صفورہ زرگر!بھارت میں حیوان اہم مسلمان نہیں

عبدالرافع رسول
بھارت میں تجہیل کاعالم یہ ہے کہ یہاںجانوروںکی قبیل سے تعلق رکھنے والے کسی بھی جانوربالخصوص گائے ،بندراورہاتھی کا بھرپورطریقے سے پرسان حال ہے ،ان کے حقوق متعین ہیں ، انہیں اس قدر عزت دی جاتی ہے کہ انکی پوجاکی جاتی ہے ،گائے کو ماتا ،ہاتھی کوگنیش اوربندرکوہنومان کے طورپر تعظیم کی جاتی ہے۔ پرستم بالائے ستم یہ ہے کہ اگربھارت میں کسی کی بے توقیری کی جاتی ہے تووہ مسلمان ہے ۔آج بھارت میںمسلمان ہوناسب سے بڑاجرم اورمسلم شناخت کاحامل ہوناباعث تنفر ہے ۔بھارت کے متعصب ہندوحکمرانوں،جنبہ دارعدلیہ ،مسلمانوں کے خلاف نبردآزمافورسزاورنام نہادقانون کے رکھوالوں نے اپنی متعصبانہ، متشدانہ اورمتنفرانہ پالیسوں کا اطلاق سے بھارت میں ایک حیوان کے مقابلے مسلمان کوایساحقیراور کمتر بنادیاہے کہ جس کی بات کی کوئی شنوائی ہے اورنہ ہی اس کے ساتھ کوئی نرمی برتی جارہی ہے۔ ایک مسلمہ اسکالر صفورہ زرگر کی مثال سامنے ہے کہ جوحاملہ ہیں اوردہلی کی تہاڑ جیل میں انتہائی مشکل ترین حالت میں پڑی ہوئی ہے ۔پوری دنیامیںکروناکی مہلک وبا کے باعث زندانوں میں پڑے لوگوں کو کال کوٹھڑیوں سے رہائی مل رہی ہے مگریہ بھارت ہے کہ جہاں مسلمان قیدیوں کے لئے کوئی چھوٹ اوریاکوئی نرم برتائونہیں ۔
ایک طرف بھارتی ریاست کیرالا میں حاملہ ہتھنی کی افسوسناک موت پرپورابھارت سوگ کی کیفیت میںہے مگردوسری طرف مسلمانوں کے خلاف حریفانہ بغض دیکھئے کہ بھارتی دارالحکومت دہلی کے تہاڑ جیل میں تین ماہ قبل مقیدمسلم طالبہ جوچار ماہ کی حاملہ ہیںکوبھارتی متعصب عدالتوں سے رہائی کے لئے مسلسل درخواستوں کے باوجود ضمانت نہیںمل پارہی ۔ دہلی کی ایک عدالت نے 4جون 2020جمعرات کو صفورہ زرگر کی ضمانتِ عرضی خارج کردی۔متعصب ہندوجج دھرمیندر رانا جوعدالت میں بطورایڈیشنل سیشن جج کے طورپرتعینات ہے نے اس موقع پر اپنے ریمارکس میں کہا کہ تحقیقات کے دوران عظیم تر سازش کا بے نقاب ہونا ممکن ہے اور اگر بادی النظر میں سازش کا پہلو پایا جاتا ہے تو سازشیوں میں سے کسی کی بھی حرکتیں اور بیانات قابل گرفت ہیں۔ ہندومتعصب جج کاکہناتھا کہ اگر صفورہ کو راست طور پر کسی تشدد میں ملوث نہیں پایا جاتا ہے تب بھی وہ قانون انسداد غیرسماجی سرگرمیاں کے دفعات کے تحت اپنی ذمہ داری سے بچ نہیں سکتی۔
متعصب ہندوجج نے اپنے ریمارکس میں کہا شریک سازشیوں کی اشتعال انگیز تقاریر اور حرکتیں انڈین ایویڈنس ایکٹ کے تحت قابل گرفت ہیں۔ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ منعقدہ سماعت کے دوران دہلی پولیس نے عدالت کو بتایا کہ صفورہ نے اشتعال انگیز تقاریر کے ذریعہ ہجوم کو بھڑکایا جو فروری2020 میں فسادات کا موجب بنی۔لیکن دہلی پولیس نے عدالت کو یہ نہیں بتایاکہ دہلی میں مسلمانوں کے گھروں اورانکی املاک کوآگ لگادینے والے کون تھے اوروہ آرایس ایس اوربی جے پی کے غنڈے آج تک گرفتارکیوںنہیں ہوئے ۔ اس موقع پرصفورہ کے کونسل نے عدالت کوبتایاکہ صفورہ کو اس کیس میں غلط طور پر پھنسایاگیا ہے۔ اور اس کیس میں مبینہ فوجداری سازش میں اس کا کوئی رول نہیں۔ کونسل کاکہناہے کہ تحقیقاتی ایجنسی من گھڑت باتیں پھیلاتے ہوئے ان بے قصور اسٹوڈنٹس کو پھنسا رہی ہے جو حکومت کی پالیسی یا قانون سازی کو قبول نہیں کرتے ہیں۔ چونکہ صفورہ کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں، اس کے باوجود حاملہ اسٹوڈنٹ کو عاملہ اور عدلیہ جیل میں قید رکھنے پر مصر ہیں اور انسانی حقوق کا انہیں کوئی لحاظ نہیں۔ اس کے برخلاف حاملہ ہتھنی کی حادثاتی موت پر ملک گیر مسئلہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے جس پر کیرالا کی ریاستی حکومت نے مجبورا تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ جوملک کی عدلیہ کاسب سے بڑا،ادارہ ہے سے ہی ظالمانہ اورغیرمنصفانہ فیصلے صادرہوجائیں توپھربھارت کی تمام عدالتیں جوقانونی اعتبارسے سپریم کورٹ کے ماتحت کام کررہی ہیں مسلمانوں کے تئیںکس قدربے رحم ثابت ہونگی وہ محتاج وضاحت نہیں۔اس پرمستزادیہ کہ جب ججوں کی ریٹائٹرڈمنٹ کے بعد سیاست میں حصہ داری کے لئے سجی ہوئی کرسی بھی تیارہوتوایسے میں بھارت کے عدالتی نظام سے بھارتی مسلمان کس طرح انصاف کی کوئی امیدرکھ سکتے ہیں ۔سچ یہ ہے کہ بھارتی عدالتی نظام پرپوری طرح مسلم دشمنی کاٹھپہ لگ چکاہے اورمسلمانوں کے حوالے سے آزادعدلیہ کے نام کایہاں اب کوئی ادارہ موجودنہیں ہے ۔
بابری مسجدکورام مندربنانے سمیت کئی اہم مقدمات کا فیصلہ سنانے والے بھارت کے سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی کوبھرپورصلہ دیاگیااور راجیا سبھا کے لیے نامزد کیے جانے کے بعد بھارت میں یہ سوال ایک بار پھر زیر بحث ہے کہ کیا عدلیہ سے لوگوں کا اعتماد اٹھتا جا رہا ہے؟بھارت کے کئی ماہرین قانون اور سول سوسائٹی جسٹس گوگوئی کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے سے سبکدوشی کے صرف چار ماہ کے اندر پارلیمان کے ایوان بالا کا ممبر بنائے جانے کو بھارت میں عدلیہ کی آزادی کی موت سے تعبیر کیاہے۔ مودی حکومت کے اس فیصلے پر مختلف حلقوں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا گیاہے۔ ماہرین قانون نے اسے جسٹس گوگوئی کو ان کی خدمات کے عوض حکومت کی جانب سے انعام قرار دیا ہے۔ اس سے عدلیہ کی آزادی، شفافیت، غیر جانبداری اور دیانت داری پر سوالیہ نشان کھڑا ہوگیا ہے۔ کیا انصاف کا آخری قلعہ بھی منہدم ہو گیا ہے؟
ریاست جموں وکشمیرکی وادی چناب کے کشتواڑ سے تعلق رکھنے والی صفورہ زرگردخترشبیرحسین زرگردہلی کی تہاڑ جیل میں امسال فروری سے مقید ہیں۔ 27سالہ صفورہ زرگرکے شوہر دہلی میں ایک نجی کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں اور گذشتہ چند برسوں سے دہلی میں مقیم ہیں۔ وہ اپنی اہلیہ کی رہائی کے لئے عدالتوں کے دروازے کھٹکارہے ہیں۔لیکن بھارت کامعتصبانہ عدالتی نظام کڑے تیوراختیارکربیٹھاہے۔ صفورہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں ایم فل کی طالبہ جوایک ریسرچ سکالر ہیں اور جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی کی میڈیا کوآرڈی نیٹر ہیں۔ ان پر دہلی میں شہریت ترمیم قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں کا حصہ ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے21فروری 2020کودہلی پولیس نے انہیں اپنی دیگرسہیلیوں،کلاس فلیوز گل افشاں،فاطمہ اورعشرت جہاںسمیت اس وقت حراست میں لیا جب وہ بھارتی مسلمانوں کے حوالے سے شہریت ترمیمی قانون (CAA)کے خلاف مظاہرین میں شریک احتجاج تھیں۔ان مسلمان طالبات کے خلاف سخت ترین بدنام زمانہ قانون (UAPA)کے تحت کیس درج کیا گیا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ بھارت کی مسلم تنظیمیں صفورہ زرگرکی کسمپرس صورتحال پرخاموش ہیں نہ کوئی احتجاج نہ کوئی ردعمل حالانکہ صفورہ نے اپنی کسی ڈگری ،کسی سندیاملازمت کی تلاش کے لئے دہلی میں احتجاجی تحریک میں شریک نہیں تھیں وہ توبھارت کے تمام مسلمانوں کے خلاف بنائے جانے والے نئے شہریت قانون کے خلاف برسراحتجاج تھیں جس کی روسے بھارتی مسلمان نئی پیچیدگیوں اورلامتناہی مشکلات کے شکاربنادیئے گئے ہیں۔
بھارت کاالمیہ دیکھئے کہ ایک جانب جب متعصب ہندوعدالتوں سے حاملہ صفورہ کے ساتھ کوئی نرمی نہیں برتی جارہی بلکہ عدالت میں موجودمتعصب ہندوججوں کے صفورہ سے متعلق تیور کڑے ہوتے جارہے ہیںتوعین اسی موقع پر صوبہ کیرلا میں ایک حاملہ ہتھنی انسانوں کی بے حسی کی شکار ہوئی، اس نے دھماکہ خیز بارود سے بھرا ہوا کوئی پھل کھالیا ، جس کے نتیجہ میں وہ ہفتہ بھر بڑے کرب سے گزری، وہ خاموشی سے دریا میں جاکر کھڑی ہو گئی، تین دن تک وہ اسی طرح کھڑی رہی اور پھر ڈوب کر مر گئی ۔اس کی اس طرح کی موت کوبڑی ہی المناک موت قراردیاجارہاہے، ایسی موت پربھارت کے حکمران ،میڈیااورگھنیش کے پجاری نہایت دکھ اور افسوس کررہے ہیںاور بڑی تعداد میں لوگوں نے دکھ جتایا بھی۔قصوواروں کوسزادینے کی مانگ کررہے ہیں۔ٹھیک ہے کہ بے زبان جانوروں کے ساتھ انسان کے ہاتھوں کسی بھی طرح کاکوئی وحشیانہ برتائوروانہ ہو لیکن کیاایک ہتھنی ایک مسلمان خاتون کی جان سے زیادہ قیمتی ہے جس پرنہ کوئی اظہارتاسف اورنہ اظہارغم ۔حاملہ صفورہ زرگر کی اسیری پر کسی نے دکھ اور افسوس کااظہارکیانہ انکی ہمدردی کے لئے ایک لفظ ادا کرتے ہوئے نہیں سناگیا۔ تف ہے تم پرہتھنی پررورہے ہواورایک حاملہ مسلم طالبہ صفورہ زرگر کی داستان الم سے تمہیں کوئی سروکارنہیں!
30مئی 2020ہفتے کو انسانی حقوق کی پامالیوں پر یورپی پارلیمنٹ کی ذیلی کمیٹی نے بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کو خط بھی لکھا۔ خط میں بھارت میں جاری صورتحال پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا۔کمیٹی کی چیئرمین ماریہ ایرینا نے خط میں لکھا کہ آپ کا رویہ عالمی انسانی حقوق کو پامال کر رہا ہے۔ بھارت میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر یورپی پارلیمنٹ کو شدید تشویش لاحق ہے۔ یورپی پارلیمنٹ بھارتی ایجنسی این آئی اے کی جانب سے انسانی حقوق کے نمائندوںکی گرفتاری کی شدید مذمت کرتی ہے۔ انسانی حقوق کے نمائندوں پر دہشت گردی کی دفعات لگانا ناقابل قبول اور یہ گرفتاریاں عالمی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ بھارت میں شہریت کے خلاف پرامن احتجاج پر حکومت کی جانب سے طاقت کا استعمال کیا جارہا ہے۔ احتجاج کے خلاف طاقت کا استعمال ناقابل قبول ہے۔خط میں مطالبہ کیا گیا کہ انسانی حقوق کے کارکنوں صفورہ زرگر، گل افشا ،فاطمہ، عشرت جہاںخالد سیفی، میران حیدر، شفاالرحمن، ڈاکٹر کفیل، آصف اقبال اور شرجیل امام کو فوری رہا کیا جائے۔خط میں واضح کیا گیا کہ بھارتی حکومت کو آزادی رائے کا احترام کرنا ہوگا۔

Comments are closed.