نوٹ بندی سے لیکر لاک ڈاؤن تک

محمد قمرانجم قادری فیضی
2014 سے ملک ہندوستان کا نصیبہ پھوٹ گیا۔جب سے صاحب بھاری بھرکم اکثریت کے ساتھ اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے تب سےلےکرآج تک ہندوستان ناکامیوں کی جانب رواں دواں ہے۔اور یہ کہنا بےجا نہ ہوگاکہ ہمارے وزیراعظم صاحب جب بھی کرسئی وزارت پر بیٹھ کرکوئی بھی فیصلہ صادر کرتے ہیں تو اس سے ہندوستان کا بَھلا اور فائدہ کم نقصان زیادہ ہوجاتاہے،اور ان فیصلوں سے سب سے زیادہ نقصان اور گھاٹا مسلمانوں کا ہوتاہے، یا یوں کہہ لیں کہ یہ سب قانون یا فیصلہ مسلمانوں کےلئے ہی بنائے جاتے ہیں یا ان قوانین میں ردو بدل صرف اور صرف مسلمانوں کےلئے ہی ہوتاہے اور اس قوانین اور فیصلے سے مسلمانوں کی خوب دل شکنی ہوئی ہے،
چاہے وہ نوٹ بندی کا فیصلہ ہو، چاہے وہ "جی ایس ٹی”کا فیصلہ ہو، چاہے وہ طلاق ثلاثہ کافیصلہ ہو،چاہے وہ کشمیرکا معاملہ ہو، چاہے وہ این آر سی،این پی آر، سی اےاے، کا فیصلہ ہو، چاہے رات 9 بج کر نومنٹ تک موم بتی، ٹارچ، جلانےکا معاملہ ہو، چاہےکوروناکو بھگانےکے لئے تالی بجانےاور تھالی پیٹنےکا معاملہ ہو، اور آخیر میں چاہے لاک ڈاؤن کا فیصلہ ہو،ان سب فیصلوں میں ہندوستان کی غریب عوام پریشانیوں، مصیبتوں اور آفتوں کا شکار ہوئی ہے، اور جب جب صاحب "مَن کی بات” سے عوام کو خطاب کرتے ہیں تب تب بہت سارےلوگ یہی دعا کرتے ہیں کہ انکے زبان سے شُبھ شُبھ ہی نکلے،صاحب کے وزراء پتہ نہیں کیسے یہ سب کرنے کے لئے مشورہ دے دیتے ہیں، ان سارے معاملوں سے ہندوستان کی دنیا بھر میں خوب جگ ہنسائی ہوتی ہے، مگر صاحب کو کوئی فرق نہیں پڑتا،مگر ان سب معاملات میں ایک چیز جو سب سے منفرد ہے کہ صاحب جو بھی فیصلہ یا قانون نافذ کرتے ہیں، سب رات میں ہی کرتے ہیں،یہ بھی پہلی بار ہورہاہے،
پچھلے دو مہینوں سے مسلسل ملکِ ہندوستان کوروناسےجنگ کرنےمیں مصروف اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے مہاجر مزدور روزگارنہ ملنے کی وجہ سےخطرناک حالت سے دوچار ہیں، جوبھی ٹرینیں مہاجرمزدوروں کولاکرمنزل مقصود تک چھوڑتی ہیں، ہرٹرین سے کم ازکم دو تین مزدوروں کی لاشیں ضرور برآمد ہوتی ہیں۔ افسوس ہے ایسی نکمی حکومت، عدالت اور انتظامیہ پر،
ملک آزادہونےکےبعدپہلی بار ایسا ہورہاہے کہ دردکےمارےبےچارے مزدور ننگےپیر تپتی ہوئی دھوپ میں گھر جانے کے لئےلمبے لمبے راستوں پر سفر کرنےپر مجبور ہو رہے ہیں،جب کہ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ جو مہاجر مزدورپیدل گھر جارہے ہیں ،انتظامیہ انہیں فوراً کھانےپینےکی اشیاء کی فراہمی کرائے،اور مزید مہاجر مزدورں سے کرایہ وصول نہ کیا جائے۔
۔اور شایدپہلی بار ایسا بھی ہورہاہے کہ کئی ٹرینیں اپنی منزل سے بھٹک کر دوسری جگہ پہنچ گئی ہیں۔جب سےہندوستان میں بھگوا حکومت آئی ہے تب سے کیا کب ہوجائے کسی کو کچھ معلوم نہیں، اور سب کچھ پہلی بار ہی ہورہاہے۔اور ادھر ادارہ صحت کے ڈاکٹر ‘کے وجئےراگھون’ کا کوروناکی ویکسین بنانےکولیکر کہناہے کہ پہلے ہم جب کوئی ویکسین تیار کرتے تھے تو اسے بنانے میں دس سے پندرہ سال کا طویل عرصہ لگ جاتاتھا، مگر کوروناکی ویکسین تیارکرنےمیں تیزی لائی جارہی ہیں۔اور ہندوستان میں ویکسین بنانےکی قوت کافی چست درست ہے ۔ اس ویکسین کو بنانے کے لئے ہندوستان میں 13 گروپ کوشش میں لگے ہوئے ہیں مگر یہ کہنا مشکل ہے کہ کس گروپ کی ویکسین کارآمد ثابت ہوگی۔
قارئین کرام۔پہلے ہم چک بندی، نس بندی ،شراب بندی ،ناکہ بندی ،گھیرا بندی ،جنگ بندی اورسحرہ بندی کے بارے میں اکثرو بیشتر سنتے آئے تھے۔لیکن سال 2017 میں (۸)نومبر کی رات آٹھ بجے ہمارے عزت مآب وزیر اعظم نے جب ٹی ۔وی پر قوم سے خطاب کے دوران اہل وطن پر ایک سرجیکل اسٹرائیک کے انداز میں نوٹ بندی کرنے کا اعلان کیاتھا ،تو جیسے ملک کے ہر عام وخاص کو مانو ایک زور کا جھٹکا دھیرے سے لگاتھا اور جھٹکا بھی ایسا لگاتھا کہ رات تو جیسے تیسے کاٹ لی ، لیکن اس جھٹکے کا احساس ہمیں نوٹ بندی کی پہلی صبح تب ہوا جب ہم نے دودھ والے سے مہینہ کا حساب کرتے ہوئے اس کے ہاتھ میں پانچ پانچ سو کے چار نوٹ تھمائے ،تو اس نے ہمیں ایسے سوالیہ اور حیران کن نظروں سے گھور کر دیکھا ، جیسے ہم نے اسکو جعلی نوٹ پکڑا د یئے ہوں،اوراس نے نہایت بے چارگی سے کہا ’’ بابو جی ۔۔اب یہ نوٹ نہیں چلیں گے‘‘ہم نے سمجھانے کے انداز میں کہا ،’’نہیں بھائی ابھی تو یہ پچاس دن تک چلیں گے ‘‘اسطرح بڑی مشکل سے سمجھا بجھا کر ہم نے اپنے گاڑھے خون پسینے کی کمائی والے پیسوں کو اسے لینے کیلئے رضا مند کیا،اور اس نے بھی من پر بھاری پتھر رکھتے ہوئے بڑے دل برداشتہ ہو کر ان نوٹوں کو اپنی جیب میں رکھ لیا۔
اس کے بعد جیسے دن نکلا توایک طرح سے ہماری آزمائشوں کا دور شروع ہوگیا،اسی طرح جب صبح دس بجے کے قریب محلے میں ایک سبزی والا آیا تو ہماری ہوم منسٹر یعنی ہماری اکلوتی بیوی نے سبزی لینے کی غرض سے اسے روکا،اور مختلف سبزیوں کی قیمت دریافت کرنے کے بے بعد جب مسٹر بینگن ،محترمہ بھنڈییاں آلو شریف وغیرہ کو یکے بعد دیگرے تَولنے کی غرض سے نکالنا شروع کیا توپھیری والے فوراً حکم صادر کرنے کے انداز میں کہا ’’بہن جی سبزی جتنا دل چاہے لیں ،لیکن میں آپ سے 500 یا 1000 کے نوٹ ہرگز نہیں لونگا،لیکن ہماری محترمہ کے ہاتھ میں تھا ہی ہزار کا واحد نوٹ۔۔جس پر نظر پڑتے ہی بیچارہ پھیری والا ایسے دوڑا جیسے اینٹ کو دیکھ کر کتاّ بھاگتا ہے اور میری بیگم کے پاس پیسے ہوتے ہوئے بھی اس کے سبزیاں لینے تمام ارماں گویا آنسوؤں میں بہہ گئے۔
ہمارے بچے جو کہ ایک پرائیویٹ اسکول میں پڑھتے ہیں اور جنکی فیس گزشتہ دو مہینوں سے نہیں بھری جا سکی تھی ،ہم نے سوچا چلوہزار ہزار کے پانچ نوٹ تو ہم وہاں فیس ادا کرنے میں بہ آسانی چَلا ہی دیں گے۔اسی ضمن میں جب ہم فیس جمع کروانے کے لئے اسکول کے فیس کاوئنٹر پر پہنچے تو وہاں موجود خاتون کلرک نے ہمارا نہایت خندہ پیشانی سے سواگت کیا،لیکن جیسے ہی ہم نے فیس کارڈ کے ساتھ ہزار ہزارکے پانچ نوٹ کاؤنٹر پر رکھے ، تو ان محترمہ نے اپنے لبوں پہ ایک کھسیانی سی ہنسی بکھیرتے ہوئے ہم سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ’’سر معذرت کے ساتھ آپ سے درخواست ہے کہ ہم اب 1000یا 500 سو کے نوٹ نہیں لے سکتے،اور ہم بنا کسی بحث ومباحثہ میں نہ جاکر نہایت مایوسی کے ساتھ کاؤنٹر پر فیس کارڈاور نوٹ اٹھانے کے بعد بہت بھاری قدموں و دکھی دل کے ساتھ سکول کے گیٹ سے ایسے باہر نکلے جیسے کہ چچا غالب نے اپنے ایک شعر میں اپنے محبوب کے کوچے سے نکلنے کا ذکر کیا ہے کہ ،
بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے
اسی بیچ ہم نے سوچا چلو اے ٹی ایم سے کچھ نقدی نکلو ا لیتے ہیں۔جیسے ہی ہم نے اے ٹی ایم کا رخ کیا تو شہر کے بیشتر اے ٹی ایم کو بند پایا۔لیکن جس اے ٹی ایم کو کھلا دیکھا اسکے باہر اتنی لمبی لائن کہ اللہ توبہ ۔۔۔چنانچہ ہم بھی اپنے ارادوں کو پختہ کرتے ہوئے لائن میں کھڑے ہو گئے ،یہاں تک کہ لائن میں لگےلگے ہمیں شام پڑگئی ۔اس سے پہلے کہ ہماری اے ٹی ایم تک رسائی ہوتی،کیش ختم ہو گیا اور ہم دل برداشتہ ہو کر بڑی مشکل سے گھر پہنچے۔رات کوسونے سے پہلے ہم نے فیصلہ کیا کہ سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ہی بینک جائیں گے۔چنانچہ ہم نے صبح نہار منھ ہی بینک کا رخ کیا۔جب بینک کے باہر کا نظارہ کیاتو کلیجہ منھ کو آنے لگااور دل کی دھڑکنیں قابوسے باہر ہونے لگیں۔کیونکہ لوگوں کی لمبی لمبی قطاریں پہلے ہی بینک کے باہر موجود تھیں،کچھ لحاف اوڑھے جبکہ کچھ بھاری بھرکم کمبلوں میں لپٹے ہوئے بیٹھے اورلیٹے ہوئے نظر آ رہے تھے۔اور کچھ لوگ اپنی اپنی جگہوں پر نشاندہی کے لئے اپنے اپنے چپلوں جوتوں کو رکھے ہوئے تھے، جب اس ضمن میں ہم نے معلومات طلب کی تو لوگوں نے بتایا کہ ہم لوگ تو آدھی رات سے ہی یہاں ڈیرہ جمائے بیٹھے ہیں۔مرتے کیا نہ کرتے چنانچہ ہم بھی ان کے لائن میں کھڑے ہو گئے۔لیکن بینک تو اپنے مقررہ وقت یعنی صبح دس بجے ہی کھلا۔بینک کے کھلتے ہی بینک کے اندر گھسنے کے لئے لوگ ایسے جدو جہد کرنے لگے جیسے بینک میں داخل ہونے کایہ زندگی کا آخری موقع ہو۔چنانچہ ہم بھی لمبی جدوجہد اور مشقت کے بعدبینک میں آخرانٹری کرنے میں کامیاب ہوہی گئے۔لیکن اندر ہر کیش کاؤنٹر کے سامنے بلا کسی غریب وامیر کے امتیاز سے تین تین چار لائنوں میں لوگوں کو دیکھ کر ہمارا دل گھبرانے لگا ،اور سر کرانے کے آباد ظاہر ہونے لگے لیکن جلد ہی ہم بھی اپنے دل کو طفلی تسلیاّ دیتے”آل اِز ویل۔ کَم ڈاؤن، آل اِز ویل” کہتے آخر کار ایک لائن میں لگ گئے۔ اور ذہن میں یہ شعر گردش کرنے لگا کہ
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا ،نہ کوئی بندی نواز
لیکن ابھی دوپہر کے بارہ بھی نہ بجے ہونگے کہ خازن کی طرف سے اعلان کر دیا گیا کہ کیش ختم ہو گیا ہے۔لیکن جسے اپنے کھاتوں میں پیسے جمع کروانے ہوں وہ لائن میں لگے رہیں۔آخر ہم اپنے وجود کو سمیٹتے ہوئے بھرے من کے ساتھ بینک سے باہر آگئے۔
ہمارا بیٹا روز بس سے تقریباً 80 کلومیٹر کی مسافت طے کرتے ہوئے اپنے انجنئیر نگ کالج جاتا ہے۔چنانچہ ہم نے ایک منصوبہ کے تحت اسے 100 کے ساتھ ساتھ ہزار کے دو نوٹ تھماتے ہوئے کہا ’’بس کنڈیکٹر سے آتے جاتے وقت اسکا چھٹا کروا لانا۔‘شام کو بیٹے نے 1000 کے نوٹ ہمیں جیوں تیوں پکڑاتے ہوئے کہا،ابو بَس کنڈیکٹر نے بَس میں سوار ہوتے ہی وارننگ دے دی کہ جن کے پاس صرف ہزار یا پانچ سو کے نوٹ ہوں تو وہ برائے کرم بس سے نیچے اتر جائیں۔بس میں ہم سے چھٹا مانگ کر ہمیں شرمندہ نہ کریں۔
شام کو ہمیں ایک دوست نے بس اسٹینڈ میں پیش آنے والا تازہ واقع سنایا،ہوا یوں کہ صبح صبح بس اسٹینڈ کے بیت الخلاء میں اپنی حاجت سے فارغ ہونے کی نیت سے ایک مسافر آنے لگا کہ گیٹ پر بیٹھے کیپر نے اسے پہلے ہی روک لیااور اندرجانے سے قبل پیشگی ادائیگی کرنے کو کہا کہ تو مسافر نے نہایت بے بسی کی حالت میں کہا کہ بھائی کیش میں تو ہزار اور پانچ سو کے علاوہ کوئی چُھٹّا نوٹ نہیں ہے ،ہاں البتہ ۔میرے پاس چیک بک ہے کہو تو اس میں سے آپ کو پانچ روپے کی پیمنٹ کا سیلف کا چیک کاٹ دیتا ہوں،لیکن اس پر گیٹ کیپر نے چٹکی لیتے ہوئے کہا کہ’’ بھائی جب تک چیک کلیئرہو کر نہیں آتا میں آپ کو اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں دے سکتا ،کیونکہ مجھے بیت الخلاء کے ٹھیکیدار کی طرف سے سخت ہدایات ہیں،اس سے پہلے کہ مسافر کیپر سے مزید بحث کرتا ،اس بیچارے کا جنگل اور پانی وہیں کا وہیں ہوگیا۔نوٹ بندی کے دوتین مہینوں بعد ہمارے ایک دوست کو اسکی بہن کا فون آیا ۔اس نے بھائی سے نہایت رازدارانہ انداز میں پوچھا ’’بھیا میری الماری کے ایک کونے میں چھپے ہزار ہزار کے دو نوٹ ملے ہیں، کیااب وہ بدلے جا سکتے ہیں‘۔دوست نے بہناں کو کہا ’’آپا اب انکے بدلنے کا خیال اپنے دل سے نکال دو بس انکے لئیے آپ اناّللہ وانا الیہ راجعون ہی پڑھ ڈالو۔سمجھو اسی میں خیر و عافیت ہے۔نوٹ بندی کے ان پچاس دنوں کے بیچ بہت سے محاورے پریکٹیکل ہوتےہوئے دیکھے گئے۔جیسے باپ بڑا نہ بھیا ،سب سے بڑا روپیہ۔اور ایک بہت مشہور محاورہ نو دو گیارہ ہوجانا تو ہم نے اپنی آنکھوں سے سچ ہوتاہوا دیکھا،ہوا یوں کہ جب ہمارے گھر میں ایک سوالی آیا تو ہماری بیگم نے پہلی بار اپنے دماغ کا صحیح استعمال کرتے ہوئے ۔سوالی یعنی کہ بھکاری کو پانچ سو کا نوٹ پیش کرتے ہوئے نہایت مودابانہ انداز میں کہاکہ’فقیر بھیا یہ لو پانچ سو روپئے آپ اسمیں سے سو روپیہ نذرانہ کے طور پر وصول کرتے ہوئے چار سو مجھے واپس کردیں‘‘،توفقیر پانچ سو کا نوٹ دیکھتے ہی وہاں سے نو دو گیارہ ہو گیا۔
قارئین کرام ۔یہ تو نوٹ بندی کے حادثات ہوگئے،اب تالابندی کے واقعات کوملاحظہ فرماتےچلیں،لاک ڈاؤن میں یک روز ہم نے جو شہروں کا رخ کیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ سبھی چھوٹی بڑی مسجدوں عیدگاہوں کی دیواروں پہ نوٹس چسپاں کر دیئے گئے ہیں کہ پنج وقتہ نماز، جمعۃ الوداع اور عیدالفطر کی نماز آپ گھر پر ہی ادا کریں،مسجدیاعیدگاہ میں نماز ادا کرتے ہوئے پکڑےجانے کی صورت میں کم ازکم دوسال کی سزا اور جرمانےکےطورپر نمازیوں کی تعدادکےحساب سے پیسہ وصول کیا جائے گا۔اسی دوران ایک دوپہر ہم اپنے ایک فیکٹری والے دوست سے ملنے گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ فیکٹری میں تنے تنہا منھ لٹکائے اداس بیٹھا ہے ،جب وہاں کوئی بھی مزدور ہمیں کام کرتا دکھائی نہیں دیا تو ہم نے کہا بھیا آج نہ تو دیوالی ہے اور نہ ہولی پھر فیکٹری میں مزدوروں کوچھٹی کس خوشی میں دے رکھی ہے،تودوست نے نہایت دکھی لہجہ میں کہابھیا چھٹی کہاں،جب سے لاک ڈاؤن ہواہے تب سے سبھی مزدورگھرجانےکےلئے پریشان نظر آرہے ہیں، انکےپاس اتنے پیسے بھی نہیں ہیں کہ راہ میں کھانے پینے کی اشیاء کا انتظام کرسکیں، مہینوں سے فیکٹری میں کوئی کام نہیں ،
یار اس لاک ڈاؤن نے ہم سب کو برباد کر کے رکھ دیا ہے، اس تالا بندی کے چلتے ہمارے محلہ میں ایک شادی اپنی ایک نئی تاریخ لکھ گئی ،ہوا یوں کہ محلہ کی ایک لڑکی کی شادی شہر کے ایک دوسرے علاقہ میں رہنے والے لڑکا سے ہونا طے پائی اور دعوت نامے وغیرہ سب تقسیم ہو چکے تھے ،لیکن شادی کے عین ایک ہفتہ قبل رات ورات ہوئے تالا بندی کے اعلان نے مانو لڑکا لڑکی کے دھوم دھام اور تام جھام سے شادی کرنے کے تمام خوابوں کو چکنا چور کر دیا۔کیونکہ شادی کرنے کے سلسلہ میں جن بھی چیزوں کا انتظام ہواتھا، آدھےسےزیادہ سب بیکار ہوگئے،کیونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سےجو جہاں تھا وہیں رہ گیا۔
اور جب لاکھ دوڑ دھوپ کرنے کے باوجود بھی کہیں سےپولیس کو پیسےوغیرہ کھلاکربارات خاطر خواہ انتظام ہو پایا تو دونوں رشتہ داروں کے بیچ باہمی مشورے سے یہ طے پایا گیا کہ پانچ لوگوں کو بلاکر چائے پلا کر لڑکی کی وداعی کر دی جائے ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔۔شاید اسے ہی کہتے ہیں کہ”چٹ منگنی پٹ بیاہ”ایک اور مشہور محاورہ مکھیاں مارنا بھی ہم نے صادق ہوتا دیکھا ۔کیونکہ گرمیوں کی وجہ سے مکھیوں کےآنےکا سلسلہ درازتھا،اِن دنوں اس لیئے بیشتر دکانداروں کو تالا بندی کے چلتے گراہک نہ ہونے کی صورت میں دکان میں نہ صرف مکھیوں بلکہ چوہوں اور چھپکلیوں کو بھی مارتےہوئے دیکھا گیا۔سچ کہیں تو اس لاک ڈاؤن کے چلتے ان پچاس دنوں کے دوران ملک کا پو را نظام چر مرا سا گیا ہے یا یوں کہہ لیں کہ ملک تھم سا گیا ہے، شاہراہیں ،بازاریں،بڑے بڑے چوک سنسان اور ویران نظرآرہے ہیں، اور بڑےبڑے بِگ بازاروں پر تالے ڈال کر بند کر دیا گیاہے۔اوراس لاک ڈاؤن کے دوران جو دُکھ ملک کے بیشتر غریب اور مڈل کلاس کے لوگوں نے سہے ہیں یا برداشت کیئے ہیں انکا احساس نہ تو کسی جھولے والے فقیر کو ہے اور نہ ہی کسی بڑے سرمائیدار کو ہو سکتا ہے کسی نے کیا خوب کہا ہےکہ ،درد دل درد آشناجانے۔اور بےدرد کوئی کیا جانے،2017 میں نوٹ بندی کی وجہ سے جو دقتیں اور پریشانیاں آئی تو آئیں ہی تھیں۔اب کورونا وائرس کی وجہ سے طویل لاک ڈاؤن کا سفر مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے، ہندوستان کی شرح ڈی جے پی، چرمراسی گئی ہے، بھوک مری، بےروزگاری، لاچاری مجبوری، اورمرتےہوئےغریبوں ،مزدوروں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیاہے، اللہ ہی بچائے اس ملک کو۔
*مضمون نگارسدھارتھ یونیورسٹی سدھارتھ نگرکے ریسرچ اسکالرہیں،رابطہ نمبر۔6393021704

Comments are closed.