نفرت کی کھیتی کیاگل کھلائے گی؟

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی
اس وقت پوری دنیامیدان جنگ بنی ہوئی ہے، جس میں ایک طرف انسانی فوج ہے اوردوسری طرف وبائی مرض(اگراسے تسلیم کرلیاجائے)، اوردونوں ایک دوسرے کے ساتھ برسرپیکارہیں، کوروناانسانیت کی تمام بستیوں کوویران کردیناچاہتاہے، جب کہ انسانی فوج امیونٹی کے ڈھال سے اسے شکست پہ شکست دئے جارہاہے؛ لیکن اس جنگ کی وجہ سے کاروبارزندگی ٹھپ پڑچکاہے، ہزاروں انسان اس کے شکارہوچکے ہیں،نظام معاشرت درہم برہم ہوگیاہے، جوگلے ملتے تھے، وہ ہاتھ بھی ملانے سے کترارہے ہیں، جو گٹکااورپان کھاکرپچ پچ سڑکوں پرتھوکاکرتے تھے، اب اسی حرکت پرانھیں ٹھوکا جارہاہے ، جو لوگ’آرزووصل کی رکھتی ہے پریشاں کیاکیا‘‘کے مصداق تھے، وہی لوگ ’’پہلے ہی سے وہ بیٹھ گئے منھ بگاڑکے‘‘کے مانندنظرآرہے ہیں۔
اس کوروناکی وجہ سے پوری دنیاکے اندرمختلف قسم کی تبدیلیاں پیداہوئی ہیں؛ لیکن جیسی تبدیلی ہمارے ملک کے اندرپیداہوئی ہے، ویسی تبدیلی شایدہی دنیاکے کسی کونے میں ہوئی ہو، کوروناکی وجہ سے پوری دنیانے بھائی چارگی کے راستہ کواپنایا؛ لیکن ہمارے ملک نے، جہاں کی گنگاجمنی تہذیب پوری دنیاکے لئے مثال تھی، اس بھائی چارگی کوبے چارگی کاشکارکردیا، اس سے پہلے کئی مضامین میں واضح کیاجاچکاہے کہ ہندوستان میں کوروناکاپہلاکیس کیرالامیں ظاہرہوا، یہ ایک غیرمسلم طالبہ تھی، جوچین میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کررہی تھی اوروہاں سے وہ آئی تھی، اسی طرح دہلی میں دتہ جی کاکیس پہلی مرتبہ سامنے آیا، جوتجارت کی غرض سے اٹلی گیاہواتھا، اس کے علاوہ بھی ابتداء میں جن لوگوں کے کیسیزسامنے آئے، ان میں سے کوئی ایک بھی مسلمان نہیں تھا، اس کے باوجودکوروناکومسلمان بناکرپیش کیاگیا۔
کوروناکومسلمان بناکرپیش کرنے کاسب سے بڑاسیاسی فائدہ تھا، جس کامشاہدہ لاک ڈاؤن کے دوران خوب نظرآیا، دراصل لاک ڈاؤن سے پہلے ایک ایساقانون پاس کیاگیا، جو’’کالاقانون‘‘کہے جانے کے لائق ہے، جس میں ایک فرقہ کے تعلق سے تعصب برتی گئی تھی، اسی قانون کے خلاف ہندوستان کے سیکولرمزاج لوگوں نے مخالفت کی اوراس کے لئے دھرنے دئے گئے، یہ دھرنے یقیناً کامیاب تھے اوراس کی وجہ سے ارباب اقتدارکی سٹی گم ہوچکی تھی کہ اچانک وہان کے شہرسے کورونا نے سرنکالا، ہندوستان میں اس کاہَوَّا شایداتنازیادہ نہیں ہوتا، اگرسی اے اے کے مخالفت نہ ہوئی ہوتی، یہی وجہ ہے کہ اسی دوران ’’نمستے ٹرمپ‘‘ کامیلامنعقد کیاگیا، جس میں سیکڑوں افراد مسٹر ٹرمپ کے ساتھ باہرسے آئے تھے؛ لیکن ان کی وجہ سے کوروناپرکوئی اثرنہیں ہوا۔
’’شیخ نجدی‘‘یعنی شیطان تومسلمانوں کاکھلاہوادشمن ہے ہی، اس میں کسی قسم کاکوئی شک نہیں ہے، اس نے اپنے’’ دوستوں‘‘کے دماغ میں کوروناسے فائدہ اٹھانے کی ترکیب بتائی، جیساکہ اس نے آخری پیغمبرکے تعلق سے قتل کی ترکیب بتائی تھی، بس پھرکوروناتبلیغی مسلمان ہوگیا، اس کااتناچرچاکیاگیا، جتنا’’نمستے ٹرمپ‘‘کانہیں کیاگیاہوگا، چوبیس گھنٹے تبلیغی کوروناکی ہی بات چلتی رہی؛ یہاں تک لوگوں کے ذہن ودماغ میں یقین ساہوگیاکہ کورونااس ملک میں مسلمانوں کے ذریعہ سے آیاہے، جس میڈیاکاکام سچ کوسچ دکھاناتھا، اس نے جھوٹ کوسچ بناکرلوگوں کے سامنے پیش کیااوراس شدت کے ساتھ کیاکہ انسانی ہمدردی تک چھین لی گئی، پھرلوگوں نے دیکھاکہ راشن دوکان والوں نے راشن دینے سے انکارکردیا، اسپتال والوں نے علاج کرنے سے منع کردیا۔
غذااورعلاج آج کے زمانہ کی بنیادی چیزیں ہوگئی ہیں، جس طرح انسان غذاکی فکرکرتاہے، اسی طرح علاج کے بارے سوچتارہتاہے، حکومت نے بھی اس طرف کچھ پیش رفت کی ہے، غذاکی فراہمی کے ساتھ ساتھ علاج کی طرف بھی توجہ دی گئی ہے اورراشن کارڈ کی طرح ہیلتھ کارڈ بھی بنوائے گئے ہیں، جس سے بنیادی چیزمیں اس کی شمولیت کا پتہ چلتاہے؛ لیکن کورونا کی اس مہاماری میں جس طرح مسلمانوں کوبدنام کیاگیا، اس کی وجہ سے ان دونوں بنیادی چیزوں میں انھیں دقتوں کاسامناکرناپڑا، حکومت کے جتنے شعبے ہیں، وہ سست رفتاری کے ہمیشہ سے شکاررہے ہیں، خواہ وہ تعلیمی شعبہ ہو، یامیڈیکل کاشعبہ، یاپھردیگرشعبہ جات، ممکن ہی نہیں کہ جلدی آپ کاکام ہو جائے، اسی وجہ سے لوگ پرائیویٹ طورپرکام کرانے کو زیادہ پسندکرتے ہیں، غالباً اس میں حکومت کوفائدہ بھی ہوتاہے، ان سے ٹیکس اوررشوت کی رقم زیادہ ملتی رہتی ہے، جس کی وجہ سے سرکاری شعبوں کی طرف توجہ بھی نہیں دی جاتی ہے۔
توجہ نہ دئے جانے کی وجہ سے ہی آج بھی لوگ یہی پسندکرتے ہیں کہ پرائیویٹ طریقہ سے اس کا کام ہوجائے، بالخصوص علاج ومعالجہ اورتعلیم میں تویہی دیکھا گیا ہے، کورونا کے اس زمانہ میں بھی لوگ بیمارہوئے اورلوگوں نے علاج کی غرض سے پرائیویٹ دواخانوں کارخ کیا؛ لیکن مسلمانوں نے اپنے حق میں ان کے دروازوں کوبندپایا، ڈیلیوری کے کئی کیسیزسامنے آئے، اسپتال والوں نے آخری وقت میں بھی اپنے یہاں علاج کرنے سے منع کردیا، جس کے نتیجہ میں بچہ اورزچہ دونوں کی جانیں بھی چلی گئیں؛ لیکن ان کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگی، اوررینگتی بھی توکیسے؟ ذہن میں تو نفرت اورتعصب کی بیج ہی نہیں بوئی گئی تھی؛ بل کہ اس کی کھیتی کی گئی تھی، جس کاکانٹے دارپھل نکل چکاہے، جس سے ا نسانیت شرم سارہوچکی ہے،یہ وہ لوگ ہیں، جو ایک ہتھنی اورایک گائے کی موت پراظہارافسوس کرتے نہیں تھکتے؛ لیکن انسان کے مرنے پرانھیں غم تک نہیں ہوتا۔
لوگ کہتے ہیں آج کے زمانہ میں انسانیت دم توڑچکی ہے، اسے صرف جملہ سمجھا جاتا تھا؛ لیکن اگرکسی کواس کی حقیقت دیکھناہوتواسے ہندوستان آناچاہئے، ایک دونہیں، بیسیوں واقعات ایسے ملیں گے، جوانسانیت کواوندھے منھ گرانے کے لئے کافی ہیں، یہاں گائے کے نام پرسیکڑوں لوگوں کوپیٹ پیٹ کرماردیاگیا، چھوٹی چھوٹی بچیوں تک سے ریپ کرکے انھیں موت کے گھاٹ اتاردیاگیا، ان پرمیڈیاخاموشی کاروزہ رکھ لیتی ہے، جانورکے نام پرواویلامچاتی ہے، یہ اس کادوغلاپن ہے اوراس سے زیادہ دوغلاپن ان سے سرزدہوتا ہے، جوانسان کوقتل کرنے کے لئے زہراگلتے رہتے ہیں اورجانورکے نام پرمگرمچھ کے آنسوبہاتے ہیں، یہ کس کونہیں معلوم کہ ایک طرف جب گائے کے نام قتل کابازار گرم تھاتودوسری طرف گواکی بی جے پی حکومت اپنی عوام سے یہ وعدے کررہی تھی کہ گوشت کی کمی نہیں ہونے دیاجائے گا، اس طرح کے دوغلے لوگ ملک کے حق میں کبھی بھی فائدہ مند نہیں ہوسکتے۔
کوروناکومسلم بنانے کاسب سے برانتیجہ یہ ہے کہ معاشرہ میں بھگوان کہے جانے والے ڈاکٹرس مسلمانوں کے علاج سے مکررہے ہیں، تین چارمہینے کے عرصہ میں کئی دل دوز واقعات پیش آچکے ہیں؛ لیکن ارباب اقتدار، جس کادعوی ہے: ’’سب کاساتھ، سب وکاس، سب کاوشواس‘‘، نے اس پرآج تک کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی، جس کانتیجہ یہ ہے کہ ابھی ۹؍جون ۲۰۲۰ء کودہلی یونیورسٹی کے شعبہ عربی کے ایک پروفیسر ڈاکٹرولی اخترندوی کی وفات مناسب علاج نہ مل پانے کی وجہ سے ہوگئی، جاگرن کی خبرکے مطابق ان کی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے ملک کی راجدھانی دہلی کے سات اسپتالوں کاچکرلگایاگیا؛ لیکن ہرایک کاجواب ایک ہی تھا کہ پہلے کورونا نگیٹیو رپورٹ لایئے، پھرایڈمٹ کیاجائے گا، چاروناچار الشفاء ہاسپٹل میں داخل کرایاگیا، جہاں انھوں نے داعی اجل کولبیک کہا۔
یہ دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ عربی میں متعددمرتبہ ڈین بھی رہ چکے ہیں، کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں، عربی زبان وادب کی خدمت پرانھیں اے پی جے عبدالکلام کے ہاتھوں ایوارڈ سے بھی نوازاگیا، سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ ایک تجربہ کار اور ماہر استادتھے، جوصرف مناسب علاج نہ ملنے کے سبب رخصت ہوگئے،موت توایک حقیقت ہے ؛ لیکن ظاہری تدبیر کی حدتک تویہی کہاجائے گا، سوال یہ پیداہوتاہے کہ اس ملک میں انسانیت کہاں تک گرچکی ہے کہ ایک جینئس اورافرادسازی کرنے والے شخص کے علاج سے انکارکیاگیا؟ روس جب جنگ سے ہارگیاتواس کے صدرنے کہاکہ: ہم اساتذہ کی وجہ سے یہ جنگ ہارگئے ہیں، پوچھاگیا: کیسے؟ جواب تھاکہ: انھوں نے طلبہ کوسروفروشی نہیں سکھائی، جس کے نتیجہ میں ہمیں پسپائی اختیارکرنی پڑی، یہ ہے ایک استاذ کی اہمیت؛ لیکن افسوس! ہمارے ملک میں یہ بھی دیکھنے کومل رہاہے کہ اسی استاذکے علاج سے انکارکیاجارہاہے اورکورناکی نگیٹیورپورٹ لانے کوکہاجارہاہے۔
کوروناکی رپورٹ فوری طورپرملتی نہیں کہ گئے اوررپورٹ لے کرآگئے، توکیا اس کے لئے علاج سے انکارکاحق ہے؟ پھرصرف یہ مسلمانوں کے ساتھ ہی کیوں ہے؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نفرت کی کی گئی کھیتی میں کانٹے دارپھل آچکے ہیں اور حکومت اس کانوٹس لینے سے کترارہی ہے ، جس کااندازہ کیجریوال کے بیان سے لگایا جاسکتاہے، ڈاکٹروں کوتویہ سکھایاجاتاہے کہ آپ کوانسانیت کے نام پرعلاج کرناہے؛ لیکن یہی ڈاکٹرس اب انسانیت بھول چکے ہیں، چنددنوں پہلے چندانی کا ویڈیووائرل ہوا تھا، جس کے بعد اس نے معافی بھی مانگی تھی، یہ اسی کھیتی کے پھل ہیں۔
ان جیسے واقعات سے یہ سوال بھی اٹھتاہے کہ کیااس ملک کے مسلمان سارے کے سارے زکات خورہیں؟ سارے کے سارے غریب اورفقیرہیں؟ ظاہرہے کہ ایسا نہیں ہے، توپھرمسلمانوں نے تعلیم کے لئے جس طرح مدارس کاجال بچھایا، اسی طرح انسانیت کی خدمت کے لئے اسپتالوں کاجال بچھانے کی طرف کیوں توجہ نہیں دی؟ اس ملک میں مدرٹریسانے انسانی خدمت میں نام کمایا، مسلمان بھی توایساکرسکتے تھے؟ اب بھی وقت ہے، ہمیں سوچ لیناچاہئے۔
Mob:8292017888

Comments are closed.