ڈرامہ ارطغرل: ایک معمہ ہے سمجھنے کا اور سمجھانے کا

دانش ریاض،معیشت،ممبئی
ان دنوں جبکہ میں عالم خودی میں علامہ اقبال رحمہ اللہ کو بزبان راحت فتح علی خان سن رہا ہوں ڈرامہ ارطغرل کی معنویت زیادہ سمجھ میں آرہی ہے۔ پہلا سیزن دیکھنے کے بعد ہی میں نے ایک مضمون قلم بند کیا تھا لیکن چار سیزن دیکھنے کے بعد نہ صرف گھر کے تمام لوگوں کو اس کے لئے آمادہ کیا بلکہ بچوں کو خود لے کر بیٹھا تاکہ وہ اسے دیکھیں اور کارٹون دیکھنے کی جو عادت جڑ پکڑتی جارہی ہے اس سے نجات حاصل کرسکیں۔ورثہ ہیریٹیج پر ’’دل سوز سے خالی ہے نگہ پاک نہیں ہے‘‘دل کی آنکھوں سے سماعت کریں تو محسوس ہوگا کہ امت اب تک کن کن چیزوں سے محروم ہوچکی ہے اور ملت کے خود ساختہ ناخدائوں نے اسے کس گڑھے میں لا پھینکا ہے۔
ترکی ڈرامہ ارطغرل پر جتنا کچھ لکھا جاچکا ہے اور روز جتنا لکھا جارہا ہے یہ اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ کررہا ہے۔نیم مردہ مولویوں کی فتویٰ بازی نے مولوی بیزار ملت کے دردمندوں کو ایسی قوت بخشی ہے کہ حُب علی میں نہ سہی بغض معاویہ میں وہ راتوں دن ایک کئے ہوئے ہیں ،میری دانست میں لوگوں نے رمضان المبارک میں اسے بھی ایک معمول کا مشغلہ بنارکھا تھااور باوضو ہی دیکھا کرتے تھے۔اس کے رد و قبول میں جوسوال و جواب کا سلسلہ چلا رہا میں اس سے قطع نظر ان امور پر گفتگو کروں گا جو اس کا حاصل ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہم ایک ایسی جنگ میں مبتلاء کردئے گئے ہیں جس کا حملہ چوطرفہ ہے۔جسمانی طور پر نیست و نابود کرنے کے لئے جہاں گولے اور گولی بارود کا سہارالیا جارہا ہے وہیں روحانی طور پر خاتمہ کے لئے ذرائع ابلاغ کا استعمال عام ہے۔جس طرح ہندوستان میں کسی کی ماب لنچنگ کے لئے پہلے ذہنی طور پر اسے مجرم باور کرایا جارہا ہے تاکہ وہ دفاع میں ہاتھ بھی نہ اٹھا سکے اسی طرح پوری قوم کو ذہنی غلامی میں مبتلاء کرکے لنچنگ کی جارہی ہے اور پھر ملت سے ہی وہ گروہ بھی تیارکیاجارہاہے جو لنچنگ کا دفاع کرسکےاور ملت کی بے وقت موت کاجواز فراہم کرسکے۔لہذا ڈرامہ ارطغرل نےعالمی سطح پر اسی کیفیت کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔برصغیر پاک و ہند کے ساتھ پوری دنیا میں مسلمانوں نے فکشن کےانبار لگا رکھے ہیںلیکن کسی نے یہ سوال کھڑا کرنے کی کوشش نہیں کہ یہ کیسی تاریخ رقم کی جارہی ہے۔پھر ایک ایسے فکشن پر جس کا رائٹر اسے بار بار فکشن قرار دے رہا ہے تاریخی حوالوں سے سند حاصل کرنے کی کوشش کیوں کی جارہی ہے؟دراصل اس فکشن میں شیطانی قوتیں اس مستقبل کو دیکھ رہی ہیں جس کا ظہور بس ہوا چاہتا ہے۔ڈرامہ ارطغرل میں جن دوقوموں سے جنگ کے مناظر فلمائے گئے ہیں ان میں ایک عیسائی (صیہونی) اور دوسرے منگول(صیہونی مقتدرہ کے حلیف) ہیں۔
مسلم شریف کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح دوسرے فتنوں کے بارے میں امت کو آگاہ فرمایا ہے اسی طرح بعض جنگوں کے بارے میں بھی پیش گوئیاں فرمائی ہیں ۔ یہ بات تو واضح ہے کہ امت محمدیہ کا سب سےپہلا جہاد سرورکائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں مشرکین مکہ کے خلاف میدان بدر میں لڑا گیا اور سب سے آخری جہاد سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قیادت میں یہودیوں کے خلاف سر زمین فلسطین میں لڑا جائے گا ۔ معرکہ بدر سے لے کر قتال دجال تک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار اہم فتوحات کی پیش گوئی فرمائی ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے۔ تم لوگ جزیرةا لعرب کے لوگوں سے جہاد کرو گے اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھوں اسے فتح کر دے گا پھر تم اہل فارس کے خلاف جہاد کرو گے اللہ تعالیٰ اسے بھی فتح کر دے گا پھر تم اہل روم کے خلاف جہاد کرو گے اللہ اسے بھی فتح کر دے گا پھر تم دجال کے خلاف جہاد کرو گے اور اللہ اسے بھی فتح کر دے گا ۔
یاد رہے کہ رسول اکرم صلی اللہ وسلم کے زمانہ مبارک میں فارس کی طرح روم کا شمار بھی دنیا کی دوسری بڑی طاقت میں ہوا کرتا تھا جو عیسائیت کے پیروکارتھے لہٰذاروم کی فتح سے مراد فقط شہرروم کی فتح نہیں بلکہ پوری عیسائی دنیا کی فتح ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سقوط روم سے پہلے جس جنگ کے بارے میں فرمایا گیا ہے وہ یہ کہ مسلمان اور عیسائی دونوں مل کر کسی مشترکہ دشمن سے لڑائی کریں گے اور انہیں فتح حاصل ہوگی ۔ دونوں آپس میں مال غنیمت تقسیم کریں گے اور اس کے بعد ایک ٹیلوں والی جگہ پر پڑائو ڈالیں گے جہاں ایک عیسائی کما نڈر کھڑا ہوکر اعلان کرے گا کہ صلیب غالب ہوئی جس کے جواب میں ایک غیرت مند مسلمان کمانڈر اٹھ کر اسے تھپڑ ماردے گا ، جھگڑا بڑھ جائے گا جس کے نتیجہ میں عیسائی صلح کا معاہدہ توڑ دیں گے اور مسلمانوں سے انتقام لینے کے لیے 80 عیسائی ممالک کا اتحاد قائم کریں گے۔ گھمسان کی جنگ ہوگی جس میں مسلمانون کا سارا لشکر شہید ہو جائے گا اور عیسائیوں کو فتح ہوگی۔
دراصل معرکہ روم ہی وہ آخری جنگ عظیم ہے جس کے بعد قیامت کی بڑی علامتوںعلامات کبریٰ کا ظہور شروع ہو جائے گا ۔ معرکہ کی تفصیل یہ ہے کہ شامی مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان ایک جنگ ہوگی جس میں مسلمانوں کو فتح ہوگی اور وہ عیسائیوں کے مردوں اور عورتوں کو اپنا غلام بنا لیں گے ۔ لشکر ، شامی مسلمانوں سے انتقام لینے کے لیے شام پر حملہ آور ہوگا ۔ شام کے شہر حلب کے قریب اعماق یا دابق کا مقام میدان جنگ بنے گا ۔ جنگ سے پہلے مدینہ منورہ سے مسلمانوں کا ایک لشکرشامی مسلمانوں کی مدد کےلیے اعماق یا دابق پہنچے گا تو عیسائی کمانڈر مدنی لشکر کے کمانڈر سے کہے گا تم شامی لشکر سے الگ رہو انہوں نے ہماری عورتوں اور مردوں کو غلام بنالیا ہے لہٰذا ہم صرف انہیں سے لڑنا چاہتے ہیں ، مدنی لشکر کا کمانڈر کہے گا، واللہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کو اکیلے کبھی نہیں چھوڑیں گے۔ چنانچہ مسلمانو ں اور عیسائیوں کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوگی ۔ مسلمانوں کا ایک تہائی لشکر جنگ میں قتل ہو جائے گا جو اللہ تعالیٰ کے ہاں بہتر ین شہادت کا درجہ پائیں گے ۔ ایک تہائی لشکر میدان جنگ سے ڈر کر بھاگ جائے گا اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول نہیں فرمائیں گے ۔ باقی تہائی لشکر فاتح ہوگا جسے اللہ تعالیٰ ہر طرح کے فتنوں سے محفوظ رکھیں گے۔ شام میں عیسائیوں کو شکست فاش دینے کے بعد مسلمان عیسائیوں کے روحانی مرکز ’’ روم‘‘ پر چڑھائی کریں گے ۔ بری اور بحری دونوں محاذوں پر جنگ ہوگی ۔ بحری محاذ پر قسطنطنیہ( استنبول)کے مقام پر جنگ ہوگی۔ ا س جنگ میں ستر ہزار مسلمان شریک ہوں گے ۔ استنبول کے مقام پر اسلام اور عیسائیت کا یہ آخری معرکہ نصرت الہٰی کا عظیم شاہکار ہوگا۔ اس جنگ میں ہتھیار استعمال کرنے کی نوبت نہیں آئے گی۔ مسلمان پہلی مرتبہ نعرہ تکبیر ،، لا الہ الا اللہ واللہ اکبر ،، بلند کریں گے تو شہر پناہ کی ایک دیوار گر پڑے گی ۔ دوسری مرتبہ نعرہ تکبیر بلند کریں گے تو دوسری دیوار گر پڑے گی تیسری مرتبہ نعرہ تکبیر بلند کریں گے تو شہر مفتوح ہو جائےگا یاد رہے کہ ترکی اس وقت مسلمانوں کے قبضہ میں ہے لیکن مستقبل میں کسی وقت یہ عیسائیو ں کے قبضہ میں چلا جائےگا او مسلمان اسے دوبارہ فتح کریں گے ۔
دوسری طرف بری محاذ پر روم میں ایسی خوں ریز جنگ ہوگی کہ ماضی میں ایسی خوں ریز جنگ کبھی نہیں ہوئی ہوگی۔ مسلسل چار روز جنگ ہوگی ۔ پہلے تین دن مسلمانوں کو شکست ہوگی ہر روز جنگ میں حصہ لینے والے سارے کے سارے لشکر قتل ہوتے جائیں گے چوتھے روز مجاہدین کا لشکر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے فتح یاب ہوگا اس جنگ میں 99 فیصد لوگ مارے جائیں گے میدان جنگ دور دور تک لاشوں سے پٹ جائے گا حتی کہ اگر ایک پرندہ لاشوں کے اوپر اڑنا شروع کر دے تو اسے موت آجائے گی لیکن لاشیں ختم نہیں ہوں گی۔مسلمان روم کی فتح کے بعد ابھی مال غنیمت تقسیم کر رہے ہوں گے کہ انہیں دجال کے خروج کی خبر مل جائے گی اور وہ ہر چیز کو چھوڑ چھاڑ کر شام کی طرف دوڑ پڑیں گے جو کہ دجال کے خلاف معرکو ں کا میدان ہوگا ۔ ظہور دجال سے قبل سیدنا امام مہدی کی خلافت قائم ہو چکی ہو گی لہٰذاسقوط روم کا معرکہ انہی کی قیادت میں سر ہوگا۔سقوط روم کے فوراً بعد دجال ظاہر ہوگا ۔ ساری دنیا کے یہودی کافر اور منافق اس کے ساتھ مل جائیں گے صرف ایران کے شہر اصفہان سے ستر ہزار یہودی اس کے لشکر میں شامل ہوں گے ۔ دجال مکہ اور مدینہ میں داخل نہیں ہو سکے گا ۔ اللہ تعالیٰ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی حفاظت کے لیے فرشتوں کا پہر ہ مقرر فرما دیں گے ۔ مکہ مدینہ کے علاوہ دجال ساری دنیا میں چکر لگائے گا جب شام کے دارالحکومت دمشق پہنچے گا تو وہاں’’ غوطہ ‘‘ کے مقام پر مسلمانوں کے ساتھ اس کا خوں ریز معرکہ ہوگا ۔ ابھی دجال دمشق میں ہی موجود گا کہ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام آسمان سے نازل ہوں گے۔ دجال کا تعاقب کریں گے اور’’ لد ‘‘ کے مقام پر اسے قتل کریں گے۔ یہ ہیں وہ چار فتوحات جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارک سے لے کر سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جہاد تک ہونے والی تمام جنگوں پر محیط ہیں دو فتوحات کا تعلق عہد صحابہ اور تابعین سے ہے اور دو فتوحات قیامت کےبالکل قریب کے زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں۔
اب ان روایات کی روشنی میں ڈرامہ ارطغرل کے فکشن کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ آخر وہ کن جذبات کو پروان چڑھا رہا ہے۔چین کا سپر پاور کی مسند پر بیٹھنے کے اعلان کے بعد تو’’ منگول ‘‘کی گرہ بھی کھل گئی جسے ڈرامہ میں بحر اوقیانوس سے متصل آباد دکھایا گیا ہے۔
*دانش ریاض معیشت میڈیا کے منیجنگ ایڈیٹر اور معیشت اکیڈمی کے ڈائریکٹر ہیں۔

Comments are closed.