’’فاین تذھبون‘‘جنگ نہیں خدا کے سامنے سرینڈر !

ش م احمد کشمیر
7006883587
افطار سے تھوڑی دیر قبل یوٹیوب پر الشیخ سعودالشریم کی زبانی سورہ ’’التکویر‘‘ کی لحن ِداؤدی والی تلاوت نہاں خانۂ دل میں وجد آفرین طراوت دوڑا رہی تھی ۔ عاصی اس سورت ِ پُر حلاوت میں کھویا ہوا تھا۔ سورہ ٔ مبارکہ کے آغاز میں اللہ تعالیٰ اُس جان گسل اور ہوش رُبا ساعت ِقیامت کی منظر کشی یوںکر تا ہے: جہانِ ناپائیدار تلپٹ ہوگا، سورج بے نور پڑے گا ، فلک کے تارے بکھر یں گے، پہاڑ ڈَھ جائیں گے ، سمندر بھڑک اُٹھیں گے ، خوف ودہشت کے عالم میں انسان اپنی محبوب ترین اشیاء کا حال ہوش کھوبیٹھے گا، دشت و بیابان کے وحوش ڈر ے سہمے بد حواسی کے عالم میں یکجا ہوں گے ۔
میری نگاہ میں رحمن ورحیم اللہ قیامت کی ہولناکی سے ہمیں باور کرانا چاہتا ہے کہ جب اللہ کے مطیع وفرمان بردار گرانڈیل جمادات اور آپس میں لڑجھگڑ نے والے حیوانات کا یہ خلافِ معمول حال ہورہا ہو تو سوچو دنیا میں اللہ کا باغی وطاغی انسان قیامت کے مقابلے میں کس کھیت کی مولی۔۔۔؟ ایک مشت ِخاک، ذرہ ٔ بے جان، غم کا مارا، پسپائی میں تھر تھرکا نپ رہا وجود، سارا پندار تحلیل، شکست خوردہ ، حشرات الارض جیسا بے مایہ، بے یارویاور، اپنے غرورپر نازاں نہ کبرونخوت پھنکارنے والا، ندامت بھری آہیں ، پچھتاوے کے آنسو، رحم کابھکاری!!! ’’فاین تذھبون‘‘
ان آیاتِ بینات کی سماعت نے میری توجہ کورونا کی قیامت صغریٰ سے پورے عالم میں جان ومال کی بلا روک ٹوک تباہیوں کی جانب آپ سے آپ کھنچ گئی ۔ جونہی قاری صاحب آیت نمبر ۲۶ ’’فاین تذھبون‘‘ (پس تم کدھر جارہے ہو؟۔ایک خدائی سوال) پر پہنچے تو دل میں اُترنے والی تلاوت یک بہ یک بند ہوئی، خیال وتوجہ کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ یہ کمر شل بریک تھا اور ایک اشتہاری نغمہ بجنے لگا ۔ مجھے ایسے محسوس ہوا گویاروح کی پرواز تھم گئی یا پاک گلستان میں کوئی ناپاک ظالم صیاد نقب لگا نے آیا۔ یوٹیوب پر کمرشل وقفے آتے رہتے ہیں ۔ اکثر الاوقات وقفہ آتے ہی میں انہیں نظر انداز(skip) کر کے آگے بڑھتاہوں ۔اس بار نہ جانے ایسا کیا ہوا کہ اشتہاری نغمہ ’’ ہم ہار نہیں مانیں گے‘‘ اور اس کےvisuals پر میری آنکھیں مرتکز اور سماعتیں متوجہ ہوئیں ، فکر وفہم کا گھوڑا سر پٹ دوڑنے لگا۔ یہ کورونا کے موضوع پر ایک تازہ نغمہ ہے ، بڑا دل نشین ، بہت سجا سجیلا۔
نغمے کے پُرکشش بول اور دُھن کی آپ جتنی چاہیے داد دیجئے ، مگر سوال یہ ہے کیا واقعی نغمے کے بول کووڈ۔ ۱۹ کے پیدا شدہ تلخ زمینی حالات سے میل بھی کھاتے ہیں؟ بے شک نغمہ نگار پرسُن جوشی کا کلام، موسیقار اے ۔آر۔ رحمن کی موسیقی، مختلف گلوکاروں کی مدھر آوازیں ،متعدد آلاتِ مزامیر نغمے میں جان ڈالتے ہیں مگر گانے کے اندر چھپے پیغام پر تھوڑا سوچ بچار کریئے تو یہ نغمہ آپ کو سوالا ت کی سوغات سونپ کررہے گا ۔شاید ہی ان کے جوابات نغمہ نگار اور موسیقار کے پاس ہوں ، بلکہ ممکن ہے وہ انہیں سوالات کی بجائے فضولیات کہیں۔
خیر کئی منٹ طویل کمرشل بریک کے بعد کلامِ الہٰی کی تلاوت اپنی حلاوتیں،رُوح پرور معانی ، حیات بخش مفاہیم کے انمول موتی لٹا نے دوبارہ شروع ہوئی۔
میں نے ’’فاین تذھبون‘‘ اور’’ہم ہار نہیں مانیں گے‘‘ کی دو متضاد آوازوں کے بیچ خود کو معلق پایا۔ اِدھر ’’ پس تم کدھرجارہے ہو ‘‘ کی چوٹ ، اُدھر کورونا کوچلنج کرنے والی شاعر انہ تعلی ۔میںکہتاہوں کہ نغمہ نگار نے قیامت خیز عالمی پنڈیمک کے خلاف ’’لڑی جارہی‘‘ انسان کی خیالی جنگ میں ہار جیت کا جو فلمی فلسفہ پیش کیا ہے ، وہ ذہن کو اپیل کر تا ہے نہ فہم کے دریچے کھولتا ہے ۔اس کے برخلاف دنیا میں غافل انسانوں کے لئے ’’فاین تذھبون ‘‘ ( پس تم کدھر جارہے ہو؟) کی ندائے خداوندی پر غور وفکر کریئے تو کہیںکوئی میدان ِ جنگ نظر نہ آئے گا بلکہ کورونا وائرس کی مار سے لمحہ بہ لمحہ بڑھتی وحشت ناک زیاں کاریاں اور انسانی دنیاکی بے کسی کا دراز سے دراز تر ہورہا سلسلہ نظر آئے گا۔ بالفاظ دیگر اللہ کی عالمی للکار اور شاعر کی پکار مجھے دو متضاد چیزیں دکھا دیں ۔ہم سب کے لئے موجودہ نامساعد حالات کے پس منظر میں یہ آوازیں ایک سنجیدہ لمحہ ٔ فکریہ بنتی ہیں۔ میرا اپنا عقیدہ ہے کہ اس معاملے میں حقیقت کی تہ تک پہنچنے کے لئے ہمارے لئے کلامِ الہٰی کے علاوہ کہیں اور سے رہنمائی ملنا محال ہے ۔
ناچیز کی رائے ہے کہ کورونا کے خلاف قیاسی جنگ زبانی جمع خرچ ہے ۔ایسے کھوکھلے دعوؤں اور جھوٹی باتوں کی ٹامک ٹوئیاں بند کر کے اگر ہم مہلک وبا کے چلتے’’ پس تم کدھر جارہے ہو؟‘‘ کے خدائی سوال پر ضمیر کی بارگاہ سے صدق دلانہ جواب طلب کر یں تو وہاں سے شایدیہ صدا ئیں ہمارے گوشِ سماعت سے ضرور ٹکرا ئیں گی : اے غافل انسان ! کیا بے ہودہ شیخیاں بھگارتے ہو؟آج تُو، تیرا مادی علم ، تیری ٹیکنالوجی، تیرا میڈیکل سائنس، تیری صنعتی ترقیاں، تیرے حربی کارنامے، تیرے فن و ہنر کے کرشمے، تیری عیاشیاں ، تیری خرمستیاں سب کچھ شرق وغرب ، عرب وعجم میں اللہ کی مشیت کے سامنے ڈھیر ہیں ، تُو اللہ کے پیداکردہ ایک معمولی و ائرس سے اتنی بری طرح ہار اپچھڑ اہے کہ تجھے رات کا آرام نصیب ہے نہ دن کا چین۔ پھر بھی اگر تُوباصرار کم مایہ وائرس کے ہاتھوں اپنی ہمہ گیر شکست وریخت نہ ماننا چاہے تو شوق سے نہ مان ، کسی کو سورج کی روشنی اندھیرا ماننے کی ضد ہو تو یہ اس کی اپنی بنیائی اور عقل ودانش کا قصور ہے نہ کہ سورج کا۔
سُن اے نادان !ہارپسرِ نوح نے نہ مانی تو کیا خدائی طوفان تھم گیا ؟ ابرہہ نکھٹو نے خانہ کعبہ کو ہرانے میں اُلٹا اپنے’’ ویپن آف ماس ڈسٹرکشن ‘‘ کی ہار خواب وخیال میں بھی نہ سوچی تھی مگر کیا ابابیلی لشکر اصحابِ فیل کو موت کی وادی میں پہنچادینے والی سنگ باری میں ہار ا ؟ موسیٰ علیہ السلام کا تعاقب کرنے والے فرعون اور اس کے لاؤلشکرنے اپنی ضدم ضدا نہ چھوڑی تو کیا دریائے نیل کی فلک بوس لہروں نے اُسے دنیا وآخرت کے لئے نشانۂ عبرت بنا چھوڑ نے میں ہار مانی ؟ نمرود نے اپنی شقاوتِ قلبی سے اپنی شکست تسلیم نہ کی تو کیا ابراہیم علیہ السلام کے لئے آگ سلامتی والی ٹھنڈ بننے میں ہار گئی ؟ اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کی راہ میں قربان کر نے چھری نے ہار نہ مانی مگر لوہا بھی گوشت پوست والے حلقوم پر نہ چلا ، تو کیا خنجرکی ہار نہ ہوئی؟ یوسف علیہ السلام کا کام تما م کر نے آپ ؑ کو اپنے سوتیلے بھائیوں نے اندھے کنویںمیں دھکیل کر من ہی من جیت کا جشن منایا توکیا مولائے کائنات نے بے وطن و بے گھر یوسفؑ کے سامنے برادران ِ یوسف کو آخر اپنی ہار کا مزانہ چکھایا؟ عیسیٰ علیہ السلام کو پچھاڑنے کے لئے بنی اسرائیل کے احبار ورہبان نے رومی حاکموں سے ساز باز کر کے اُنہیں تختہ ٔ دارپر پہنچانے کا رقص نیم بسمل کیا تو کیا آپؑ کے رفع السماء کا خدائی فیصلہ نعوذباللہ ہارگیا؟ پیغمبر کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کفارانِ مکہ نے ہر رنگ میں اور ہر محاذ پہ اپنی یقینی ہار ٹا لنے کے لئے اَن تھک کارستانیاں کیں ، کیا کافروں کی اُن کے ہارلاکھ روکے رُک سکی ؟ ہار کر بھی ہارنہ ماننا ایک چیز ہے اور حقیقی جیت کا تمغہ پانا دوسری چیز ہوتی ہے ۔
خدائے مہربان نے کورونا کی مہاماری سے فی الحال دنیاکو گھمبیر حالات وحوادث کے قید وبند میں رکھا ہوا ہے، آگے کیا ہو گا وہی علیم وخبیر جانتا ہے ۔ بنیادی طور پر اس خدائی فیصلہ سے نوعِ انسانی کی مرضیات، اس کی چاہتوں ، عیاشیوں ، منصوبوں ، ارادوں غرض مجازی خدائیوں کا تختہ اُلٹ دیا گیا ہے ۔ ٹرمپ، بورس جانسن، پیوتن کی قوموں سے لے کر مودی ، عمران خان اور حسن رُوحانی کے ملکوں تک میں کون ایسا ہے جو آج کی تاریخ میں کو رونا سے پیدا شدہ بے قابو حالات کے سامنے ہارا ہوا نہیں دِکھ رہا ہے ؟ عملاً صور ت حال یہ بنی ہے کہ ایک طرف کورونا کا نظر نہ آنے والا آدم خور اور معیشت خور شیر ہے اور دوسری طرف عالم ِانسانیت نوزائیدہ میمنہ کی صورت میں
لڑ کھڑا رہا ہے ۔ ایسے میں کوئی خیالی جنگ کی ہانکے تو غیب سے یہی آواز آئے گی:’’فاین تذھبون ‘‘
زیادہ دوجانے کی ضرورت نہیں، ۲۴مارچ کوانڈیا میں لاک ڈاؤن کا اعلان کر تے ہوئے پی ایم مودی نے اپنے بھاشن میں کہا تھا کہ مہابھارت کا یُدھ اَٹھارہ دن میں جیتا گیا تھا ، ہم اکیس دن میں کورونا سے مُکتی پائیں گے مگر آج کی تاریخ میں کیا یہ ان کا محض ایک واہمہ ثابت نہ ہوا؟ یہ ایک طفل تسلی اور خام خیالی تھی ۔ فی الوقت کورونا کایک طرفہ یُدھ جوںکا توں جاری ہے جب کہ اب خیر سے لاک ڈاؤن کا چوتھا دور چل رہاہے ۔ یہ سارا سلسلہ کب تلک یونہی طول کھینچتا رہے گا کوئی ماہر ِ فن ،کوئی سیاست کار، کوئی پنڈت پروہت پیشوانہیں بتا سکتا ۔ ملک بھر میں تادم تحریرکورونا متاثرین کی تعداد ایک لاکھ اڑتیس ہزار سے متجاوز بتائی جاتی ہے ، مر نے والوں کی تعداد بھی پل پل رُوبہ اضافہ ہے ۔ حالانکہ بعض حلقے سرکاری اعدا دوشمار کو ناکافی جتلاتے ہیں۔ ویسے بھی اس کے بعد اب کہنے کو رہتا بھی کیا ہے کہ عالمی ادارہ ٔ صحت کووڈ۔۱۹ کی گھمبیر تا کا فہم وادراک کر کے ہینڈز اَپ ہے،صاف لفظوں میں اعلان کر گیا کہ انسانی دنیا کو اپنی تمام بے بسی کے ساتھ اب کورونا کے ساتھ ہی جینا مرنا ہوگا ۔’’ فاین تذھبون‘‘
میرے ناقص خیال میں مہلک وبا کی غیر مختتم گرفت سے بچنے کے لئے ہمیںکسی بہادری یا جنگ بازی کی قطعی ضرورت نہیں، جملہ بازی سے بھی کام نہیں چلے گا ، کیونکہ یہ کسی دشمن ملک نے ہم پر جنگ مسلط نہیں کی ہے ، نہ یہ کسی اپوزیشن پارٹی کی ’’سازش‘‘ ہے، اس لئے حقیقت شناسی سے منہ موڑنا اس درد کی کوئی دوا نہیں۔
ہمیں جان لینا اور مان لینا چاہیے کہ کورونا پوری دنیاکو سرتا پاجھنجوڑنے کے لئے خدائی کارخانے سے نازل شدہ بلائے آسمانی ہے ۔ یہ ناگہانی آفت نوع ِ انسانی سے مطالبہ کر تی ہے کہ وہ مہر بان ومائل بہ کرم خالق ِ کائنات کی طرف خلوص و بے ریائی کے ساتھ پلٹ آئے ، دوٹانگوں پر کھڑا حضرت انسان اپنی ضد ہٹ اور اکڑ سے دستبردار ہوکر زمین پر چلنے کا سلیقہ سیکھے اور ودسروں کو سکھائے۔ نیز جب تک یہ خدائی فیصلہ دنیا میںنافذالعمل رہتا ہے ہمیں اللہ کے سامنے لڑنا نہیں بلکہ مکمل خود سپردگی کر کے رحم کی بھیک مانگنے ہر پل اس کے سامنے سرنگوں ہونا چاہیے ۔ ہاں ، اپنی بقاء کے لئے ساتھ میں جہدمسلسل بھی کر نی چاہیے ، ہوش مندی سے کام لے کر احتیاط کی پگڈنڈی اور پرہیز کی شاہراہ پر بھی ہر حال میں چلنا چاہیے ۔ انسانی لاک ڈاؤن سے زیادہ حرام اور ناجائز مشاغل کے بارے میں خدائی لاک ڈاؤن پر عمل پیراہونا چاہیے۔ نیزاحسا سِ ذمہ داری کا لحاظ کرکے اور سرکاری بندشیں توڑے بغیر اگر کسی فرد بشر کے لئے تھوڑی بہت معاشی دوڑ دھوپ کی ادنیٰ سی بھی گنجائش نکلتی ہے تو اسے غنیمت ومبارک سمجھے، اس سے منہ نہ موڑے۔ ’’ فاین تذھبون ‘‘
ہمیں اچھا لگے یا بُرا مگر ہے یہ ایک بدیہی حقیقت کہ کورونا کے بعد نئی دنیا وجود پائی گی ۔ یہ نئی دنیا قبل از کورونا دنیا( بل گیٹس کی دجالی دنیا ) سے بالکل مختلف ہونا طے ہے۔ ہماری موجودہ دنیا میں ابلیسی سوچ کا غلبہ، کمزوروں کی مغلوبیت، احتکارِزر، ظالمانہ مادہ پرستی کابول بالا ہے۔ تاہم اگر’’فاین تذھبون ‘‘ کی صدائے پُردرد پر انسانی دنیا مثبت رویہ اپنا کر لبیک کہنے کی روادار ہو ئی تو ہر ملک وقوم کو دجالیت کے چنگل سے آزاد ہوگی، اس کی صبح وشام بدلی بدلی ہوگی، ترجیحات تعمیری اور امن پرورانہ ہوں گی ، دلچسپیاں فطرت کے اشاروں کے سانچوں میں ڈھلی ہوں گی۔ اسی صورت میں فطرت کا غصہ کم ہوگا اور انسانی دنیا کورونایا اس سے زیادہ خطرناک ہلاکت خیز وباؤں سے گلوخاصی پائے گی۔اس کے بجائے اگر مابعد کورونا دنیا دجالی نظام کی علمبردار ہوئی تو انسانیت کا جنازہ حسب ِسابق اُٹھتا رہے، جنگ وجدل اورناانصافی سکہ ٔ رائج الوقت ہو گی۔ فیصلہ ہمیںکر ناہے کہ کون سی دنیا ہمارے لئے بہتر ہے ۔ وباؤں کو دعوت دینی والی دنیا یا اصلاح یافتہ خدا پرست اور انسان دوست دنیا۔’’فاین تذھبون ‘‘
بہرحال ہماری دعا ہونی چاہیے کہ موجودہ قیامت خیزی کے بعد مستقبل کے بطن سے ایک اصلاح یافتہ دنیا برآمد ہو، یہ نئی دنیا ہر لحاظ سے آدمیت کے نور سے معمور ہو،اس میں صرف مفید علوم کی حامل اور جد ید سائنس وٹیکنالوجی سے لیس اقوام ہی بآسانی جی سکیں۔’’فاین تذھبون ‘‘ کا منشاء ہمارے لئے یہی ہے کہ اخلاقی سطح پر نئی دنیا انسان کو فقط اپنی پیٹ پوجا کر نے والا حیوان نہ پائے بلکہ اس میں دوسروں کے لئے بھی جینے کا سہارا بننے کا جذبہ اورتوفیق بدرجۂ اتم موجود ہو ۔ایسی دنیا میں جینے والے ’’ہم ہار نہیں مانیں گے ‘‘ کے قوال نہ ہوں، نہ اس میں جینے والے کسی خیالی جنگ کے لڑاکو ہوں ، اس میں اللہ کے حضور سر عبودیت جھکانے والے ہوں ،اس دنیا میںاپنی تعمیری اور تخلیقی صلاحیتوں سے علامہ اقبالؒ کے درج ذیل شعر کی تفسیر مجسم بننے کی توفیق پانے و الے رہتے ہوںتاکہ دنیا خوان ِ یغما نہیں بلکہ فوائد کی آماج گاہ اور خدمات کی جنت بن جائے ؎
تُو شب آفریدی چراغ آفریدم
سفال آفریدی ایاغ آفریدم
( محاورہ مابین خدا وانسان)
ترجمہ : تونے رات بنائی تو میں نے چراغ بنایا۔
تونے مٹی بنائی میں پیالہ ( کام کی چیز) بنالی۔
مطلب یہ کہ نئی دنیا کے باسی تخلیق کار بنیں، تخریب کار یاجنگ باز نہیں۔’’فاین تذھبون ‘‘
اس وقت ہم پرمالک ِکائنات نے جو بھاری بھر کم بوجھ کوڈ۔ ۱۹ کی شکل میں لادیا ہے ، اس سے پہلے بھی ہزاروں سال سے ایسی آفات وبلیات کے نزول سے خدا وند کریم انسانی بستیوں کو وقتاً فوقتاً تہس نہیں کر تا رہا ہے ۔ یہ سب اس کی حکمت ِ بالغہ کانادیدہ باب ہے جو انسانی فہم اورسوچ سے بالاتر ہے۔ ہمارے لئے اس حوالے سے یہ بات کلی معنی رکھتی ہے کہ انسان نے ماضی میں نہ حال میں قدرت کے چلنجوں کا سامنا ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھ کر کیا بلکہ اس نے اللہ کی ہی ودیعت کی ہوئی صلاحیتوں اور قابلیتوں کا سرمایہ بلا دھڑک استعمال کر کے ہر حال میں اپنا مدافعتی و تخلیقی محاذ سنبھا لا۔ آج بھی انہی صلاحیتوں کی خوشہ چینی کر کے ہم پیش آمدہ ہلاکت خیز آفت سے تعمیری امکانات کی محولہ بالا حسین دنیا دریافت کر سکتے ہیں ،جہاں نہ صرف عالم ِ انسانیت کے لئے کورونا کا خاتمہ بالخیر ہو، بلکہ ساتھ ہی ساتھ جہاں بھوک ، بیماری ، افلاس، ناخواندگی، تنگ نظری، تنفر، تخریب کاری اور تشدد کی جگہ امن ، بھائی چارے، ہم آہنگی، کثرت میں وحدت ، جیو اور جینے دو کی شریں نغمہ خوانیاں ہوں۔ اس کے
بر عکس اگر ہم ’’ گھرمیں گھس کر ماریں گے ‘‘ کی ڈینگیں مارتے رہیں
’’ گولی مارو سالوں کو‘‘ جیسی گیڈر بھبکیاں دیتے رہیں تو ہماری دنیا کا کیا کوئی بھلا ہوگا؟ نہیں بلکہ ایک وائرس سے نجات پاکر ہم اس
سے زیادہ دوسرے مہلک وائرسوںکا شکار ہوں گے۔ ’’فاین تذھبون‘‘
ان دنوں ہم بچشم ترحم انڈیا میں برہنہ پا ، خالی جیب ، بھوکے پیٹ سینکڑوں میل پیدل چلنے پر مجبور لاک ڈاؤن کے ستائے لاکھوں کروڑوںغریب مہاجر مزدور اپنے معصوم بچے اور لاغر عورتیں سمیت سڑکوں پرٹھوکریں کھاتے دیکھ رہے ہیں ۔ یہ کر یہہ الصورت مناظر دیکھ دیکھ کر کشمیر کے لوگ نہ صرف جذباتی طور مجروح ہورہے ہیں بلکہ انسانی المیوں کی چلتی پھرتی تصویریں دیکھ کر وہ اپنی اَن کہی اَن سنی بپتا بھول کر آنسو بہارہے ہیں مگراعلیٰ حکام اور بڑے نیتا ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہو رہے ۔ ان بے خانماں لو گوں کی گھرواپسی بھوک ، پیاس، چلچلاتی دھوپ ، پولیس ڈنڈوں اور ریل و سڑک حادثات کی بھینٹ چڑ ھتی جارہی ہے مگر کسی حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، نہ کسی کو ان کی کوئی ذرا سی پرواہ ہے ۔ غریب ولاچار مزدروں کو یہ ساری ذلت وخواری اس لئے برداشت کر نی پڑ رہی ہے کہ اپنے حاکمانِ وقت نے لاک ڈاؤن کی کوئی دوراندیشانہ پلاننگ نہ کی بلکہ آنکھ اور دماغ کے دروازے مقفل کر کے صرف اپنامن مانا فیصلہ سنا دیا۔نتیجہ سامنے ہے کہ لاکھوں کروڑوں غریب مزدور ہر ڈگر اور ہر نگر میں اتیاچاروں کی ٹھوکریں کھا تے جا رہے ہیں۔ اُن کی حزنیہ داستانیں ہمارا گریبان پکڑ کر ہمارے سے ضمیر سے پوچھتی ہیں کورونا سے کا ہے کی جنگ کی لڑ رہے ہو؟ اگر کوئی جنگ تم نے چھیڑی بھی ہے تو ان غریبوں کے خلاف چھیڑی ہے ۔ کیاتم لوگوں کو ان کے دُکھ اور تکلیفیں دیکھ کر نہیں لگتا کہ تمہارا سار افرسودہ سسٹم ہار ا ہوا ہے ؟ کیا تم کوئی فلاحی ریاست چلانے کے لائق ہو جہاں غریب مر نے کے لئے سڑکوں پر بے آسرا چھوڑا نہیں جاتا؟ تم تو صرف کرسی کے پیار میںسہانے سپنے دکھانے میں ماہرہو، تم ہو سیاسی مداری کہ اپنی ناکامیاں چھپانے اور سیاسی روٹیاںسینکنے کی غرض سے ’’ہم ہار نہیں مانیں گے ‘‘ جیسے نغموں سے جنتا کو دھوکہ دے رہے ہو۔ تم وہ کٹھوردل ہو جنہوں نے یوپی کے بارڈر پر غریب مزدوروںکو گھر پہنچانے کے لئے تقریباً ایک ہزار گاڑیاں ردک کر واپس کر دیں تاکہ تمہارے سیاسی محل میں کوئی ڈراڑنہ آئے چاہے پیدل مارچ کر نے والے مزدوروں کی جان پر ہی بن آئے ۔ کیا ہوگا ہمارا جواب ضمیر کے ان سوالوں کا؟ ’’فاین تذھبون‘‘
اس ساری بحث کا لیکھا جوکھا یہ ہے کہ اے۔ آر۔ رحمن کا نغمہ زمینی حالات کے بجائے سرکاری بیانئے کی تائید میں گنگنائی گئی ایک بالی وُڈ قوالی کے علاوہ اور کوئی معنویت نہیں رکھتی۔ یہ چیزیں عملی دنیا کی گفتگو نہیں ہوسکتیں۔خود ہی انصاف کیجئے کہ اس وقت جب ہمیں متحدہ طور مہاماری سے گلوخلاصی کے لئے کمر بستہ ہونے کی اَشد ضرورت ہے، سیاسی پشتیبانی رکھنے والے والے فسطائیوں کے ہاتھوں اقلیتی انڈین مسلم کمیونٹی سے غیرا نسانی برتاؤ معمول بنایاجاچکا ہے، ان کے کھانے پینے ، ٹوپی، حجاب، اذان سے لے کر اُن کے تشخص کی ساری علامتوں تک خدا واسطے بیر برتاجارہا ہے۔اس پر بھی یہ دعویٰ کہ ’’ہم ہار نہیں مانیں گے ‘‘!!! حال ہی میںسوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوا جس میں دکھایا گیا تھاکہ کس طرح ایک دلت ڈاکٹر نے ہسپتال میں صرف پی پی ای کی عدم دستیابی کی شکایت
کر نے کا تحفہ یوں پایا کہ پولیس اسے مبینہ طورسرراہ گھسیٹتے ہوئے تھانے لے جارہی ہے ،وہ بھی ننگے جسم، پیچھے کی طرف ہاتھ بندھے اور اس کی تذلیل دوآتشہ کر نے کے لئے اس کے سر کی مکمل حجامت بھی کی گئی تھی ۔ اُف! اس بے قصور انسان کے ساتھ کتوں جیسا سلوک کیا قانون کی ہار اور انسانیت کی شکست کا کھلا اعلان نہیں ؟ جہاں کورونا کے خلاف ’’لڑنے والے جنگ باز ‘‘ ہندوڈاکٹر تک کولاقانونیت اور ناانصافی کی سولی پر چڑھانے والا مہلک وائرس سر چڑھ کر بول رہاہو ،وہاں ’’ہم ہارنہیںمانیں گے‘‘ کا نغمہ سخن سازی کے علاوہ اور کیا ہے؟ ’’فاین تذھبون‘‘
مختصراً ’’فاین تذھبون ‘‘ ایک حقیقی اور سنہری دنیا کی صدائے بازگشت ہے جب کہ ’’ہم ہار نہیں مانیں گے ‘‘ صرف ایک قیاسی جنت کا فریب ِ نظر ہے۔ نغمے میں شاعرانہ خیال آرائی ، لفظوں کی جادوگری، جملوں کی موسیقیت اپنی جگہ ، لاک دڈان سے پیدا ہورہی نومیدی کو مات دینے کے لئے شاعر کا زیست کی خو ش خبری سنانا بھی تسلیم مگر اس کی آڑ میں کورونا کی مسلسل مار سے نجات پانے کے لئے حکومت کو اپنی ہر طرح کی ہار جیت کہلوانے کے بجائے ایک تعمیری اور نتیجہ خیز انسانی سوچ اپنا نی چاہیے تاکہ عالمی وبا کا سامنا نئے جوش ،ولولے اور خادمانہ جذبے سے کیا جاسکے ۔
اس میں دورائے نہیںکہ کورونا وائرس نے پوری دنیا کی ناک میں دم کر رکھاہے ، دنیا بھر میں کارخانے ، معاش گاہیں، انسانی زندگی پر اثر انداز ہونے والے تمام کلیدی ادارے یک قلم بے کار پڑے ہیں۔ یہ انقباض وانقطاع دیکھ کر لگتا ہے کہ ماضی میں عالمی جنگوں نے بشمول ہلاکتیں زندگی کا سارا نظام درہم برہم کر نے کا جو سیاہ کار انہ ریکارڈ بنایا تھا، شاید اب کے کارخانہ ٔقدرت اسے توڑ کر رکھنے کا فیصلہ کر چکاہے۔ ان نازک حالات میں ملک وقوم کی نیا بچانے کے لئے ناگزیر ہے کہ ہم سب خیالی جنگ کی رَٹ لگانے سے باز آئیں اور’’ فاین تذھبون‘‘ کی خدائی کنجی سے اول اکابرین ِ حکومت عقل وفہم اورضمیر کے بند تالے کھول کر ایسی نتیجہ خیز،انسانیت نواز ،تازہ دم مدافعتی اور اختراعی پالیسیاں وضع کریںجو ایسے ہنگامی حالات میں زندہ قوموں کا شعار ہوتی ہیں۔دوم عوام اپنے خالقِ حقیقی کے سامنے غیر مشروط سرینڈر کر کے بندگان ِ خدا کے حقوق بھی ادا کریں اوراُن کی خدمت وخیرخواہی کاشیوہ بھی اختیار کریں ؎
آرزوحسرت اور اُمیدشکایت آنسو
اک تر ا ذکر تھا بیچ میں کیا کیا نکلا
نوٹ: ش م احمد وادیٔ کشمیر کے آزاد صحافی ہیں

Comments are closed.