بھارت کی باتوں میں بھارت کہاں ہے ؟

مولاناعبدالحمید نعمانی
بھارت میں نہ تو ایک طرح کی تہذیبیں ہیں اور نہ طرز ہائے حیات و روایات ،یہاں تنوعات ہیں اور یہی بھارت کی خوبصورتی و خوبی ہے ، لیکن قدیم عہد سے جدید عہد تک مخصوص فکر و نظر اور اپنی برتری کے خواہاں طبقے اور عناصر نے پورے ملک کو اپنے راستے پر لے جانے کی ہمیشہ سعی کی ہے ۔ جو ملک کی رنگا رنگ تہذیبی روایات و تنوعات کی طرف نہیں جاتا ہے ، بلکہ طبقاتی نظام کے تحت بالائی طبقے کے تفوق و مفاد کے لیے پورے سماجی نظام کو گردش میں لانے کا کام کرتا ہے ، جب کہ کھانا پینا، رہن سہن ، لباس، کسی بھی طرح سے پورے ملک میں کہیں بھی یکسانیت نظر نہیں آتی ہے ، سب کے سب ہندستانی ہونے کی حیثیت سے ایک ہونے کے باوجود ،اختلافات وتنوعات کے ساتھ آزاد زندگی گزارتے آرہے ہیں ، الگ الگ شناختوں کے ساتھ جینے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی ہے ، لیکن کچھ طاقتیں ،اپنی پسند اور روایات و اقدار کو واحد ہندستانی تہذیب قرار دے کر ملک کے دیگر باشندوں پر لادنے کی مسلسل ایسی کوشش کرتی آرہی ہیں ، جس سے فرقہ وارانہ اور طبقاتی کشمکش اور نفرت کا ماحول پیدا ہوتا ہے ، اس سے وطن کا فرقہ وارانہ اتحاد اور امن و ترقی کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں کھڑی ہوجاتی ہیں ، قدیم عہد سے آج کے جدید عہد تک ایسا ہوتا رہا ہے ، اگر ایسا نہیں ہوتا تو بھارت وہاں نہیںہوتا جہاں وہ آج ہے ،بہت کم وسائل والے ممالک بہتر منصوبہ بندی اور قومی وطنی جذبے کے تحت ، بھارت سے آگے نکل گئے ہیں ، بھارت کی آزادی کے بعد ، کئی ممالک آزاد ہوئے لیکن وہ کئی لحاظ سے بھارت سے آگے ہیں ، جب کہ اس میں وسائل حیات اور ترقی کی توانائیاں دیگر ممالک سے کئی گنا زیادہ ہیں ، قدرتی مواقع ،معد نیات کے ساتھ افرادی طاقت میں دنیا میں کم ممالک ایسے ہیں جو بھارت کا مقابلہ کر سکیں ، اس کے باوجود اگر بھارت ابھی ترقی یافتہ ممالک کے زمرے میں شامل نہیں ہوسکا ،یا اقوام متحدہ میں آج تک ویٹو پاور نہیں مل سکا ہے تو تمام اہل وطن کو سوچنا ہوگا کہ کہاں کمیاں او گڑ بڑیاں ہیں ، جن کو دور کر کے بھارت کو ترقی و استحکام کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے ۔ آزادی کے بعد نہرو اور ان کے رفقاءنے ملک کو ترقی واستحکام کی جس راہ پر آگے بڑھانے کا کام کیا تھا ، اس میں مختلف نعروں اور ناکام کوششوں سے رکاوٹیں کھڑی کرنے کے کام کیے گئے ۔ ناکامیوں کو حصولیابی قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے ،فرقہ وارانہ مسائل کو نمایاں کرکے قوانین بنانے کو حصولیابیوں میں شمار نہیں کیا جاسکتا ہے ، عوام ،ضرورت مندوں ،مزدوروں اور دیگر محنت کش طبقات کو الگ کر کے بھارت کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے ، راشٹر ،راشٹرواد کا تصور ان کے بغیر قطعی بے معنی ہے ، انسانوں کو نظر انداز کر کے جانوروں کو فوقیت و ترجیح دینا کسی مہذب معاشرے کے لیے ایک شرمناک بات ہے ، اسے رحم دلی بھی قرار نہیں دیا جاسکتا ہے ، تمام جانداروں سے بہتر سلوک ہونا چاہیے ،یہ تعلیم یافتہ اور شریف مہذب معاشرے کی علامت ہے ،تاہم انسانوں کی تکلیفوں اور اموات کے متعلق بے حسی ، انتہائی بے شرمی اور وحشت پسندی کی علامت ہے ، ایسا سماج کبھی بھی عالمی سطح پر نہ تو قابل توجہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی وہ وشو گرو (عالمی معلم )کا رول ادا کرنے کی پوزیشن میں آسکتا ہے ، سنگھ کے کلیدی عہدے دار اور اقتدار میں شامل بہت سے لوگ ہندستانی تہذیب کے نام پر ہندوتو کو عالمی و انسانی تصور و راہ باورکرانے کی باتیں کر رہے ہیں ، جب کہ ابھی تک اس کاکوئی بہتر نمونہ پیش نہیں کیا ہے اور وشو گرو کا کوئی نمونہ تو برہمن وادیوں نے ماضی میں پیش کیا ہے نہ حال میں دور دور تک اس کے آثار نظر آتے ہیں ،بھارت کے اکثریتی سماج کے سب سے بڑے مصلح راجا رام موہن رائے کو پوری طرح نظر انداز کر کے ایسی شخصیات کو نمایاں کر کے سامنے لانے کی مہم زوروں پر ہے جن کے سامنے انسانی اقدار اور انصاف و مساوات پر مبنی مثالی سماج کا کوئی عملی تصور اور قابل قبول نمونہ نہیں تھا ، سوامی وویکا نند نے واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ اکثریتی سماج میں ویدانت کے حوالے سے بڑی بڑی باتیں کی جاتی رہی ہیں ، تاہم وہ عملی مساوات تک کبھی پہنچ نہیں سکا ہے ، ایسا صرف اسلام نے کرکے دکھایا ہے ،میں دل کی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ آنے والے دنوں میں عظیم بھارت ، جسد اسلام اور روح ویدانیت کے ملن سے وجود میں آئے گا ۔
ایسی بہت سی باتیں ان کے مجموعہ مکتوبات اور دس جلدوں پر مشتمل کلیات میں موجود ہیں ،لیکن سنگھ سمیت دیگر ہندوتووادی عناصر اور بی ،جے پی کے لیڈر اور ترجمان مذکورہ قسم کی باتوں کا سرے سے کوئی ذکر نہیں کر تے ہیں ، بی ،جے پی اور آر ایس ایس میں مختلف دروازوں اور راستوں سے کچھ مسلم نام بھی داخل کیے گئے ہیں ،تاہم ان میں ایک بھی باکردار و با علم شخصیت نہیں ہے ، جو آر ، ایس ایس اور بی ،جے پی کو ہندوتو اور بھارت کے فرق کو سمجھا سکے اور بتا سکے کہ بھارت کوئی ایک روایت ، ایک تہذیب اور ایک تاریخ کا حامل نہیں ہے ، بھارت نے الگ الگ نظریات و روایات والے لوگوں کو مساوی اور آزادی کے ساتھ ، جینے کے لیے پوری پوری جگہ دی ہے اس حوالے سے ملک کے تمام باشندوں میں وطنیت کا تصور اور انسانیت کا جذبہ پیدا کر کے وطن کی ترقی و استحکام کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے ، اس کے بجائے فرقہ وارانہ خطوط اور طبقاتی تصورات کے تحت سماج کو تقسیم کرنے پر پورا پورا زور صرف ہورہا ہے ، عوام کے اصل مسائل اور ملک کے بنیادی ضروریات و سوالات سے توجہ ہٹانے کا سب سے آسان اور کار گر طریقہ فرقہ وارانہ نفرت کا پھیلانا رہ گیا ہے ، اس سے ملک اور عالمی سطح پر بے قصور افراد کے لیے بھی مسائل پیدا ہورہے ہیں ، ساتھ ہی بھارت کی شبیہ بھی خراب ہورہی ہے ، بہت سی تنظیمیں اور ادارے محض فرقہ پرستی کے نام پر زندہ ہیں ، سوشل میڈیا کے پھیلاؤ اور ذرائع ابلاغ کی سہولیات نے بہت سے شہرت پسندوں اور مفاد پرستوں کی راہ ہموار کر دی ہے ، اور سارا کچھ راشٹر واد ، ہندوتو اور بھارت کے وقار کی بحال و تحفظ کے نام پر کیا جارہا ہے ، جب کہ واقعہ یہ ہے کہ ایسے عناصر، راشٹر واد ،ہندوتو اوربھارت کے متعلق نہ زیادہ جانتے ہیں نہ ان سے کوئی زیادہ لینا دینا ہے ،ایسے افراد تحریک آزادی اور تاریخ کی حمایت سے قطعاً محروم و مردود ہیں ، ماضی کے بہتر رشتے کے بغیر محض نعروں کی بنیاد پر بھارت کو آگے بڑھانے اور اس پر اجاراداری کا دعویٰ سراسر بے شرمی ہے نہ کہ بھارت کی نمائندگی ،اس تناظر میں عوام میں بیداری پیدا کرنے کی بڑی ضرورت ہے ۔ پبلک سروکار والے مسائل کے حل اور عوامی ضروریات کو نظر انداز کرکے راشٹر اور راشٹر واد کی باتیں قطعی بے معنی ہیں ، صرف اقتداری طبقے اور سرمایہ دار طبقے کے مفادات کے تحفظ کو راشٹر اور راشٹر واد کا نام نہیں دیا جاسکتا ہے ، بھارت کے تمام باشندے راشٹر ہیں ، ان کو الگ کرکے بھارت کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے ،خود مختار بننے کے نعرے نے بھی کئی طرح کے سوالات کو راہ دی ہے بھارت میںریسرچ پر کوئی خاص توجہ نہیں ہے ، دنیا کے مختلف ممالک جی ڈی پی کا 5فی صد تک ریسر چ پر خرچ کرتے ہیں ، جب کہ بھارت میں زیرو پوائنٹ 7 فی صدخرچ کیے جاتے ہیں ، ایسی حالت میں وشو گرو ،بھارت کیسے بنے گا۔
عوام سے خود مختار آتم نربھر ہونے کے لیے کہا جارہا ہے ، جب کہ بھارت کا انحصار امریکہ ،چین ،جرمنی ،جاپان ،برطانہ وغیرہ پر ہے ، تقریباً 70فی صد میڈیکل کے سامان درآمد کرنے پڑتے ہیں ، ایسی حالت میں آتم نر بھر اور خود اعتمادی کا نعرہ عوام میں کس حد تک اعتمادی پیدا کر پائیگا؟راشٹر واد کے نعرے اور بھارت سے متعلق باتوں میں بذات خود بھارت کہاں ہے ؟یہ ایک بڑا اہم اور قابل توجہ سوال ہے ؟

Comments are closed.