لاک ڈاؤن میں نماز عید کی مختصر جماعت کا جواز

ڈاکٹر محمد واسع ظفر
استاذ و سابق ڈین، فیکلٹی آف ایجوکیشن، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ
لاک ڈاؤن کی وجہ سے بھارت کے مسلمان ابھی ایک ایسی صورتحال سے دوچار ہیں جس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔ عید کی آمد ہے اور مسجدوں اور میدانوں میں اجتماع اور جماعت پر پابندی عائد ہے ۔ ایسے میں مسلمان پریشان ہیں کہ وہ عید کی نماز کیسے ادا کریں۔کئی علماء کرام نے ذاتی طور پر اور کئی اداروں نے بھی اس سلسلہ میں فتوے جاری کئے ہیں اور چھوٹی جماعتوں کے ساتھ اپنے گھروں میں نماز ادا کرنے کی بات کہی ہے ۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ اگر کسی جگہ جماعت ممکن نہ ہو یا کوئی نماز پڑھانے کے لائق نہ ہو وہ چار رکعتیں چاشت کی نیت سے ادا کریں۔ سوشل میڈیا پر اس پر بحثیں جاری ہیں اور بہت سے لوگ مطمئن نہیں معلوم ہوتے ۔ اس لئے احقر نے آثار سے چند شواہد کو جمع کیا ہے جس سے لوگوں کے مطمئن ہوجانے کی امیدہے ۔ لیکن احقر بصد احترام علماء کی اس رائے سے کہ اختلاف رکھتا ہے کہ وہ لوگ جو جماعت نہیں قائم کرسکتے وہ چاشت کی نیت سے چار رکعت ادا کریں (گو کہ بعض فقہاء سے ایسی آراء منقول ہیں) کیوں کہ آثار میں انفرادی طور پر بھی نماز عید کی گنجائش ملتی ہے ۔
اس کو سمجھنے کے لئے امام بخاریؒ کی اس روایت کو دیکھیں جو انہوں نے اپنی تصنیف صحیح بخاری میں باب ’’ باب اِذَا فَاتَہُ الْعِیْدُ یُصَلِّي رَکْعَتَیْن‘‘ کے تحت تعلیقاً روایت کیا ہے کہ ’’جب کسی سے نماز عید جماعت سے فوت ہوجائے تو وہ دو رکعت پڑھ لے، اسی طرح خواتین اور وہ لوگ جو گھروں اور دیہاتوں میں رہتے ہیں(اور جماعت میں نہ آسکتے ہوں ) وہ بھی کریں کیوں کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : ’’اے اہل اسلام! یہ ہماری عید ہے‘‘۔ حضرت انس بن مالکؓ نے اپنے غلام ابن ابی عتبہ کو جو زاویہ (نامی گاؤں) میں رہتے تھے ، حکم دیا تو انہوں نے اپنے گھر والوں اور بیٹوں کو جمع کیا اور شہر والوں کی طرح نماز ادا کی اور ان جیسی تکبیریں کہیں۔ حضرت عکرمہ نے کہا کہ دیہات کے لوگ عید میں جمع ہوں اور (مسلمانوں کے) امام کی طرح دو رکعت نماز ادا کریں۔حضرت عطاء نے کہا : ’’جب کسی کی نماز عید (باجماعت ) فوت ہوجائے تو وہ دو رکعت پڑھ لے‘‘۔ (صحیح بخاری ، تعلیقاً، کتاب العیدین، باب اِذَا فَاتَہُ الْعِیْدُ یُصَلِّي رَکْعَتَیْنِ)۔
امام بیہقیؒ نے اپنی سنن میں بھی حضرت انس بن مالکؓ کے عمل کے سلسلہ میں روایت کیا ہے جو اس طرح ہے: ’’عبیداللہ بن ابی بکر راوی ہیں کہ حضرت انس بن مالکؓ سے جب نماز عید امام سے رہ جاتی تو وہ اپنے گھر والوں کو جمع کرکے ویسے ہی نماز پڑھاتے جیسے امام عید کی نماز پڑھاتا ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے یہ بھی نقل کیا گیا ہے کہ جب وہ اپنے گھر زاویہ میں ہوتے اور بصرہ میں عید کے لئے حاضر نہیں ہوتے تو وہ اپنے غلاموں اور بیٹوں کو جمع کرتے پھر اپنے غلام ابن ابی عتبہ کو حکم دیتے اور وہ شہر والوں کی طرح ان کو نماز پڑھاتے اور ان کی تکبیروں کی طرح تکبیر کہتے‘‘۔ (سنن الکبریٰ للبیہقیؒ،باب صَلَاۃُ الْعِیْدَیْنِ سُنَّۃُ أَھْلِ الْاِسْلَامِ حَیْثُ کَانُوا، رقم 6237)۔
امام ابی بکر عبداللہ بن محمد بن ابی شیبہؒ نے بھی اپنی مصنف میں اس باب کے اندر کہ’’ جس شخص کی نماز عید فوت ہوجائے وہ کتنی رکعت پڑھے؟‘‘، حضرت عطاء کا یہ قول اس وضاحت کے ساتھ نقل کیا ہے کہ وہ دو رکعت پڑھے اور تکبیربھی کہے۔(مصنف ابن ابی شیبہؒ، رقم 5852)۔انہوں نے حضرت حسن ؒ (تابعی) کا قول بھی نقل کیا ہے کہ وہ امام کی نماز جیسی نماز پڑھے گا۔ (مصنف ابن ابی شیبہؒ، رقم 5857)۔ امام ابن ابی شیبہؒ نے حضرت حکم کی یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ ابو عیاض چھپے ہوئے تھے، عید کے دن حضرت مجاہد ان کے پاس آئے اور انہیں دو رکعت نماز پڑھائی پھر دعا کی۔ (مصنف ابن ابی شیبہؒ، رقم 5854)۔ انہوں نے حضرت ابراہیم ؒ کا قول بھی رقم کیا ہے کہ جس کی نماز عید فوت ہوجائے وہ امام کی نماز جیسی نماز پڑھے۔(مصنف ابن ابی شیبہؒ، رقم 5858)۔اسی باب میں وہ حمادؒ کے بارے میں بھی روایت نقل کرتے ہیں کہ جو شخص عید کے دن امام کے ساتھ نماز نہ پڑھ سکے وہ امام کی طرح نماز پڑھے اور اس کی تکبیرات کی طرح تکبیرات کہے۔(مصنف ابن ابی شیبہؒ، رقم 5859)۔
مشہور فقیہ شیخ سید سابقؒ (1915-2000ء) نے اپنی مشہور تصنیف فقہ السنہ (جس پر سعودی حکومت نے انہیں 1994 ء میںشاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا تھا ) میں امام بخاریؒ کی مذکورہ بالاروایت سے استدلال کرتے ہوئے یہ لکھا ہے: ’’نماز عید کا وقوع مردوں ، عورتوں، بچوں، مسافروں اور مقیموں سب سے صحیح ہے۔ چاہے جماعت کے ساتھ اور چاہے انفرادی طور پر، گھر میں یا مسجد میں یا عیدگاہ میں، جس سے جماعت رہ گئی وہ دو رکعتیں پڑھ لے، بخاریؒ نے اسی عنوان سے باب باندھا ہے: ’’ اِذَا فَاتَہُ الْعِیْدُ یُصَلِّي رَکْعَتَیْن‘‘۔ عورتیں (جو عیدگاہ نہیں گئیں) بھی اور دیگر گھر والے بھی دو رکعتیں عید کی نماز کی نیت کر کے پڑھ سکتے ہیں اور دیہات میں رہنے والے بھی کیوں کہ آپؐ نے فرمایا: ’’ ھٰذَا عِیْدُنَا أَھْلَ الْاِسْلَامِ‘‘ ’’یہ ہم اہل اسلام کی عید ہے‘‘۔ (فقہ السنہ (اردو) از شیخ سید سابقؒ، ترجمہ پروفیسر ڈاکٹر عبدالکبیر محسن، مکتبہ اسلامی، لاہور، سنہ اشاعت 2015 ء، جلد اول، صفحہ 324 )۔
اس کے بعد شیخ سید سابقؒ نے حضرت انس بن مالکؓ کے غلام ابن ابی عتبہ کی روایت نیز حضرت عکرمہ اور حضرت عطاء کے قول کو ویسے ہی نقل کیا ہے جیسے احقر نے اوپر امام بخاریؒ کی صحیح سے نقل کیا ہے، اس لئے اختصار کی خاطر اسے یہاں دوبارہ نقل کرنا مناسب معلوم نہیں ہوا۔ سید سابق ؒکی یہ رائے فقہ شافعی اور حنبلی سے قریب تر ہے لیکن جہاں تک میرا علم ہے احناف میں سے بھی بعض بڑے علماء ضرورت پڑنے پر دوسری فقہ پر فتویٰ دینے کے قائل ہیں۔علامہ ابن رشد نے ابن المنذر کے حوالہ سے امام مالک کی بھی یہی رائے لکھی ہے اور اسی کو امام ابو ثور کا مسلک بھی بتایا ہے۔
اس لئے احقر اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ آثار سے مذکورہ بالا شواہد اور فقہاء کی رائے کے پیش نظر اس بات کی گنجائش بنتی ہے کہ عید کی نماز چھوٹی جماعتوں میں بھی اور انفرادی طور پر بھی ادا کی جاسکتی ہے۔ یاد رہے کہ نبی کریم ﷺ کی اصل اور مستقل سنت عید کی نماز کے سلسلہ میں یہی ہے کہ باہر میدان یا عیدگاہ میں نکل کر بڑی جماعت کے ساتھ ادا کی جائے لیکن شریعت کے اندر یہ رخصت اور آسانی کا پہلو بھی ہے جس کی نشاندہی اور وضاحت فقہاء نے کردی ہے جو کہ آج کے حالات میں ہمارے لئے بہت ہی موزوں اور مفید ہے۔ ۔اللہ پاک ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عنایت کرے۔آمین!
( رابطہ :ای میل : [email protected] )
٭٭٭٭٭

Comments are closed.