انسان کی پامال ہوتی اشرفیت : لمحہ فکریہ

مفتی احمد نادر القاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
اس وقت انسانوں کے ساتھ کرونا کے نام پر جس طرح کا رویہ اختیار کیا جارہاہے اور بطور خاص معاشرے کے ناتواں اور معاشی اعتبار سے مفلوک الحال افراد کے ساتھ ۔اس سے ایسا محسوس ہوتاہے ۔اب انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کامفہوم ہی بدل چکا ہے ۔اب انسان اشرف نہیں ارذل ہوگیاہے ۔اب انسان اللہ کی ایک نفیس مخلوق ہونے کی بجاۓ ۔واٸرس کا ڈھیر قرار دیاجاچکاہے۔ انسان انسان سے ایسے دور بھاگ رہاہے جیسے شیر اور کسی موذی جانور سے بھاگتاہے۔انسان انسان کو اس طرح ترچھی نظروں سے دیکھتاہے جیسے کوٸی پیچھاکرنے والا مخبر۔یہ کوٸی عذاب الہی تو انسانی ذہن ودماغ پر مسلط نہیں ہوگیاہے؟ جوانسان ایسی صورت میں مبتلا نظر آرہاہے۔اگر واٸرس چھونے سے اور ایک دوسرے سے لمس اور ٹچ سے سے منتقل ہوتا اور انسانوں کے جسم ۔کھال اور کپڑوں پر باجمان رہتاہے تو یہ خود اپنا جسم چھونے کپڑوں پر ہاتھ پھیرنے سے بھی ہوجاۓ گا بازاروں میں ٹنگے ہوۓ کپڑے دکانوں میں رکھی ہوٸ اشیا کچھ بھی محفوظ نہیں ۔میں ابھی حدیث میں بیان کردہ ”لاعدوی“پر بات نہیں کروں گا ۔امراض تعدیہ کا اسلامی موقف اور جدید مڈیکل ساٸنس“ کے ضمن اگلے مضمون میں اس پر بات کروں گا ۔اس موضوع پر ہمارے سے اردو انگریزی میں 500 صفحات پر مشتمل کتاب ہے” طبی أخلاقیات“ یعنی میڈیکل اتھکس۔اس کا مطالعہ مفید ہوگا۔۔انسانی دنیا اور خود مسلم قوم ”حدیث کے دوسرے لفظ”ولاطیرة ولاھامة“پر غور کرتے ہیں معلوم ہوتاہے ۔جس دین نے انسان کو کسی بھیٸے۔اور بدشگونی میں مبتلا ہونے سے روکا اپنی فکری کمزوری ۔ضعف ایمانی ۔ضعیف الاعتقادی کا شکار ہوکر خود اس میں مبتلا اورگرفتار ہوتی ہوٸی نظر آرہی ہے۔حکومت کے ضوابط کی پابندیاں اپنی جگہ اس کی مخالفت کی میں بھی ترغیب وتبلیغ کاقاٸل نہیں ۔مگر اس کی بھی حد ہے۔ ورنہ ”لاطاعة لمخلوق فی معصیة الخالق“ کا کوٸی معنی اور مصداق نہیں بچتا ۔ بلکہ مھمل ہوکر رہ جاتاہے۔کم از کم ہمارے افکاروخیالات میں ٹھوس اعتقادی قوت ضرور نظر آنی چاہٸے ۔تب ہی ہم دنیا کو اس خوف ناک اور مایوس کن صورت حال سے نکالنے میں کامیاب ہوں گے ۔اللہ تعالی اس کربناک اور انسان کو انسان سے بے گانہ کردینے والی صورت حال سے نجات عطا فرماۓ ۔آمین
Comments are closed.