نسلی تعصبات! بھارت اوراسرائیل امریکاکے نقش قدم پر

عبدالرافع رسول
یہ بات طے ہے کہ بساط ارض پرخلق خدا،ایک بہت بڑی طاقت ہوتی ہے جواگرچاہیں تواپنے حکمرانوں کی شوکت وحشمت کوخس وخشاک بناسکتے ہیںاورانکے غروروتکبراورنخوت کوخلاک میں ملاسکتے ہیں۔امریکامیں نسلی تعصب کے خلاف ہورہا عوامی احتجاج اس پرمہرتصدیق ثبت کرتاہے۔ ایسالگ رہاہے کہ سیاہ فام یاکالے امریکیوں نے اپنے حقوق حاصل کرنیکے لئے آریاپارہونے کاعزم کررکھاہے اوریہی وہ سٹیج ہوگاکہ امریکی انتظامیہ کوسیاہ فاموں کے تمام حقوق بالکلیہ تسلیم کرنے پڑیں گے ۔اگرانکے مطالبات نہیںمانے گئے توپھراس امرپریقین پختہ ہونے لگ رہاہے کہ امریکا کی منطقی ٹوٹ پھوٹ کا وقت آن پہنچاہے۔ بہت پہلے سے پائے جانے والی ا مریکی معاشرتی اور معاشی تقسیم کی وجہ سفید فام نسل کا مبینہ نسل پرست رویہ اب آخری حدوں کوپہنچ چکا ہے اور امریکامیں آج اسی منظم نسلی تعصب نے ر یاستی اور بنیادی معاشرتی چولیں ہلاکررکھ دی ہیں۔ یہ تعصب امریکا کی جڑوں کو کھوکھلا کرچکا ہے۔
امریکامیں سفیدفاموں کی بالادستی اورسیاہ فاموں کے ساتھ نسلی امتیازکے اس خوفناک جگڑے کے دوران امریکامیں تین نعرے بلندہورہے ہیں ان میں سے ایک نعرہ (Black Lives Matter )یعنی سیاہ فام زندگیاں بھی اہم ہیں ۔ اس کے جواب میں سفیدفاموں کی طرف سے جونعرہ لگ رہاہے وہ ہے (All Lives Matter)یعنی سبھی زندگیاں اہم ہیں۔ اس کاصاف مطلب یہ ہے کہ سیاہ فام مظلومیت کارونانہ روئیں۔تیسرانعرہ (Blue Lives Matter )یعنی نیلی زندگیاں بھی اہم ہیں۔ اس نعرے کا مقصد پولیس اہلکاروں کو ہیرو کے طور پر پیش کرنا ہے۔
دنیابھرمیں امریکاہی کی طرح برابری اور مساوات کی آڑ میں مذہبی تعصب اور نسل پرستی کے مکروہ چہرے کب بے نقاب ہونگے اورکب پوری دنیامیں ان چہروں کوپہنچاناجائے مظلومین کی آنکھیں تک رہی ہیں۔ حقیقت پر مبنی بے لاگ اور غیر جانبدار انہ تجزیہ کیاجائے تومبرہن طورپرجوبات سامنے آجاتی ہے اسکے مطابق امریکاکے بعدبھارت اوراسرائیل ہیں کہ جونسل پرستانہ نظریے کے تحت مسلمانوں کوتہہ وتیغ کررہے ہیں۔بھارت اوراسرائیل دونوں امریکاکی مکمل تقلیدکرتے ہوئے نسلی تعصب کی بنیادپرمسلمانوں کاقتل عام کیاکررہے ہیں بلکہ اس جرم عظیم میں وہ امریکاسے بھی کہیں آگے ہیں کیونکہ دونوں نسلی بنیادکے ساتھ ساتھ مذہب کی بنیادپربھی مسلمانوں کے ساتھ خونین برتائو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
کشمیرپربھارت کاناجائزاورجابرانہ قبضہ ہے اوراس جارحیت کے خاتمے کے مطالبے پر بھارتی فوج اسلامیان کشمیرکووسیع پیمانے پرموت کے گھاٹ اتارہی ہے ،کشمیرمیں بھارت کا سفاکانہ کردار، اور اسلامیان کشمیرکے ساتھ غیر انسانی برتائو کی داستان بڑی دردناک ،اذیت ناک،الم ناک اور طویل ہے اس پرمستزاد یہ ہے کہ اب ان کے شہدائے کے جسدخاکی کوبھی ان کے سپردنہیں کیاجاتایہ سب کیاہے یہ نسلی تعصب کی کڑیاں ہی تو ہیں ۔جبکہ بھارت میں این آرسی کے بعدکے بعد جومظاہرے ہوئے تھے، وہ خالصتاََ شہری حقوق کی تحریک تھی اسے طاقت کے بہیمانہ طریقے سے کچلایاگیااور جو آگ وخون کا کھیل کھیلاگیا مورخ لکھ چکاہے کہ کس طرح جمہوریت کا چولاپہن کربھارتی حکمرانوں نے اپنے ہی شہریوں پر ظلم جبرکے پہاڑتوڑڈالے ۔ شہریت کے نئے قانون لانے کے بعد منقسم بھارتی معاشرے میںپورے بھارت میںمسلمانوں کے ساتھ عدم مساوات اورطبقاتی خلیج سے انکے تشخص بری طرح زد میں ہے جسے ان کاسکھ چین اگرکہیں تھاتوچھن چکاہے ۔ جبکہ عدلیہ اورمقننہ ،بھارتی عدالتیں،بھارت کانظام انصاف اورقانون بنانے والے ادارے اور قانون نافذکرنے والے ادارے با لخصوص پولیس اس وقت منظم نسلی تعصب ،تنفر وتمیز کے خطوط پر رواں دواں ہے۔ ایسے میں بھارتی مسلمانوںکی معمول کی زندگی کا پہیہ تقریبا رکتا ہوا دکھائی دے رہاہے۔جس سے یہ مترشح ہورہاہے کہ بھارت ایک ایساملک ہے کہ جہاں اکثریتی طبقے۔ہندئووں یاہنود کا فکری و عملی نظریہ بالکلیہ نسل پرستانہ ،فرقہ پرستانہ ،متعصبانہ ، منافرانہ ومتشددانہ ہے ۔بھارت میں دلت توروزاول سے ہی اسی صورتحال کاسامناکرتے چلے آرہے ہیں جوسیاہ فام امریکیوں کودرپیش ہے لیکن افسوس اب مسلمانوں کوبھی نشانے پررکھاگیاہے۔جس کی تصدیق پربے حدوحساب مثالیں موجود ہیں۔
کشمیرسے بھارت تک بھارتی فوج اورپولیس اورفلسطین میں اسرائیلی فوج جس نسل پرستی کی بنیادپرمسلمانوں کی نسل کشی کاارتکاب کررہی ہے عالمی سطح پر اس کے خلاف مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے ۔اگرچہ مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق مایئکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر اسرائیلی ریاست کی نسل پرستی کے خلاف اس نے مہم شروع کردی اوراسے(PalestinianLivesMatterاورBlackLivesMatter)کے ہیش ٹیگ کے ساتھ ساتھ فلوائیڈ کا عنوان دیا گیا ہے۔سوشل میڈیا پر جاری عالمی مہم میں اسرائیلی ریاست کے فلسطینیوں کے خلاف جاری وحشیانہ جنگی جرائم اور نسل پرستانہ جرائم کو بے نقاب کیا جا رہا ہے۔اس مہم میں شامل ہونے والے سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ حال ہی میں اسرائیلی فوج نے بیت المقدس میں ایک ذہنی مریض فلسطینی نوجوان کو بے رحمی کے ساتھ شہید کیا جب کہ اسی واقعے سے ملتے جلتے واقعے میں امریکا میں امریکی فوج نے ایک سیاہ فام شہری کو وحشیانہ ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قتل کردیا ۔
اسلام ہی وہ مقدس دین ہے کہ جس میں رنگ، نسل، علاقہ ، زبان کی بنیادپرکسی انسان کودوسرے انسان پرکوئی فوقیت نہیں اگرکسی کوکوئی فوقیت حاصل ہے تووہ صرف اورصرف تقویٰ کی بنیادپر حاصل ہے یعنی رب کاسب سے زیادہ پسندیدہ اس کاسب سے زیادہ فرمانبردارانسان ہے ۔باقی سب بتان رنگ وخون ہیں اسلام کے سامنے جن کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔
نسل پرستی ایک نظریہ ہے جو جینیاتی بنیادوں پر کسی انسانی نسل کا ممتاز ہونے یا کمتر ہونے سے متعلق ہے۔ نسل پرستی خالصتا کسی بھی خاص انسانی نسل کی کسی دوسری انسانی نسل یا ذات پر فوقیت یا احساس برتری کے حوالے سے امتیاز کا ایک نظریہ ہے۔نسل پرستی کی وجہ سے پڑنے والے اثرات کو نسلی امتیاز کا نام دیا جاتا ہے۔ ادارہ جاتی یا بڑے پیمانے پر نسل پرستی سے مراد کسی ایک نسلی گروہ یا آبادی کا دوسری نسل انسانی کے گروہ پر نسل کی بنیاد پر سہولیات، حقوق اور سماجی فوائد تک رسائی محدود کر دی جاتی ہے اور عمومی طور پر نسل پرستی کے شکار گروہ کو کمتر سمجھا جاتا ہے۔نسلی امتیاز خصوصی طور پر لوگوں کے مختلف گروہوں میں حیاتیاتی درجہ بندی کے فرق کو واضع کرتا ہے۔ گو کوئی بھی شخص نسل، تہذیب یا جینیاتی خصوصیات کی بنیاد پر نسلی امتیاز کا شکار ہو سکتا ہے، لیکن عمومی طور پر اس کے متوقع مجموعی نتائج انتہائی بھیانک ہوتے ہیں۔
نسل پرستی کی تعریف اور عمومی مطلب میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور اوائل میں یہ ایک انتہائی سادہ سی اصطلاح تھی، جس کے مطابق انسان جینیاتی لحاظ سے مختلف نسلوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ان میں نسلی امتیاز یعنی ایک نسل کو کسی دوسری نسل پر فوقیت حاصل ہے۔محققین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نسل پرستی میں ترامیم اور اس کے پرچار میں سماجی سائنسدانوں کا غیر ارادی طور پر بڑا ہاتھ ہے۔ اس ضمن میں انیسویں صدی میں ہونے والے نسلی امتیاز کے چیدہ واقعات اور اس کے نتائج کی مثال دی جا سکتی ہے۔ اسی طرح جینیات اور انسانی نسلوں بارے تحقیق نے بھی نسل پرستی کی لعنت کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس لحاظ سے انسانی نسلوں کی مخصوص جینیات، عادات، تاریخ، آبائی علاقہ جات اور گروہ سے تعلق چند ایسی معلومات تھیں جو دنیا میں نسل پرستی اور گروہ بندی کو مضبوط کرنے کا سبب بنی۔گو سائنسدان اور سماجی ماہرین اور تاریخ دان اس الزام کی تردید کرتے ہیں لیکن یہ پچھلے دو سو سال میں اس بارے ہونے والی تحقیق اور اس کے نتیجے میں بڑھنے والی نسل پرستی اور نسلی امتیاز کے واقعات میں اضافہ اس بات کے شاہد ہیں۔
امریکہ میں عوامی احتجاج کاجائزہ لیاجائے تواس حوالے سے اس کاایک مثبت پہلوبھی ہے کہ دنیا بھر کے مظلوموں کواس نے زبان دی۔ جمہوریت کے لبادھے میںبساط ارض پرجوقومیںمختلف الجہات سے ریاستی دہشت گردی کے باعث نسل کشی کی شکارہیں،ظالم ممالک کی فوجوں اورپولیس کی وحشیانہ بربریت کاانہیں سامناہے۔ قید و محن میں پڑے ہوئے ہیں۔ مظلومیت، تفریق و امتیاز اور اجنبیت کے شکار ہیں۔کالے قوانین کے تحت انہیں سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے۔ دنیابھرکے تمام مظلوم طبقوںکوچاہئے کہ ان مظاہروں میں شامل ہو ں۔
جس طرح ٹرمپ سیاہ فاموں پرڈھائے جانے والے مظالم کی یہ کہہ کرتوجیہ پیش کرتاہے کہ یہ لوگ شرپسندہیں اورمیں ان پراپنے کتے چھوڑ دونگامیں اپنی ملٹری کے ذریعے اس صورتحال پرقابوں پالوں گا۔ کشمیر،ہندوستان یافلسطین میں مسلمان اپنے عزیزوں کی لاشیں اٹھاکراحتجاج کرتے ہیں تو مودی اورنیتن یاہوکالب ولہجہ بھی اس وقت ٹرمپ جیسا ہی ہوتاہے۔
افریقی غلاموں کی امریکہ آمد کو 400 سال مکمل ہو گئے ہیں۔ اگست 1619 میں افریقہ سے غلاموں کو لے کر آنے والا پہلا جہاز اس وقت کی برطانوی کالونی ورجینیا میں لنگر انداز ہوا تھا۔ یہ امریکہ میں غلاموں کی تجارت کے اس دور کا آغاز تھا جو لگ بھگ 200 برس جاری رہا۔امریکہ میں برابری اور مساوات کے کھوکلے نعرے کے برخلاف سیاہ فام افراد تیسرے درجے کے شہری شمار ہوتے ہیں اور انہیں عام طور پر میڈیکل انشوریشن کی صرف ابتدائی سہولتیں ہی فراہم کی جاتی ہیں جبکہ ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو میڈیکل انشورینس سے مکمل طور پر محروم ہے۔میناپولس کے سابق پولیس اہلکار پر پولیس کی حراست میں 46 سالہ مسٹر فلائیڈ کے قتل کی وجہ سے فرد جرم عائد کی گئی ہے۔44 سفید فام ڈیرک چان کو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ انھوں نے کئی منٹ تک مقتول فلوئڈ کی گردن پر اپنے گھٹنے رکھے۔ تب بھی جب فلئڈ نے انھیں بتایا کہ وہ سانس نہیں لے پا رہااورپھرمرگیا۔ویسے تو نسلی بھیدو بھائو ہمیشہ امریکہ میں رہا اور اسکا شکار سیاہ فام امریکی باشندے وقتا فوقتا ہوتے رہے ہیں، مگر کورونا کے آنے سے سیاہ و سفید کے درمیان موجود تعصب کی خلیج مزید آشکار ہو گئی ہے۔امریکہ میں قریب چار کروڑ سیاہ فام امریکی شہری موجود ہیں جن میں سے ایک بڑی تعداد کو امتیازی سلوک اور نسلی بھید بھا کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور انہیں حفظان صحت کے وسائل و ذرائع کے علاوہ بیمہ کی سہولت کے تعلق سے بھی سخت دشواریوں کا سامنا رہتا ہے۔کچھ عرصے قبل برطانوی اخبار انڈیپینڈینٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ فاش کیا تھا کہ امریکی ریاست شیکاگو میں کورونا کے باعث جاں بحق ہونے والوں میں ستر فیصد سیاہ فام ہیں۔ انڈیپینڈینٹ کے مطابق امریکہ میں سیاہ فام برادری دیگر تمام سماجی طبقوں سے سات گنا زیادہ کورونا وائرس کا شکار ہو رہی ہے اور اسکی بنیادی وجہ بھی یہ ہے کہ معمولا افریقی نسل کے امریکی باشندے مشرقی اور مرکزی امریکہ میں کارخانوں اور صنعتی مراکز میں کام کرتے ہیں جس کے سبب وہ اپنی زندگی چلانے کے لئے گھر سے باہر نکلنے پر مجبور ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1820 سے لے کر اب تک ساڑھے چھ کروڑ تارکین وطن امریکہ کی شہریت حاصل کر چکے ہیں اور صرف 1998 میں 6 لاکھ 60 ہزار افراد نے اس مد میں امریکی آبادی کے حجم میں اضافہ کیا۔ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی آبادی اس وقت 32.8.2ملین یعنی لگ بھگ 33کروڑ سے زائد ہے اور آبادی کے لحاظ سے چین اور بھارت کے بعد یہ دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔(Baltimore Police Department) سے متعلق محکمہ انصاف کی 2016 کی ایک رپورٹ زمینی سطح پر بڑے پیمانے پر نسلی امتیاز کو بے نقاب کرتی ہے۔افریقی امریکیوں کے خلاف امتیازی سلوک’ کے عنوان سے اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ (Baltimore Police Department) غیر متناسب طور پر افریقی امریکیوں کو سڑک کے کنارے چلنے سے روکتی ہے۔’ایک درمیانی عمر کے افریقی نژاد امریکی شخص کو چار سالوں میں تقریبا 30 بار روکا گیا تھا۔ بار بار روکے جانے کے باوجود کبھی بھی ان 30بار روکے جانے کا ذکر نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس پر مجرمانہ مقدمات درج کیے گئے۔’سڑکوں پر گشت کرتے ہوئے بالٹیمور پولیس ڈیپارٹمنٹ غیر متناسب طور پر افریقی نژاد امریکیوں کو روکتا ہے۔ بالٹیمور پولیس ڈیپارٹمنٹ میں جن پر مقدمات درج کیے جاتے ہیں ان میں 86فیصد افراد افریقی نژاد امریکی ہیں۔ اگر چہ وہ بالٹیمور کی کل آبادی کا صرف 63فیصد ہیں۔سیاہ فام شہریوں کے ساتھ نسلی بنیاد پر امتیازی سلوک کے علاوہ پولیس کے ہاتھوں قتل کے وجوہات میں زیادہ عسکریت پسندی، شفافیت کا فقدان اور احتساب کا فقدان وغیرہ شامل ہیں۔
2016کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ سات لاکھ ایک ہزار کل وقتی پولیس افسران میں سے 71فیصد سفید فام تھے جبکہ 27فیصد افسران دوسرے تھے۔
اس سے 2017میں ہونے والی ایک تحقیق کو سمجھنے میں کس طرح مدد ملتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پولیس افسران سیاہ فام لوگوں سے زیادہ گوروں کا احترام کرتے ہیں۔ایک اور تحقیق کے مطابق 2016میں سیاہ فام اور سفید فام امریکی ایک ہی شرح سے منشیات کی فروخت اور استعمال میں ملوث ہیں لیکن سیاہ فام لوگوں کو اس طرح کے معاملات میں گرفتار کیے جانے کا امکان 2.7گنا زیادہ ہے۔
مصنف ریڈلی بالکو نے واشنگٹن پوسٹ میں لکھتاہے کہ جب سفید فام کسی سفید فام کے خلاف پولیس تشدد والی ویڈیو دیکھتے ہیں تو اس پر ہمیں غصہ آتا ہے، ہم اداس اور بے چین ہو جاتے ہیں لیکن ہم سے زیادہ تر لوگ خود کو اس سفید فام کی جگہ نہیں دیکھتے ہیں۔’ہم محسوس کرتے ہیں کہ اگر ہم سنجیدہ اور باوقار ہوں گے تو اس بات کا کم امکان ہے کہ ہم پولیس کے ساتھ جھڑپ میں شامل ہوں گے۔ اور اس بات کا کم ہی امکان ہے کہ ہماری حالت ڈینیل شیور جیسی ہو۔لیکن جب کوئی سیاہ فام شخص کوئی ویڈیو دیکھتا ہے جس میں ڈیریک چاون جیسا افسر جارج فلوئیڈ کی گردن پر گھٹنا ٹیک کر بیٹھا ہو تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ فلوئیڈ کی جگہ وہ سکتا تھا یا اس کا بیٹا، بھائی یا دوست ہوسکتا ہے۔اس کاکہناہے امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی سے صدارتی انتخاب کی دوڑ میں ممکنہ امیدوار کے لیے جو بائیڈن کی حمایت سیاہ فام لوگوں کے ووٹوں سے ہوئی ہے۔اور صدارتی انتخابات کے نزدیک آنے کے ساتھ ہی پولیس تشدد کا یہ معاملہ انتخابی مہم کے اہم مسائل کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔
ٹرمپ نے سیاہ فام احتجاجی مظاہرین پر الزام لگاتے ہوئے کہاکہ یہ پیشہ ورانہ شر پسندوں اور فاشسٹ مخالف گروہ اینٹیفا (ANTIFA)کے دہشت گردہیںجوامریکہ کی تباہی چاہتے ہیںاور اتوار 31مئی کوٹرمپ نے اینٹیفا کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا۔ یہ تنظیم 1920 کی دہائی میں اٹلی کے ڈکٹیٹر مسولینی کے خلاف قائم ہوئی تھی۔ پھر اس کا دائرہ دیگر یورپی ممالک اور امریکہ تک پھیل گیا۔ تاہم چند سال میں ہی اس کا وجود ایک طرح سے ختم ہو گیا۔ 1960میں یہ تنظیم یورپ میں ایک بار پھر منظرعام پر آئی اور 1970 کی دہائی میں امریکہ پہنچ گئی۔ اس تنظیم سے وابستہ لوگوں کی اکثریت سوشلٹسوں، انارکسٹسوں اور کمیونسٹسوں پرمشتمل ہے جو خود کو جبرکے خلاف انقلابی کہتے ہیں۔
اینٹی فا فسطائیت کے خلاف قدم لینے والی ایک احتجاجی تحریک ہے جو نازی خیالات، سفید فام نسل پرستی کی بالا دستی کے پیرو کار اور نسل پرستانہ رویے کے خلاف مظاہرے کرتی ہے۔اس تحریک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا کوئی مرکزی رہنما نہیں ہے اور وہ آزادانہ طور پر کام کرتی ہے۔اس تحریک سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ وہ ہر قسم کے نسل پرستانہ رویے اور جنس پر مبنی تعصب کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ تحریک تارکین وطن اور مسلمان مخالف پالیسیوں کے خلاف بھی احتجاج کرتی ہے جو صدر ٹرمپ کے دور میں نافذ کی گئی ہیں۔حکومت مخالف اور سرمایہ دارانا نظام مخالف خیالات رکھنے والی تحریک کے اراکین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انتشار پسندوں سے زیادہ متاثر ہیں بجائے بائیں بازو کی جماعتوں کے۔اس تحریک کا ذکر امریکہ میں بڑے پیمانے پر دوبارہ تین سال قبل اس وقت سامنے آیا جب انھوں نے ریاست ورجینیا کے شہر شارلٹسول میں سفید فام نسل کی بالادستی کے لیے نکالی جانے ریلی کی مخالفت کی تھی۔
امریکہ کے شہر مینیاپولس سمیت متعدد مقامات پر ایک ویڈیو کلپ کے منظر عام پر آنے کے بعد سڑکوں پر غم و غصہ پھوٹ پڑا ہے۔اس ویڈیو کلپ میں ایک سفید فام پولیس آفیسر ایک غیر مسلح جارج فلوئیڈ نامی سیاہ فام آدمی کی گردن پر گھٹنے ٹیکتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس واقعے کے چند منٹ بعد 46 سالہ جارج فلوئیڈ کی موت ہو جاتی ہے۔اس واقعے کے بعد امریکہ میں نسلی تشدد کی تاریخ پر بحث ہونے لگی ہے۔ پولیس کی بربریت کے ختم نہ ہونے والے سلسلے کے خلاف لوگوں کا غم و غصہ بڑھتا جارہا ہے۔(National Association for the Advancement of Colored People) نامی تنظیم نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے ‘ان کے اعمال نے ہمارے معاشرے میں سیاہ فام لوگوں کے خلاف ایک خطرناک نظیر قائم کی ہے جو نسلی امتیاز، زینو فوبیا اور تعصب پر مبنی ہے۔
امریکامیںپولیس کے ذریعہ ہونے والے تشدد کے واقعات کی نگرانی کرنے والی ایک ویب سائٹ( Mapping Police Violence.org)کے مطابق 2013 سے 2019 کے درمیان ہونے والے 99 فیصد قتل میں افسران کے خلاف کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا ہے۔

Comments are closed.