لداخ پرچین اوربھارت کے فوجی عہدے داروں کے مذاکرات ناکام

عبدالرافع رسول
چینانے جموں وکشمیرکے لداخ صوبہ میں کئی علاقوں پراپنے جھنڈے گاڑ کرمودی اوراسکے زرخریدمیڈیاکی بولتی بندکردی ہے ۔چین نے بھارت کی بینڈبجائی اورشترمرغ کی طرح ریت میں سرچھپائے ہوئے مودی اینڈکمپنی اپنے طوراورامریکہ کے ذریعے چیناسے مذاکرات کی پیشکش پر پیشکش کررہی ہے۔حتی کہ مودی نے ٹرمپ کے ذریعے سے بھی چینی صدرسے ثالثی کی پیشکش کروائی لیکن چین نے اسے مستردکردیا۔ بھارتی میڈیا لداخ میںچین کے درآنے اوربھارتی فوج کوپیچھے دھکیلنے پرایساچپ اورخاموش ہے کہ جیسے کچھ بھی نہیں ہورہا ۔بھارتی میڈیالداخ کی صورتحال کواپنے عوام کوبے خبررکھنے ،اسے چھپانے کے لئے پاکستان سے کبوتروں اورٹڈی دل کے درآنے اورتبلیغی جماعت کارو نارہا ہے۔کوئی سدھیرچوہدری ،کوئی ارنب گواسوامی اپنے اس جل ترنگ میں کہیں بھی آج نظرنہیں آرہے ہیں جس جل ترنگ میں وہ کشمیرسے بھارت تک مسلمانوں کے خلاف نظرآتے رہے ۔ایسالگ رہاہے کہ چین کی ہیبت سے بھارتی میڈیاگویابلوں میں گھس چکاہے۔اسلام اورمسلمانوں کے تئیں خونخواربھیڑئے جیسے بھارتی میڈیاکے خونخوار اینکرسمجھتے ہیں کہ اگرانہوں نے اپنے پروگراموں میں چین کاذکرچھیڑاتوعین ممکن ہے کہ چین انکے نیوزروزمزمیں بھی گھس جائے گااورپھرانہیں چھوڑے گانہیں بلکہ چن چن کرانہیں ماردے گا۔
اس کالم کوحوالہ قلم کرنے سے محض ایک یوم قبل بھارت کی درخواست پر دونوں ممالک چین اوربھارت کے اعلیٰ فوجی عہدے داروںکے مابین فلیگ میٹنگ منعقد ہوئی لیکن وہ ناکام ہوئی کیونکہ اس میٹنگ کے دوران بھارت ،چین سے منت سماجت کررہاتھاکہ حالیہ ایام میںلداخ کے جس حصے پرچینی افواج نے قبضہ کرلیااسے چین چھوڑ کرواپس اپنی پرانی یاپہلے والی پوزیشن پرچلا جائے ۔لیکن چین نے یہ کہتے ہوئے صاف انکارکردیاکہ چین جہاں ایک دفعہ گھس جاتاہے واپس نہیں نکلتا۔چین کایہ جواب سن کربھارتی وفد بے نیل ومرام واپس لوٹ آیا۔ صاف دکھائی دے رہاہے کہ چین نے مودی کی گردن دبوچ لی ہے مودی چین سے جنگ نہیں چاہتاکیوں وہ اس امرکوخوب جانتاہے کہ چین سے جنگ کرنے کامعنی بھارت کوصفحہ ہستی سے مٹادینے کے ہیں اوراگرمودی چین سے جنگ نہیں کرتاتولداخ کے ایک حصے پرچین کے قبضے پراسکی جوسبکی ہورہی ہے تو وہ پھر اپنے عوام کوکس طرح چہرہ دکھاسکتاہے کیونکہ اس نے تواپنے عوام کوکہاتھاکہ اس کاسینہ 56انچ کاہے لیکن چین نے جب مودی کاسینہ دیکھاتووہ 15انچ کابھی نہیں نکلا۔
مشرقی لداخ میں پانچ کلیدی مقامات پرچین کی فوجیں اندرآکرسینہ تان کر کھڑی ہیں۔ یہ صورتحال بھارت کے لئے موت سے کم نہیں۔اسی لیے بھارت نے چین کی مقامی فوجی قیادت سے بات چیت کی پیشکش کی تھی۔چونکہ بات چیت کی پیشکش بھارت نے کی تھی اس لیے گفت و شنید بھارتی سرحدی پوائنٹ چوشولو مولڈو کی ایک ہٹ میں ہو رہی ہیں۔ بھارت کی جانب سے اس وفد کی قیادت 14 کور کے لیفٹنٹ جنرل ہریندر سنگھ کر رہے ہیں جبکہ چینی وفد کے سربراہ تبت کے ضلعی سطح کے فوجی کمانڈر ہیں۔ اس سے قبل بھی دونوں جانب کے فوجیوں کے درمیان چیت ہوئی ہے تاہم اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ بات چیت میں بھارتی وفد مشرقی لداخ کے تمام علاقوں میں مئی سے پہلے کی پوزیشن کو بحال کرنے پر گذارش کی اور جن علاقوں میں چینی فوج اس وقت موجود ہے وہاں سے اس کے واپس جانے کی درخواست کردی۔
بھارت، سرحد پر چینی فوجیوں کی بڑی تعداد میں موجودگی کم کرنے پربھی چین سے درخواست گذار ہے اور چاہتا ہے کہ فوجوں کی تعداد میں کمی کی جائے۔ بھارت کی تیسری درخواست یہ ہے کہ چین سرحد پر بھارت کی جانب سے کھڑے کیے جانے والے انفراسٹرکچر میں رخنہ اندازی نہ کرے اور تعمیراتی کاموں کو چلنے دے۔لیکن بھارت کی تمام تر درخواستوں اوراس کی گذارشات کے باوجود کشیدگی میں کمی کے آثار نظرنہیںآرہے۔بھارت کے کئی ریٹائرڈ فوجی افسران کا خیال ہے کہ چینی فوج نے مشرقی لداخ کے ان کئی علاقوں پرقبضہ جمالیاہے جس سے دفاعی اعتبار سے بھارت کی پوزیشن بہت کمزور ہوچکی ہے۔ بھارتی دفاعی ماہرین کہتے ہیں کہ حالیہ کشیدگی کے دوران چین بھارت کی تقریبا پچاس کلومیٹر مربع زمین پر قابض ہوچکا ہے اور بھارتی حکام کا بیانیہ چین کے ہاتھ میں کھیلنے جیسا ہے۔
لداخ اوراکسائی چین کاجغرافیہ کیاہے آیئے اس پرایک اجمالی نگاہ دوڑاتے ہیں۔ریاست جموںوکشمیر کا مجموعی رقبہ قریبا دو لاکھ 22ہزار 236مربع کلومیٹر ہے۔اس طرح سائز میں یہ پاکستان کے صوبہ پنجاب سے کچھ زیادہ اور دنیا کے 113ممالک سے بڑا ہے۔کشمیر صرف جموں و کشمیر اور آزاد کشمیر کا نام نہیں بلکہ گلگت بلتستان، لداخ، اکسائی چن، وادی شاکسگم اور سیاچن گلیشیئر بھی ریاست کشمیر کا حصہ ہیں۔ البتہ آزادکشمیراورگلگت بلتستان نے ڈوگرہ افواج کے خلاف جہاد کرکے ان دونوں خطوں کوآزادکرالیااورپھردونوں تقسیم برصغیرکے فارمولے کے تحت پاکستان کاحصہ بن گئے اس فارمولے کے تحت صرف جموںوکشمیراورلداخ باقی رہ گئے جنہیں پاکستان کاحصہ بن جاناتھالیکن ہندوکی مکاری، پاکستان کے حکمرانوں کی ناعاقبت اندیش پالیسیوں اور شیخ عبداللہ کی غداری کی وجہ سے ابھی تک یہ کواب تشنہ تعبیرہے۔ریاست جموں وکشمیر کا سب سے بڑا حصہ بھارتی قبضے میں ہے جو مجموعی رقبے کا قریبا 46فیصد بنتا ہے۔ اس میں وادی کشمیر، جموں اور لداخ شامل ہیں۔ بھارت کے زیرتسلط جموںو کشمیر اورلداخ کا رقبہ ایک لاکھ ایک ہزار 1387مربع کلومیٹر ہے۔1962جس میں سے وادی کشمیر کا رقبہ قریبا 15ہزار 948مربع کلومیٹر، جموں کا رقبہ قریبا 26ہزار 293مربع کلومیٹر اور لداخ کا رقبہ قریبا 59ہزار 146مربع کلومیٹر ہے۔
جبکہ ریاست جموں وکشمیرکےآزادکشمیراورگلگت بلتستان کا قریبا 38 فیصد علاقہ پاکستان کے الحاق میںہے ۔یوں پاکستان کے ساتھ الحاق شدہ ریاست جموںو کشمیر کا مجموعی رقبہ قریبا 84ہزار 100مربع کلومیٹر بنتا ہے۔اس میں گلگت بلتستان کا رقبہ قریبا 82ہزار 420جبکہ آزاد کشمیر کا رقبہ ایک ہزار 680مربع کلومیٹر ہے۔گلگت بلتستان تاریخی طور پر تین ریاستوں یعنی ہنزہ، نگر اور گلگلت پر مشتمل رہا ہے۔ 1848 میں کشمیر کے ڈوگرہ راجہ نے ان علاقوں پر قبضہ کر کے انہیں اپنی ریاست میں شامل کر لیا تھا۔ 1947 اور 1948 میں ان علاقوں کے مقامی لوگوں نے گلگت سکائوٹس کے تعاون سے آزادی کی جنگ لڑی اور یہ علاقے ریاست کشمیر سے آزاد کرا لیے۔گلگت بلتستان 17 روز تک آزاد رہا جس کے بعد اہل گلگت وبلتستان نے تقسیم برصغیرکے فارمولے کے تحت اپنے علاقے کی باگ ودوڑ پاکستان کوسونپ دی۔دستیاب اعداد و شمار کے مطابق پورے کشمیر کی مجموعی آبادی قریبا ایک کروڑ 85لاکھ ہے۔اس میں مقبوضہ جموں و کشمیر اور لداخ جبکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی آبادی شامل ہے۔اس طرح دیکھا جائے تو کشمیر آبادی کے اعتبار سے دنیا کے 133ممالک سے بڑا ہے۔ پاکستان میں آزاد کشمیر کے مردم شماری کمشنر کے مطابق 2017 میں اس علاقے کی آبادی قریبا 40 لاکھ 45ہزار 366تھی۔1998 کی مردم شماری میں گلگلت بلتستان کی آبادی87ہزار 347ریکارڈ کی گئی جو اب قریبا 20لاکھ ہے۔
بھارت میں 2011 کی مردم شماری کے مطابق وادی کشمیر کی آبادی 68 لاکھ 88ہزار 8475، جموں کی آبادی 53لاکھ 78ہزار 538اور لداخ کی آبادی دو لاکھ 74ہزار 289نفوس پر مشتمل ہے۔جموں کشمیر کو باقاعدہ ریاست کا درجہ پہلی بار برصغیر کی انگریز حکومت نے 1846 میں دیا- اس سے پہلے یہ علاقہ مھاراجہ رنجیت سنگھ کے زیر حکومت تھا جس کے ایک جرنیل زور آور سنگھ نے 1834 میں ریاست لداخ کو بھی فتح کر کے جموں کشمیر کا ایک حصہ بنا دیا تھا سیاچین گلیشیئر،کارگل, لیہہ اور اکسائی چن بہی لداخ کا ہی حصہ تھے 1841میں سکھ جرنیل نے چین کے زیر کنٹرول تبت کے علاقہ پر چڑھائی کر دی جس کے جواب میں چینی افواج لداخ یعنی ریاست جموں کشمیرمیں داخل ہو گئیں اور اکسائی چن تک کے علاقہ کو فتح کر لیا اور تب سے اکسائی چن چین کا حصہ ہے۔
اکسائی چن ریاست جموںوکشمیرکی جغرافیہ کاسولہ واں حصہ بنتاہے یایوں کہیں کہ اکسائی چن ریاست جموں وکشمیرکا16فیصدعلاقہ ہے۔ اکسائی چن اور شاکسگام کا شمار غیر آباد علاقوں میں ہوتا ہے۔یہاں عموما خانہ بدوش پائے جاتے ہیں جو ایک سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ ان لوگوں کی تعداد کے حوالے سے معلومات دستیاب نہیں ہیں۔البتہ یہ ضرورہے کہ اکسائی چن کا رقبہ قریبا 36ہزار 813مربع کلومیٹر ہے۔اکسائی چن ایک طرف لداخ کے ساتھ متصل ہے جبکہ اس کا ایک کونا گلگت بلتستان کو بھی چھوتا ہے۔تاریخی طور پر یہ علاقہ لداخ کا حصہ تھا۔اب یہ علاقہ چین کے صوبے سنکیانگ کا حصہ ہے۔چین کے زیرانتظام وادی شاکسگم یا ماورائے قراقرم علاقہ علاقہ پاکستان کی سرحد سے متصل ہے۔ اس علاقے کا مجموعی رقبہ قریبا 2700مربع کلومیٹر ہے۔ پاکستان نے 1963میں ایک معاہدے کے تحت یہ علاقہ چین کو دے دیا تھا۔ اس کے بدلے میں چین نے بھی اپنا کچھ علاقہ پاکستان کو دیا جس کا رقبہ ایک ہزار 942سے پانچ ہزار 180مربع کلومیٹر کے درمیان ہے۔
1947میں جب بھارت نے ریاست جموںوکشمیرکے غالب حصے پراپناجابرانہ قبضہ جمایاتواس نے اکسائی چن پربھی دعویٰ جتایا تب سے اکسائی چن بھارت اور چین کے درمیان دو سرحدی تنازعات میں سے ایک ہے۔ لیکن چین بھارت کے دعوے کونہ صرف مستردکرتاہے بلکہ وہ اروناچل پردیش پراپنادعوی جتاتاہے اورکہتاہے کہ جغرافیائی طور پر یہ علاقہ سطح مرتفع تبت کا حصہ ہے۔ ہمالیہ اور دیگر پہاڑی سلسلوں کے باعث علاقے میں آبادی بہت کم ہے۔اکسائی چن چین کے علاقوںتبت اور سنکیانگ کے درمیان اہم ترین شاہراہ اسی علاقے سے گذرتی ہے جس کے باعث یہ چین کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل علاقہ ہے۔ چین کے دعوے کے مطابق اکسائی چن یہ مسلم اکثریتی سنکیانگ صوبے کا حصہ ہے۔
Comments are closed.