عیدپررسنے والادائمی زخم

سمیع اللہ ملک
سب کچھ بہت اچھاجارہاتھا،زندگی ایک خوبصورت اورحسین وجمیل کھیل تماشہ محسوس ہورہی تھی اورہم سب زندگی کے شب و روزسے لطف اندوزہورہے تھے۔سوشل میڈیاپرزندگی کی زندہ دلی سے لگ رہاتھاکہ سب اچھاہے اوراب توکوئی پریشانی ہی نہیں رہی۔کچھ ایسانہیں جس کادکھ منایاجاسکے۔جونہی 2019 کاآخری سورج غروب ہوکر2020کی خوبصورت اورخوشنما صبح کا سورج طلوع ہواکہ دفعتاًکروناوائرس کاغلغلہ بلندہوا۔آغازمیں توکسی نے نوٹس نہیں لیااوراسے چین کامسئلہ سمجھ کراپنی خوشیوں کاسفرجاری رکھالیکن دیکھتے ہی دیکھتے تمام اندازے غلط ثابت ہوگئے اورمارے خوف کے احساس نے یقین کاروپ دھارلیااور زندگی کاسفرختم دکھائی دینے لگاکہ زندگی رک گئی ہے اوروقت کے پائوں جلنے لگے ہیں۔سب کے چہروں پرایک انجاناساخوف بری طرح چھاگیااوریوں لگتاتھاکہ موت کی چلتی پھرتی تصویریں ہیں ہم سب،گویااندرسے آوازآنا شروع ہوگئی کہ آج اس کی باری ہے اورکل میری۔۔۔۔۔۔۔۔اپنے پیاروں کی جدائی سے زیادہ اپنی موت کے خوف نے اوسان خطا کردیئے۔
لیکن پوچھنایہ تھاکہ ہم توزندگی میں داخل ہی اس وعدے کے ساتھ ہوئے تھے کہ اسے محدودوقت کیلئے استعمال کریں گے،اچھے اورزندگی دینے والے کے احکام کے مطابق بسر کریں گے اورکبھی بھی واپسی کابلاوہ آئے گااورکسی میں انکارکی مجال تک نہیں ہوگی۔سوال یہ ہے کہ کیاہمیں 2020 سے پہلے یہ سب کچھ معلوم نہیں تھاکہ ہم نے اس دنیاکے مختصر سفرکے بعدواپس بھی جانا ہے۔اس اینٹ،گارے،سریے،شیشے سے تعمیرکردہ مکانات،محلات،سرسبزپھلوں،پھولوں دیگربے بہانعمتوں کے عارضی عیش وآرام یکدم ہم سے چھین لئے جائیں گے۔اگرپہلے بھی ہمیں یقین تھاتوپھر2020 کے آغازسے ہی ایسی بے بسی،مجبوریوں،خوف ودہشت کے انبارسے گھبراہٹ اورپریشانی کیوں؟پچھلے چنددنوں سے لاک ڈائون کی نرمی کے بعدبازاروں،شاپنگ پلازوں،مارکیٹوں میں پاگل پن کی حدتک انہی افرادکابے ہنگم رش دیکھتاہوں تویقین نہیں آتاکہ یہ سب وہی لوگ ہیں جوکچھ دن پہلے بھوک سے مررہے تھے اورآج ہزاروں لاکھوں کی خریداری میں مصروف ہیں۔ممکن ہے بہت سے لوگوں کومیری یہ مثال انتہائی ناگوارگزرے لیکن کہے بغیرچارہ بھی تونہیں۔
مجھے اپنے ملک سے نکلے ہوئے تقریبانصف صدی ہوگئی ہے بلکہ یوں کہوں کہ لڑکپن کاسفرسراورچہرے پرسجی ہوئی ریش میں مکمل سفیدی میں بدل گیاہے لیکن اس پردیس نے پاکستان کی محبت کوہرآنے والے دن میں میرے تمام جذبات واحساسات کو یکسرجوان رکھاہے تویہ غلط نہ ہوگا۔مجھے یہاں کے بہترین سوشل انصاف،تعلیم،علاج معالجہ اورانفرادی خوبیوں نے ازحدمتاثر کیا۔اگریہاں کے لوگوں کی عادات پرنظردوڑائیں توان کواپنی روایات،گھربارسے بڑی محبت ہے لیکن وہ ہماری طرح ان دیواروں سے چپک نہیں جاتے، وہ قبل ازوقت ریٹائرمنٹ لیتے ہیں،بنجاروں کی طرح کمرپربیگ لٹکاکرکہیں بھی نکل جاتے ہیں،سڑکوں پر سونے میں عارنہیں سمجھتے،ایک جھونپڑی کواپنامستقل مسکن بنانے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے اورکچھ دیرقیام کرنے کے بعد اپنے خوابوں کی تکمیل کیلئے کسی اورجھونپڑی کارخ اختیارکرلیتے ہیں۔
لیکن اس کے برعکس ہم لوگ،میں اورآپ بلکہ ہماری کئی پچھلی پشتیں جیسے جیسے وقت کے ساتھ ساتھ بوڑھے ہوتے ہیں، بڑھاپے میں قدم رکھتے ہیں،ہم ذہنی دبائو(ڈیپریشن) کا شکارہوجاتے ہیں۔ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ خوبصورتی،یہ طاقت،یہ حسن و جوانی،یہ مال ودولت،شان وشوکت اوریہ اقتدارجواس وقت ہمارے پاس ہے۔یہ کسی اورکومنتقل ہو جائے گا۔کل کوئی اوران تمام اختیارات سے مستفیذہورہاہوگااورہم یہ جانتے ہوئے بھی اس کیلئے تیارنہیں ہوتے۔اسی لئے ہمارے ملک میں ریٹائرمنٹ کاکوئی تصورہی نہیں کیونکہ ہم توریٹائرمنت کی بجائے توسیع(ایکسٹینشن)پریقین رکھتے ہیں بلکہ اپنااستحقاق سمجھتے ہیں۔ہماری کوشش ہوتی ہے کہ دوسال اورکام کرلوں،میرابیٹاچھوٹاہے،اس کی تعلیم ابھی نامکمل ہے،وہ ڈاکٹریاانجینئربن جائے توریٹائرمنٹ لے لوں گا،بیٹی ہے،اس منصب کی بنا پرکسی اچھی جگہ شادی ہوجائے توپھرریٹائرہوجائوں گا۔ایک اوراچھی سی گاڑی اورایک بڑاسا ڈیفنس یاکسی اچھی لوکیشن پرمکان بنالوں توپھرایک اورتوسیع کی خواہش دل میں نہ پالوں گاکیونکہ ہمارے ملک میں کوئی ریٹائرمنٹ لیتاہی نہیں کیونکہ ہمارے ہاں مرنے کے پلان کے بارے میں سوچناممنوع ہے۔ہم توبس جوان ہیں،جوان ہی رہیں گے، کبھی بوڑھے نہیں ہوں گے بلکہ ہمارے منصب کی طاقت ہمارے ذہنی طورپرجوان رہنے کابیش بہا ٹانک ہے،اسی لئے ریٹائرمنٹ کاکوئی پلان نہیں بناتے کیونکہ ہمارااس بات سے یقین ختم ہوگیاہے کہ ہم نے اس دنیاسے رخصت بھی ہوناہے حالانکہ ہم اپنی زندگی میں اپنے کئی چھوٹے بڑے عہدیداروں کواپنے کندھوں پرمنوں مٹی کے نیچے چھوڑکربھی آتے ہیں۔
دورنہ جائیں،کل ہی کی توبات ہے کہ اپنے لواحقین سے مل کرعیدکی خوشیاں منانے والے سوسے زائدمسافرخوشی سے دمکتے چہروں کے ساتھ لاہورسے کراچی جارہے تھے کہ منزل سے صرف اورصرف ایک منٹ قبل اجل نے ان کوآلیااوربچنے والے ایک عینی شاہدنے ٹی وی اینکرکویہ بتایاکہ جہازنے رن وے کوچھوبھی لیاکہ اچانک کپتان نے جہازکامنہ پھر آسمان کی طرف کردیاگویا اجل نے مسکراکرکہاکہ تم سب کی سانسوں پر’’ختم شد‘‘کی مہرثبت کردی گئی ہے اورتمہاری دائمی منزل وہی ہے جس کاتمہیں اس دنیامیں آنے سے پہلے
بتا دیاگیاتھا۔کروناکی وحشت سے اگرہم کچھ سیکھ نہیں سکے توکم ازکم اس عیدپرسینکڑوں گھروں میں آج سارے اپنے پیاروں کادکھ منارہے ہیں،اسی حادثے سے ہی کچھ سیکھ لیں۔ جانے والے تواس جہاں سے رخصت ہوگئے،مقتدر حلقوں سے کوئی بھی تحقیقاتی رپورٹ آئے،ان کی بلاسے لیکن ہم تواس بات سے واقف ہیں کہ اس سے قبل اسلام آبادکی پہاڑیوِں پر، چترال میں میرے انتہائی پیارے دوست جنیدجمشیدکے علاوہ دیگرچھ مسافربردارجہازوں کی تباہی کی المناک تحقیقاتی رپوٹس کے بعدایسی ہی ایک رپورٹ ہمارامنہ چڑانے کیلئے داخل دفترہوجائے گی لیکن ان شہدا کے ماں باپ اورلواحقین کے دلوں کازخم ہرعید پررستارہے گا۔
2020 نے کم ازکم مجھے ایک سبق سکھایاہے کہ یہ زندگی بہت بے معنی اورمختصرہے اوراگرہم نے اب بھی اس کاسوچ سمجھ کربہترین استعمال نہ کیاتویہ کل ریت کی طرح ہماری مٹھی بھی اسے پھسلنے سے روک نہ پائے گی اورپتہ بھی نہ چلے گا۔ابھی بھی وقت ہے،آپ پوسٹ کرونادنیامیں سانس لے رہے ہیں،کوشش کیجئے کچھ اچھاکرجائیں،بے آسرا،مظلوموں کی کوئی مددکر جائیں،کوئی ایساسلسلہ بناجائیں،کوئی ایسی مثال بن جائیں جوآنے والے وقتوں میں آپ کی تقلیدبن جائے۔
Comments are closed.