اہل حرم کے سومنات

الیاس اعظمی
(سابق ممبر آف پارلیمنٹ)
تبلیغی جماعت کے ایک دھڑے کے امیر جناب سعد کاندھلوی نے (میں اللہ کے سوا کسی کو مولانا نہیں مانتا) اردواخبار کے اپنے انٹرویو میں موجودہ حکومت ہند اور عدلیہ پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ میڈیا پر سوال ہی نہیںکیاگیا، پھر بھی اس کو غلط فہمی کا شکار بتایا؟ مجھے تو پتہ نہیں کیا کہ ڈیل ہوئی ہے لیکن کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔
تاریخ کے ہردور میں علماءسو نے ہمیشہ حکومتوں پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ بنی امیہ اور بنی عباس کا ہی نہیں کانگریس او ربھاجپا حکومتوں سے ہمیشہ ان کی ڈیل ہوتی رہی ہے۔ کانگریس سے کھل کر بھاجپا سے تھوڑا فاصلہ بناکر۔ علمائے سو کا اعتماد ہمیشہ حکومتوں کے ساتھ رہا ہے۔
جب ۱۳؍اگست ۱۹۸۰ کو اندرا گاندھی نے مسلمانوں سے ۱۹۷۷ کا بدلہ لینے کے لیے ’’جموں یٹرن سیاست‘‘ کے تحت مرادآباد عیدگاہ میں ۸۰ ہزار نمازیوں پر اندھا دھند گولیاں چلوا کر سینکڑوں انسانوں کو شہید کرادیا تو دلی کی پریس کانفرنس میں ’’مردآباد فساد ‘‘ کی ذمہ داری پاکستان اور میٹرو ڈالر پر ڈالی تو دوسرے دن علمائے سو کے سرغنہ اسعد مدنی نے پریس کانفرنس کے ذریعہ انتباہ دیا کہ وہ ہمارے اندورنی معاملوںمیں مداخلت بند کرے آج ہم یقیناً اپنی تاریخ کے نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ لیکن اس سچائی سے کوئی منافق بھی انکار نہیںکرسکتا ۔ کہ نہرو، اندرا، راجیو اور نرسمہا رائو کے دورمیں آج سے زیادہ برے دور آتے رہے ہیں، لیکن کبھی بھی کسی بندہ قاسمی کا ضمیر بیدار نہیں ہوا ۔ کیو ںکہ علمائے سو کی توندوں میں مال حرام ہمیشہ بھرا رہتا تھا؟ جس میں مودی نے کمی کردی ہے؟
خوشی کی بات ہے کہ سی اے اے مخالف تحریک میں ہماری بہنوں، بیٹیوں اورپوتیوں نے دلی سے کنیا کماری تک اپنے نازک ہاتھوں سے عبداللہ بن ابی کی ذریت علمائے سو کے چہروں پر پڑے ہوئے د بیز نقابوں کو نوچ کر پھینک دیا ہے جس سے یہ امکان پیدا ہورہا ہے کہ شاید ہمارے کندھوں سے صدیوں کی سڑی ہوئی ان لاشوں کا بوجھ اتر جائے اوربھارت کا مسلمان بھی اس عظیم انسانی سوسائٹی کی فلاح میں اپنے حصے کا کردار ادا کرنے کے لائق بن سکے جس کی زمینی تیاری ہورہی ہے۔
میری نسل تو اس شراندسے آزاد نہیں ہوسکی، حالانکہ اسی نسل نے ڈاکٹر عبدالجیل فریدیؒ جیسے ’رجل عظیم‘ کو جنم دیا لیکن نوجوان نسل کی کیڈرنگ اور مستقبل کا راستہ دکھانے کے علاوہ وہ بھی کچھ نہ کرسکے۔ انہیں صرف ۸ سال کا وقت ملا۔
میں یہ بات صاف کردوں کہ ’’پیری مریدی‘‘ بت پرستی کی سب سے خطرناک قسم ہے۔ پتھر کا بت کسی کو گمراہ نہیں کرسکتا لیکن زندہ پیر تو ایک زندہ بت ہوتا ہے ان شاء اللہ دنیا سے جانے سےپہلے نئی نسل کو یہ بتا کر جائوں کہ ڈاکٹر فریدی کی تحریک کو عین عالم شباب میں ایک زندہ بت کے ذریعے ہی درگور کرایاگیا تھا۔
بھارت کے بیس کروڑ مسلمانوں کا مسئلہ آر ایس ایس اور بھاجپا نہیں ان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ کعبے کے برہمن ، یا علمائے سو ہیں دنیا بھر کے مسلمان اپنے دور زوال کے آخری حصے سے گزر رہے ہیں ان شاء اللہ جلد ہی تین چار سال میں یہ دور بھی گزر جائے گا۔
سورش کاشمیری کی خود نوشت ’’بوئےگل نالۂ دل ، دودِ چراغ ِ محِفل‘‘ پڑھنے کی چیز ہے وہ اپنی نوجوانی میں تاریخی مسجد شہید گنج تحریک لیڈر تھے اس تحریک میں ایک ایک کرکے ۳۵ نوجوانوں نے اپنی شہادتیں دی تھیں گورنر پنجاب میکڈ ونالڈ اور وزیر اعظم سر سکند ر حیات جب بہت پریشان ہوگئے تو ایک رات ڈیڑھ بجے سکندر حیات سورش کاشمیری کے گھر پہنچا ان کے پاس ایک کرسی تک نہ تھی لیکن وہ نوجوان اکیلے بات چیت پر راضی نہ ہوا ، طے پایا کہ علامہ اقبال کے گھر پر سرکار اور نوجوانوں سے بات چیت ہو۔ چالاک سکندر حیات نے علامہ اقبال کو راضی کرنے کی ذمہ داری نوجوانوں پر ڈالی۔ علامہ اقبال نے کہاکہ میرا گھر کوئی سوروں کا باڑہ تو نہیں کہ اتنے سارے سور میرے گھر پر جمع ہوں۔ لیکن نوجوانوں کی پریشانی دیکھ کر وہ پگھل گئے کہا کہ اسلام نے ہر مسئلے کا حل بھی پیش کیا ہے میں آج ہی رات میں گھر خالی کردوں گا بات چیت میں شرکت نہیں کرسکتا۔ چار دن بعد پورا گھر تین پانی دھلواکر پاک کرلوں گا۔
بات چیت کی ناکامی کے بعد ایک دن پیر جماعت علی شاہ بادشاہی مسجد گئے اوراعلان کردیا کہ اگر ایک مہینے میں مسجد مسلمانوں کے حوالے نہ کی گئی تو میں فلاں تاریخ کو مسجد کے مینارسے چھلانگ لگادوں گا۔ پوری سرکار ان کی منت سماجت پر لگ گئی۔ تحریک ختم، بلکہ بادشاہی مسجد میں سمٹ گئی۔ پھلانگ سے ایک دن پہلے فجر کی نماز کے بعد پیر صاحب نے بتایاکہ رات میں رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تھے مجھے سے سخت ناراض تھے کہ تم ایک وہابی امام کے پیچھے ایک مہینہ سے نماز پڑھ رہے ہو انہوں نے مجھے بلا تاخیر مدینہ طلب کیا ہے۔
یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ مسجد کے باہر پیر صاحب کو مدینہ لے جانے کےلیے گاڑیاں تیار تھیں، کس میںیہ ہمت تھی کہ وہ رسول خداﷺ کے بعد ان پر انگلی اُٹھاتا وہ مدینہ گئے، تحریک ختم ہوئی اور ۱۹۳۵ میں مسجد توڑ کر گرودوارہ شہید گنج تیار ہوگیا۔ صرف بارہ سال بعد لاہور پاکستان کا حصہ بنا، گرودوارہ آج بھی سینہ تانے کھڑا ہے کیا ہم اس سوال پر غور کرنے کو تیار ہیں کہ پتھر کا بت زیادہ خطرناک ہوتا ہے یا پیر کے نام کا زندہ بت؟
بریلوی دیوبندی کے جھگڑے سے آپ واقف ہیں۔ لیکن دونوں میں پیری مریدی کے معاملے میں کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے بڑھ کر بت پرست ہیں۔ دونوں میں اس پر اتفاق رائے ہے کہ صرف اللہ کے رسولﷺ کی وراثت نہیں تھی لیکن قیادت اور امامت کے حوالے میں حسین احمد مدنی، احمد رضا خان اور ابوالحسن علی ندوی کی وراثت چلے گی۔ مدرسوں کی نظامت میں بھی وراثت چلے گی کیوں کہ تجارت کا معاملہ ہے اس میں عقل مندوں میں جھگڑے نہیں ہوتے؟
ہر خرقۂ سالوس کے اندر ہے مہاجن
شاید اسی لیے علامہ اقبال نے حیران ہوکر سوال کیا تھا
کیا نہیں اور غزنوی کارگہِ حیات میں
بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہلِ حرم کے سومنات
اب مجھے نوجوانوں سے امید ہے کہ وہ ان سومناتوں کو نہ توڑسکیں تو انہیں پیٹ پیٹ کر مسجدوں، مدرسوں اور خانقاہوں میں ا سطرح قید کریں کہ یہ بازار اور عوامی معاملات میں دخل اندازی نہ کرسکیں۔ اس سے پہلے آپ کا دور زوال ختم ہونے والا نہیں ہے۔

Comments are closed.