عید کی آمد یا اختتام رمضان

مفتی احمدنادرالقاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
عید منائی جاتی تو لوگوں کو تکبیر تشریق بآاز بلند کہتے ہوئے عید گا ہ اور کھلے میدان یا گھر سے باہر مسجد تک جانے اور اجتماعی طور پر فرزندان توحید کو کھلی فضا میں سجدہ ریز ہونے کی اجازت ہوتی ۔اور پھر ۔دوگانہ ادا کرنے کے بعد ۔اعلان حق اور شہادت حق کی اجازت ہوتی ۔جب اصل چیز جو عید کا بنیادی پتھر ہے وہ ہے ہی نہیں تو پھر عید کا کیا معنی ۔یہ تو صرف اختتام رمضان ہے ۔ دودھ سوئی اور گوشت پلاؤ کھانے کا نام تو صرف عید نہیں ہے ۔ضیافت تو ضمنا اسکے ساتھ شامل ہے جو اسلام کی اخلاقیات کا جزٕ لاینفک ہے ۔اور صدقۃ الفطر کا وجوب بھی اسی پس منظر سے وابستہ ہے ۔جسے ” فإنھا بأکل و بشرب وبعال “ کے ضمن میں بیان کہا گیا ہے ۔باقی عید کی۔اصل تو اعلان حق اور برملا اظہار کبریائی ہے جسے”اللہ اکبر اللہ اکبر لا إلہ إلا اللہ واللہ اکبر اللہ ا کبر وللہ الحمد“ کے اظہار واعلان کے ذریعہ سکھایاگیاہے۔ ۔کیا موجودہ پس منظر میں وہ چیز حاصل ہورہی ہے ؟ اگر نہیں تو آپ اسے عید کیسے کہیں گے ۔اور عید کی رسمی مبارک باد کیسی ۔؟ ہاں یہ ضرور کہا جاسکتاہے کہ الحمدللہ صبروسکون کے ساتھ رمضان اختتام پذیر ہوا ۔اور اس طرح کے رمضان کا شاید تاریخ کا پہلا تجربہ ہوگا جو موجودہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ انسانی دنیا کو ہوا۔اگر امت گہرائی کے ساتھ اس کا احساس کرے اور اجتماعی عبادت سے محرومی کی جو نظیر ہماری ناعاقبت اندیشیوں کی وجہ سے قائم ہوئی ہے۔اس کی سنگینی کا ادراک کرے ۔توساتوں طبق روشن ہوجاتے ہیں ۔مسلمان قوم صرف دنیا میں جینے والی قوم نہیں ہے ۔بلکہ وہ ٹریڈیشنل قوم ہے ۔جسے قران نے واضح طور پر بتادیاہے ”وماخلقت الجن والانس إلا لیعبدون “یہ انفرادی اور اجتماعی ٹریڈیشن بھی ہے۔خصیوصیت بھی ہے ۔انفرادیت بھی ہے پہچان بھی ہے اور امتیاز بھی ہے ۔اگر یہ کھو جائے تو امت اپنی صحیح ساخت پر امت باقی نہیں رہ سکتی ۔اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آج اس عید الفطر میں امت نے اپنے اس اجتماعی ٹریڈیشن کو کھویاہے ۔ خواہ وجہ کوئی بھی ہو ۔دانشمندی کا فقدان ہویا خوف بہر یہ المیہ وجود پذیر ہواہے ۔جو امت کے حق میں بہت سنگین ہے۔۔الم یأن للذین آمنوا أن تخشع قلوبھم لذکر اللہ ومانزل من الحق ولایکونوا کالذین أوتوا الکتاب من قبل فطال علیھم الأمد فقست قلوبھم“ سورہ الحدید۔آج کے اس مبارک موقع پر اسی پیغام پر اپنی بات ختم کرتاہوں ۔۔اللہ تعالی اس بدلے اور رمضان کے روزوں کے انعام کی رات میں امت کی ذہنی فکری اور عملی اصلاح کے فیصلے فرمائے ۔اور کوتاہیوں کو معاف کردے ۔

Comments are closed.