جب کوئی فتنہ زمانہ میں نیا اٹھتا ہے

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
بی جے پی کے دور اقتدار میں سب سے زیادہ ترقی فرقہ وارانہ منافرت کو ملی ہے ، مسلمانوں پر ظلم وستم کی گرم بازاری پر بولنے والو ں کی زبانیں گنگ ہو گئی ہیں، ایک ہی جرم کے لیے انصاف کے الگ الگ پیمانے وضع ہو گیے ہیں اور کسی بھی نا گفتہ بہہ صورت حال کو مسلمانوں کے گلے منڈھنے کا مزاج عام ہو گیا ہے ، سیاسی لیڈران اور گودی میڈیا کا کردار اس سلسلے میں خاص طور پر قابل مذمت ہے، مثال کے طور پر دہلی فساد ، تبلیغی جماعت سے متعلق معاملات اور ہھتنی کی کیرالہ میں ہلاکت کے واقعہ کو خاص طور پر پیش کیا جا سکتا ہے ، دہلی فسادجن مرکزی وزراء اور فرقہ پرست طاقتوں کے ذریعہ اشتعال انگیزی کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوا، اس سے عوام پورے طور پر واقف ہے، لیکن وہ تمام لوگ کھلے عام گھوم رہے ہیں، اور گرفتار وہ لوگ کیے گیے ہیں جو اپنی دفاع کے لیے آگے آئے یا لوگوں کے تحفظ کے لیے کام کرتے رہے، تبلیغی جماعت کے خلاف مہم میں وہی ہوا، یوگی جی نے اجودھیا جاکرپوجا ارچنا کی؛ جس میں لوگوں کی بڑی بھیڑ جمع ہوئی ، آنند وہار، گاندھی میدان غازی آباد ، سورت اور ممبئی کے اسٹیشنوں پر مزدوروں کی بھیڑ میں سماجی فاصلے اور سوشل ڈسٹنسنگ کا لفظ بے معنی ہو کر رہ گیا ، لیکن بجلی، بنگلہ والی مسجد اور جماعت والوں پر گری، اور جو ذلت آمیز سلوک ان کے ساتھ کیا گیا وہ انسانیت کو شرمسار کرنے والا ہے ، گودی میڈیا نے اس کا پروپیگنڈہ اس قدر کیا کہ ایک مخصوص طبقہ ڈاڑھی ٹوپی والے اور مسلمان سبزی بیچنے والے تک سے نفرت کرنے لگا، بہت سارے واقعات مسلمانوں کے قتل کے ہوئے، لیکن اس پر کوئی واویلا نہیں مچا، بلکہ جب مہاراشٹرا میں دو پنڈت اور ایک گاڑی ڈرائیور کا قتل ہوا تو فرقہ پرستوں نے اسے بھی مسلمانوں کے نام کرکے فساد کی آگ بھڑکانے کی کوشش کی ، وہ تو حکومت کی مستعدی سے آٹھ گھنٹوں کے اندر ایک سو ایک لوگ اس قتل کے ملزم کے طور پر گرفتار ہوئے، اور ان میں ایک بھی مسلمان نہیں تھا تب اس سازش کی ہوا نکلی، ذرائع ابلاغ کو چاہیے تھا کہ وہ اسی پیمانے پر اس کی تشہیر کرتے کہ یہ کام دوسروں نے نہیں کیا، بلکہ ہم مذہب نے ہی پنڈت جی کا قتل کیا ہے، لیکن وہ ایسا اس لیے نہیں کر سکتے تھے ، کیونکہ یہ بات ان کے آقاؤں کے خلاف جاتی اور جنہوں نے اپنا قلم دربار میں گروی رکھ دیا ہے اور زبان پر حکومت مخالف بات کرنے پر پہرہ بٹھا رکھا ہے، ان کے لیے یہ کسی طور ممکن نہیں تھا ، تازہ واقعہ کیرالہ میں ہتھنی کی ہلاکت کا ہے ، یہ پارک سے نکل کر آبادی میں آگئی تھی اور جنگلی سور کے ذریعہ فصلوں کو تباہی سے بچانے کے لیے بعض پھلوں میں کسانوں نے پٹاخے بھر دیے تھے تاکہ وہ اس مصیبت سے نجات حاصل کریں ، اتفاق سے ایک پٹاخہ رکھا ہوا انناس اس بھوکی ہتھنی کے منہ لگ گیا ، اس کی وجہ سے اس کے جبڑے اڑ گیے اوروہ تین دن تک پانی میں حیات وموت کی کشمکش میں مبتلا رہی ، جانور سے محبت رکھنے والے کسی نے بھی اس کو بچانے کی کوشش نہیں کی، تین دن بعد جب وہ مر گئی تو اس نام پر طوفان کھڑا کرنے کا بیڑہ بی جے پی اور فرقہ پرست طاقتوں نے اٹھا لیا، کیرالہ بی جے پی کی دال اب تک نہیں گلی ہے، اس لیے بی جے پی کے اس ہنگامہ کو عوامی حمایت نہیں ملی اور جانچ ایجینسیوں کے حوالہ اس کی تحقیق کر دی گئی تو معاملہ کچھ ٹھنڈا گیا، اب یہ معاملہ سپریم کورٹ پہونچ گیا ہے ، ایک وکیل اودھ بہاری کو شک نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کرکے یہ درخواست کی ہے کہ اس معاملہ کی جانچ عدالت کی نگرانی میں مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) یا خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) کے ذریعہ کرائی جائے، خبر یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ اس پر جلد سماعت کرے گی۔
اسی قسم کا دو اور واقعہ دہرہ دون اور ہماچل پردیش میں پیش آیا، دہرہ دون میں سانڈھ پر تیزاب پھینکا گیا، جس سے اس کی پیٹھ جل گئی اور ہماچل پردیش میں حاملہ گائے کو آتش گیر مادہ کھلا یا گیا، جس سے اس کے جبڑے اڑ گیے؛ چوں کہ ملزم نند لال کا تعلق دوسرے مذہب سے ہے اس لیے جانوروں پرکیے گیے ان مظالم کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھا رہا ہے اور نہ ہی گودی میڈیا اس کی رپورٹنگ کر رہی ہے ، مینیکا گاندھی کو بھی کوئی گرانی نہیں ہوئی جب کہ ہتھی والے حادثہ پر ان کا بیان ضرورت سے زیادہ اشتعال پیدا کرنے والا تھا، اگر اس معاملہ میں کسی مسلمان کا نام آتا تو فورا ہی میڈیا والے آسمان زمین ایک کر دیتے اور فسادات برپا کرا دیتے؛ کیوں کہ گائے تو ان کی ماتا ہے اور ہماچل پردیش میں ان کی ماں کا قتل ہوا تھا۔یہ دہرا رویہ ہے جو دھیرے دھیرے ہندوستان میں ناسور بنتا جا رہا ہے اور اس کی وجہ سے منافرت میں اضافہ ہو رہا ہے ، جو ملک کی یک جہتی ، سا لمیت اور بقا کے لئے مستقل خطرہ ہے ، اب ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ پانی سر سے اونچا نہیں ہوا ہے، پانی اب تو خطرے کے نشان سے اوپر بہہ رہا ہے ، لیکن اب بھی موقع ہے کہ حکمراں جماعت اور جمہوری اقدار پر یقین رکھنے والے سیاست داں میدان میں آئیں اور اس دہرے رویہ اور ہندو مسلم کے لیے انصاف کے الگ الگ پیمانے کے خلاف تحریک چلائیں ، ملک کو بچانا ہے تو ہر محب وطن شہری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سمت میں جو کر سکتا ہو، کرے۔
Comments are closed.