ملک شام کو گریٹر اسرائیل کا حصہ بنادینے کی سازش پر عمل،اور امت کی غفلت!

مفتی احمدنادر القاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
ملک شام اور اس کے ادر گرد پورے خطہ کو گریٹر اسرائیل کا حصہ بنادینے کی سازش پر عمل اور کاروائی یوں تو دشمنان اسلام کی بہت پہلے سے جاری ہے مگر اس پرمنصونہ بند طریقہ پر بشار ملعون کاباپ حافظ الاسد کے دور سے شروع ہوا اور اس نے سب سے پہلے اس جنت نشان اور اصحاب رسول ﷺ کی میراث وآماجگاہ ملک میں اسلام پسندوں کے عرصہ حیات تنگ کرنے سےباضابطہ آغاز کیا ۔پوری مسلم دنیا سے اخلاقی طور پر اس کے رشتے منقطع کردئے اور گولان کی پہاڑی کے توسط سے اسرائیل کے ساتھ چھوٹے اختلاف کا راگ الاپتا رہا۔حافظ کی موت کے بعد بشار ملعون لاکھوں سنیوں کا قاتل براقتدار آیا اور اس نے مزید اس کو آگے بڑھانے کا بزورطاقت عمل شروع کیا۔سنیوں کی نسل کشی ملک۔بدری اور قتل وغارت گری کا ایسا بازار گرم کیا کہ پوری انسانی دنیا چیخ اٹھی۔ادھر مغربی طاقتوں نے یہ کھیل کھیلا کہ سعودی عرب اور دیگر مسلم دنیا کی توجہ شام کی طرف سے ہٹانے کے لئے سعودی عرب کو یمن کے ساتھ الجھادیا۔ تاکہ اس کی ساری طاقت اس طرف صرف ہو اور شامی ملیشیا اور بشار کی درندگی کے مزاحمت کاروں کو کوئی مدد نہ مل سکے اور شامی فوج اپنی کاروائی بھرپور طریقے پر کرتی رہے۔جس کا فائدہ اٹھا کر ان نصیری نژادوں نے۔لاکھوں سنی مسلمانوں کا قتل کیا۔کم وبیش بیس لاکھ مسلمانوں کو ملک بدر ہونے اور ترکی اور دیگر یورپی ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور کیا۔دمشق اور حلب۔ نیز دیگر شہروں کے اسلامی آثارواوقاف اور صحابہ وتابعین کی قبروں تک کو مسمار کیا ۔تاکہ مکمل طور پر مسلمانوں کے چودہ سوسالہ اسلامی نشانات کو بنیادوں تک سے مٹادیں۔اور گریٹر اسرائیل کی جھولی میں ہمارے پرکھوں کی اس یاد گار کو ڈال دیں ۔۔ شام کےسنی مسلمانوں کی اجتماعی نسل کشی اور بے دخلی میں سب سے بڑا رول۔ بلکہ مجرمانہ کردار ایران اور روس کا رہا جس نے شامی فوج اور برسر اقتدار طبقہ کو اقتصادی اور فوجی مددپہونچائی تاکہ اس کام کو بشاری اور نصیری ٹولہ مکمل طور پر انجام دے سکے اور اسرائیل کی خواہش کے مطابق اس منصوبہ کوپایہ تکمیل تک پہونچاسکے ۔اور بدستور یہ عمل بشار دجال وقت کی طرف سے جاری ہے ۔اور دنیا اور بالخصوص مسلم دنیا تماشہ بین بنی ہوئی ہے۔شام سے لیکر فلسطین تک اسرائیل کی خودساختہ حکومت کے قیام سے آج تک مسلسل مسلمانوں اور انسانوں ۔بچوں اور معصوموں کا خون بہ رہاہے۔امت بڑی بے حسی کے ساتھ جزوی۔ مسلکی فروعی اور آپسی اختلافات اور چرب زبانی میں مصروف اور حقیقی اور بنیادی مسائل کے ادراک سے عاری ۔بلکہ صرف نظر کئے ہوئے ہے ۔” کل حزب بمالدیھم فرحون“سورہ روم ٣٢۔۔آخر کب امت اپنے مقصد کی طرف لوٹے گی ۔ کون سا ایسا جھنڈا وجودمیں آئے گا جس کے تلے سب مل کر جمع ہوں گے ۔پیغام ربانی اورواضح ہدایات نبویﷺ اور وحدت کلمہ کے بعد اب کس اجتماعی منشور کے انتظار میں ہے جو اس جوڑنے کا سامان بنے گا۔کب امت کا اجتماعی احساس جاگے گا اور اپنے مسائل کے حل کی طرف متوجہ ہوگی اوردنیائے انسانیت کوخیر کامژدہ سنائے گی ؟ ۔
آج کی مادہ پرست دنیا سمجھتی ہے کہ اقتصادی برتری سارے مسائل حل کردے گی ۔یہ دھوکہ ہے وہ صرف پیٹ کی آگ بجھاسکتی ہے ۔امت کے اجتماعی مسائل حل نہیں کرسکتی ۔وہ توصرف فکری بالیدگی ۔ ایمانی اخوت کا احساس۔اللہ اوراپنے رسول کی محبت واتباع سے ہی دنیا اور آخرت کی الجھنوں سے نجات کی راہ فراہم ہوسکتاہے ۔ ہرمومن بندہ اس کا مکلف ہے کہ اپنے حصہ کا کام اسی فکری اور عملی زاویے میں انجام دینے کے لئےخود کومستعد اور تیار کرلے ۔اورمقصد کی طرف چل نکلے مسلکی گروہی جماعتی خول سے باہر۔آجائے۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لیکر تا بہ خاک کاشغر
Comments are closed.