نفرت اور بربادی کے چھ سال!

شکیل رشید
خبر ۲؍ جون کی ہے۔۔۔
تڑپادینے اور خون کھولا دینے والی خبر ۔غصے کو مزید ہوا دینے والی خبر کہ اسے کسی نیشنل نیوز چینل _ــــــــ نام نہاد قومی میڈیا _نے دکھائے جانے کے قابل نہیں سمجھا،جیسے کہ کوئی بات ہی نہ ہوئی ہو! جبکہ معاملہ انتہائی تشویش ناک تھا، بڑا ہی لرزا دینے والا ۔عزرائیل کی عمر صرف ۱۸ سال کی ہے، وہ بہار کے موتیہاری کا رہنے والا ہے ۔۲جون کو وہ اپنے گھر سے اپنا موبائل فون چارج کرنے کے لیے اپنے ایک دوست کے گھر جا رہا تھا کہ بجرنگ دل کے دہشت گردوں نے اسے روک لیا اور ’جئے شری رام‘ کا نعرہ لگانے کے لیے اس پر جبر کرنے لگے، جب عزرائیل نے انکار کیا تو اسے بری طرح سے پیٹا گیا اور چاقو سے اس کی گردن اور سینے پر وار کیئے گئے ۔جب زخمی عزرائیل زمین پر گر پڑا تب وہ سب، جن میں سے ایک کا نام گوپال تھا، اسے مردہ سمجھ کر بھاگ گئے ۔عزرائیل اسپتال میں پڑا ہوا ہے، اس کی جان تو بچ گئی ہے مگر اس لنچنگ نے اس کے ذہن اور قلب پر جو منفی اثرات مرتب کیئے ہوں گے ان سے وہ شاید ساری عمر پیچھا نہ چھڑا سکے ۔یہ لکھے جانے تک بجرنگی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی ہے ۔
عزرائیل کے ساتھ یہ واقعہ، پونہ میں ٹھیک چھ سال قبل ایک آئی ٹی انجینئر محسن شیخ کی لنچنگ والی تاریخ اور مہینے میں ہی پیش آیا ۔محسن شیخ، نریندر مودی کی پہلی سرکار کی حلف برداری ۲۶مئی ۲۰۱۴کے ٹھیک سات دن بعد اس وقت لنچنگ یا بالفاظ دیگر ہجومی تشدد کا شکار ہوا تھا جب وہ بعد نماز عشاء اپنے ٹھکانے کو لوٹ رہا تھا ۔ہندو راشٹر سینا نام کی ایک شدت پسند تنظیم کے دہشت گردوں نے محسن شیخ کو گھیر کر ایک ایسے قصور کے لیے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا جو مرحوم سے سرزد نہیں ہوا تھا ۔یہ دراصل پوری مسلم قوم کو ایک تنبیہ تھی کہ قصور چاہے جس کا ہو ساری قوم کو ’مجرم‘ گردانا جائے گا اور سزا دی جائے گی ۔چھ سال کا عرصہ بیت گیا محسن شیخ کے قاتلوں کو اور ہندو راشٹر سینا کے سربراہ دھننجے دیسائی کوکوئی سزا نہیں ملی ہے ۔محسن شیخ کے والد صادق شیخ انصاف کی آس لگائے اس دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کر گئے ہیں ۔محسن شیخ اور عزرائیل کی لنچنگ کے ان چھ برسوں کے درمیان محمد اخلاق سے لے کر پہلو خان، تبریز انصاری، ننھے حافظ جنید تک ہجومی تشدد کی بھینٹ چڑھنے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے، یہ سب کے سب انصاف سے محروم ہیں ۔پہلے تو لنچنگ کی وارداتوں پر آوازیں اٹھتی تھیں، مذمتی کلمات سننے کو ملتے تھے، سپریم کورٹ بھی کبھی کبھار سوال کر لیتا تھا، لیکن اب یہ ایسا ’معمول‘ بن گیا ہے کہ اس پر توجہ دینے کی ضرورت کسی کو نہیں رہ گئی ہے ۔اب کل کی ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ والی اور آج کی ‘سب کا ساتھ ’سب کا وکاس اور سب کا وشواش‘ والی وزیراعظم نریندر مودی کی سرکار میں لنچنگ ’نیو نارمل‘ ہے۔ یقیناً مسلمانوں اور دلتوں و پچھڑوں کی جانوں کو ملک کے بہت بڑے طبقے کی نظر میں بے قیمت قرار دینا، مودی سرکار کی چھ سال کی ’کامیابیوں‘ میں ایک ’بڑی کامیابی‘ ہے۔یہ اور بات ہے کہ مودی سرکار کی جن چھ سالہ کامیابیوں کا آج جشن جاری ہے اور جو ’کارنامے‘ گنوائے جا رہے ہیں ان میں اس کا تذکرہ نہیں کیا جاتا ۔کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے کہ لوگ خوب جانتے ہیں کہ تشدد یا لنچنگ کرنے والے ہجوم کے سر پر اس سرکار کاہی ہاتھ ہے، اسی لیے نہ پولیس ان قاتلوں کا کچھ بگاڑ پا رہی ہے اور نہ ہی عدالتیں انہیں سزا دے پا رہی ہیں ۔
مودی سرکار اپنی دوسری پاری اور ۲۶ مئی ۲۰۱۴ سے لے کر اب تک کے چھ سالہ اقتدار کا جشن منانے کے لیے بے چین ہے ۔اگر کورونا وائرس کی وباء نہ پھیلی ہوتی تو نہ جانے کتنے جلسے جلوس ہو چکے ہوتے اور ریلیاں نکل چکی ہوتیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ وباء نے مرکزی سرکار کے ہاتھ پیر باندھ دیئے ہیں، جشن اب ورچول ریلیوں اورجلسوں کی شکل میں منایا جائے گا ۔اور بڑی تعداد میں لوگ ان میں شریک ہوں گے، بھلے یہ شرکت ورچول ہو! خوب ان پر خرچ کیا جائے گا، اتنا خرچ کہ اگر اتنا ہی خرچ، پیدل اپنے آشیانوں کی طرف سفر کرنے والے مزدوروں اور غریبوں پر لگا دیا جاتا تو یہ سب بنا ریل پٹریوں پر کٹے مرے، سڑکوں پر حادثوں کا شکار ہوئے، بھوک اور پیاس سے جان دیئے، اپنے گھروں کو پہنچ گئے ہوتے ۔لیکن یہ سرکار کہاں غریبوں اور مزدوروں کی ہے، اسے تو اپنی چھ سالہ ’کامیابیوں‘ کی تشہیر کرتے ہوئے یہ بھی یاد نہیں رہا کہ ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے ہمدردی کے چند بول ہی بول دے!!
چھ سال کے جشن پر ۱۶ مئی بروز سنیچر ٹوئٹر ایک ویڈیو ’مودی سرکار کے چھ سال، بے مثال‘ کے نام سے جاری کیا گیا ، نو منٹ ایک سیکنڈ کے اس ویڈیو کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ہندوستان واقعی جنت نشان ہے، نہ کورونا متاثرین کے چہرے، نہ سڑکوں پر پیدل چلتے غریب اور مزدور اور نہ سڑک کنارے بچہ جنتی کوئی بے بس ماں۔دعوؤں سے بھرا ویڈیو ۔ ستّر لاکھ نوجوانوں کو اسکل انڈیا پروگرام کے تحت روزگار دینے کا دعویٰ ، یہ دعویٰ کہ چوبیس کروڑ لوگ مدرا سے فیض یاب ہوئے!! ایک جگمگاتی دنیا نظروں کے سامنے کھڑی کر دی گئی!!.اس موقع پر وزیراعظم نریندر مودی نے ’قوم‘ کے نام ایک خط بھی جاری کیا ہے ۔وزیراعظم نے اپنی سرکار کی دوسری پاری کی جو بڑی ’کامیابیاں‘ اس خط میں گنوائی ہیں وہ ہیں کشمیر سے آرٹیکل 370 کا خاتمہ، ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لیے سپریم کورٹ کے جج صاحبان کا متفقہ فیصلہ، ظالمانہ طلاق ثلاثہ کا غیر قانونی قرار پانا اور شہریت قانون کی منظوری ۔انہوں نے خط میں ملک کی معاشی ترقی، تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ، کسانوں اور غریبوں کی ترقی اور فلاح کے لیے کیئے گئے اقدامات کا بھی ذکر کیا ہے، اور ان مزدوروں کی دقت کا بھی جو اپنے ہی ملک میں مہاجر بن گئے ہیں لیکن خصوصی زور کشمیر، سی اے اے، ایودھیا اور طلاق ثلاثہ پر ہے ۔اور کیوں نہ ہو کہ ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کے ایجنڈے میں انہیں ایک ایک کر کے ختم کرنا سر فہرست تھا۔ان کی بنیاد پر ملک بھر میں نفرت کا ماحول بنانا ممکن تھا، اور مودی سرکار کے چھ سالوں میں نفرت کا جو ماحول بنا وہ اس ملک میں پہلے کبھی نہیں بنا تھا، تقسیم کے موقع پر بھی نہیں۔
مودی سرکار نے چھ سالوں میں ملک کو کیا دیا؟ یہ ایک اہم سوال ہے ۔اس سوال کا جواب مشکل نہیں ہے ۔مودی سرکار نے پنڈت جواہر لال نہرو کی سرکار کی طرح نہ تو ملک کو فیکڑیاں اور ملیں دیں، نہ بینک اور ڈیم دیئے ۔نہ ہی مودی سرکار نے اندرا گاندھی اور منموہن سنگھ کی سرکاروں کی طرح ملک کو معاشی طور پرمضبوط بنیادوں پر کھڑا کیا اور خود کفیل کیا، ہاں مودی سرکار نے آتم نربھرتا کا نعرہ ضرور لگایا، امدادی پیکج کے نام پر قرضہ جات کا میلہ بھی لگایا لیکن وہ یہ نہ بتا سکے کہ یہ قرضے غریبوں اور تھکن سے چور چور مزدوروں کو کیسے آتم نربھر یا بالفاظ دیگر خودکفیل بنا سکیں گے ۔یہ معاشی بحران تو ’نوٹ بندی‘ سے ہی شروع ہو گیا تھا ۔کتنے شہری اس ’نوٹ بندی‘ کی بھینٹ چڑھے تھے! رہی سہی کسر جی ایس ٹی نے پوری کر دی تھی ۔اور نیرو مودی اور میہول چوکسی جیسے لوگوں نے بینکوں کو اس طرح سے لوٹا کہ کئی بینک کنگال ہوگئے، بند پڑ گئے۔اور یہ لاکھوں کروڑوں روپے کی لوٹ اسی مودی سرکار میں معاف بھی کر دی گئی!! نئی مصیبت اچانک لاک ڈاؤن کے فیصلے نے کھڑی کردی۔آج دس کروڑ لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں، کمپنیاں بند ہو رہی ہیں، چھوٹے کاروباری سڑکوں پر آ پڑے ہیں، ملک کی جی ڈی پی صفر پر آنے کے قریب ہے ۔ایک تاریک مستقبل لوگوں کے سامنے آ کھڑا ہوا ہے ۔یہ ہے مودی سرکار کی حقیقی ’کامیابی‘ ۔
عدلیہ اور آئینی ادارے بے وقار ہوئے ہیں ۔مودی سرکار کے دور میں ان معزز جج صاحبان کے تبادلے عام ہوئے ہیں جو انصاف کی بات کرتے ہیں، دہلی ہائی کورٹ کے جج جسٹس مرلی دھر اور گجرات ہائی کورٹ کے جج جسٹس جے بی پرڈی والا اور جسٹس آئی جے وہرا کی مثالیں سامنے ہیں۔ جسٹس مرلی دھر نے دہلی فسادات میں بی جے پی کے سیاست دانوں کے کردار اور حکومت کی لاپروائی پر اور آخرالذکر دو جج صاحبان نے کورونا وباء کے دوران گجرات حکومت کی کوتاہیوں پر سخت سرزنش کی تھیں۔پولیس کو اس سرکار نے اپنے پھندے میں اس طرح جکڑ لیا ہے کہ وہ ہر اس فرد کو، جس نے سرکار پر، اس کے وزراء اور محکموں اور فیصلوں پر تنقید کی ہو ملک دشمن مان کر زنداں کے حوالے کر رہی ہے ۔مثال دہلی اور یوپی پولیس کی لےلیں ۔سی اے اے کے ایکٹوسٹ، جامعہ ملیہ اسلامیہ ۔جے این یو اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلباء اندھا دھند گرفتار کیے جا رہے ہیں، حاملہ صفورا زرگر تک کو گرفتار کیا گیا ہے ۔دہلی کے فسادات میں مسلمان ہی لٹے پٹے اور مارے گئے اور تشدد کے الزامات میں دہلی پولیس انہیں ہی گرفتار کر رہی ہے ۔دارالعلوم دیوبند اور آئی ایس ایس سے رابطے جوڑے جا رہے ہیں ۔اقلیتی کمیشن دہلی کے چیرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام پر بغاوت کا معاملہ بنا کر یہ گویا کہ بتایا گیا ہے کہ کوئی محفوظ نہیں ہے ۔نہ مسلمانوں کی معزز شخصیات نہ دارالعلوم اور نہ ہی جماعتیں اور تنظیمیں ۔مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کے منصوبے پر پوری سنجیدگی سے عمل ہو رہا ہے ۔اور مسلمانوں میں ڈر پیدا ہو بھی رہا ہے کہ ڈر پیدا ہونا فطری ہے۔یہ اپنے ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو بے بسی میں مبتلا کرنا مودی سرکار کی بڑی ’کامیابی‘ ہے ۔یہ مسلمانوں کو بھی اور دیگر اقلیتوں کو بھی حاشیہ سے باہر ڈھکیلنے میں اہم کردار ادا کرے گی ۔
اس سرکار کی ایک بڑی ’کامیابی‘ میڈیا کی زبان بندی بھی ہے ۔گودی میڈیا تو اس سرکار کا ہے ہی، جو میڈیا اس سرکار پرکچھ تنقید کرنے کی جسارت کرتا ہے اس کی زبان بندی کی کوشش بھی ہو رہی ہے ۔اب یہی دیکھ لیں کہ حکومت ہند یعنی مودی سرکار کے سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے سپریم کورٹ میں جرنلسٹوں کو ’گدھ‘ کہہ دیا ۔ان کا یہ ماننا ہے کہ جرنلسٹ اس سرکار کے تعلق سے منفی باتیں پھیلاتے ہیں۔اور یہ کیوین کارٹر نامی اس فوٹو جرنلسٹ کی طرح ہیں جس نے قحط زدہ سوڈان میں ایک ایسے بچے کی تصویر اتاری تھی جسے گدھ نوچنے کے قریب تھا اور گدھ کو بھگانے کی بجائے اور بچے کو بچانے کی بجائے اسے تصویر کھینچنا عزیز تھا۔اس فوٹو جرنلسٹ نے بعد میں خودکشی کر لی تھی کیونکہ بقول تشار مہتہ اسے اس کے کسی ساتھی نے خود ایک گدھ قرار دے دیا تھا۔اس طرح تشار مہتہ نے مہاجر مزدوروں کی بپتا کو لوگوں تک اپنی تصاویر اور اپنی رپورٹوں کے ذریعے لوگوں تک پہنچانے والے جرنلسٹوں کو ’گدھ‘ قرار دیا تھا۔ظاہر ہے حکومت کے سالیسٹر جنرل کی یہ تشبیہ، جو کہ فیک ثابت ہوئی، مودی سرکار کی تشبیہ ہی مانی جائے گی ۔گویا یہ کہ جو اس ملک کے مسائل اٹھائے، عام لوگوں کی بات کرے، حکومت کی خامیوں کو اجاگر کرے وہ جرنلسٹ ’گدھ‘ ہے۔یہ صحافی حضرات کو ڈرانے اور دھمکانے کی ایک کوشش نہیں تو اور کیا ہے!! لیکن ابھی بھی میڈیا میں با ضمیر لوگ ہیں جو مودی سرکار کی ’ناکامیوں‘ کو بھی اجاگر کر رہے ہیں۔ اور بدنظمی، مذہبی منافرت، ذات پات کے نام پر بھید بھاؤ، معاشی کوتاہیوں کو عیاں کرنے کی جسارت کر رہے ہیں ۔اور یہ سچ سامنے آ رہا ہے کہ مودی سرکار کے چھ سال ’کامیابیوں‘ کے نہیں ’نفرت اور بربادی‘ کے سال تھے، اور آنے والے سالوں میں بھی کسی بہتری کی امید نہیں ہے ۔
Comments are closed.