کیا آئندہ صدارتی انتخابات میں امریکی سیاست میں فوج کا کردار ایک بڑا مدعا بنے گا..!

محمد عباس دھالیوال
مالیر کوٹلہ ،پنجاب
گزشتہ ماہ کے آخر میں امریکی پولیس کی تحویل میں ایک سیاہ فام جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد شروع ہوئے مظاہرے ابھی تک تھمے نہیں ہیں . حالانکہ اس سے پہلے مظاہروں اور بدامنی پر قابو پانے کے لیے کئی شہروں میں فوج تک کی تعیناتی کرنی پڑی۔
اس سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ جنھوں نے ایک نسلی ٹویٹ کیا تھا جس سے پورے دیش کے حالات بےقابو ہو گئے تھے اپنے ٹویٹ میں ٹرمپ نے لکھا تھا کہ لوٹ مار ہوتی ہے تو گولی باری ہوتی ہے یعنی ( ووہین لوٹنگ سٹارٹس، شوٹنگ سٹارٹس) یہاں قابل ذکر ہے کہ مذکورہ بالا الفاظ ٹرمپ کے منہ سے اچانک نکلنے والے الفاظ نہیں تھے بلکہ یہ نسلواد سے جڑا ایک پرانا محاورہ ہے. یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کے مذکورہ بیان پہ تبصرہ کرتے ہوئے ہیوسٹن پولیس کے اعلیٰ افسر ایسویڈو نے ایک ٹیلی-ویژن پروگرام کے دوران کہا کہ ٹرمپ اگر کچھ اچھا نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنا منہ بند رکھیں. انھوں نے یہ بھی کہا کہ ٹرمپ نوجوانوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں. یہ وقت طاقت دکھانے کا نہیں بلکہ دلو پر فتح پانے کا ہے. انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ یہ ہالی وڈ نہیں بلکہ حقیقی دنیا ہے۔
جس کے بعد وہاں کئی طرح کے سولات اٹھائے گئے۔ اسی ضمن میں وائس آف امریکہ کی پینٹاگان کے لیے نمائندہ کیرلا باب نے اپنی ایک رپورٹ میں جائزہ لیا ہے کہ امریکی عوام کے تحٖفظ کے لیے فوج کے غیر سیاسی رہنے کی طویل روایت کی کیا امپورٹینس ہے۔ مذکورہ تجزیاتی رپورٹ میں خلاصہ کیا گیا ہے کہ اس پہ نکتہ چینی کا آغاز دراصل واشنگٹن ڈی سی کی ایک شاہراہ پر پرامن مظاہرین کے خلاف امریکی فوج کے نیشنل گارڈز کو استعمال کرنے کے بعد سے ہی شروع ہو گیا تھا. جس نے اب سول سوسائٹی میں فوج کے کردار پر ایک مباحثے کی صورت اختیار کر لی ہے۔
یونیورسٹی آف پنسلوانیا کے لا سکول سے منسلک ریٹائرڈ جنرل جوزف ووٹل کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ اس سے ایک ایسی صورت حال پیدا ہوئی جس سے فوج کے اعتماد کو دھچکا لگا۔ان ماننا ہے کہ ایک سیاست سے پاک فوج قوم کی بہتر خدمت کر سکتی ہے، اور یہی امریکہ کے بانیوں کا منشا اور خواہش تھی اور یہی وجہ ہے کہ امریکی فوج کو امریکہ کے سب سے محترم ادارے کی حیثیت حاصل ہے۔
جبکہ اس ضمن میں کئی ریٹائرڈ اعلیٰ فوجی عہدے دار صدر ٹرمپ کی جانب سے امریکی شہروں میں مظاہروں کو روکنے کے لیے ہزاروں حاضر سروس فوجی تعینات کرنے کی دھمکی کے بعد اس پر گفتگو کرنے کے لیے سامنے آئے۔
ایڈمرل ریٹائرڈ مائیک مولن، جو سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف رہ چکے ہیں کا کہنا ہے کہ جب ہم اپنے شہروں اور اپنے عوام پر تسلط قائم کرنے کے امکانی تنازع پر توجہ مرکوز کرتے ہیں تو یہ چیز انتہائی خوف زدہ کر دیتی ہے کہ ہم نے اس بارے میں کچھ نہیں کیا، جب ہم پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھیں گے اور اس لمحے کو یاد کریں گے، کیونکہ یہ وہ لمحہ تھا جس میں ہمیں حقیقتاً کچھ کرنے کی ضرورت تھی۔
پنٹاگان کے عہدے دار یہ بات زور دے کر کہہ چکے ہیں کہ نہ ہی جنرل مارک مائلی کو اور نہ ہی وزیر دفاع ایسپر کو صدر ٹرمپ کے ارادوں کا علم تھا اور وہ صرف ان کے ساتھ لافیا سکوائر میں تعینات نیشنل گارڈز کے اہل کاروں کا ان کی خدمات پر شکریہ ادا کرنے گئے تھے۔
ایسپر کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے ‘میدان جنگ جیسے تبصروں پر معذرت کر لی ہے اور جنرل مائلی نے جمعرات کے روز صدر کے ساتھ لافیا سکوائر جانے کے فیصلے کو ایک غلطی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے انہوں نے سیکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے وہاں نہیں جانا چاہیے تھا۔ وہاں میری موجودگی سے ایک ایسا ماحول پیدا ہوا جس سے یہ تاثر گیا کہ فوج ملکی سیاسی میں ملوث ہے۔
فوج کا غیر سیاسی کردار روایت سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے، کیونکہ فوج کا ہر اہل کار ملازمت شروع کرتے وقت یہ حلف اٹھاتا ہے کہ وہ سیاست سے دور رہے گا۔
جبکہ مذکورہ کرائسس پہ فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز کے بریڈلی برومین کا کہنا ہے کہ فوجی یہ حلف نہیں اٹھاتے کہ وہ صدر کی حمایت اور مدد کریں گے، کسی بھی صدر کی، چاہے وہ ری پبلیکن ہو یا ڈیموکریٹ، چاہے عورت ہو یا مرد، وہ امریکہ کے آئین کی حمایت اور تحفظ کا حلف اٹھاتے ہیں۔
سابق وزیر دفاع ولیم کوہن کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ میں حکومت کے حوالے سے ملکیت کا احساس بہت زیادہ نظر آتا ہے جب وہ اس طرح کے بیانات دیتے ہیں کہ یہ میری فوج ہے، یا میرے جنرل، یا میرے جج ، تو اس سے ملکیت کا احساس ابھرتا ہے۔
امریکہ میں نومبر میں صدارتی انتخابات کا انعقاد ہونا ہے جس کو دیکھتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ اب جب کہ صدارتی انتخابات کے مباحثوں کے درمیان ملکی مسائل میں فوج کا کردار بھی ایک اہم موضوع کی شکل اختیار کر سکتا ہے. ہوم لینڈ سیکیورٹی کے سابق وزیر چارلس جانسن کا ماننا ہے کہ ان مذکورہ صدارتی انتخابات میں فی الواقع فوج کا امتحان ہو گا کیونکہ موجودہ صدر انہیں اپنے سیاسی ایجنڈے میں بھی کھینچنے کی کوشش کریں گے۔
یہاں قابل ذکر ہے کہ امریکہ میں نومبر میں منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات میں اس بار ٹرمپ کے مقابلے ڈیموکریٹک پارٹی نے اپنے صدارتی امیدوار کے طور پر جوء بائیڈن کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ لیا ہے. بائیڈن جو کہ براک اوبامہ کے عہدِ صدارت میں امریکہ کے نائب صدر کے عہدے پر فائز رہے ہیں اس کے علاوہ بائیڈن کے پاس خارجہ پالیسی کا دہائیوں پرانا تجربہ بھی موجود ہے . ماہرین کی رائے ہے کہ ٹرمپ کے مقابلے میں بائیڈن ایک اچھے مقرر ہیں جو اپنی طرف عوام کو کھنچنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں. اس کے ساتھ وہ ایک ایسے شخص ہیں جنہوں نے اپنی ذاتی زندگی میں دکھ درد کا بہادری کے سامنا کیا ہے. اب دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ موجودہ امریکی صدر جو کافی بڑبولے خیال کیے جاتے ہیں. بائیڈن کا سامنا کیسے کر پاتے ہیں۔

Comments are closed.