موت ہے ہنگامہ آرا قُلزُمِ خاموش میں!

ڈاکٹر آصف لئیق ندوی، ارریاوی۔موبائل۔880589585

ایک استاذکسی قوم و ملک کا معمار ہوتا ہے اور طفل مکتب سے لے کر اعلی درجے کے طالب علم کی روحانی و فکری پرورش کرکے حیات جاوداں کاخالق و موجب ایک استاذ اور معلم ہی ہوتا ہے!صحابہ کرام اسی لیے اپنے معلم و مربی حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جان و مال نچھاور کرتے تھے، خلیفہ ہارون الرشیدنے استاذوقت امام مالک سے حدیث سکھانے کی درخواست کی تو امام مالک نے جواب دیا کہ ’ـ’علم کے پاس لوگ آتے ہیں۔ علم لوگوں کے پاس نہیں جایا کرتا۔ تم کچھ سیکھنا چاہتے ہو تو میرے حلقہ درس میں آسکتے ہو‘‘ خلیفہ آیا اور حلقہء درس میں دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ عظیم معلم نے ڈانٹ پلائی اورفرمایا:۔خدا کی تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ بوڑھے مسلمان اور اہل علم کا احترام کیا جائے۔ یہ سنتے ہیں خلیفہ شاگردانہ انداز میں کھڑا ہوگیا۔
اسی طرح سکندر اعظم بھی اپنے استاذ کا بے انتہااحترام کرتے تھے اور اُنہیں اپناروحانی باپ تصور کرتے ہوئے برملا اظہار بھی کرتے تھے، حضرت علی ؓ فرمایا کرتے تھے کہ:’’جس شخص سے میں نے ایک لفظ بھی پڑھا میں اس کا غلام ہوں، چاہے وہ مجھے بیچ دے یا آزاد کردے‘‘۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:’’استاد کی حیثیت روحانی باپ کی سی ہے‘‘۔ اس کا حق اپنے شاگردوں پر اتنا ہی ہے ،جتنا باپ کا اولاد پر۔ ہر عظیم انسان کے دل میں اپنے اساتذہ کے احترام کے لیے بے پایاں جذبات ہوتے ہیں ،یہی اس کی عظمت کی دلیل ہے ، کیونکہ ۔ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔انسان جس سے بھی کچھ سیکھے، اس کا احترام فرض ہے۔ اگر سیکھنے والا، سکھانے والے کا احترام نہیں کرتا تو وہ علم محض ’’رٹا‘‘ ہے۔ حفظ بے معرفت گفتار ہے،اس میں اعمال کا حسن نہیں، گویا وہ علم جو عمل سے بیگانہ ہووہ ایک بے معنی لفظ ہے۔ علم کسی بھی نوعیت کا ہو۔اس کا عطا کرنے والا بہر حال قابلِ عزت اور احترام ہے اور جب تک ادب و احترام کا جذبہ دل کی گہرائیوں سے نہیں اٹھے گا،تب تک نہ علم کا گلزار مہک سکے گا اور نہ ہی علم، طالب علم کے قلب و نظر کو نورانی بنا سکے گا۔ باقی تمام چیزیں انسان خود بناتا ہے، مگرانسان کو کون بناتاہے۔میری مراد انسان کی تخلیق نہیں، انسان کا بشریت سے آدمیت کی طرف سفر ہے۔انسان کو بنانے والے فنکار کا نام ہے، ’’معلم‘‘ ہے۔ اسی لیے اس کا کام دنیا کے تمام کاموں سے زیادہ مشکل، اہم اور قابلِ قدر ہے۔ استاد اور شاگرد کا رشتہ روحانی رشتہ ہوتا ہے، یہ تعلق دل کے گرد گھومتا ہے۔ اور دل کی دنیا محبت اور ارادت کی کہکشاں سے بکھرتی ہے۔
مرحوم استاذجناب ولی اختر ندوی صاحب نہ صرف یہ کہ دہلی یونیورسٹی کے ایک سینٔر پروفیسر، شعبۂ عربی کے سابق صدر تھے! بلکہ وہ قوم و ملک کے ہزاروں طلباو طالبات کے قابل احترام اور لائق وفائق معلم و مربی تھے، چند روز قبل انکی علالت و معالجہ کے سلسلے میں صوبہ دہلی میںجو کچھ بھی پیش آیا وہ بہت افسوسناک ہے۔انکی اچانک موت کی خبر سن کر ہم سبھی کو بہت افسوس وملال ہواہے۔ جیسا کہ آپ حضرات نے بھی اخبارات میں پڑھا ہوگا اور متعددنیوز کلپ کے ذریعے مشاہدہ کیا ہوگا کہ انکا انتقال تقریبا 7 ہاسپیٹلوں کے چکر کاٹنے کے بعد کسی ہاسپیٹل میں ایڈمٹ نہ ہوپانے اور وقت پر صحیح علاج نہ مل پانے کی وجہ سے ہوگیا ۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ویسے ہر ایک جاندار کو ایک نہ ایک دن اس فانی دنیا سے جانا ہے اور’’کل نفس ذائقۃ الموت‘‘ ہرنفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور موت بھی اپنے وقت پر ناقابل فراموش حقیقت ہے، مگرایک لائق و فائق استاذ کے علاج کے لیے ہاسپیٹلوں کی تساہلی، تنگ دلی اور انسانیت کے نام پر خیرخواہی کی ذمہ داری سے یکسر انکارپھر اسی دوران کسی غیر معروف ہاسپیٹل میںانکا انتقال ہمارے لیے باعث رنج و ملا ل ہے، کیونکہ ایک عالم کی موت پورے عالم کی موت کے برابر ہے، انکا انتقال ہمارے لیے بڑا لمحہ فکریہ ہے۔
کتنی مشکل زندگی ہے، کس قدر آساں ہے موت!!
گُلشنِ ہستی میں مانند ِ نسیم ارزاں ہے موت
اور دوسری طرف قوم و ملک کے کسی بڑے اور باصلاحیت استاذ کو قدر ومنزلت کی نظروں سے نہ دیکھا جاناقوم وملک کی عظمت اور ادب و احترام کے جذبے پر سوالیہ نشان ہے، اور ہمیں انکے سانحہ ارتحال سے بڑا درس و سبق ملتاہے۔انکی موت عالم علم و ادب میں ایسی ہی ہے جیساکہ شاعرمشرق کہہ رہا ہے۔
موت ہے ہنگامہ آرا قُلزُمِ خاموش میں
ڈوب جاتے ہیں سفینے موج کی آغوش میں
اس اندوہناک حادثہ اور دہلی کے مشہور ہاسپیٹلوں کے رویے سے ہم سبھی کو سبق لیتے ہوئے اس بات کی ہرممکن کوشش اور جد وجہد کرنی چاہئے کہ ملک کے ہر صوبہ، ہر ضلع، ہر علاقہ میں مسلمانوں کے بھی بڑے بڑے کالجز ، ہاسپیٹلس اورادارے ہوں !جن میں ہمارے بڑے ماہر ڈاکٹرس بھی ہوں! بلکہ کوشش اس بات کی بھی ہونی چاہئے کہ برادران وطن کے ہاسپیٹلوں اور میڈیکل کالجوں میں بھی ہم مسلمانوں کے باصلاحیت ڈاکٹرس اپنی بے مثال خوبیوں کیوجہ سے بڑے بڑے پوسٹوں پر فائز ہوں تاکہ موجودہ وبا اور اس مہاماری کے عالم میں جہاں مسلمانوں کیساتھ سوتیلا رویہ اور دوہرا معیار اپنایا جارہا ہے،اس پر کچھ کنٹرول حاصل ہو، ہمیں اب یہ کہنے میں ذرا برابر جھجھک محسوس نہیں ہورہی ہے کہ بیشتر انسانی جانوں کا اتلاف ہاسپیٹل میں زیر علاج رہ کر ہی ہورہا ہے۔ جب کہ اس وبا سے نہ تو کسی کے گھر سے کوئی جنازہ اور میت نکل رہی ہے؟ اور نہ ہی سانس لیتے چرند و پرند اور جانوروں کا اتلاف ہوتا دکھائی دے رہا ہے؟ یہ کیسی وبا ہے جسکا اثر ہاسپیٹلوں سے صحت یاب ہونے کے بجائے میت کی شکل میں نکلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے؟ یہانتک کہ بیشتر عوام کا اعتبار بھی ارباب حل و اقتدار، ہاسپیٹلوں اور ڈاکٹروں سے اٹھتا جارہا ہے۔اس معاملے کی حقیقت اور سچائی اللہ کو ہی صحیح سے معلوم ہے کہ دنیا والوں نے کیا کیا ظلم وستم ڈھایا ہے؟ اور ظالموں نے خشکی و تری میں کیا کیا فساد مچا رکھا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔زلزلے ہیں، بجلیاں ہیں، قحط ہیں، آلام ہیں۔۔۔کیسی کیسی دُخترانِ مادرِ ایّام ہیں!
مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وبا اورمرض کو اب دھندا اور اسلام مخالف وبا بھی بنا لیا گیا ہے اور اسکے بہانے بہت سی غیر اسلامی قوانین اور پابندیاں عائد ہورہی ہیں۔بعض صوبوں میں مسجدوں میں معمول کے مطابق فرض نماز کی ادائیگی پر عقل سے ماوراء اورغیر منظقی فیصلے کئے جارہے ہیں، کھانے پینے کی اشیاء پرنہ صرف پابندی عائدکی جارہی ہے،بلکہ اسکو گناہ اور جرم بھی تصور کیا جانے لگا ہے، لاؤڈ اسپیکر سے اذان پر عدالت فیصلے سنارہی ہے، سی اے اے کے مخالف مسلمانوں کی گرفتاریاں عمل میں آرہی ہیں،سرکاری دفاتر کھلے ہوئے ہیں اور الیکشن کی کھلے عام کامپینگ ہورہی ہے اورکسی کی حکومت گرانے اوراپنی حکومت بنانے کے لیے پچیس پچیس کروڑ میں ایم ایل ایز خریدنے کی کوشش ہورہی ہے ،اس سلسلے میں راجستھان کے وزیراعلی گہلوت کا بیان بھی آچکا ہے،جیسا کہ لاک ڈاؤن باوجود دوسرے صوبے میں ایسا عمل ہوچکا ہے،مرض کی پرواہ کئے بغیر انسانی جانوں سے کھل کر کھلواڑ اور صحیح علاج و معالجہ کا فقدان ہے اور مردہ خانے تنگ پڑ رہے ہیں، مگر حکومت کی نگاہ میں اہم کچھ اور ہے!۔ اسوقت کا سب سے اہم ایشو اور مدعاکورونامرض کا حل ہونا چاہیے! مگر ہو کیا رہا ہے وہ آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔معاشیات کی حالت ابتر سے ابتر ہوئی جارہی ہے، کروڑوں بچے تعلیم سے محروم ہیں، شراب کی دوکانیں کھلی ہیں، مگر تعلیمی ادارے مقفل ہیں۔حتی کہ امریکی مذہبی آزادی کمیشن ٹیم کے اراکین کو ہندوستان میں اقلیتوں خصوصا مسلمانوں کے موجودہ حالات کا جائزہ لینے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے اور ویزا بھی ایشو نہیں کیا جارہا ہے۔جبکہ اس سے قبل امریکہ، یورپ ، اقوام متحدہ ، ترکی اور دیگرعرب ممالک نے اقلیتوں یعنی مسلمانوں کے حقوق کی بقا و تحفظ کے سلسلے میں اپنی اپنی تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔ مگریہ کہہ کرکہ’’ ہندوستان کے داخلی معاملات میں تبصرہ کرنے کا کسی کو کوئی حق نہیں ہے ‘‘ سبھی کو خاموش کردیا جارہا ہے۔آخر ایسا کب تک ہوتا رہے گا ، کورونا کے پھیلاؤ میں انسانی پاپ اور ظلم و ستم کا بھی پورا دخل ہے، مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ کون سمجھائے ان کو کہ مرض کیا ہے اور علاج کیا تلاش کیا جارہے ؟؟
ہمیں اب دنیاوی زندگی میں بھی پہلے سے زیادہ چوکس اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے، اور سفر و حضر میں ہمیشہ اپنے رب کو راضی رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہاسپیٹلوں سے جتنا ممکن ہوسکے ہمیں اجتناب کرنا ہی بہتر شکل ہے۔ البتہ ناگزیر حالات میں اپنا علاج و معالجہ کسی ماہر مسلم/ مخلص ڈاکٹر کی نگرانی میں کرانا ہماری بڑی عقلمندی ہوگی، جو کہ پیسوں کے کم انسانی جانوں کے زیادہ مخلص ہوں ایسے ہاسپیٹل و ڈاکٹر کی نہایت سخت ضرورت بھی محسوس ہورہی ہے۔
یاد رکھئے!! ہمیں حالات حاضرہ سے سبق حاصل کرتے ہوئے اب مل جل کر سوچنا ہوگا کہ ہندوستان میں ہمارااور ہماری نسل کا مستقبل کیسا ہ؟! اسلام نے دین و دنیا کو لے کر چلنے کا جو نقشہ ہمارے لئے پیش کیا ہے اور دنیا کو درست طریقوں پر چلانے کا جو پیغام دیا ہے، اس میں ہم دوسروں سے کتنے پیچھے ہو کر رہ گئے ہیں کہ ہم اپنے علاج و معالجے کے لیے بھی خود مختار نہیں رہ گئے ہیں اور اسکے لئے در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد بھی ہماری قیمتی جانیں ضائع ہورہی ہیں، یہانتک کہ ہمارے ہردلعزیزڈاکٹر،سابق صدر شعبہ عربی ، ڈی یو،لائق و فائق استاذ، علم دوست شخصیت ، صاحب قلم اوررباصلاحیت ترجمہ نگار و ادب پروفیسر ولی اختر ندوی رحمہ اللہ کو بھی ہمیں بادل نخواستہ گنوانا پڑا اور ایک صاحب علم و ادب اور استاذ و مربی کی حیثیت سے بھی انکو دہلی کے۷ ہاسپیٹلوں میں ترجیحی بنیاد پر بروقت علاج و معالجے کی جگہ نہیں مل سکی اور آخرکار وہ اللہ کے پیارے ہوگئے کیونکہ نہ ہی یہاں ہماری جانوں کی اہمیت رہ گئی ہے اور نہ ہی دنیا والوں کی نظروں میں ہم قابل رحم و کرم رہ گئے ہیں۔بلکہ فرقہ پرستوں اورمسلم متنفرارباب حل و اقتدارکے نزدیک ہماری حیثیت ایک ہلاک شدہ ہتھنی اور جانور سے کم ہوکر رہ گئی ہے، اللہ! برادران وطن کو صحیح سمجھ عطا فرمائے اور مسلمانوں کے موجودہ حال پر رحم و کرم فرمائے اور انکے مرحومین و مرحومات کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ مولانا ولی اختر مر کر بھی ہمارے دلوں میں روشن ستاروں کی مانند چمکتے اور دمکتے رہیں گے اور اپنے نقوش و کارناموں سے ہمیشہ جانے اور پہچانے جاتے رہیں گے۔کیونکہ ہمارا یقین ہے کہ ۔موت ، تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے!!!!خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے
لہٰذا جسطرح ہم تعلیم و تعلم، دعوت و تبلیغ اور عبادت و ریاضت کو حقیقی دین سمجھتے ہوئے دین پر عمل پیرا ہیں، اسی طرح ہم تمام معاملات کو بھی اپنا دین سمجھتے ہوئے اسے درست فرمائیں! انسانیت کی خیرخواہی اور مصیبت زدہ لوگوںکی امداد کو بھی عین دین تصور کریں، اسی طرح اچھی سیاست وتدبیر بھی ہمارے دین کا جزو ہے اور عادل حکومت کے نظام کے قیام کی کوشش بھی ہمارے دین متین کا جزولاینفک ہے، اللہ کے نظام کے تحت اگر عمل کیا جائے تو پوری معاشرت، تعلیمات، اسعاد انسانیت، معاشیات، سیاسیات سب ہمارے دین کا حصہ اور اہم باب ہے،جس سے ہم مسلمان غافل اور کنارہ کش ہیں!! اور اس باب اور جزو کے خلاف عمل یقینا ہماری بے دینی اور بڑی لاپرواہی ہے!جسکا تدارک ہر مسلمان پرضروری اور لازم ہے۔ ہمیں سب سے پہلے تو اپنی جان و مال کی حفاظت اور اپنی دولت وثروت کا صحیح جگہ استعمال ہمارے بگڑتے ہوئے نظام زندگی میں بہت اہم اور ضروری ہے، ہم سبھی کو اپنے اعمال کی درستگی کیساتھ ساتھی بہترین تدابیر کرنے کی شدید ضرورت ہے۔
آج کہاں کہاں، کن کن میدانوں میں ہماری بہترین کارکردگی اوراچھی نمائندگی کی پھر سے شدید ضرورت محسوس کی جارہی ہے تاکہ ہم بلکتی اور سسکتی انسانیت کو ظالموں کے پنجوں اور انکے ناپاک عزائم وسازشوں سے آگاہ کرتے ہوئے انکی بقا و تحفظ کا فوراسامان مہیا کر سکیں۔۔اور ہم اپنی اجتماعی و انفرادی کوششوں، خوبیوں اور پوشیدہ قیادت انسانیت کی صلاحیتوں سے اپنی نسل کیساتھ ساتھ دنیا والوں کو بھی ظالم حکمرانوں اور فرقہ پرستوں کے ظلم وستم، قتل و غارتگری اور نفرت و عداوت سے نجات دلاسکیں اور انکی صحیح طور پر خدمت کر کے انسانیت کی رہنمائی کرسکیں اور انہیں اپنا اور اپنے دین و شریعت کا پھر سے گرویدہ بنا سکیں۔
ہمیںسب سے پہلے سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس حاصل کرنا ہوگا اور اسکا حقیقی ترجمان اور پیامبر بننا ہوگا۔ صرف زبانی باتوں سے اب ہمارا اور ہمارے دین و شریعت کا کام چلنے والا نہیں ہے! ورنہ ایک ایک کرکے ہماری شناخت مٹا دی جائے گی اور ہماری زندگی اجیرن بنا دی جائیگی اور ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے لائق بھی نہیں رہ سکیںگے۔ دوسروں کے سہارے اب کب تک جیتے رہیں گے۔ دوسرے اب ہمارے مخلص نہیں رہ گئے!! مولانا ولی اختر ندوی کی موت سے ہمیںیہی سبق ملتا ہے اور ہماری یہی تدابیر انکے لئے بڑاخراج عقیدت ثابت ہوسکتی ہیں، مسلمانوں کو اب ہر طرح سے مل جل کر سوچنا چاہئے اور اچھی تدابیر اختیار کرتے ہوئے بہترین لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے! اور دنیا والوں کے سامنے اپنی افادیت و قابلیت کا لوہا منواتے ہوئے مسلم طلبا و طالبات کو ہر میدان کے لئے کھڑا ہوجانا چاہئے اور درس و تدریس میں رات و دن ایک کردینا چاہئے۔ پبجی جیسے مشرکانہ گیموں اور فالتو چیزوں میں ضیاع اوقات سے بہر حال باز آجانا چاہئے اور خوب محنت وکوشش سے اپنی برتری ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دینا چاہئے! یہی ہمارے مسلم طلبا و طالبات سے گزارش ہے اوریہی مولانا ولی اختر کی اندوہناک موت کا حقیقی پیغام اور سبق ہے،کیونکہ آپ ہی ہماری قوم و ملت کے روشن اور تابناک مستقبل ہیں!اللہ ہماری فکر و نظر کو خوب بلند و بالا فرمائے۔اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی!!!تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن۔

Comments are closed.