دنیا میں امت مسلمہ کی پستی وبد حالی کی بڑی وجہ تعصب وتنگ نظری

نثاراحمد حصیر القاسمی
شیخ الحدیث معہد البنات بورہ بنڈہ و جامعۃ النور یوسف گوڑہ
سکریٹری جنرل اکیڈمی آف ریسرچ اینڈ اسلامک اسٹیڈیز ۔ حیدرآباد۔
[email protected]
0091-9393128156
زمانہ جاہلیت میںقبائلی ‘خاندانی ‘ علاقائی اور لسانی عصبیت معاشرے کا جزء لازم تھا‘ اسی عصبیت کے تحت وہ قبیلوں کو جوڑتے ، خاندانوںکو مربوط رکھتے اور خطے اور اس کی سرحدوں کی حفاظت کرتے تھے۔ امن وامان کی فراہمی کا یہی بنیادی عنصر تھا اور اسی کی روشنی میں فیصلے کئے جاتے اور عدالتیں قائم کی جاتی تھیں‘مگر جب رسول اللہ صلعم کی بعثت کے بعد اس روئے زمین پر اسلام کی کرنیں پڑنی شروع ہوئیںتو سب سے پہلے اس نے جاہلیت کی عصبیت وتنگ نظری کے خاتمہ پر توجہ دی اور اس کا خاتمہ کیا اور اس کی جگہ دینی ومذہبی اخوت وبھائی چارگی کو پروان چڑھایا، اسلامی اخوت ومودت کو ہی اس نے ایک مرکز پر مجتمع ہونے اور انسانی رابطے کا محور بننے کا ذریعہ قرار دیا۔
اسلام انسانیت نواز دین ومذہب ہے، اسی لئے اس کی ہر تعلیمات اور ہدایات کا مقصد تمام انسانوں کے درمیان وحدت واجتماعیت پیدا کرنا‘ ہر شخص کو ایک لڑی میں پرونا اور انسانیت کا درد رکھنے والے ہر فرد کو باہم مربوط رکھنا ہے، اسلام میں بڑوں چھوٹوں ، غریبوں ومالداروں ، عرب وعجم ، کالے گورے ، قریب وبعید ، رشتہ دار واجنبی علاقائی وبیرونی کی تفریق نہیں اور نہ ہی طبقاتی امتیاز ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم نے ارشاد فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے تم سے زمانہ جاہلیت کے اثرات اور آباء واجداد پر فخر کرنے کو دور کردیا ہے۔ وہ یا تو پرہیز گار مومن تھے یا بدبخت فاجر‘ سارے انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے ہیں۔
(ابوداؤد ، کتاب الادب، باب التفاخر بالانساب باب نمبر 116 وترمذی ، حدیث نمبر 3955-56)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم نے ارشاد فرمایا:
من نصر قومہ علی غیر الحق فھو کالبعیر الذی ردی فھو ینزع بذنبہ (ابوداؤد ، حدیث نمبر 5118)
جس نے اپنی قوم کی ناحق مدد کی تو وہ اس اونٹ کی مانند ہے جو گڑھے میں گرگیا ہو اور اسے دم پکڑ کر کھینچا جارہا ہو۔
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم نے فرمایا:
لیس منا من دعا الی عصبیۃ ، ولیس منا من قاتل علی عصبیۃ ولیس منا من مات علی عصبیۃ (ابوداؤد ، 5121)
جو عصبیت کی دعوت دے وہ ہم میں سے نہیںہے جو عصبیت کی بنیاد پر قتال کرے وہ ہم میں سے نہیں اور جو عصبیت کیلئے مرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلعم نے فرمایا:
کسی ایک کو دوسرے پر کوئی برتری نہیں ، سوائے دین وتقویٰ کے ، انسان کے برا ہونے کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ بدگو ، بد کردار، اور بخیل ہو۔ (مسند احمد 145/4و شعب الایمان للبیہقی ، 5146)
اوپر ذکر کی گئی احادیث میں اللہ کے نبی صلعم نے واضح طور پر فرما دیا ہے کہ جو قومیت ، علاقائیت ، گروہ واریت اور اس طرح کی باتوں کا نعرہ بلند کرے اور حق وناحق ان کی تائید وحمایت اور نصرت وموافقت کی صدا بلند کرے اور اس کی دوسرے کو دعوت دے وہ مسلمانوں کی جماعت میں سے نہیں ہے، ایسا شخص مسلمانوں میں سے نہیں ہوسکتا جو ناحق اپنی قوم ، اپنے اقارب ، اپنے سماج اور اپنے علاقہ کے لوگوں کی حمایت ونصرت کرے اور لوگوں کو ایسا کرنے پر اکسائے وآمادہ کرے اور اپنے قبیلے وعلاقے کی برتری کا اظہار کرے اور اس پر فخر کرے ۔
زمانہ جاہلیت میں قبیلے کے افراد اور خطے کے باشندے دوسرے خطوں اور قبیلوں کے مقابلہ پر باہم ایک دوسرے کی مدد کرنے پر مجبور تھے ، اپنے لوگ چاہے حق پر ہوں یا باطل پر ، خیر کیساتھ ہوں یا شر کیساتھ ، ہر حال میں ان کی مدد کرنا ضروری سمجھتے تھے، یہی ان کے جاہلی تانے بانے کی ریت تھی اور اسی پر ان کا سماجی ڈھانچہ قائم تھا، اگر قبیلہ یا علاقہ والا انہیں مدد کرنے کیلئے پکارتا تو سب لوگ اس کی مدد کے لئے کود پڑتے تھے خواہ ظالم ہی کیوں نہ ہو، پکارنے والے سے پوچھنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کرتے تھے کہ معاملہ کیا ہے اور ظلم وتعدی کس کی طرف سے ہے، جاہلی شاعر نے اپنی قوم کی مدح میں اسی کی عکاسی اس شعر میں کی ہے:
قوم اذا البشر ابدی ناجزیہ لھم
طاروا الیہ زرا فات ووحدانا
لا یسئلون اخاھم حین یندبھم
فی النائبات علی ما قال برھانا
یہ ایسی قوم ہے کہ ان کے سامنے جب جنگ کا بگل بجنے لگتا (شر اپنی بانچھیں کھول لیتا ہے) تو وہ جماعت در جماعت اور تنہا تنہا اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں ان کے بھائی جب مصائب کی گھڑی میں انہیں دہائی دے کر مدد کے لئے پکارتے ہیں تو وہ جو کہہ کر پکارتا ہے اس کی دلیل ان سے نہیں پوچھتے بلکہ آنکھ بند کرکے ان کی مدد کے لئے دوڑ پڑتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم نے ارشاد فرمایا:
جو شخص امیر کی طاعت سے نکل گیا اور جماعت سے الگ ہوگیا، پھر اسی حال میں وہ مرگیا تو وہ جاہلیت یعنی کفر کی موت مرا اور جس نے قبائلی ، علاقائی ، نسلی وگروہی اندھی تقلید کے جھنڈے تلے لڑا ، ان کے غصہ پر غصہ ہوا، یا عصبیت کی آواز بلند کی ، عصبیت کی بنیاد پر ناحق مدد کی ، پھر مارا گیا تو اس کی موت جاہلیت یعنی کفر پر ہوئی اور جس نے میری امت کیخلاف علم بغاوت بلند کی اور اس پر چڑھائی کی ، امت کے نیک وبد کو مارا اور ایمان والوں کو مارنے سے نہیں بچا اور نہ ہی عہد وپیمان کا پاس ولحاظ رکھا تو وہ ہم میں سے نہیں اور ہم ان میں سے نہیں ہیں۔
اسی لئے اہل علم نے صراحت کی ہے کہ ظلم پر ظالموں کی اعانت ومدد سے انسان کمال اسلام کے دائرہ سے خارج ہوجاتا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اے ایمان والو: عدل اور انصاف پر مضبوطی سے جم جانے والے اور مولیٰ کی خوشنودی کیلئے سچی گواہی دینے والے بن جائو، خواہ وہ خود تمہارے اپنے خلاف ہو یا اپنے ماں باپ، یا رشتہ دار اور عزیزوں کے ( النساء: 135)
اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تعصب خواہ کسی بھی نوعیت کا ہو ، امت کے شیرازہ کو منتشر کردیتا، ان میں پھوٹ اور تفرقہ ڈال دیتا، ان میں بغض وعداوت اور نفرت وکراہیت اور حسد وعناد کا زہر گھول دیتا ہے جس کے بعد انسان اندھا ہوجاتا ، پھر انہیں باہم قتل وقتال اور لڑائی جھگڑے کرنے در پے آزار ہونے اور کسی بھی حال میں دوسرے کو زیر کرنے کی جدوجہد کرتے رہنے میں کوئی تأمل نہیں ہوتا ۔
مسلمانوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو اندازہ ہوگا کہ مسلمان جہاں کہیں بھی کمزور ہوئے ‘ جہاں کہیں بھی ان کی حالت دگرگوں ہوئی‘ جہاں کہیں بھی وہ پستی کے دلدل میں پھنسے اور جہاں کہیں بھی ان کے ملک کے ٹکڑے کئے گئے اور ان کے حصے بخرے ادھیڑے گئے جس کے بعد وہ ہمیشہ کیلئے مغلوب ومحکوم بن گئے ، اس کی بنیادی وجہ یہی عصبیت تھی ، عربوں کو جب خانوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا، خلافت عثمانیہ کے خلاف علم بغاوت بلند کی گئی تو اس سے پہلے ان عربوں اور دوسری مسلم وغیر مسلم قوموں میں اسی عصبیت کو ہوا دی گئی ، اسے پروان چڑھایا گیا اور قومیت کے نعرے کا طوفان برپا کرکے اسلام کی عمارت کو کھوکھلا کیا گیااور آج بھی یہی ہورہا ہے ، عرب اور خلیجی ممالک ترکی کی مخالفت میںیہود ونصاریٰ کی اسی وجہ سے مدد کررہے ہیں۔
شیخ محمد عبدہ نے بجا فرمایا ہے کہ اسلام نے جنس بشری کے درمیان موجود تمام تر امتیازات کو مٹا دیا اور ہر خطے ، ہر علاقہ اور ہر رنگ ونسل اور ہر زبان ولسان کے لئے ایک ہی امتیاز باقی رکھا کہ ہر کوئی اللہ کی طرف نسبت اور انسانیت میں برابر ہے، البتہ انسان تقویٰ اور پرہیز گاری کے ذریعہ درجہ کمال کو پہنچتا ہے اور شرف وفوقیت حاصل کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد وزن سے پیدا کیا ہے اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہنچانو ، کنبے اور قبیلے بنا دیئے ہیں ان کے نزدیک تم میں سب سے با عزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہو۔ (الحجرات: 13)
اللہ کے رسول صلعم نے حجۃ الوداع کے موقع پر نہایت جامع ومفصل خطبہ دیا تھا، اس خطبے میں آپ صلعم نے عصبیت کو ختم کرنے کی دعوت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
آگاہ رہنا، تمہارا پروردگار ایک ہے، کسی عربی کو عجمی پر ، اور کسی عجمی کو عربی پر اور کسی کالے کو گورے پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت وفوقیت حاصل نہیں، البتہ یہ فوقیت وبرتری حاصل ہوتی ہے تقویٰ سے ، اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا تمہارا پرہیزگار ہے، کیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟ صحابہ نے عرض کیا بے شک اللہ کے رسول آپ نے پہنچا دیا، تو آپ صلعم نے فرمایا: موجود لوگ میرا پیغام ان تک پہنچا دیں جو اس وقت موجود نہیں ہیں۔
اسلام ایک آفاقی اور قیامت تک باقی رہنے والا دین ومذہب ہے جو ساری انسانیت کے لئے ہے، سابقہ ادیان کی طرح یہ کسی مخصوص خطے ، علاقے یا قوم تک محدود نہیں ، اسی لئے اسلام نے سارے مسلمانوں کو خواہ وہ ملک ہی نہیں بلکہ روئے زمین کے کسی بھی خطے کا رہنے والا ہو، مشرق کا باسی ہو یا مغرب کا، شمال کا باشندہ ہو یا جنوب کا، انہیں امت واحدہ قرار دیا اور ایک جسم وجان شمار کیا ہے کہ جب جسم کے ایک حصہ کو کوئی تکلیف پہنچے تو اس کے درد سے سارا جسم بلبلا اٹھے اور اس کی آنکھوں سے نیند اڑ جائے۔
واقعہ یہ ہے کہ اگر قبائلی ، علاقائی ، قومی ، گروہی ، عصبیت باقی رہتا تومسلمان کبھی متحد نہ ہوپاتا اور اسلام ہر چہار دانگ عالم میں نہیں پھیل سکتا تھا، اسلام کا اس برق رفتاری سے ساری دنیا میں پھیلنا اسی لئے ممکن ہوسکا کہ اس نے رنگ ونسل اور ہر طرح کی عصبیت وامتیاز کا پہلے خاتمہ کیا ، پھر دین وایمان کی لڑی میں سب کو اس طرح پرو دیا کہ ان کا اوڑھنا بچھونا اسلام ہوگیا، ان کے لڑنے مرنے اور الفت ومحبت کا محور اسلام بن گیا، اگر لوگ اپنے اپنے قبائلی ، علاقائی ، لسانی اور رنگ ونسل کی عصبیت پر قائم رہتے تو وہ کبھی متحد نہیں ہوسکتے تھے اور بغیر اتحاد انہیں کبھی کامیابی نہیں مل سکتی تھی۔
امت مسلمہ کے بقا وعروج اور ان کی سر بلندی صرف اتحاد واتفاق میں پنہا ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جبکہ اسے جوڑنے والا ایسا نظام وضابطہ ہو جو ان کے جڑنے اور لڑنے ، ملنے اور جدا ہونے کا سبب ہو اور یہ نظام ایمان واسلام ہے ، یہی ایمانی طاقت سارے مسلمانوں کو خواہ وہ کسی بھی رنگ ونسل اور خطے سے تعلق رکھتے ہوں جوڑنے والی ہے اور یہ ایمانی طاقت اسی وقت پیدا ہوسکتی ہے جبکہ عصبیت کی عمارت کو منہدم اور ہر طرح کی گروہ بندیوں کو سب وتاژ کردیا جائے۔
افسوس کہ آج مسلمان منتشر اور اہل کفر متحد ہیں، مسلمان طرح طرح کی عصبیت کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے وہ قعر مذلت میں پڑے ہیں اور انہیں اس سے خلاصی حاصل کرنے کا احساس تک نہیںجبکہ ہمارا ایمان ویقین ہے کہ ہمارا رب ایک ہے اور ہم اپنے تمام امور ومعاملات میں اسی کی طرف رجوع ہونے والے ہیں، اسلام کے جتنے فرائض وشرائع ہیں اس میں اسی وحدت ایمانی کی عکاسی ہے، نماز ہے، روزہ ہے، حج ہے، زکوٰۃ ہے، سب کے اندر واضح اشارہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو عصبیت کی آلودگی سے پاک کریں، گروہ بندی کے جنون سے خلاصی حاصل کریں اور فرقہ واریت کی نجاست سے پاکی حاصل کریں اور ایمان کے جھنڈے تلے بس ایک ایمانی پہنچان لے کر جسد واحد بن کر کھڑے ہوں۔
حافظ ابن عساکر نے ابو سلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ قیس ابن مطاطیہ منافق ایک مجلس میں پہنچا، اس مجلس میں حضرت سلمان فارسی ، صہیب، رومی اور بلال حبشی رضی اللہ عنہم بیٹھے تھے، قیس نے کہا یہ اوس وخزرج نے اس شخص کی (یعنی رسول اللہ صلعم کی) اور ان لوگوں کی (یعنی مہاجرین کی) مدد کی ہے ، اوس وخزرج تو ان کے عرب قوم سے تعلق رکھنے والے ہیں اس لئے ان کی مدد کررہے ہیں مگر یہ فارسی اور رومی اور حبشی آخر ان کی کیوں مدد کررہے ہیں؟ معاذ ابن جبل اس منافق کی بات سن کر تلملا گئے، انہوں نے اس کی گردن پکڑی اور اسے رسول اللہ صلعم کے پاس لے کر آگئے اور اس کی بات کا تذکرہ رسول اللہ صلعم سے کیا تو رسول اللہ صلعم عصبیت پر مبنی اس منافق کی بات کو سن کر غضب ناک ہوگئے اور چادر گھسیٹتے ہوئے مسجد تشریف لائے اور لوگوں کو ’’الصلاۃ جامعۃ‘‘ کہہ کر جمع کیا اور خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
لوگو! تمہارا رب ایک ہے، تمہارا باپ ایک ہے اور تمہارا دین ایک ہے، حضرت معاذرضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلعم، اس منافق کے بارے میں آپ کیا حکم دیتے ہیں؟ کیا اس کا سر قلم کردوں، تو رسول اللہ صلعم نے فرمایا: اسے لوگوں کے حوالے کرکے چھوڑ دو، پھر حضرت ابوبکر کے زمانہ میں یہ مرتد ہوگیا اور حالت ارتداد وکفر میں مارا گیا۔
آج ساری دنیا کے ملکوں اور ملک کے صوبوں اور شہروں میں یہ عصبیت وباء کی طرح پھیلی ہوئی اور جڑ پکڑ چکی ہے، عہد جاہلیت اپنی ترتمام تر خرابیوں برائیوں کیساتھ لوٹ آئی اور امت مسلمہ کو اپنے شکنجہ میںکس کر تباہ وبرباد کررہی ہے، ان کے شیرازے منتشر ہوچکے ہیں ، ان کی اجتماعیت ختم ہوچکی ہے ان کے درمیان جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے، اس وباء سے کوئی ملک ، کوئی ریاست ، کوئی شہر اور کوئی خطہ محفوظ نہیں اور نہ ہی امت کا کوئی طبقہ اس سے بچا ہوا ہے، الا ماشاء اللہ۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ امت مسلمہ کی حالت میں سدھار ہو، ان کی زبوں حالی وپستی کا مداوا ہو تو سب سے پہلا فریضہ یہ ہے کہ ہم اپنی گردن سے تعصب کے طوق وسلاسل کو اتار پھینکیں، خاص طور پر طبقہ علماء اورمسلم تنظیمیں آگے آئیں اور امت مسلمہ کے لئے اتحاد واتفاق کا نمونہ پیش کریں۔
ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے کہ غیر مسلم اقوام سے ہمارے پیچھے رہنے کی بنیادی وجہ ہمارا آپسی اختلاف اور قوم کے زر خرید غلاموں کی ریشہ دوانیاں اور اپنوں کے ہی پیٹھ میں چھرا گھونپنا ہے جو ان کے حرص وطمع دنیوی چند روزہ متاع کا حصول اور عصبیت کی وجہ سے تھا، ہم اس کے بعد فرقوں، گروہوں اور جماعتوں میں بٹتے چلے گئے ، یہاں تک کہ ہم خش وخاشاک کی طرح ہوگئے، جب تک ہم اس وباء سے پاک تھے، ہمارا دنیا پر رعب اور دھاک تھا، دنیا ہم سے تھراتی اور ہم سے طرز زندگانی اور انداز حکمرانی سیکھتی تھی، مگر جب ہم اس تعصب کی وباء کے شکار ہوگئے ، تو ہم تنکوں کی طرح ہوگئے ، ہمارا رعب جاتا رہا، ساری دنیا ہم پر ٹوٹ پڑی اور ہمارے خون کی ہولی کھیلنے لگی، ہم ہر ایک سے مرعوب ہوگئے، برما سے بوسنیا وہرسی گوییا تک اور شام وعراق وفلسطین ، لیبیا سے لیکر کشمیر وہندوستان تک ہمارا خون ارزاں ہوگیا، ہم گاجر مولی کی طرح کاٹے جانے لگے اور جسد واحد ہونے کے باوجود ہمارے اندر تڑپ پیدا نہیں ہوئی اور نہ ہمیں اس درد کا احساس ہوا، سب کچھ ہماری نگاہوں کے سامنے ہوا اور ہم اپنے اس ملک میں صوبائیت وعلاقائیت کی باتیں کرتے رہے، تو تو میں میں ، میں لگے رہے، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے اور مشرق ومغرب ، شمال وجنوب کی باتیں کرتے رہے، ہمارے اندر جنبش نہیں ہوئی، جیسے ہماری سربلندی وعروج اسی عصبیت کا نعرہ بلند کرنے میں ہے۔
ہائے افسوس ہم بلندی سے اس قدر پستی میں آگئے کہ ہم نے خود اپنے کردار سے کفر کے بازووں کو مضبوط کیا، انہیں اپنے بھائیوں پر حملے کرنے کی دعوت دی ‘ ان کا قتل عام کرنے میں ان کی ہر ممکن مدد کی ، آج بھی مسلمانوں کی خیر خواہی کا دم بھرنے والے یہود ونصاری کی مدد سے حکومت کرنے والے اور عرب عوام پر عرصہ حیات تنگ کرنے والے اسرائیل کے ساتھ مل کر مسلمانوں کیخلاف سازشوں میں مصروف ہیں، بیت المقدس ، فلسطین ، لیبیا میں ترکی کے اثر ورسوخ کو ختم کرنے کیلئے نیتن یاہو کے ساتھ مشاورت پر مشاورت ہورہی ہے، مسلمانوں نے زمانہ جاہلیت کی عصبیت میں گرفتار ہو کر قومیت و علاقائیت کے بینر تلے یہود ونصاری کے آلہ کار بن گئے، پھر اپنے ہاتھوں اپنی طاقت گنوا دی، اپنے وجود میں گھن لگایا ، اور انہیں اپنی اس ذلت وپستی کا احساس تک نہیں ۔
آج ہندوستان کے طول وعرض اور اس کی تمام ریاستوں میں کوئی دن ایسا نہیں گذرتا جب مسلمانوں کی عزت وآبرواور جان ومال پر حملہ نہ ہوتے ہوں، ان کے املاک تباہ نہ کئے جاتے ہوں ، ان کی عبادت گاہوں کو نشانہ نہ بنایا جاتا ہو، ان کی بہو ، بیٹیوں اور مائوں وبہنوں کی عزت وناموس تار تار نہ کی جاتی ہو، ان کے مدارس کو اجاڑنے کی کوشش نہ کی جاتی ہو، ان کے خانقاہوں کو سب وتاژ نہ کیاجاتا ہو، ان کے مراکز کو ویران نہ کیاجاتا ہو، آج ان کی آبادیوں پر کہیں بم برسایا جاتا، کہیںانہیں اپنے گھروں میں محصور کرکے گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا، کہیں انہیں نذر آتش کیا جاتا، ان کے بے گناہ نوجوانوں کو گرفتار کرکے انہیں ناکارہ بنا دیا جاتا، انہیں سلاخوں کے پیچھے ڈال کر ان کی زندگی کو تباہ کیا جاتا، ان کے تعلیم یافتہ نوجوانوں اور طلباء کی زندگی کوبرباد کردیا جاتا ، ہنر مندوں کا مستقبل تاریک بنایا جاتا اور ہر ممکنہ وسائل سے ان کا جینا دوبھر کردیاجاتا ہے اور اب تو ان کے وجود پر سوالیہ نشان لگا دیا گیااور ان کی شہریت کو دائو پر لگا دیا گیا ہے۔
دوسری طرف خود مسلمان اس ملک کے اندر ہی نہیں بلکہ ساری مسلم دنیا میں آپس میں دست وگریبان ہیں، ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں ، ایک دوسرے کو دیکھنا گوارا نہیں کررہے ہیں۔
مسلمانوں کے درمیان ہورہے ان سارے خون خرابے ، قتل وغارت گری ، دنگے فساد اور اختلافات ونزاعات کی بنیادی وجہ بھی مختلف نوعیت کا تعصب خواہ کسی کی سازش کی وجہ سے ہے جبکہ ہم اسلام کا دم بھرنے والے ہیں اور اسلام نے ہمیں اتحاد ویکجہتی کی تعلیم دی اور باہمی لڑائی جھگڑے سے روکا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
بے شک یہ تمہاری امت ہے جو حقیقت میں ایک ہی امت ہے، اور میں تم سب کا پروردگار ہوں، تو تم میری ہی بندگی کرو۔ (الانبیاء :92)
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اور اللہ کی اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتے رہو، آپس میں اختلاف نہ کرو، ورنہ بزدل ہوجائوگے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر کرو یقینا اللہ تعالیٰ صبر کرنیوالوں کیساتھ ہے۔ (الانفال: 46)
اسی تعصب نے امت مسلمہ کی جڑوں کو کھوکھلا کیا ، اس کے شیرازے کو منتشر کیا اور ایک کو دوسرے کا دشمن بنایا ہے، اسی جاہلانہ نعروں نے مسلمانوں کو فرقوں میں تقسیم کیا، جماعتوں میں بانٹا، چھوٹی چھوٹی ریاستوں ، راج واڑوں اور ملکوں کو وجود میں لایا جو آپس میں ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں، اسی تنگ نظری نے انہیں خونخوار شیر کے پنچے میں لاکھڑا کیا اور ناگ کے بل میں داخل کیا ہے کہ آج ہر کوئی اسے لقمہ تر سمجھ رہا ہے۔
مشرق سے مغرب تک ہماری اس ذلت وپستی کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم اسلام وایمان کا دعویٰ کرنے کے باوجود اسلام کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کیلئے تیار نہیں، اس کے تیار کئے گئے نقشے سے ہم دور ہوگئے اور رسول اللہ صلعم کے طریقہ سے منہ موڑ لیا، قرآنی تعلیمات اور نبوی ہدایات کو فراموش کردیا، اسلام کی رسی کو چھوڑ دیا اور ذلت ورسوائی اور کمزوری ولاچاری اور تعصب وتنگ نظری کا طوق گلے میں ڈال لیا ہے۔
اب بھی وقت ہے کہ ہم زمانہ جاہلیت کی عصبیت کی بیماری سے پیچھا چڑھائیں، اپنے دلوں میں اخوت ایمانی کو پروان چڑھائیں اور اسلام کے کلمہ پر متحد ویکجا ہوں کہ عزت ورفعت کی بحالی اس کے بغیر ممکن نہیں، آخر کب تک ہم بغض وعنات ، کینہ وکدورت ، حسد و نفرت کے دلدل میں پھنسے رہیںگے، کب تک عہد جاہلیت کی تاریکی میں بھٹکتے رہیںگے، کیا ظالم حکمرانوں کی قانون سازیاں ان کا طرز عمل ، بر ہمنواد ومنوواد کے ایجنڈوں کی تنقید کے اقدامات اور مسلمانوں کے لباس میں چھپے اور مسلمانوں کی زبان میں بولنے والے دشمنان اسلام کے ایجنٹ حکمرانوں و سیاستدانوں کی اسلام و مسلمانوں کیخلاف سازشیں وتدبیریں ہماری آنکھیں کھولنے کیلئے کافی نہیں ہیں، کیا ہماری نگاہ سے یہ حدیث نہیں گذری کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائیںگے۔
ہم نے تمہارا نسب بنایا تھا مگر تم نے اپنا نسب الگ بنا لیا، تو میں نے تمہارے پرہیزگاروں وڈرنے والوں کو عزت والا بنایا اور تم فلاں فلاں کہنے پر ہی مصر رہے، میری بنائی ہوئی نسبت کو قبول کرنے سے تم نے انکار کیا آج میں اپنی بنائی ہوئی نسبت ونسب کو بلند کروں گا اور تمہاری خود ساختہ نسبت کو پامال کروں گا، کہاں ہیں ڈرنے والے لوگ، ؟ آجائیں ، کہاں ہیں، پرہیز گار لوگ ؟ آجائیں۔
بلا شبہ اسلام ہر رنگ ونسل ، ہر زبان ولسان، ہر ملک وقوم اور روئے زمین پر بسنے والے ہر انسان کا دین ومذہب ہے ، ان میں کوئی تفریق نہیں ہے اور یہ رنگ ونسل محض ان کی پہچان کا ذریعہ ہے، برتری اور مفاخرت ومخاصمت کا ذریعہ نہیں ، اللہ کے نبی صلعم نے قیامت کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی بیان فرمایا کہ قیامت کے قریب لوگ جاہ ومنصب ، حسب ونسب اور مال ودولت پر فخر کریںگے اور دوسروں کے نسب پر طعن کریںگے۔ (صحیح مسلم نمبر 2114)
اس وقت عام مسلمانوں خاص طور پرعلماء وداعیان دین کی بڑی ذمہ داری ہے کہ اس گوشہ کی جانب توجہ دیں، اس وباء پر قابو پانے کی کوشش کریںکیونکہ ہم اگر واقعی اپنی حالت سدھارنا چاہتے ہیں ‘ عظمت رفتہ کو واپس لانے کی خواہش رکھتے ہیں اور ہندوستان جیسے ملک میں اپنے اسلامی تشخص کیساتھ باقی رہنا چاہتے ہیں اور اس سرزمین پر اسلام کی سربلندی کی تمنا رکھتے اور دشمنان اسلام کی چیرہ دستیوں، وفتنوں سے بچتے ہوئے اسلام کا بول بالا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم سب سے پہلے اپنے دلوں سے ہر طرح کے تعصب کو کھرچ کر نکال دیں، تنگ نظریوں سے چھٹکارا حاصل کریں، دلوں میں وسعت ظرفی کو جگہ دیں اور فکر وخیال کو قرآنی تعلیمات اور نبوی ہدایات کے تابع بنانے کی کوشش کریں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
کسی قوم کی حالت اللہ تعالیٰ نہیں بدلتے جب تک کہ وہ خود سے نہ بدلیں، جو ان کے دلوں میں ہے۔ (الرعد: 11)
اسی کو علامہ اقبال نے یوں کہا ہے کہ:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
(علامہ اقبال)

Comments are closed.