قتل؛ ایک سنگین جرم اور کبیر گناہ

عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ
 امیر المومنین فی الحدیث امام ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری (194-256ھ/810- 870ء)اپنی صحیح میں معروف صحابیٔ رسول، حفظ و کتابتِ حدیث میںمشہورحضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا:وہ وقت بھی آنے والا ہے جب زمانے ایک دوسرے کے قریب ہوں گے، علم اٹھا لیا جائے گا، فتنے پھوٹ پڑیں گے، بخل ڈالا جائے گا اور ہرج زیادہ ہوگا۔صحابہؓ نے یہ سن کر عرض کیا:ائے اللہ کے رسول! ”ہرج” کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”قتل و غارت گری”۔
حدیث بالا کی روشنی میں جب ہم اپنے ماحول پر ایک طائرانہ نظرڈالتے ہیں، گِرد وپیش کا سرسری جائزہ لیتے ہیں اور روز مرہ پیش آنے والے واقعات کو پڑھتے یا دیکھتے ہیں تو صاف طور پر محسوس ہوتا ہے کہ ان دنوں قتل وخونریزی کی وباسب سے زیادہ عام  ہے، دنیا کی چند کوڑیوں یا مختصر سی زمین وجائیدادکے لیے کسی کوقتل کر ڈالنا معمول بن چکا ہے،چھوٹی چھوٹی  بات کو لے کرباپ بیٹے سے،بھائی بھائی سے،شوہر بیوی سے اور پڑوسی پڑوسی سے آمادۂ پیکار ہے۔جوں جوں زمانہ ترقی کرتا جارہاہے انسانیت مٹتی جارہی ہے، مروت مائل بہ زوال ہے، قرابت کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی،بے لوث دوستی کا تصور بھی محال ہوچکا ہے،انسانی جان تو مچھر اور مکھی سے بھی کم تر وحقیرہوگئی ہے۔آئے دن بوری بند لاشیں مل رہی ہیں،روزانہ درجنوں قتل ہورہے ہیں اور سفاک درندے ہرطرف دندناتے پھررہے ہیں؛مگر حیف صد حیف کسی کو احساس زیاں نہیں۔یہ حقیقت ہے کہ جب معاشرے میں ایک دوسرے کی جان کا احترام نہیںرہے گاتو تمدن کی جڑیں کھوکھلی ہوجائیںگی،بدامنی و انارکی پھیل جائے گی اور ظلم وسرکشی کا ہرسمت بول بالا ہوگا۔ یہ وہ نکتہ ہے جو سورۃ المائدۃ میں ہابیل اور قابیل کے واقعے کے بعد اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایاہے کہ:جس کسی نے ایک انسان کی جان بھی جان کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا لی تو اس نے گویا پوری نوعِ انسانی کو قتل کر دیا‘ اور جس نے ایک انسان کوزندگی دی (اس کی جان بچائی) اس نے گویا پوری نوعِ انسانی کی جان بچائی‘‘؛اس لیے کہ حقیقاً قتل ِناحق انسانی تمدن کی جڑوں کو کاٹتا ہے۔
رواں ہفتے اخبارات اور سوشل میڈیا میں یہ لرزہ خیزخبر سرخی بنی رہی کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد حیدرآباد شہرکے مختلف علاقوں؛ بل کہ مسلم اکثریتی محلوں میں قتل کی وارداتیں بڑھتی جارہی ہیں،صرف ایک دن میں علانیہ طور پر بہیمانہ قتل کے چار چار واقعات نے لوگوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کردیا ہے۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان ناحق خون ریزی کرنے والوں کی شناخت مسلم ناموں کے ذریعہ کی گئی ہے۔یہ کس درجہ حیرت کا مقام ہے کہ وہ دین جو دنیا میں سراپا عدل انصاف اور پیام امن بن کر آیا تھا، وہ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) جو رحمۃ اللعالمین بناکربھیجے گئے تھے اور وہ صحابہ رضی اللہ عنہم جو محبت اور شفقت سے نوع انسانی کی خدمت کے خوگر تھے اب انہی کے نام لیوا ایسے ایسے مظالم ڈھارہے ہیں اورظلم و بربریت کا وہ شرم ناک مظاہرہ کررہے ہیں ،جن کے ذکر سے کلیجہ منہ کو آنے لگتاہے۔
قرآن وحدیث کی تعلیمات اور فطرت انسانی میں غور کرنے سے اندازہہوتا ہے کہ اس درندگی وخوں ریزی کے پیچھے براہ راست یا بالواسطہ تین عوامل کارفرما ہیں، اور یہ تینوں عوامل وہی ہیں، جن کی جڑ سے عموماً تمام انسانی کمزوریاں جنم لیتی ہیں، اور انسانیت کو تباہ وبرباد کردیتی ہیں، آپ انسانی جرائم کی تاریخ پڑھ ڈالئے سب کی تہ میں عموماً یا تو ’’شہوت ِ بطن‘‘کا جذبہ ہوگا یا ’’نفسانی خواہشات‘‘ کا یا پھر ’’عزت وجاہ‘‘ کی حد سے بڑھی ہوئی ہوس کا۔
خون مسلم کی حرمت:
اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک مومن کے جسم و جان اور عزت و آبرو کی اَہمیت خانۂ کعبہ سے بھی زیادہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مومن کی حرمت کو کعبے کی حرمت سے زیادہ محترم قرار دیاہے۔امام ابن ماجہؒ(207-275ھ/ 824-887ء) نقل کرتے ہیں،حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خانہ کعبہ کاطواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا: (اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبوکتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے۔
امام ترمذیؒ(209-279ھ/ 825-892ء) اپنی جامع میں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما سے منقول یہ حدیث ذکرکرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مسلمان شخص کے قتل سے پوری دنیا کاناپید (اور تباہ) ہو جانا ہلکا ہے۔
مشہور محدث امام بیہقی ؒ(384-458ھ/994- 1066ء) حضرت ابوسعید خدری اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنھما کے حوالے سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ جناب نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: اگرتمام اہل زمین اور تمام اہل آسمان ایک مومن کے قتل ناحق میں شریک ہوجائیں تو بھی اللہ تعالیٰ سب کو جہنم میں جھونک دیں گے۔ظاہر ہے کہ آسمان جس برگزیدہ اور معصوم مخلوق سے معمور ہے کون نہیں جانتا۔ اور زمین کی پشت پر کیسی کیسی مقدس ہستیاں آباد ہیں، کیا ان کے بارے میں کبھی قتل مومن کا وسوسہ بھی آسکتا ہے؛ لیکن مومن کی جان کی عظمت ایسی ہے کہ اس کا بیان بجز اس تعبیر کے اور کس طرح کیا جاسکتا ہے؟
قتل ناحق کی مذمت قرآن وحدیث کی روشنی میں:
قرآن وحدیث میں متعدد مقامات پر مختلف پیرایے میں اس امر کی وضاحت کی گئی کہ اسلام میں انسانی جان علی الاطلاق محترم ہے۔ صرف مسلمانوں کی کوئی تخصیص نہیں؛بلکہ ہر ذی روح کی جان کااحترام ضروری ہے، نہ تو کسی جاندار کو بلاوجہ مارنے کی اجازت ہے اور نہ ایذا رسانی کی۔اس حوالے سے ذیل میں چند آیات و روایات ملاحظہ فرمائیں!
حق تعالی شانہ فرماتے ہیں:ترجمہ:اور جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے۔جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اوراللہ اس پر غضب نازل کرے گا اورلعنت بھیجے گا اور اللہ نے اس کے لیے زبردست عذاب تیار کررکھاہے۔(النساء) ایک اور جگہ ارشاد باری ہے:ترجمہ:اور جس جان کو اللہ تعالیٰ نے حرمت عطا کی ہے،اسے قتل نہ کرو؛مگر یہ کہ تمہیں (شرعا)اس کا حق پہنچتا ہو اور جوشخص مظلومانہ طور پر قتل ہوجائے تو ہم نے اس کے ولی کو (قصاص کا)اختیار دیاہے،چناں چہ اس پر لازم ہے کہ وہ قتل کرنے میں حد سے تجاوز نہ کرے، یقینا وہ اس لائق ہے کہ اس کی مدد کی جائے۔(الاسراء) ایک اور مقام پر تنبیہ خداوندی ہے:ترجمہ:اور جو اللہ کے ساتھ کسی بھی دوسرے معبود کی عبادت نہیں کرتے اور جس جان کو اللہ نے حرمت بخشی ہے اسے ناحق قتل نہیں کرتے اور نہ وہ زنا کرتے ہیں اور جو شخص بھی یہ کام کرے گا اُسے اپنے گناہ کے وبال کا سامنا کرنا پڑے گا، قیامت کے دن اس کا عذاب بڑھا کر دو گنا کر دیاجائے گا اور وہ ذلیل ہو کر اس عذاب میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔(فرقان)
اسی طرح رحمۃ للعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ناروا قتل پر سخت وعیدیں ارشاد فرمائی ہیں اور اس گناہ کبیرہ سے باز رہنے کا حکم فرمایا ہے۔حضرت انسؓ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ قول نقل فرمایا ہے:کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑے گناہ یہ ہیں: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانااور کسی انسان کو قتل کرنا،والدین کی نافرمانی کرنااور جھوٹی بات کہنا۔(بخاری) ایک جگہ توقتل ناحق کو کفر قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: کسی مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اوراسے قتل کرنے کے لیے لڑنا کفر ہے‘‘۔(بخاری) حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہر گناہ کے بارے میں امید ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کومعاف فرمادے،سوائے اس شخص کے جو مشرک ہونے کی حالت میں مرا ہو،یا جس نے کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کیا ہو۔(مجمع الزوائد) حضرت عبداللہ بن عمر روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کوئی شخص دوسرے کے پاس جاکر اسے قتل کردے تو مقتول جنت میں ہوگااورقاتل جہنم میں۔(مجمع الزوائد) قتل کی سنگینی کے باعث اسلام نے  اسلحہ کے ذریعے مذاق، اور اسلحہ کی نوک سے کسی معصوم کی طرف اشارہ کرنے سے بھی منع فرما دیا، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کوئی بھی اپنے بھائی کی طرف اسلحہ سے اشارہ نہ کرے؛کیونکہ اسے نہیں معلوم کہ شیطان اس کے ہاتھ کو چوک لگا دے، اور وہ جہنم کے گڑھے میںجا گرے۔(بخاری و مسلم)نیز نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: جو شخص اپنے کسی بھائی کی طرف خنجر سے بھی اشارہ کرے  تو فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں، چاہے وہ اس کا سگا بھائی کیوں نہ ہو۔(مسلم، ترمذی)
حرف آخر:
مختصر یہ کہ قتل کے ان پیہم واقعات کا رونما ہونا‘قوتِ برداشت کے فقدان،غصے میں آپے سے باہر ہوجانے اور اسلامی تعلیمات سے جہالت و ناواقفیت کا نتیجہ ہے جو مسلم معاشرے کے لیے کسی بدنما داغ سے کم نہیں۔اخیر میںایک صاحب دل اہل قلم کی تحریر کے اس اقتباس پر بات ختم کرتے ہیں :
ٍ موجوددہ حالات میں اہل اسلام کا فرض تھا کہ اپنے انفرادی واجتماعی اختلافات کی پستی سے ذرا اوپر اُٹھتے اوروحدتِ اسلام کی رسی تھام کر دوسروں کو سر توڑ جواب دیتے، نہ سہی یہ کہ دوسروں کواپنے حلقہ میں لے لیتے، یہ تو ہوتا کہ دوسروں کو اپنے حصار میں فاتحانہ داخل نہ ہونے دیتے؛ لیکن کسی اور کو کیا کہئے اور کس منہ سے کہئے، جبکہ خود اپنوں نے یہ وحدت پارہ پارہ کی، خود اپنا حصار انہوں نے توڑا، جس ملت کے قانون میں عام انسانوں کی زندگی کی ضمانت تھی، آج اسی کے ہاتھ ایک دوسرے کے گلا گھونٹنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں پر کیا نظر اُٹھائیے جنھیں خدا سے سروکار نہیں، آخرت سے وہ غافل ہیں، جنت وجہنم کو صرف خوش فہمی سمجھتے ہیں، جن کے نزدیک ’’مَتَاعُ الْحَیِٰاۃالدُّنْیَا‘‘ ہی سب کچھ ہے، وہ اگر ایک دوسرے کی گردنیں کاٹیں تو عین ممکن ہے کیونکہ ان کے سامنے اس زندگی کے بعد دوسری زندگی کا نقشہ نہیں ہے؛ لیکن جس قومو کا ایمان یہ ہو کہ یہ دنیا ایک رہ گزر سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی پھرجونہی آنکھیں بند ہوں گیاپنے مالک ومولیٰ کے حضور اپنے کئے دھرے کا کچا چٹھا پیش کرنا ہے، اسے کیسے جرات ہوتی ہے کہ جس کام کو اسی مالک نے جس مالک کے سامنے بالآخر حاضری ہے، جرم اور بدترین جرم قرار دیا ہے، اسی کے ارتکاب کی جرات کر بیٹھے۔(قتل ناحق) 

Comments are closed.