دی ایلڈرس،ایکولوجیکل سویلائزیشن اورنیا نظام عالم

دانش ریاض، معیشت،ممبئی
نظام عالم کی تشکیل نو کے لئے جب لاک ڈائون کا آغاز ہوا اور کرونا وائرس کے بہانے پوری دنیا یرغمال بنا لی گئی تواسی وقت میں نے ان امور کی طرف توجہ دلائی تھی جو موجودہ حالات میں انتہائی ضروری قرار پائےہیں۔سموئیل ہنٹنگٹن کے ’’تہذیبی تصادم‘‘ اور فرانسس فوکویاما کی ’’دی اینڈ آف ہسٹری‘‘ کے پہلے مرحلے کا یوں تو بخوبی اختتام ہوچکا ہے اور صیہونی مقتدرہ نے دوسرے مرحلے کی کارروائی پر توجہ مرکوز کردی ہے۔ایسے میں’’ ایکولوجیکل سویلائزیشن‘‘ پر ’’دی ایلڈرس‘‘ کی تگ و دو انتہائی معنی خیز ہے۔ایک ایسے وقت میں جبکہ پوری دنیا لاک ڈائون میں مبتلا تھی ’’دی ایلڈرس‘‘بیجنگ میں اپنی میٹنگیں کررہے تھے۔انہیں اس بات کا پورا یقین تھا کہ مغرب اب اپنے تہذیبی سرمائے کے ساتھ اوندھے منھ گرنے والا ہےاور ریاستہائے متحدہ امریکہ ان حالات سے دوچار ہونے والا ہے جہاں اس کے سوپرپاور ہونے پر بٹہ لگ جائے گا۔لہذا حالیہ شورش کو اگر اس نظر سے دیکھیں تو پرتیں صاف کھلتی نظر آتی ہیں۔
’’دی ایلڈرس‘‘ کے قیام میں نیلسن منڈیلا پیش پیش رہے تھےاور انہوں نے 2007میں عالمی لیڈران کے اشتراک سے اس تنظیم کی بنیاد ڈالی تھی۔ان دنوں اقوام متحدہ کے سابق سکریٹری جنرل بان کی مون اس کے نائب صدر ہیںجبکہ آئرلینڈ کی پہلی خاتون سابق صدر میری روبنسن چیرپرسن ہیں۔’’دی ایلڈرس‘‘ نے یوں تو اپنے ایجنڈے میں حقوق انسانی کا تحفظ،ماحولیاتی کثافت کا خاتمہ اورامن و انصاف کی علمبرداری جیسے بلند بانگ دعوے کئے ہیں لیکن بنیادی طور پر وہ ’’ایکولوجیکل سویلائزیشن‘‘کی آڑ میں نئے نظام کی تشکیل کا کام کررہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ’’ایکولوجیکل سویلائزیشن‘‘بھی ذو معنی ہے جسے عرف میں بھلے ہی نظام کائنات کے موافق کہا جاسکتا ہے لیکن حقیقتاً وہ ’’تہذیبی تصادم ‘‘کا ہی تتمہ ہے جسے خوبصورت الفاظ کے سانچے میں ڈھالا گیا ہے۔
امریکی مصنف شیری شرینر’’دی ایلڈرس ‘‘کو چینی ایلومیناتی تصور کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’جیسے امریکہ میں ایلومیناتی نے قبضہ جمائے رکھا ہے ویسے ہی ’’دی ایلڈرس‘‘ چین کا ایلومیناتی ورژن ہے‘‘۔چینی معاشی و سیاسی باگ ڈور جن لوگوں کے ہاتھوں میں مرتکز ہے وہ ’’چینی ایلڈرس یا گرینڈفادرس ‘‘ہی ہیں۔چینی کرنسی کے پس پشت بھی ’’دی ایلڈرس‘‘ کا نام لیاجاتاہے۔جبکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ قدیمی فوق البشر طاقتوں کے پجاری کہلاتےہیں اور غالباً ایلومیناتی کی تیرہ شاخوں میں سے ایک ہیں۔جنہیں ’’ڈریگن‘‘ کی اعلیٰ نسلوں میں شمار کیاجاتا ہے اور اس بات کا بھی دعویٰ کیاجاتاہے کہ ان کا جہنم کے دیوتا لوسی فرسے راست تعلق ہے۔ بنیادی طور پر منگولیا ان کا مرکز ہے جبکہ زیر زمین یہ اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
شیری شرینر کی بیان کردہ تفصیلات پر ہم یقین کریں یا نہ کریں لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ صیہونی مقتدرہ کی ریاستہائے متحدہ امریکہ سے بیجنگ منتقلی اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔عالمی وبا کرونا وائرس نے جہاں ریاستہائے متحدہ امریکہ کو کھوکھلا کرکے چین کو نئے عالمی پاور کے طور پر متعارف کرایا ہے وہیںامریکہ میں جاری نسلی تصادم کے فوری خاتمہ کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں۔جبکہ دوسری طرف چین کا ہندوستان کی سرحدوں پر قبضہ جما لینا اور موہومہ جنگ کے لئے آمادہ نظر آنا تمام شکوک و شبہات کو درست قرار دیتا ہے۔
دراصل اس پورے تصادم میں’’ ایکولوجیکل سویلائزیشن ‘‘کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔یہ ہم تمام جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا نظام ہی بنیادی طور پر’’ ایکولوجیکل نظام‘‘ ہے لہذا صیہونی مقتدرہ آخر کس ایکولوجی کی بات کررہا ہے ؟تو یہ جاننا ضرروی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نظام کے برخلاف نظام قائم کرنا ہی شیطانی مقتدرہ کی اولین خواہش ہے لہذا وہ معاملے کو گڈمڈ کرنے کے لئے ان اصطلاحوں کو استعمال میں لاتا ہے جس سے عام انسانیت کنفیوژن کا شکار ہوجائے۔لہذا نظام فطرت کے برخلاف نظام قائم کرنا ہی ’’ ایکولوجیکل سویلائزیشن ‘‘ہے۔
’’ ایکولوجیکل سویلائزیشن ‘‘کی تعریف میں یہ بات کہی جارہی ہے کہ چین جہاں اپنے نیوکلیائی طاقت کا خاتمہ کردے گا وہیں پوری دنیا سے بھی نیوکلیائی ہتھیاروں کو ختم کرنے کی مانگ کررہا ہے۔لیکن اسی کے ساتھ اپنی معیشت کو مضبوط کرنے کے بہانے وہ جس 5جی ٹیکنالوجی پر کام کررہا ہے وہ نہ صرف انسان کے روح پر اثرانداز ہوگا بلکہ انسانی ذہنوں کو اس غلامی میں مبتلاء کردے گا جس کی خواہش ابلیس نے اللہ تعالیٰ سے کی تھی۔لہذا اب لڑائی انسانیت بالمقابل حیوانیت سےہے جس کا آغاز لاک ڈائون کے سہارے کیا گیا ہے۔
ہندوستان کے وہ لوگ جو صیہونی مقتدرہ کے حلیف ہیں انہوں نے بنیادی طور پر ایگریکلچر ،ٹریڈ اور سروسیز پر قبضہ جماکر اس صورتحال کو اپنے حق میں کرلیا ہے جس کا فائدہ اٹھاکر وہ کبھی بھی امریکہ جیسی کیفیت پیدا کرسکتے ہیں۔’’دی ایلڈرس ‘‘نے جہاں اقوام متحدہ پر اجارہ داری قائم کررکھی ہے وہیں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن بھی انہیں کے اشاروں پر معاملات طے کررہا ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی کارستانیوں سے وہ تمام لوگ واقف ہیں جنہوں نے ان دنوں وبائی مرض پر خاص نظر رکھ رکھی ہے۔لہذا نظام عالم کی تشکیل کا مرحلہاب اپنے اختتام کی طرف گامزن ہے۔البتہ تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ اس مرحلہ میں ہندوستان ایک اہم پڑائو ہے جہاں مسلمان بالمقابل دیگر آمنے سامنے لائے جائیں گے۔برصغیر کے ساتھ سائوتھ ایسٹ ایشیا کا پورا خطہ اس صورتحال سے دوچار کیا جائے گا جس کا تصور کرکے ہی روح کانپ جاتی ہے۔
نظام عالم کے اس تشکیلی مرحلے میں احیائے خلافت پر گفتگو دراز کی جانی چاہئے تھی لیکن وہ جماعتیں بھی جو کبھی ہندوستان میں احیائے خلافت کا نقیب ہوا کرتی تھیں ’’وحدت‘‘کی چادر میں ایسے منھ چھپالیا ہے جیسے کبھی ’’احیائے دین ‘‘والے ’’اقامت دین‘‘کی آڑ میں چلے گئے تھے۔
*دانش ریاض آل انڈیا حلال بورڈ کے جنرل سکریٹری اور معیشت اکیڈمی کے ڈائریکٹر ہیں۔

Comments are closed.