رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی

 

امانت اللّٰہ قاسمی
جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی

آنکھیں اشکبار ہو گئیں، دل رنجور ہو گیا اور قلب و جگر حیران و سرگرداں رہ گیا جونہی یہ اندوہناک خبر سماع سے ٹکرائی کہ مادر علمی دارالعلوم دیوبند کے جلیل القدر،فقیہ النفس شیخ الحدیث اور صدرالمدرسین مفتی سعید احمد پالنپوری اس دار فانی سے داربقاء کی طرف کوچ کر گئے۔
بعد سحری بستر پر لیٹا ہی تھا اور سونے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ اچانک حضرت کے وصال کی خبر سن کر آنکھوں کی نیند جاتی رہی، دل کو ایک دھچکا سا لگا اور چند ہی لمحوں میں حضرت الاستاذ سے جڑی ساری یادیں ذہن و دماغ کے دریچے پر گردش کرنے لگیں۔
حضرت الاستاذ کا شمار ان جامع شخصیات میں تھا جن کے علمی و دینی خدمات کی پورے عالم اسلام پر چھاپ رہی ہے اور جنہوں نے اپنے تبحر علم حدیث و فقہ کے ذریعے ہزاروں جو یائے علم کی علمی پیاس بجھائی،حضرت والا اگر ایک بے مثال مدرس تھے تو ایک باکمال مصنف بھی اور عظیم المرتبت محدث بھی تھے۔حضرت کے زیرسایہ تعلیم و تربیت یافتہ ان کے قابل قدر تلامذہ اور محبین و متعلقین کی تعداد کی ایک طویل فہرست ہے جو قوم وملت کے لئے ایک عظیم سرمایہ اور روشن ستارہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
استاذ محترم علم و عمل کے پیکر ،اخلاق وآداب کے خوگر تھے،طبیعت میں بلا کی سادگی تھی اور اس کا اظہار آپ کے چال ڈھال،رفتار و گفتار اور طرز لباس سے بھی ہوتا تھا،آپ کے علم میں گہرائی و گیرائی اور کامل درجے کی وسعت تھی اور آپ متنوع صلاحیتوں کے حامل تھے۔
بحمد اللہ مجھے بھی یہ فخر و سعادت حاصل رہی کہ حضرت الاستاذ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنے کا سنہرا موقع ملا اور صحیح بخاری جلد اول حضرت سے ہی پڑھی۔
سنہ 2013 میں اپنی علمی تشنگی بجھانے کی غرض سے جب ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا اور داخلہ امتحان کے مراحل سے گذر کر دورۂ حدیث شریف میں داخل ہوا تو ابتدائی چند دنوں میں کچھ ہی کلاسیز لینے کے بعد حضرت کی طبیعت ناساز ہوگئی تھی اور تقریباً دو ماہ بعد افاقہ پاکر پھر ہمارے بیچ حاضر ہوئے۔
مخصوص ومنفرد طرزِتدریس سے یک لخت اپنا گرویدہ بنا لینے کا ملکہ حاصل تھا،ایسا دلکش اور مسحورکن طرز تھا کہ طلبہ ان کا درس مستغرق ہوکر سنتے تھے۔
ان کے درس سے قبل قدرے طویل وقفہ ملتا تھا جس میں ہر کوئی اپنی چھوٹی موٹی ضروریات اور حوائج سے فارغ ہوکر ان کے درس میں پوری مستعدی، بشاشت اور پوری تندہی کے ساتھ حاضر ہوتا تھا،آپ کا درس طلبہ میں از حد مقبول تھا اور طلبہ ذوق و شوق سے آپ کے درس میں حاضر رہتے تھے سبق کی تشریح و توضیح عمدہ انداز میں فرماتے تھے اور طلبہ کے اشکالات و اعتراضات کا تشفی بخش جواب دیتے تھے جس سے ان کی باریک بینی کا اندازہ ہوتا تھا،دوران درس موقع بموقع انگریزی کے الفاظ کا استعمال بھی کیا کرتے تھے،وقفے وقفے سے طلباء کو قیمتی پندونصائح سے بھی نوازتے تھے،ان کی ایک بہت ہی اہم اور قابل عمل نصیحت یہ ہوتی تھی کہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ ہمیشہ کوشش یہ کرو کہ تعلیم یافتہ لڑکی سے نکاح کرو کرو اگر خدانخواستہ تعلیم یافتہ نہ ملے تو اسے اپنے نکاح میں لاکر تعلیم دو جیسا کہ انہوں نے خود بھی کیا ہے،حضرت نے اپنی اہلیہ محترمہ کو خود ہی اپنی محنت اور جدوجہد سے حافظہ کروایا تھا پھر فیضان الہی یہ ہوا کہ ان کے جتنی بھی اولادیں ہوئیں کسی کو حافظہ کے لیے باضابطہ مدرسے میں داخل نہ کرنا پڑا یا تو وہ خود یا ان کی اہلیہ محترمہ نے سب کو حافظہ کرایا۔
حضرت درس کے دوران طلبہ کا بے حد خیال رکھتے تھے ان کا درس دن کے آخری گھنٹے میں ہوا کرتا تھا اور وہ دیر تک کلاس لیتے تھے لیکن ہفتہ کےجس دن کھانے میں بریانی ہوا کرتی تھی وہ یہ کہہ کر پہلے ہی چھوڑ دیتے تھے کہ ترجمان نے بتایا ہے کہ آج کھانے میں بریانی ہے لہذا جاؤ کھاؤ اور مزے کرو،یہ تمام حضرت سے وابستہ یادیں ہیں جو ہمیں لذت بخشتی ہے اور کچھ دیر کے لیے لطف اندوز کر دیتی ہیں۔
انہوں نے درس و تدریس کے ساتھ تصنیف و تالیف میں بھی گراں قدر خدمات انجام دیں، ان کی بہت سی کتابیں دارالعلوم سمیت مختلف دینی مدارس میں شامل نصاب ہیں ان کی نمایاں تصانیف میں ایک شاہکار اور معرکۃ الآرا تصنیف "رحمتہ اللہ الواسعۃ” ہے جو کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کی "حجۃ اللہ البالغۃ” کی شرح ہے جو کہ اپنے موضوع کی ایک دقیق کتاب سمجھی جاتی ہے،اسی طرح انہوں نے ہدایت القرآن کے نام سے قرآن مجید کی ایک ایسی تفسیر لکھی جس سے اساتذہ و طلبہ اور عام اصحاب ذوق بھی مستفید ہو رہے ہیں،اس کے علاوہ بھی مختلف موضوعات پر بہت سی اہم کتابیں سپرد قرطاس کی ہیں۔
بہرحال جو بھی اس دنیا میں آیا ہے اک نہ اک دن اسے رخصت ہونا ہے خالق باری کے نظام کے تحت دنیا ایک گذرگاہ کی حیثیت رکھتی جس میں روز اول سے انسانوں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری ہے، اس دار فانی میں ہر آنے والا شخص کسی مسافر کی طرح اپنا وقت موعود پورا کرکے دار بقا کو ہمیشہ ہمیش کے لئے رخصت ہو جاتا ہے۔تمام مخلوق کے لئے موت زندگی کے ابدی خاتمے کا نام ہے ہے جب کہ جن و انس کے لئے موت ایک نئی زندگی کے آغاز کا نام ہے جہاں پچھلی زندگی کا حساب چکانا ہے موت سے بڑی عبرت کوئی اور نہیں اور موت سے بڑھ کر نصیحت کا سامان کوئی اور نہیں،مرنے والا اپنے اعمال کے سوا کوئی چیز ساتھ لے کر نہیں جاتا ان جانے والوں میں بعض ایسی قابل قدر ہستیاں بھی ہوتی ہیں جن کی شاندار خدمات کی وجہ سے دنیا ایک طویل عرصے تک فراموش نہیں کر پاتی ان کی جدائی کا غم قوم و ملت کے لیے ایک بڑا سانحہ ہوتا ہے یقینا ان کی وفات علمی حلقوں کا ایک ناقابل تلافی نقصان ہے،ہم حضرت والا کے حق میں رب زوالجلال سے دعا گو ہیں کہ اللہ تبارک و تعالی ان کی دینی و علمی خدمات خصوصا خدمت احادیث کے صلہ میں ان کی مغفرت کاملہ فرمائے ،حضرت کے درجات بلند فرما کر جوار رحمت میں جگہ عنایت فرمائے اور امت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے ( آمین)

رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی

Comments are closed.