اگرمظلوم متحدہوجائیں…؟!

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی
ہرچیزکی ایک حدہوتی ہے، جب وہ اس سے آگے نکل جاتی ہے تواس پرکسی نہ کسی طرح سے روک لگاناضروری ہوجاتاہے، اگرروک نہ لگایاجائے توانسانیت تباہ ہوکررہ جائے گی؛ لیکن انسانیت پرکتنی ہی آفتیںاوربلائیںکیوںنہ آجائیں، چوںکہ اس کوقیامت تک باقی رہناہے؛ اس لئے قدرت حدسے نکلنے والی چیزوںکاتوڑضرور پیداکردیتی ہے، دنیاکی آنکھوںنے اس کی کئی مثالیںدیکھیںہیں۔
پیغمبرنوحؑ ساڑھے نوسوسال تک قوم کواس ذات کی عبادت کی دعوت دیتے رہے، جس نے ساری کاٹنات کوپیداکیا؛ لیکن جب قوم دعوت قبول نہ کرنے میںحدسے بڑھ گئی ؛ حتی کہ پیغمبرکوہی دھمکی دینے پراترآئی تو ’’طوفان نوح‘‘کے ذریعہ سے ان کوروکاگیااورآنے والی نسل کے لئے نشان عبرت بنادیاگیا، یہی حال پیغمبرابراہیمؑ، پیغمبرصالحؑ، پیغمبرہودؑ اورپیغمبرشعیبؑ کی قوموںکے ساتھ ہوا، فرعون بڑامتکبربادشاہ تھا، اس نے توخدائی کادعوی کررکھاتھا؛ لیکن اس کابھی بوریابسترلپیٹ دیاگیا، شدادکی جنت مشہورہوئی؛ لیکن ’’خودہی نہ دیکھ سکا، دنیاسے چل بسا‘‘، قارون بھی اکڑفوںدکھارہاتھا؛ لیکن اسے بھی زمیںدوزہوناپڑا، یہ تمام واقعات اس بات گواہ ہیںکہ حدسے آگے بڑھنے والے کی خیرنہیں ہے؛ لیکن یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ ’’حد سے آگے نکلنے‘‘ والوںکی خیراس وقت نہیںہوتی ہے، جب یہ منفی (Negative)پہلوسے ہو، اگریہ آگے نکلنا مثبت(Positive)پہلوسے ہوتو اس کی حدبندی نہیںکی جاتی، وہ آگے بڑھتارہتاہے اوراس کے آگے بڑھنے کوپسندبھی کیاجاتاہے۔
اس وقت پوری دنیاپراگرنظرڈالی جائے تواکثروبیشترعلاقے ایسے ملیںگے، جہاں کمزوروں پرظلم کی انتہاہوچکی ہے، ظلم اپنی حدسے آگے بڑھ چکاہے، گویابس اب ظلم کرنے والے ختم ہونے کے گگارپرپہنچ رہے ہیں، پچھلے سالوںمیں عالم عرب کے انقلابات نے اسے ثابت بھی کیا، امریکہ – افغانستان کے معاہدہ سے بھی یہ واضح ہوا، فلسطین میں اب بھی ظلم کابازارگرم ہے؛ لیکن اگربازارکی گرمی صرف اسرائیل کی طرف سے ہوتی توشایدزمانہ پہلے برف کاپانی ڈال کراس گرمی کوسردادیاگیاہوتا؛ لیکن چوں کہ وہ تنہانہیں، پس پر تقریباً پوری دنیااس کے ساتھ میںہے، نیز اس کے پاس نیوکلیئر ٹیکنالوجی بھی ہے؛ اس لئے دشواری ضرور ہورہی ہے؛ لیکن کب تک؟ناؤکاغذکی صداچلتی نہیں، ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں۔
اس وقت ایک تازہ مثال امریکہ کے مظلوموںنے دنیاکے سامنے پیش کیاہے، ایک مظلوم کے قتل کی وجہ سے پوراامریکہ کھڑاہوگیا؛ یہاںتک کہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ سیکوریٹی میں رہنے والے امریکی صدر ٹرمپ کووائٹ ہاؤس کے بنکرمیںپناہ لینی پڑی، یہ ایساواقعہ ہے، جس کولوگ ہالی ووڈ کی فلموںمیںدیکھاکرتے تھے؛ لیکن مظلوموں کے اتحادنے اس کوحقیقت کاروپ دے دیا، اس وقت کورناکی مہاماری ہے اوراس کی لپیٹ میںآئے ہوئے ملکوں کی فہرست میںامریکہ بھی ہے؛ لیکن وہاںمظلوموںکے اتحاد نے اتنابڑاحتجاجی مظاہرہ کیا، جس کی نظیراس کورونائی دور میںمل ہی نہیں سکتی، یہ مظاہرہ حق کے حصول کے لئے تھا، یہ لڑائی حق کی لڑائی تھی، اس لڑائی نے یہ ثابت کردیا کہ اگرمظلوم بھی عزم کاپہاڑبن جائیں توظالم کوجھکناہی پڑتاہے۔
امریکہ جیساسپرپاؤرملک بھی کبروغرورکے ٹٹوسے نیچے اترا اورانتظامی امورمیںآناًفاناً مظلوموں کے لوگوں بھی شامل کیا، یہ وہی مظلوم ہیں، جن پرسالوںسے وہاں ظلم کیاجاتارہاہے، ان کے حقوق کی پامالی کی جاتی رہی ہے، ان کی لنچنگ کی جاتی رہی ہے، ان کونیچے درجہ کاشہری سمجھاجاتارہاہے، ظالم یہ سمجھتے رہے ہیں کہ مظلوم کبھی بھی اپنا حق نہیں لے سکتے، یہی فرعون بھی سمجھتاتھا، یہی نمرودبھی سمجھتاتھا، یہی سابقہ دنوںمیںہٹلروچنگیزاورہلاکوبھی سمجھتے تھے، یہی کچھ سالوںپہلے تک روس بھی سمجھتاتھا؛ لیکن ان تمام کے مظالم کاگھڑاجب بھرگیاتو ان کی بساط لپیٹ دی گئی، یہی ہرظالم کے ساتھ ہوگا؛ کیوں کہ انسانیت کوقیامت تک باقی رہناہے اورظلم کے ساتھ اس کی بقاممکن نہیں۔
زمانہ ٔ جاہلیت میںبھی ظلم پایاجاتاتھا،طاقت ورکمزورپرچڑھ دوڑتے تھے، آخری پیغمبرؐکے زمانہ میں بھی اسی طرح کے ظلم کاایک واقعہ پیش آیا، اس ظلم کے خاتمہ کے لئے ’’حلف الفضول‘‘کے نام سے ایک معاہدہ عمل میںآیا، جس میںظلم کے خلاف متحدہ آوازاٹھانے کاعہدکیاگیاتھا،واقعہ یہ بتایاجاتاہے کہ یمن کاایک زبیدی ایک شخص نے بنوسہم کے عاصی بن وائل کے ہاتھ اپناسامان فروخت کیا، اس نے سامان لے لیااوررقم ادانہیںکی، یہ دیکھ کریمنی نے سامان کامطالبہ کیاتواس نے دینے سے انکارکردیا ، اب یمنی نے آخری چارۂ کارکے طورپرمقام حجرمیںآکر دہائی لگائی اورقریش کے لوگوںکومخاطب کرکے کہاکہ: ایک مظلوم پردیسی کی مددکرو، جس کاسامان بنوسہم کے ایک شخص نے لے لیاہے، نہ قیمت دیتاہے اورناہی سامان واپس کرتاہے۔
اس دہائی کوسن کرعبداللہ بن جدعان اورزبیربن مطلب نے ایک بیٹھک عبداللہ بن جدعان کے گھررکھی، جس میںبنوہاشم، بنومطلب،بنو اسدبن عبدالعزی،بنوزہرہ بن کلاب اوربنوتیم بن مرہ نے شرکت کی، اس بیٹھک میںاس بات پرمعاہدہ کیاگیاکہ کمزوروںاورمظلوموںکی حمایت کی جائے گی؛ یہاںتک کہ ہرانسان اپنے مال ومتاع اوراہل وعیال پر مطمئن ہوگا، اس معاہدہ کے وقت پیغمبرؐ تقریباً بیس سال کے تھے اوراس معاہدہ میں بنفس نفیس شریک تھے، یہ معاہدہ چوںکہ مظلوموںکی حمایت جیسے اہم امرپرتھا؛ اس لئے نبوت کے بعدبھی آپ اس کاتذکرہ بہت ہی اہمیت کے ساتھ کرتے اورفرماتے: ’’میںعبداللہ بن جدعان کے گھرہونے والے معاہدہ میںشریک تھا، (اس کے مقابلہ میں) مجھے یہ پسندنہیںکہ میرے لئے عمدہ قسم کے اونٹ ہوں اوراگرآج بھی حالت اسلام میںاس (جیسے)معاہدہ کے لئے مجھے بلایاجائے تومیںضرورآؤںگا‘‘۔
ظلم کوروکنے اورانسانیت کوبچانے کے لئے آج پھراسی طرح کے معاہدہ کی ضرورت ہے، اگردرست نیتی کے ساتھ اس طرح کامعاہدہ ہوجائے توظالم کوظلم سے روکاجاسکتاہے؛ لیکن سوال ہے کہ بلی کے گلے میںگھنٹی باندھے کون؟ یہ معاہدہ کون کرے گا؟ شیخ حرم کرسکتے تھے؛ لیکن ’’حرم رسوا ہواپیر حرم کی کم نگاہی سے‘‘؛ اس لئے ان سے امید بے فائدہ ہے، اقوام متحدہ توکٹھ پتلی ہے؛ اس لئے اس سے بھی توقع بے فائدہ ہے، توپھرہوگاکیا؟ دراصل اس وقت جوحکومتیںہیں، حقیقتاً وہ انسانیت نواز نہیںہیں، اسی لئے ان کے فیصلے انسانیت کی حفاظت کے لئے نہیںہوتے، فیصلے ایسے ہوتے ہیں، جن سے انسانیت کاسرجھک جائے، فیصلے مذہبی عصبیت کی بنیادپرہوتے ہیں، حالاں کہ فیصلے انسانیت کی بنیاد پرہونے چاہئیں، ظاہرہے کہ ایسی صورت میںحلف الفضول کی طرح کسی معاہدہ کی امیدفضول ہے، توپھرکیامظلوم مرتے رہیںگے؟ پٹتے رہیںگے؟ اپنے حقوق سے محروم رہیں گے؟اورکیاانھیںنیچے درجہ کاشہری سمجھاجاتارہے گا؟
ان تمام سوالوںکاجواب امریکہ کے حالیہ حالات میںپوشیدہ ہیں کہ ’’راستے بندہوں، جب کوچۂ قاتل کے سوا‘‘ توپھرمظلوموںکوکیاکرناچاہئے؟ پوری دنیا میںجہاں کہیں بھی مظلوم ہیں، اگروہ اپنے دل سے ظالم کاخوف نکال باہرکریں اورمتحد اوریک جٹ ہوکرظالم کے خلاف صف آراہوجائیںتوظالم کواپنے ظلم سے بازآناہی ہوگا، مظلوموں کوان کاحق دیناہی ہوگا، آج امریکہ کے مظلوموں نے راستہ دکھایاہے، کل عالم عرب کے باشندوںنے بھی دکھایاتھا، اب راستہ چننا ہماراکام ہے، لوگوںکاکام راستہ دکھاناہے، وہ دکھاچکے ہیں اوروہ دکھارہے ہیں؛ لیکن مظلوم جب تک خود اپنی حالت بدلنے کے لئے تیارنہ ہوں، اس وقت تک کوئی بھی ان کی حالت نہیں بدل سکتا:
خدانے آج تک اس قوم کی حالت نہیںبدلی
نہ ہوجس کوخیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
[email protected] / Mob:8292017888
Comments are closed.