائیوے، کسی بھی سڑک سے گزر جائیں تو ایک ہی تصویر دکھائی دے گی۔ وہ تصویر بھوک سے تڑپتے معصوم چہروں کی ہے۔ تصویر جوان پشت پر سوار بوڑھی بھوک کی ہے۔ تصویر گھر پہنچنے کے لئے بیل کی جگہ خود کو جوت دینے کی ہے۔ تصویر بوڑے والد کو ٹھیلہ چلاتے چلاتے دیکھ چھوٹے بچے کا خود ٹھیلہ چلانے کی ہے۔ تصویر ایڑیوں کے پھٹ جانے کی، شل ہوجانے، چھالے پڑجانے کی، جل جانے کی ہے۔ اس دنیا میں اگر انسان کو سب سے زیادہ انتظار کسی چیز کا ہوتا ہے تو وہ کھانا ہے۔ دنیا میں جہاں بھی جس شکل میں زندگی نظر آتی ہے اس کا پہلا انتظار کھانا ہوتا ہے۔ اس کھانے کو روٹی کہتے ہیں۔ روٹی سے بڑا انتظار کسی بھی چیز کی نہیں ہوتی۔ پیار کا بھی نہیں‘ رشتوں ناطوں کا بھی نہیں‘ اپنے اور بیگانوں کا بھی نہیں‘ یہاں تک کے نفرت اور محبت کا بھی نہیں۔ ہم اسی روٹی کی بات کررہے ہیں جس روٹی کی تلاش میں اپنے پرائے کو چھوڑ کر پردیس گئے۔ آج اسی روٹی کی خاطر سنسان سڑکوں پر چلتے جارہے ہیں اور انہیں پتہ نہیں چلتا کہ ان کی کب بھوک مٹ گئی۔ ملک کی ریاستوں کی سڑکوں پر جو ہجوم نظر آرہا ہے وہ بھوک ہے۔ سڑک کنارے، بس اڈوں کے صحن میں ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ پٹریوں پر، پلیٹ فارموں پر، یہ جو کبھی نہ ختم ہونے والی قطار صبح وشام اور رات میں دکھائی دے رہی ہے وہ بھوک ہی ہے۔ ملک کو آزاد ہوئے تقریباً 73؍ سال ہوگئے لیکن آج ملک کی سڑکو ںپر جس طرح سے افراتفری کا ماحول بنا ہوا ہے وہ ہمیں تقسیم ہند کی یاد دلارہا ہے۔ اسی طرح اس وقت ملک میں افراتفری کا ماحول تھا۔ ایک طرف آزادی ملنے کی خوشی تھی تو دوسری طرف بٹوارہ کا درد تھا۔ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی سبھی افراد اپنے محفوظ مستقبل کی تلاش میں سرحد عبور کررہے تھے مگر اپنی سرزمین، اپنی زمین چھوڑنے کا دکھ ان کے کلیجہ کو چھلنی کررہا تھا۔ لاکھوں لوگ بھارت سےپاکستان آرہے تھے۔ اسی طرح آج ہرکسی کے چہرے پر اندیشے، درد ہیں اور ریاستوں کی سرحد پار کر اپنے گھر کی جانب رواں دواں ہیں۔ بھوک کی سیاست کرنے والے وہ سبھی رہنماء کورونا کے خوف سے اپنے اپنے گھروں میں بند ہیں۔ سیاسی نقطہ نظر سے دیکھئے گا تو بھوک سے کسی غریب یا مزدور کا مرجانا کوئی حادثہ نہیں ہے۔ ہاں اگر کوئی نیتا یا کروڑ پتی مرجاتا تو سیاست داں کے ماتھے پر پسینہ آجاتا ہے۔ ’کورونا کے بیچ 3؍ مہینہ میں کوئی بھوکا نہیں رہا‘ یہ ہمارے ملک کے مرکزی وزیر ریلوے پیوش گوئل اپنے ٹوئٹر کے توسط سے کہہ رہے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ منتری جی کہہ رہے ہیں کہ ان کی حکومت نے تو 120؍ ممالک کی مدد بھی کی ہے۔ ارے صاحب! اپنی سیاست کا چشمہ تو اُتار کر دیکھئے، آج سڑکو ںپر غریب مزدوروں کی حالت کیا ہے؟ بھوک کی اپنی ایک دنیا ہے صاحب‘ ہمارے اور آپ کی طرح ان کا بھی پریوار ہوتا ہے۔ ماں، باپ، بیوی، بچے ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا پوری دنیا کے لئے بڑی آفت لے کر آیا ہے لیکن ہم اس آفت میں بھی اپنے لئے مواقع تلاش کرلیںگے؟ آپ کے وزیر اعظم جی ایک مرتبہ فیس بک کے توسط سے اپنی والدہ کی کہانی سنارہے تھے اور ماں کا درد بتارہے تھے کہ ان کی ماں نے دوسروں کے گھروں میں کام کر ان کی پرورش کی۔ تو پھر آج سڑک پر ایک ماں پیٹ کے درد سے کراہ رہی ہے اور چھوٹا سا معصوم بچہ اپنی ماں کو تسلی دے رہا ہے کہ ’’گاڑی آئے گی، گاڑی آئے گی‘‘۔ ایک ماں جو اپنے معصوم بچے کو بریف کیس پر سلاکر کھینچتے ہوئے اپنے منزل کی جانب بڑھتی جارہی ہے۔ کیا ملک کے وزیر اعظم کو اس ماں کے درد کا احساس نہیں ہورہا ہے؟ ملک سے خطاب میں وزیر اعظم ملک کے باشندوں کو ’آتم نربھر‘ بننے کا پیغام دے رہے تھے۔ صاحب کو کون بتائے کہ ہندوستان تبھی آتم نربھر بن سکے گا جب یہ بھوک ختم ہوجائے گا۔ ہم جو خواب سوپر پاور بننے کا دیکھ رہے ہیں کیا ایسے میں ہندوستان سوپر پاور بن پائے گا؟ جس ملک کے عوام اپنے گھروں تک پہنچنے کے لئے ہزاروں کیلو میٹر پیدل چلتے ہوئے دم توڑ رہی ہے کیا وہ ملک سوپر پاور اور آتم نربھر بن سکے گا؟ اس لئے پہلے اس بھوک کو مٹایئے۔ جو بھوکے مزدور ملک کی ترقی اور ایک وقت کی روٹی کی تلاش میں بڑے شہر گئے تھے آج جب مصیبت آئی تو ترقی یافتہ ریاست کی حکومت ایک وقت کی روٹی دینے میں بھی ’آتم نربھر‘ کا مظاہرہ نہ کرسکی۔ تو پھر ایسی حالت میں ملک میں سوپر پاور اور آتم نربھر کیسے بن سکے گا؟
Comments are closed.