حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظمت

محمد عباس دھالیوال
مالیر کوٹلہ ،پنجاب
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پہلے خلیفہ راشد، عشرہ مبشرہ میں شامل، پیغمبر اسلام کے وزیر، صحابی و خسر اور ہجرت مدینہ کے وقت نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم کے رفیقِ سفر ۔ اہل سنت و الجماعت کے نزدیک ابو بکر صدیق انبیاء اور رسولوں کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر، صحابہ میں ایمان و زہد کے لحاظ سے سب سے برتر اور ام المومنین عائشہ بنت ابی بکر کے بعد پیغمبر اسلام کے محبوب تر تھے۔
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام عبداللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن تیم بن مرہ بن کعب ہے۔ مرہ بن کعب تک آپ کے سلسلہ نسب میں کل چھ واسطے ہیں۔ مرہ بن کعب پر جاکر آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب سے جاملتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر ہے۔
جب ہم ابو بکر کے معنی پر غور و خوض کرتے ہیں تو دراصل عربی زبان میں ابو کا معنی ’’والا‘‘ اور ’’بکر‘‘ کے معنی ’’اولیت‘‘ کے آتے ہیں۔ اس طرح معنی کے اعتبار سے ابوبکر کا مطلب ’’اولیت والا‘‘
اسکے علاوہ ابو بکر رضی اللہ عنہ اسلام لانے، مال خرچ کرنے، جان لٹانے، الغرض امتِ محمدیہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہر معاملے میں اولیت و فضیلت رکھتے ہیں جس کی بنا پر آپ رضی اللہ عنہ کو ابوبکر (یعنی اولیت والا) کہا جاتا ہے.
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر ہونے کی جو وجوہات بیان کی گئی ہیں ان کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ عربی زبان میں ’’البکر‘‘ جوان اونٹ کو کہا جاتا ہے ۔ دراصل عرب میں جس کے پاس اونٹوں خصوصاً جوان اونٹوں کی کثرت ہوتی تھی اور وہ ان کی دیکھ بھال اور دیگر معاملات میں مہارت رکھا کرتا تھا تو اہل عرب اسے ’’ابوبکر‘‘ کہتے تھے۔ چنانچہ اس ضمن میں آپ رضی اللہ عنہ کا قبیلہ بڑا مالدار تھا نیز اونٹوں کے تمام معاملات میں مہارت رکھتا تھا جس کے چلتے آپ ’’ابوبکر‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے ۔
ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دو لقب زیادہ مشہور ہیں ان میں ایک عتیق اور دوسرا صدیق ہے. اسلام میں سب سے پہلے آپ لقب عتیق سے مقبولِ عام ہوئے ۔ اس تعلق سے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام ’’عبداللہ‘‘ تھا، نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا: اَنْتَ عَتِيْقٌ مِنَ النَّار یعنی ’’تم جہنم سے آزاد ہو‘‘۔ تب سے آپ رضی اللہ عنہ کا نام عتیق ہوگیا۔
اس ضمن میں ایک دوسری جگہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک دن اپنے گھر میں تھی، رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام علیہم الرضوان صحن میں تشریف فرما تھے۔ اچانک میرے والد گرامی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے تو حضور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی طرف دیکھ کر صحابہ سے ارشاد فرمایا:
مَن اَرَادَ اَنْ يَنْظُرَ الی عَتيقٍ مِنَ النَّارِ فَلْيَنْظُرْ اِلیٰ اَبی بَکْر. یعنی "جو دوزخ سے آزاد شخص کو دیکھنا چاہے، وہ ابوبکر کو دیکھ لے‘‘۔
جبکہ آپ رضی اللہ عنہ کے لقب ’’صدیق‘‘ کے حوالے سے حضرت سیدہ حبشیہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
يَا اَبَابَکْرٍ اِنَّ اللّٰهَ قَدْ سَمَّاکَ الصِّدِّيْق یعنی "اے ابوبکر! بے شک اللہ رب العزت نے تمہارا نام ’’صدیق‘‘ رکھا‘‘۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی پیدائش عام الفیل کے دو برس اور چھ ماہ بعد سنہ 573ء میں مکہ میں ہوئی۔ آپ کے والد کا نام عثمان اور کنیت ابو قحافہ ہے جبکہ والدہ کا نام سلمیٰ اور اور کنیت ام الخیر ہے۔ آپ کا تعلق قبیلہ قریش کی شاخ بنو تمیم سے ہے۔ جبکہ زمانہء جہالت میں آپ کا نام عبد الکعبہ رکھا گیا تھا. بعض روایات کے مطابق آپ کے والدین کے لڑکے زندہ نہیں رہتے تھے ، اس لیے انہوں نے نذر مانی کہ اگر ان کے ہاں لڑکا پیدا ہوا اور زندہ رہا تو وہ اس کا نام "عبد الکعبہ” رکھیں گے اور اسے خانہ کعبہ کی خدمت کے لیے وقف کر دیں گے۔ چنانچہ جب آپ پیدا ہوئے تو انہوں نے نذر کے مطابق آپ کا نام "عبد الکعبہ” رکھا اور جوان ہونے پر آپ عتیق ( آزاد کردہ غلام) کے نام سے موسوم کیے جانے لگے کیونکہ آپ نے موت سے رہائی پائی تھی۔ جو کہ بعد میں نبی کریم نے بدل کر عبد اللہ رکھ دیا تھا۔
آپ نے جس ماحول میں آنکھیں کھولیں وہ کفر و شرک اور فسق و فجور والا ماحول تھا لیکن ایسے بت پرستی سے شرابور دور میں بھی اللہ رب العزت نے ابو بکر کو بچپن سے ہی اعتدال پسندی ، پاکیزگی و اعلیٰ اخلاق جیسی صفات سے نوازا تھا.
ایک روایت میں ہے کہ جب ابو بکر کی عمر ابھی چار سال ہی تھی تو آپ کے والد ابو قحافہ آپ کو اپنے ساتھ بت خانہ لے گئے اور وہاں پر نصب ایک بڑے بت کی طرف اشارہ کر کے آپ سے کہنے لگے کہ "یہ ہے تمہارا بلند و بالا خدا اس کو سجدہ کرو۔“
ننھے ابو بکر نے بت کو مخاطب بنا کر کہا” میں بھوکا ہوں مجھے کھانا دے ، میں ننگا ہوں مجھے کپڑے دے ، میں پتھر مارتا ہوں اگر خدا ہے تو اپنے آپ کو بچا۔ “
پھر ایک پتھر اس بت پر زور سے مارا کہ وہ گر پڑا۔ آپ کے والد نے جب یہ دیکھا تو غضبناک ہو گئے اور انہوں نے معصوم ابو بکر کے رخسار پر تھپڑ دے مارا اور وہاں سے گھسیٹتے ہوئے ام الخیر کے پاس لائے۔ انہوں نے ننھے بچے کو گلے لگا لیا اور ابو قحافہ سے کہا "اسے اس کے حال پر چھوڑ دوجب یہ پیدا ہوا تھا تو مجھے اس کے بارے میں غیب سے کئی اچھی باتیں بتائی گئیں تھیں۔“
اس واقعہ کے بعد کسی نے آپ کو بت پرستی وغیرہ پر مجبور نہیں کیا اس طرح آپ کا دامن شرک سے پاک رہا۔ عرب میں لکھنے پڑھنے کا رواج نہ تھا اور بحثیت مجموعی عرب ایک ان پڑھ قوم تھے، البتہ کچھ چند لوگ پڑھنا لکھنا جانتے تھے اور سیدنا ابو بکر ان میں سے ایک تھے۔ قیاس ہے کہ ابو قحافہ نے ابو بکر کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی۔ اس طرح آپ کو پڑھنے لکھنے کے ساتھ ساتھ زندگی کے مختلف شعبہ جات پر دسترس حاصل ہو گئی مثلاً لڑنے کا ڈھنگ ، ہیتھاروں کا استعمال ، شعر گوئی اور شعر فہمی ، تجارت وغیرہ وغیرہ بے شک آپ کے گھر میں دولت کی ریل پیل تھی لیکن اس سب کے باوجود آپ عیش و عشرت اور شراب خوری جیسے ذمائم سے ہمیشہ دور رہے۔
آپ کے قبول اسلام کے ضمن میں جب بات چلتی ہے تو ایک روایت کے مطابق سیدنا ربیعہ بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اسلام آسمانی وحی کی مانند تھا، وہ اس طرح کہ آپ ملک شام تجارت کے لئے گئے ہوئے تھے، وہاں آپ نے ایک خواب دیکھا، جو ’’بحیرا‘‘ نامی راہب کو سنایا۔ اس نے آپ سے پوچھا: "تم کہاں سے آئے ہو؟‘‘ فرمایا: ’’مکہ سے‘‘۔ اس نے پھر پوچھا: ’’کون سے قبیلے سے تعلق رکھتے ہو؟‘‘ فرمایا: ’’قریش سے‘‘۔ پوچھا: ’’کیا کرتے ہو؟‘‘ فرمایا: تاجر ہوں۔ وہ راہب کہنے لگا: اگر اللہ تعالیٰ نے تمہارے خواب کو سچافرمادیا تو وہ تمہاری قوم میں ہی ایک نبی مبعوث فرمائے گا، اس کی حیات میں تم اس کے وزیر ہوگے اور وصال کے بعد اس کے جانشین۔
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس واقعے کو پوشیدہ رکھا، کسی کو نہ بتایا اور جب محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نبوت کا اعلان فرمایا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی واقعہ بطور دلیل آپ رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیا۔ یہ سنتے ہی آپ رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گلے لگالیا اور پیشانی چومتے ہوئے کہا: ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں‘‘۔
اس طرح رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم نے جب آپ کو اسلام میں آنے کی دعوت دی تو آپ نے بنا کسی ہچکچاہٹ کے اسلام کو فوراً قبول فرما لیا . اس طرح آپ آزاد بالغ مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے قرار پائے ۔
اسلام لانے کے بعد مکہ میں تیرہ سال نہایت سخت مصائب اور تکالیف میں گزارے. بعد ازاں نبی کریم کی رفاقت میں مکہ سے یثرب کے لیے ہجرت کی تمام تر صعوبتیں اٹھا ئیں.اس کے علاوہ آپ غزوہ بدر اور دیگر تمام غزوات میں بھی پیش پیش رہے۔
جب آخری نبی محمد صل اللہ صل اللہ علیہ و سلم مرض الوفات میں مبتلا ہوئے تو ابو بکر صدیق کو حکم دیا کہ وہ مسجد نبوی میں امامت کریں۔ چنانچہ پیر 12 ربیع الاول سنہ 11ھ کو محمد صل اللہ علیہ و سلم نے وفات پائی اور اسی روز ابو بکر صدیق کے ہاتھوں پر مسلمانوں نے بیعت خلافت کی۔
خلافت کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد ابو بکر صدیق نے اسلامی قلمرو میں والیوں، عاملوں اور قاضیوں کو مقرر کیا اور مختلف ریاستوں کی جانب لشکر روانہ کیے، اسلام اور اس کے بعض فرائض سے انکار کرنے والے عرب قبائل سے جنگ کی یہاں تک کہ تمام جزیرہ عرب اسلامی حکومت کا مطیع ہو گیا۔ آپ کے عہدِ خلافت میں عراق کا بیشتر حصہ اور شام کا بڑا علاقہ فتح ہوا.
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھرانے کو ایک ایسا منفرد شرف حاصل ہے جو ان علاوہ کسی دوسرے مسلمان گھرانے کو حاصل نہیں ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خود صحابی، ان کے والد حضرت ابو قحافہ رضی اللہ عنہ بھی صحابی، آپ کے تینوں بیٹے (حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ، حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ اور حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ) بھی صحابی، آپ رضی اللہ عنہ کے پوتے بھی صحابی، آپکی بیٹیاں (حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ، حضرت سیدہ اسماء رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہ بنت ابی بکر) بھی صحابیات اور یہاں تک کے آپ کے نواسے بھی صحابی ہوئے۔
Comments are closed.