ٹی وی سیریل ارطغرل(Ertugrul) کی دیوانگی ،مسلم نوجوانوں کو کیا دے گی؟

علی عدنان
سینئر انجینئر سیمسنگ انجینئرنگ انڈیانوئیڈا
آج کل انٹرنیٹ پر ارطغرل نے دھوم مچا رکھی ہے۔ خاص طور پر ہندوستان اور پاکستان کے نوجوان اس میں بہت زیادہ دلچسپی دکھا رہے ہیں۔ یہ سیریز انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ دیکھی جانے والی سيریز بن چکی ہے۔ پاکستان میں تو وزیر آعظم عمران خان نے نوجوانوں سے اسے دیکھنے کی اپیل تک کر ڈالی۔
دراصل یہ کہانی ہے تیرہویں صدی کے اناطولیہ یعنی موجودہ ترکی کی، جہاں اس کہانی کے ہیرو ارطغرل اور اس کے ساتھی بازنطینی سلطنت اور منگولوں سے لڑ کر اپنی بہادری اور جانبازی کے بل پر عظیم سلطنت، سلطنت عصمانیہ کی بنیاد رکھتے ہیں۔
قابل فکر اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ سنہری تاریخ کو پڑھ کر اور اس پر مبنی سیریز کو دیکھ کر فخر محسوس کرنا تو اچھی بات ہے لیکن کیا صرف فخر محسوس کرنے سے ہی کام چل جائے گا؟
آپ کبھی بھی دہلی کے لال قلعہ، ہمایوں کا مقبرہ يا آگرہ کے تاج محل میں چلے جائیں، وہاں سینکڑوں کی تعداد میں مسلم نوجوان عمارتوں پر لکھی ہوئی عربی عبارت کو دیکھ کر خوش ہوتے ہوئے اور فخر محسوس کرتے ہوئے، اس کے ساتھ سیلفی لیتے ہوئے مل جائیں گے۔ مگر ان میں سے کتنے لوگ وہاں کھڑے ہو کر اس بات پر غور کرتے ہیں کہ صرف ڈھائی سو سال پہلے ہم کیا تھے اور آج ہم کیا ہیں؟
ایگو، خودداری، انا (نوجوانوں کی اصطلاح میں سوائگ وغیرہ) تو پہلے ہی ہمارے نوجوانوں میں بھرا پڑا ہے (مثال کے طور پر آپ دیکھ لیجئے سلمان خان صاحب کے دیوانوں کو ) اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ ہے تعلیم سے محبت اور اس میں پکا یقین۔
هہماری ملت کے زیادہ تر نوجوانوں کی زندگی بے عملی ، خوشفہمی اور پدرم سلطان بود کے محورکے گرد گھومتی هے۔ حا لات کی سنگینی سے بے خبر، جھوٹی انا کا فریب۔
اگر ہمیں اپنا سنہرا دور واپس لانا ہے تو فخر محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی معیشت مضبوط کرنی ہوگی اور اس کے لئے ضروری ہے ایجوکیشن، پروفیشنلزم اور ماڈرن اپروچ ،یہ ایک بڑی تکلیف دہ لیکن عام سچائی ہے کہ جب ہم لوگ اپنا بزنس کرتے ہیں تو اس میں بھی ۹۵ فیصد لوگ بالکل ہی غیر پیشہ ورانہ رویہ رکھتے ہیں، زیادہ تر لوگوں کے پاس ضروری کاغذات نہیں ہوتے اور ہوتے بھی ہیں تو آدھے ادھورے۔
مثلا میرا یہ تجربہ ہے کہ جتنے بھی ہاؤس ہولڈ سروس پروائیڈرز ھیں جیسے کہ الیکٹریشن، پلمبر وغیرہ، ان میں جو مسلم ہیں ان کے اندر ہنر اور مہارت تو ہے مگر پروفیشنلزم کی بہت کمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دوسروں سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔
ہمارے طالب علم نوجوانوں میں ذہانت تو ہے مگر مستقل مزاجی اور ججھارو پن کی کمی ہے اور حالات، سسٹم کی خرابی وغیرہ کے ایکسکیوز لینے کی ٹینڈنسی زیادہ ہے۔
ایک کامیاب طالب علم، کامیاب ملازم یا ایک کامیاب تاجر ہونے کے لئے ایک منظم طرز زندگی اپنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے محلّوں کی خاص پہچان ہے دیر رات تک سڑکوں پر چہل پہل، نوجوانوں کا بے وجہ گلیوں کے چکر کاٹنا اور نتیجے کے طور پر صبح دیر تک سونا یا نیند پوری نہ ہونے کے سبب آدھی جسمانی اور ذہنی قوت کے ساتھ کام پر جانا۔
جن لوگوں نے ہندوستان کی تاریخ ے عہد وسطی دلچسپی سے پڑھی ہوگی اُنکے لیے یہ سمجھنا شاید آسان ہوگا کہ یہ شام ہوتے ہی بازاروں کا روشن ہو جانا، ہوٹلوں میں تندور کا گرم ہو جانا، بازاروں میں محفلیں سجنا وغیرہ ایک فوجی تہذیب و معاشرہ کی علامات تھیں۔ جہاں مختلف مقامات کے فوجی اپنے بیوی بچوں سے دور رہ رہے ہوتے تھے۔ آج ہم ایک رہائشی معاشرہ میں رہتے ہیں۔ ہم ایک فوجی معاشرہ کی نشانیوں کو کیوں کر اپناینگے؟
ایک سروے کے مطابق، جنوب مشرقی ایشیا (جس میں ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش وغیرہ شامل ہیں) کے مسلمانوں کی آدھی سے زیادہ آبادی کی اوسط روزآنہ آمدنی صرف ۳ ڈالر یعنی تقریباً ۲۰۰ روپے سے بھی کم ہے۔
کیا اس حال میں ہم اپنا سنہرا دور واپس لائیں گے؟
جب تک مسلم محلّوں کے نوجوان گلیوں میں رات دن کیرم کھیلتے رہینگے، جب تک موٹر سائیکل پر بیٹھ کر سیلفی اپلوڈ کرتے رہنگے اور جب تک مسلم محلوں کی شام خوبصورت ہوتی رہینگی ، یاد رکھیے ہمارا خوبصورت اور قابل فخر دور واپس نہیں آ سکتا۔ سخت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی قوم اور اپنے وطن عزیز کی ترقی کے لیئے کوشاں ہوں اور ایک نمایاں کردار ادا کریں۔
Comments are closed.