ماتم کے وقت سال گرہ

محمدجمیل اختر جلیلی ندوی
بھارتیہ جنتاپارٹی کی دوسری میعادکی پہلی سال گرہ کی تکمیل ہوئی، وزیراعظم صاحب نے بھی نے قوم کے نام لمباچوڑاخط لکھا، جس میں پچھلے سالوں کی کارگردگی کا ذکر بطوراحسان کے یادکرایا، خصوصاً دوسری میعادکی پہلی سال گرہ کی کاردگی کاذکرزوردارانداز میں کرایا؛ لیکن ان باتوں کوسرے سے گول کرگئے ، جن کی بنیاد پر عوام سے ووٹ کی بھیک مانگی گئی تھی، پہلی میعادمیں بھارتیہ جنتاپارٹی نے جووعدے کئے تھے، وہ ’’ایک بھارت، سریشٹھ بھارت، سب کاساتھ، سب کاوکاس، اقلیتوں کے لئے یکساں مواقع، بلیٹ ٹرینوں کے جال، کالے دھن کے خاتمہ پرہرایک کے کھاتے میں پندرہ لاکھ روپے ڈالنے اورہرسال دوسوکروڑنوکریاں‘‘دینے جیسے کئی دیگرعوام پسند؛ مگر پر از فریب وعدے کئے تھے اورعوام نے بھروسہ کرکے اسے ووٹ دے کرملک کی باگ وڈوراس کے ہاتھ میں تھمائی تھی؛ لیکن عوام چیختی رہی کہ پندرہ لاکھ کہاں ہیں؟ دوسوکروڑنوکریاں کہاں ہیں؟ لیکن جواب ندارد اورجواب دیابھی کیاجاتا؟ دینے کے لئے کچھ ہوتاتب نا؟ جب اس بابت دوسری میعادکے وزیرداخلہ سے سوال کیاگیاتوپوری ڈھٹائی کے ساتھ جواب دیاگیاکہ یہ توبس لوگوں کوراغب کرنے کے لئے ایک جملہ تھا، جیساکہ ہرپارٹی جملہ بازی کرتی ہے۔
جن پندرہ لاکھوں کاعوام سے وعدہ کیاگیاتھا، اس کے لئے ملک میں نوٹ بندی کی گئی اورایسی عجلت کے ساتھ کی گئی کہ جیسے بس ملک کے تمام لوگوں کے سارے کالے دھن واپس ہوہی جائیں گے؛ لیکن وہ لوگ توصاف بچ گئے، جن کے پاس حقیقتاکالے دھن تھے، پھنسے وہ لوگ، جومتوسط طبقہ کے تھے، جنھوں نے سالوں کی محنت کے بعد گھر بنانے، بیٹی کی شادی کرنے یاپھرکچھ زمین وغیرہ خریدنے کے لئے تھوڑی بہت رقم اکٹھی کرکے رکھی تھی، کیاکسی نے کسی بھی لکھ پتی یاکروڑپتی آدمی کواس فرمان سے پریشان ہوتے دیکھاتھا؟ غریب اورمتوسط لوگوں کے علاوہ’’ ان‘‘ بڑوں کو بینک کی لائنوں میں کھڑے دیکھاتھا؟
مودی جی نے نوٹ بندی کے تین فائدے بتائے تھے: ایک یہ کہ ساراکالادھن پکڑا جائے گا، دوسرے یہ کہ سارے فرضی نوٹ پکڑے جائیں گے اورتیسرے یہ کہ دہشت گردی اورنکسلزم ختم ہوجائے گا، کیانوٹ بندی کی وجہ سے یہ تینوں چیزیں ختم ہوگئیں؟ ساراکالادھن پکڑاگیا؟اورپکڑاگیاتوپھرعوام کے کھاتوں میں پندرہ پندرہ لاکھ کیوں نہیں آئے؟ یہ سوال اس لئے پیداہوتاہے کہ ۲۴؍اگست ۲۰۱۸ء کی آربی آئی کی رپورٹ کے مطابق نوٹ بندی کے دوران 15.44لاکھ کروڑنوٹوں میں سے 15.13لاکھ کروڑ نوٹ توبینکوں میں واپس جمع ہوگئے، جس کامطلب 99.09فیصد نوٹ واپس آگئے، باقی بچی رقم بھی رائل بینک آف نیپال اوربھوٹان عدالتوں میں ٹیسٹ پراپرٹی کے طورپر جمع ہیں توپھرکالادھن گیاکہاں؟
نوٹ بندی کی دوسری وجہ کے تعلق سے10؍دسمبر2016ء کومودی حکومت نے سپریم کورٹ سے کہاتھا کہ 15.44لاکھ کروڑپرنے نوٹوں میں سے 3؍لاکھ کروڑ کالادھن ہے، جوجمع نہیں ہوگا اورضبط کرلیاجائے گا، وہ تین لاکھ کروڑ کہاگئے؟ کیامودی حکومت نے اسے ضبط کیا؟جواب نفی میں ہے، جہاں تک تیسری وجہ دہشت گردی اورنکسلزم کے ختم ہونے کی بات ہے تووہ آپ کومعلوم ہے، نہ تودہشت گردی ختم ہوئی اورناہی نکسلزم، معلوم یہ ہواکہ جن تین وجوہات کی بنیادپرنوٹ بندی کی گئی تھی، کسی ایک میں بھی مودی حکومت کوکامیابی حاصل نہیں ہوئی، یعنی سوفیصد فیل، دوسو نوکریوں کاتواتہ پتے نہیں ہے؛ بل کہ ماہرین کے بقول نوکریوں کی شرح میں کمی ہی آئی ہے، یہی وجہ ہے کہ جب دوسری میعادکی گھڑی آئی توپچھلے وعدوں کاکہیں ذکر نہیں تھا؛ بل کہ اس وقت الگ سے نئے وعدے کئے گئے اورایسے وعدے کئے گئے، جن میں سے کئی مسلم دشمنی پرمبنی وعدے تھے اورچوں کہ مودی جی کاچہرہ اس تعلق سے کافی جاناپہچاناہے؛ بل کہ گوگل کی لسٹ میں سرفہرست ہے اورجس کے لئے آرایس ایس کاقیام عمل میں آیاہے اورجوہمیشہ سے بی جے پی کاایجنڈارہاہے، اسی کے بل بوتے پراس نے نفرت کی آگ بھی پھیلائی، خودمودی جی نے بھی اوران کے کارکنوں نے بھی۔
اب دوسری میعاد کی پہلی سال گرہ پربھارتیہ جنتاپارٹی گزشتہ ایک سال میں کئے گئے اپنے ان’’ کارہائے نمایاں‘‘کوگنوارہی ہے، جس کی وجہ سے ملک کوکافی نقصان ہواہے، بی جے پی نے 2019ء کے الیکشن کے لئے جومنشورجاری کیاتھا ، وہ 75شقوں پر مشتمل تھا، جن میں سے بھارت کے زیرانتظام کشمیرسے اس کے خصوصی درجہ کوختم کرنے کے لئے آرٹیکل 370کے خاتمے، رام مندرکی تعمیر، یکساں سول کوڈ کا نفاذ، اقتصادی ترقی، طلاق ثلاثہ کے خلاف قانون سازی وغیرہ کی بات کہی گئی تھی، اسی کے ساتھ ساتھ شہریت ترمیمی قانون بھی ان کے منشورمیں داخل تھا، جس کااظہار پارٹی کے سابق صدراورحالیہ وزیرداخلہ نے بارہااپنی ریلیوں میں کیا۔
دوسری میعاد کی پہلی سال گرہ کے موقع پروزیراعظم نے بھی ان کوگنواتے ہوئے قوم کے نام اپنے خط میں کہا: عزیزو! گزشتہ ایک برس میں کچھ اہم فیصلے زیادہ زیربحث رہے اوراس وجہ سے ان حصول یابیوں کاذہن میں رہنابھی بہت فطری بات ہے، قومی اتحاد اورسالمیت کے لئے آرٹیکل370کی بات ہو، صدیوں قدیم جدوجہدکے خوش گوارنتائج، رام مندرکی تعمیرکی بات ہو، جدیدسماجی نظام میں باعث روکاوٹ طلاق ثلاثہ ہویاپھربھارت کی رحم دلی کی علامت شہریت ترمیمی قانون ہو، یہ تمام حصولیابیاں آپ سبھی کویادہیں، ایک کے بعد ایک ہوئے ان تاریخی فیصلوں کے درمیان متعددفیصلے،ان کی تبدیلی ایسی بھی ہے، جنھوں نے بھارت کے ترقی کے سفرکونئی رفتارعطاکی ہے، نئے نصب العین فراہم کئے ہیں، لوگوں کی توقعات کی تکمیل کی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیاان فیصلوں کے ذریعہ واقعی ملک کوترقی کے سفرکے لئے نئی رفتارعطاہوئی ہے؟ آرٹیکل 370کے خاتمہ کی وجہ سے ملک کوکیاترقی حاصل ہوئی؟ ہزارہاکروڑ کامعاشی نقصان ہوا، سیکڑوں لوگ بھوک سے مرگئے، تعلیمی سرگرمیاں منقطع ہونے کی وجہ سے تعلیمی نقصان ہوا، کیاسب ترقی کے کھاتے میں ڈالا جائے گا؟بابری مسجد – رام مندرکے جھگڑے کاتصفیہ بالکل دھاندلی کے ساتھ ہوا، جس میں صراحتاًیہ بات کہی گئی ہے کہ مندرتوڑکرمسجدبنائے جانے کاکوئی ثبوت نہیں ہے، نیزمسجدتوڑناقانوناً درست نہیں تھا، اس کے باوجودمندرکے حق میں فیصلہ کرناناانصافی نہیں توپھرکیاہے؟ اورکیاناانصافی کے ساتھ ملکی ترقی کونئی رفتارمل سکتی ہے؟ طلاق ثلاثہ جدیدسماجی نظام میں باعث روکاوٹ کیسے ہوسکتاہے؟ طلاق توایک حل ہے، جس کااستعمال اس وقت ہوتاہے، جب کہ نباہ کی کوئی صورت نہیں رہتی ؛ لیکن جدیدسماجی نظام کے لئے یہ باعث روکاوٹ بناکیسے؟ پھروہ جدیدسماجی نظام ہے کیا، جس کے لئے یہ باعث روکاوٹ ہے؟ کیاوہ نظام، جہاں لیوان ریلیشن شپ کی عام اجازت دے دی گئی ہے؟ جہاں شادی کے بغیررضامندی کے ساتھ کیاگیازنا، زنامیں داخل نہیں؟ جہاں عورتوں کوطلاق کے بغیرمعلقہ بناکررکھ دیاجاتاہے؟ جہاں ہم جنس پرستی کی اجازت دی جارہی ہے؟ کیایہی وہ جدیدسماجی نظام ہے، جس کے لئے طلاق ثلاثہ باعث روکاوٹ ہے؟اوراس کے خاتمہ سے ملک کوکیاترقی ہوئی؟ ان تمام کی بھی وضاحت وزیراعظم صاحب کردیتے تواچھاتھا۔
شہریت ترمیمی قانون(CAA)کووزیراعظم صاحب نے بھارت کی رحم دلی کی علامت بتایاہے،اگریہ قانون رحم دلی کی علامت ہے توپھراس کی وجہ سے پورا ملک کیوں جل اٹھا؟ پھریہ کون سی رحم دلی ہے جناب! کہ ملک کے ایک بڑے طبقہ کوتو شہریت کے اس رحم دلانہ قانون کی فہرست سے خارج کردیاجائے؟ کیایہ رحم دلی اس طبقہ کے حق میں نہیں ہے؟ پھراگریہ قانون رحم دلی پرمبنی ہے تواس کے خلاف احتجاج کرنے والوں کوکیوں گرفتارکیاجارہاہے؟ اس قانون کی رحم دلی کیوں ان کے سامنے واضح نہیں کی جارہی ہے؟ ایک سوایک دن تک اس ملک کی مائیں اوربہنیں دھرنے پربیٹھی رہیں؛ لیکن ان کے سامنے جاکراس قانون کی رحم دلی کی وضاحت کیوں نہیں کی گئی؟اس قانون کے چکرمیں ملک کی راجدھانی میں فسادبھڑکایاگیا، لوگوں کاجانی اورمالی نقصان ہوا، کیایہ سب رحم دلی کی ہی علامت ہے؟
اس وقت ملک میں کوروناکی وجہ سے جوہلچل مچی ہوئی ہے، وہ وزیراعظم صاحب سے چھپی ہوئی نہیں ہے، مزدوروں کوجس طرح کی تکلیفیں ہوئیں اورہورہی ہیں، وہ بھی جگ ظاہرہے، کیامودی جی نے اس کی طرف توجہ دی؟ ملک بندی سے پہلے کبھی ان کے بارے میں سوچاکہ کی ان کی حالت کیاہوجائے گی؟ بیماری سے نمٹنے کے لئے کس طرح تیز رفتاری ملک میں کی گئی، اس پربھی روشنی کیوں نہیں ڈالی گئی؟ پی ایم کیرفنڈمیں لاکھوں کروڑکاعطیہ دیاگیا، اس کوبیماری سے چھٹکارے کے لئے کہاں کہاں استعمال کیاگیا؟ اس کی بھی تووضاحت ہونی چاہئے، یہ کیساسال گرہ منانے کاوقت ہے کہ ایک طرف مزدورمررہے ہیں، بچے بلک رہے ہیں، کوروناسے متاثرہونے والوں کی تعدادبڑھتی جارہی ہے، ننگے بھوکے مزدوروں پرپولیس والوں کی لاٹھیاں برس رہی ہیں، عوام دہنی طورپرمفلوج ہوچکی ہے، بالخصوص نوجوان ذہنی تناؤ کے شکارہورہے ہیں، ان سب پرتوجہ دینے اوران کی روک تھاکرنے کے بجائے آپ سال گرہ منارہے ہیں؟ پھریہ بھی کن کاموں کو گنواکر؟ جومختلف فیہ رہے ہیں، جن میں ایک طبقہ کوٹارگٹ کیا گیا ہے، کیایہ ایسے کام ہیں، جن پرناچاجائے، جن پر رقص کیاجائے؟ جن پرجشن منایا جائے؟ ملک کے حالات توایسے ہیں کہ ماتم کیاجاناچاہئے، حالات کی ناسازگاری پرقوم سے معافی مانگی جانی چاہئے، قوم کی تکالیف پر عفو کی درخواست کی جا نی چاہئے تھی، ملک کی اقتصادی حالت پرروناچاہئے تھا؛ لیکن یہاں سال گرہ منایاجارہاہے، یہی ہوتاہے، جب گنجے کے ہاتھ ناخن نکل آتے ہیں۔

Comments are closed.