جمعہ نامہ: خود آگہی ہے خدا شناسی

ڈاکٹر سلیم خان
خالق کائنات اپنی کتاب میں اولادِ آدم کو ابتدائے آفرینش کا ایک عہد یاد دلاتے ہوئے فرماتا ہے: ’’اور (یاد کیجئے!) جب آپ کے رب نے اولادِ آدم کی پشتوں سے ان کی نسل نکالی اور ان کو انہی کی جانوں پر گواہ بنایا (اور فرمایا:) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ ‘‘ رب ذوالجلال جب ازخود سوال کرے تو کس کی مجال ہے کہ انکار کا خیال بھی دل میں لائے۔ اس لیے سب ایک آواز میں : ’’ بول اٹھے: کیوں نہیں! (تو ہی ہمارا رب ہے،) ہم گواہی دیتے ہیں‘‘۔ اس عہد و پیمان کی غرض و غایت یہ بیان کی گئی کہ:’’ قیامت کے دن یہ (نہ) کہو کہ ہم اس عہد سے بے خبر تھے‘‘۔ عہد الست کی خوبی یہ ہے کہ اس سے بنی نوعِ انسان کو عظمت و بلندی کا ایک نادر موقع بھی عطا کیا گیا اور ساتھ ہی اس کو ایک خطرے سے بھی وابستہ کردیاگیا ۔ ارشادِ ربانی ہے :’’ بیشک ہم نے (اِطاعت یا خلافت کی) امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کی تو انہوں نے اس (بوجھ) کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا، بیشک وہ (اپنی جان پر) بڑی زیادتی کرنے والا (ادائیگئ امانت میں کوتاہی کے انجام سے) بڑا بے خبر و نادان ہے،‘‘۔ اس سے پتہ چلتا ہے انسانی فطرت چیلنج کو قبول کرنے والی ۔ وہ اگر پنی فطرت سے برگشتہ نہ ہوتو خطرات سے گھبرانے کےبجائےنبردآزما ہونےکو ترجیح دیتا ہے ۔
زمین پر اللہ کے خلیفہ کی نگاہ اپنی کمزوریوں کے بجائے رحمت الٰہی کی جانب نہیں ہوتی تو وہ کبھی بھی اس بارِ امانت کو اٹھانے کی جرأت نہیں کرپاتا ۔ اسے یقین تھا کہ جو عظیم ہستی کی اس کو اس ذمہ داری پر فائز فر ما رہی ہے وہ اس کو ادائیگی کے قابل بھی بنائے گی اور تاریخ گواہ ہے کہ خدائے رحمٰن و رحیم نے اپنے بندے کو اس کے گمان و توقع سے زیادہ نوازہ ۔ ارشادِ قرآنی ہے:’’یقیناً انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت گزرا جبکہ یہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا‘‘۔ یہ عہد الست کے بعد جہانِ فانی میں آنے تک کا طویل زمانہ ہے ۔ اس کے بعد مقصدِ تخلیق یعنی آزمائش کا ذکر اس طرح کیا گیا کہ : ’’بے شک ہم نے انسان کو ملے جلے نطفے سے امتحان کیلئے پیدا کیا ‘‘۔اس کے بعد ان صفات کو بیان کیا گیا جو اس امتحان میں کامیابی سے ہمکنار ہونے کے لیے عطا کی گئیں یعنی’’ اس کو سننے و دیکھنے والا بنایا ‘‘ ۔ ان صلاحیتوں کے بعد اس پر مزید یہ احسان کیا گیا کہ :’’ ہم نے اسے راہ دکھائی‘‘ اور اس کے ساتھ اختیار و عمل کی آزادی سے نواز کر فرمایا’’ اب خواہ وہ شکر گزار بنے خواہ ناشکرا‘‘۔ یہ حسنِ تخلیق ہے کہ دیگر مخلوقات کے مقابلے انسانی امتیازکو خالق کائنات نے اس کی آزمائش کا سامان بھی بنادیا ۔دنیوی امتحان میں کامیابی سے ہمکنار ہونے کی خاطر’’ انسان کو بہترین شکل و صورت میں پیدا کیا ‘‘ ۔
فرشتوں پر آدم کی برتری کا منظر یہ ہے کہ ’’( وہ وقت یاد کرو ) جبکہ آپ کے رب نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ میں مٹی سے انسان کو پیدا کرنے والا ہوں ، سو جب میں اسے ٹھیک ٹھاک کرلوں ، پھر اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے سامنے سجدہ میں گر پڑو‘‘۔ دنیا میں انسانی عز و شرف کو اس طرح بیان کیا کہ ’’اور یقینا ہم نے اولادِ آدم کو بڑی عزت دی اور انہیں خشکی و تری کی سواریاں دیں اور انہیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں دیں اوراپنی بہت سی مخلوق پر انہیں فضیلت عطا فرمائی ‘‘۔ طبعی برتری کے بعد روحانی احسان کا ذکر اس طرح فرمایا کہ ’’اور نفس انسانی کی اور اُس ذات کی قسم جس نے اُسے ہموار کیا ۔پھر اُس کی بدی اور اُس کی پرہیز گاری اس پر الہام کر دی‘‘۔ اس عظیم داخلی نوازش کے بعد خارج میں ہدایت کے لیے انبیائے کرام کا سلسلہ شروع کرکے ان کے ذریعہ اعلان کرایا گیا کہ ’’ اے لوگو ! اپنے پروردگار کی ہی عبادت کرو جس نے تم کو پیدا کیا اور ان لوگوں کو بھی جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ‘‘ اور کامیابی کا یہ نسخۂ کیمیا عطا کیا گیا کہ :’’ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرا کرو اور صحیح اور سیدھی بات کہا کرو، وہ تمہارے لئے تمہارےاعمال درست فرما دے گا اور تمہارے گناہ تمہارے لئے بخش دے گا، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتا ہے تو بےشک وہ بڑی کامیابی سے سرفراز ہوا‘‘۔ اس قدر احسانات کے بعد تو ہمیں اپنے آپ کو ابدی جنت کا مستحق بنا ہی لینا چاہیے ۔
Comments are closed.