مدارسِ اسلامیہ کے معصوم طلباء

اسجد عقابی
پورے ہندوستان میں تقریباً ہر جگہ مدارسِ اسلامیہ کا جال پھیلا ہوا ہے۔ ملک کے طول و عرض میں پھیلے مدارس نے دینی تعلیم کی بقاء میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جن اصول اور جن حالات کے پیش نظر ان کی بنیاد رکھی گئی اور جو مقاصد ان کے قیام کے پس پشت پنہاں تھے، ان میں یقیناً یہ مدارس کامیاب ہیں۔ ملک کے گوشہ گوشہ میں پھیلے ہوئے علماء کرام، ہر ممکنہ طور پر معاشرہ کی ذمہ داری بخوبی نبھا رہے ہیں۔ مساجد کی آبادکاری سے لیکر مدارس کی بقاء اور تحفظ دین کے تمام شعبوں میں انہی فارغین مدارس کا کلیدی کردار ہے۔
لیکن موجودہ دور میں کچھ ایسے واقعات اور کچھ اس قسم کے اقدامات کئے گئے ہیں، جو مدارس، مدرس اور طلباء مدارس کیلئے ایک حدتک پریشانی کا سبب ہے۔ بارہا ان اقدامات کی وجہ سے شرمندگی کا سامنا بھی ہوا ہے، لیکن اس کے باوجود اس جانب خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی ہے اور غفلت سے کام لیا جارہا ہے۔
مدارس میں سہولت کا معیار اور قیام و طعام کا نظم، مدرسہ کی مالی حالت پر منحصر ہوا کرتا ہے۔ اس اعتبار سے ملک کے وہ صوبے جہاں ذریعہ معاش کی فراوانی ہے، اور مسلم قوم کی معیشت بھی قابلِ قدر ہے، ان علاقوں کے مدارس کا معیار قیام و طعام نیز تعلیم و تربیت بھی قدرے بہتر ہے، ان صوبوں کے بالمقابل جہاں غربت کا سایہ ہے، جن کیلئے مالی فراہمی جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔ ان صوبوں کے مدارس کا عموماً دار و مدار بڑے شہروں کے مخیر حضرات کے تعاون پر منحصر ہوتا ہے۔
چنانچہ، اس تفریق کی بنا پر مالی فراہمی کے اصول و ضوابط بھی ایک دوسرے سے قدرے مختلف ہوا کرتے ہیں۔ رمضان المبارک کے مہینہ میں عموماً غریب علاقوں کے مدرسین حضرات، مالی فراہمی کیلئے شہروں اور متمول علاقوں کے اسفار بلا ناغہ کرتے ہیں، جس کی بنیاد پر اساتذہ کی تنخواہیں اور طلباء کا رہائشی نظم ممکن ہوپاتا ہے۔ جبکہ متمول علاقوں کے مدرسین عموماً مالی فراہمی کی ذمہ داری سے سبکدوش ہوتے ہیں یا پھر انہیں در بدر بھٹک کر، اس کام کو انجام دینے کی ضرورت پیش نہیں آتی ہے۔
مدارس کے قیام کا رجحان اور مدارس سے وابستہ افراد کی تعداد، جتنی زیادہ پسماندہ صوبوں کے مسلمانوں میں ہیں، اس سے دوسرے علاقے کے افراد عاری ہیں۔ بعض علاقے ایسے بھی پائے جاتے ہیں، جن کی شناخت مدارس کی کثرت اور دینی علوم کی ترویج و اشاعت سے ہے۔ یہ افراد دامے درمے سخنے دین اسلام کی اشاعت میں ہمہ تن ہمہ دم مصروف ہیں۔ بعض اوقات علاقائی ضرورت، اور دین اسلام کی خدمت کو مدنظر رکھتے ہوئے دوسرے علاقے کے علماء حضرات، ان علاقوں میں مدارس کی بنیاد رکھتے ہیں تاکہ علاقائی بچوں کو دین مستقیم کی تعلیم سے بہرہ ور کراسکیں۔ جس سے خاطر خواہ فوائد بھی حاصل ہوئے ہیں اور ابھی تک اس کے ثمرات باقی ہیں۔
لیکن وہ بعض امور جو گزشتہ چند سالوں میں در آئے ہیں، جن کی وجہ سے بارہا مدارس سے وابستہ افراد کو شرمندگی کا سامنا ہوا ہے، یہ ہے کہ غریب اور پسماندہ علاقوں کے غریب و نادار طلباء کو، بعض افراد بغرض تعلیم دیگر صوبوں میں لے جاتے ہیں، جہاں قدرے بہتر نظم ہوتا ہے۔ ان بچوں میں عموماً آٹھ سے پندرہ سال کے بچے ہوتے ہیں۔ یہ ایسے گھرانے کے چشم و چراغ ہوتے ہیں جہاں بھوک کا ڈیرا ہوتا ہے، جن کے آنگن میں غریبی کا سایہ ہوتا ہے اور جن کے مقدر میں پیاس کی شدت لکھی ہوتی ہے۔ ان بچوں کے والدین کو خوشنما مستقبل، معیاری تعلیم اور بہتر تربیت کے سنہرے خوابوں کی دنیا میں رکھا جاتا ہے، یہ غریب والدین اسی آس میں اپنے جگر گوشوں کو اپنے سے دور کرلیتے ہیں۔ اس طرح کے تجربات کامیاب بھی ثابت ہوئے ہیں، لیکن بیشتر ان مدارس کی چہار دیواری تک جہاں تعلیم و تربیت کو اولیت حاصل ہے۔ لیکن کچھ افراد ایسے ہیں، جو بنیادی سہولیات سے محروم مدارس کے قیام کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ کوشش اس صورت میں یقیناً کامیاب ہے، جبکہ یہ علاقائی بچوں کیلئے رہے۔ لیکن ایسے چھوٹے اور سہولیات سے محروم مدارس میں دور دراز کے طلباء کو مقیم رکھا جاتا ہے۔ مدرسہ کا محل وقوع، مالی حالت اور علاقائی اجنبیت کی بنیاد پر طلباء کی وہ راہنمائی اور تعلیم و تربیت نہیں ہوپاتی ہے، جن کا وہ خواب دیکھ کر ہزاروں کلومیٹر کا سفر طے کرکے پہنچتے ہیں۔ نتیجتاً بسا اوقات طالب علمی کا بیشتر زمانہ وقت گزاری اور بہتر تعلیم کے انتظار میں گزر جاتا ہے۔
بہت افسوس کی بات یہ ہے کہ، ممبئی اور دہلی جیسے گنجان شہروں کے کثیر آبادی والے علاقوں میں، جہاں سہولت کا فقدان ہوتا ہے اور عموماً یہ علاقے مزدور پیشہ افراد کے رہنے کیلئے بسائے جاتے ہیں، ایسے علاقوں میں دس بائی دس کے چند کمروں کو کرایے پر لیکر مدارس کا نظام چلایا جاتا ہے۔ ایسے مدارس مالی فراہمی کیلئے بسا اوقات طلباء کا بھی استعمال کرتے ہیں یا پھر اساتذہ مستقل ان امور کی انجام دہی میں مصروف رہتے ہیں، جس سے طلباء کی تعلیمی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور اسباق میں ناغہ عام معمول کا حصہ ہوتا ہے۔ اساتذہ کی عدم موجودگی، طلباء میں بے فکری کا سبب بن جاتی ہے اور جہاں تربیت کا معقول نظم ہونا چاہیے تھا، یہ طلباء تربیت سے کوسوں دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ، چھوٹے طلباء کیلئے، ناظرہ اور حفظ قرآن کا انتظام علاقائی سطح پر کیا جائے۔ مساجد میں ایسے مکاتب قائم کئے جائیں جو حفظ قرآن تک کی تعلیم کیلئے کافی ہو۔
دور دراز کے علاقوں میں مدرسہ قائم کرنے کے بجائے اپنے علاقوں کو ترجیح دی جائے، تاکہ دین کی خدمت سمیت علاقائی خدمت کے فرائض کی انجام دہی بھی ممکن ہوسکے۔
تعلیمی معیار کو بہتر بنایا جائے، ایسی صورت میں یقیناً علاقائی افراد بھی بخوبی دست تعاون دراز کریں گے، جو کہ مکاتب کی بقا کیلئے جز لا ینفک ہے۔ اساتذہ کی خدمات کو سراہتے ہوئے ان کے ساتھ حسن سلوک اور بہتر معاشی نظام کو نافذ کیا جائے۔
ایسے افراد جو، دور دراز کے علاقوں میں دینی خدمات انجام دے رہے ہیں، علاقہ میں ان کا اثر و رسوخ بھی ہے اور علاقائی افراد ان پر اعتماد کرکے اپنے بچوں کو ان کے حوالے کر دیتے ہیں، ایسے افراد کو چاہیے کہ کم از کم معصوم چھوٹے بچوں کو علاقے میں رہتے ہوئے ابتدائی تعلیم کی ترغیب دیں۔
عالمی وبا کرونا وائرس سے پوری دنیا متاثر ہوئی ہے، ہمارا ملک بھی مکمل طور پر اس کی لپیٹ میں آیا ہے۔ ہمارے ملک میں لوک ڈاون کا اعلان ایسے وقت میں کیا گیا جب تقریباً مدارس کا سال اپنے اختتام کو تھا۔ آنا فانا بغیر منصوبہ بندی کے نافذ کردہ تالا بندی نے عام مزدوروں سمیت مدارس کے معصوم طلباء کو بھی اس بندی میں بند کردیا تھا۔ ملک کے مختلف حصوں کے بیشتر مدارس میں ایسے معصوم طلباء اپنے گھروں سے دور رہنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ ان کی پریشانیاں کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ مدارس سے وابستہ افراد اور مخیر حضرات دن و رات اسی سعی میں کوشاں رہیں کہ کس طرح ان طلباء کو ان کے آبائی وطن تک پہنچایا جائے۔ دو مہینے بعد جب کچھ سفر میں رعایت دی گئی تب ان کو اپنے گھروں تک بھیجا جاسکا۔ ان معصوم طلباء کے اسفار کی تصاویر دل دہلا دینے کو کافی ہے۔ بسا اوقات تو اسٹیشنوں پر رات بھر انتظار کرنا پڑا اور کہیں بلا وجہ انہیں قرنطینہ میں بھیج دیا گیا۔ اگر یہ اپنے علاقوں میں ہوتے تو انہیں ان دردناک کرب و الم سے بچایا جاسکتا تھا۔
ہمارے ایک ساتھی نے اپنا واقعہ سنایا کہ ہمارے ایک رشتہ دار تقریباً بیس پچیس علاقائی بچوں کو اپنے ساتھ حیدرآباد لے جاتے، جہاں وہ بحیثیت مدرس خدمت انجام دے رہے تھے۔ تمام بچوں کو جنرل ڈبوں میں بٹھا دیا جاتا، اور کسمپرسی کی حالت میں دو دن کا سفر طے کیا جاتا۔ مدرسہ میں نہ تو تعلیم کا معیار بہتر تھا اور نہ کھانے کا نظم۔ طلباء کو مستقل قرآن خوانی وغیرہ کیلئے مختلف محلوں میں بھیجا جاتا، جس سے کچھ وقتی فائدہ ہوجاتا، لیکن اسباق کا ناغہ مستقل ہوتا اور اس کی جانب کبھی کسی کی توجہ نہیں ہوتی تھی۔
شہروں میں قرآن خوانی اور گھروں میں جاکر دعوت کے انتظامات کی وجہ سے طلباء کی توجہ تعلیم سے ہٹ جاتی ہے اور بے شمار قابل قدر صلاحیتیں وقتی منفعت کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔
اہل خیر حضرات اور ذمہ داران کو اس جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ علاقائی سطح پر مکاتب کے قیام سے تعلیمی و تربیتی فوائد سمیت اصلاح معاشرہ کیلئے بھی سود مند ثابت ہوگا۔ ذمہ داران مدارس کو بھی چاہیے جو اس طرح کے چھوٹے چھوٹے مکاتب کی بنیاد ڈال رہے ہیں ان کا مقصد ان مکاتب سے حصول رزق نہ ہو بلکہ طلبہ کی بہترین تعلیم و تربیت اور نظم و نسق پر خصوصی توجہ ہو ممبئی اور دہلی جیسے شہروں میں چھوٹے چھوٹے مکاتب و مدارس کی کارکردگی نے اکثر و بیشتر عوام الناس کو مایوس کیا ہے اس لیے اس رجحان کو ختم کرنے کی ضرورت ہے اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب ذمہ داران بہتر تعلیم پر توجہ دیں اور علاقائی مخیر حضرات بھر پور تعاون کرکے ذمہ داران کو در در کی ٹھوکریں کھانے سے محفوظ رکھنے میں معاون بنیں- اللہ مدارس اسلامیہ کی حفاظت فرمائے اور مخیرین کے مال و اسباب میں برکت دے منتظمین کے اندر خلوص و للہیت کا جذبہ عطا کرے….!(آمین)

Comments are closed.