ہزاروں آفتیں لے کر کورونا کا وبال آیا!

ڈاکٹر آصف لئیق ندوی
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآ باد
موبائل :8801589585
اِس پرفتن دور اور وبائی آفتوں کے زمانے میں بھی جہاںمسلمانوں کی شبیہ کافی خراب کی جارہی ہے اور امت مسلمہ کی سچی تصویر بگاڑ کر پیش کی جارہی ہے، اسلام مخالف اور فرقہ پرست افراد بشمول گودی میڈیا اس بات کی ہرممکن کوشش کر رہی ہے کہ مسلمانوں کو خیر امت اور خیر خواہ انسانیت کے لقب کے بجائے کیسے انہیں قاتل اورظالم شمار کرایا جائے؟ صلح پسند اور محبت کے پیامبر کے بجائے کیسے انہیںجنگ جو اور لڑاکوثابت کیا جائے؟ امن کے داعی اورعدل وانصاف کے پیکر کے بجائے کیسے انہیں شدت پسنداور سخت گیر کے عنوان سے پوری دنیا میں متعارف کرایا جائے؟ تمام دشمنان اسلام بشمول یہودی لابی اس بات کیلئے ایک پلیٹ فارم پرمتحد اور جمع ہیں کہ کیسے اسلام اور مسلمانوں کوہر اعتبار سے کمزور بنا یا جائے؟کیسے انکی نسل ،آبادی اور انکی تہذیب کو پھلنے اور پھولنے سے روکا جائے؟کیسے علم و ہنر اور حکمت وقیادت کے میدان میںترقی سے پیچھے کیا جائے؟ بلکہ بعض تو یہ چاہتے ہیں کہ کیسے انہیں صفحہ ہستی سے ہی مٹادیا جائے ؟جس کے لئے بے شمار سازشیں ہورہی ہیں !! مگر جن کو خدا رکھے انکو کون چکھے!!
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز!!!!! چراغ مصطفوی سے شرار بو لہبی
اسوقت خودہمارے وطن عزیز یعنی ملک ہندوستان میںاقلیتوں خصوصا مسلمانوں کے خلاف بھید بھاؤ اورنفرت وعداوت کا ماحول عروج پر ہے بلکہ فضا ہی انکے خلاف گرمانے کی کوشش کی جارہی ہے،فرقہ پرست پارٹیوں اورشر پسند تنظیموں نے مسلمانوں کے خلاف محاذ آرائی کا طویل سلسلہ ہی کھول رکھا ہے، مرکزی سطح سے گنگاجمنی تہذیب کو مٹانے کی مختلف کوششیں ہورہی ہیں اور مسلمانوں کے خلاف تو روز آنہ کہیں نہ کہیں ناگفتہ بہ واقعات پر واقعات پیش آرہے ہیں،مسلم عورتوں کے ساتھ انصاف کے بہانے تین طلاق کا غیر شرعی قانون مسلم عورتوں سے ہمدردی کے نام بنایا گیا،مگراسکے بعد کتنی عورتوں کی عزت سے کھلواڑ ہوا ،انکو بیوہ بنا دیا گیا، کتنوں کو اولاد سے محروم کردیا گیا، ابھی بھی مسلم خواتین کی آوازحاملہ صفورا زرگرجیل کی دشواریوں برداشت کررہی ہیں، سنگین دفعات کیوجہ سے رہائی کی کوئی صورت نہیں بن پا رہی ہے، کیا یہی مسلمان عورتوں سے ہمدردی ہے کہ انکے دستوری مطالبات بھی تسلیم نہ کئے جائیں ! آخر انکی قابل رحم بہن جیل کی کوٹھری میںکیوں قید ہیں ؟
اقلیتوں کی بابری مسجد کی جگہ رام مندرکو قانونی اور عدالتی حیثیت دے دی گئی! شرپسندوں کے حوصلے مزیدبلند ہوگئے، اب گیان واپی ۔متھرا عیدگاہ و مسجد کے مسائل کو پھر سے سلگائے جانے لگے ہیں،بلکہ سپرم کورٹ میںاسکی پیروی وکوشش جاری و ساری ہے،یہانتک کہ مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کے ہتھکنڈے بھی اپنائے جارہے ہیں،ان کی ضمیر اور روح کے خلاف ہرطرح ناپاک کوشش ہورہی ہے۔ جیسے مندر۔مسجد جھگڑا، قتل وغارت گری، حق تلفی و ناانصافی اور ظلم و ستم کو روارکھنے کے لیے میڈیا، عدالت، حکومت اور آئین کا سہارابھی لیا جارہا ہے، انکی شریعت و عبادت، رسم و رواج اور کھانے پینے کی اشیاء پر بھی پابندیوں عائد کی جارہی ہیں، اس کے لیے کورٹ اور ججوں کا سہارا لیا جارہا ہے۔ آخرکسی مخصوص طبقہ کیساتھ ایسامتضادرویہ اور کھلواڑکب تک ہوتا رہے گا؟اور کب تک مسلمان خاموش بنے بیٹھے رہیں گے؟
حد تو یہ ہے کہ ظلم کے خلاف صدائے حق بلند کرنے والوں پر بھی طرح طرح کے مقدمات لادے جارہے ہیں اور ہندو راشٹریہ کے قیام کے لئے رکاوٹ بننے والوں پر ظلم و ستم ہورہا ہے ، اسکے ہرممکن طریقے کواختیار کیا جارہا ہے اور تمام جرائم و مظالم کو جائز سمجھا جارہا ہے اور راستے کی تمام رکاوٹوں کویکے بعد دیگرے ہٹایا جارہا ہے، پر امن مظاہروں میں قیادت کرنے والوں کو یا تو گرفتار کر لیا جارہا ہے یا ان پر مقدمات کے سنگین دفعات لگا کر انکی زبان و قلم کوہی خاموش بنا دیا جارہا ہے ، کیسی کیسی ناپاک کوششیں ہورہی ہیں؟ انسان تو انسان جانور بھی شرماجائیں! مقصد یہی ہے کہ کیسے ہندو راشٹریہ کے لئے مکمل راہ ہموار کی جا ئے!!اسکے لیے نئے نئے قوانین کبھی مذہب کے نام پر تو کبھی شہریت ترمیم ایکٹ کے نام پر وضع کئے جارہے ہیں، اس کے خلاف بولنے والوں کوکھلے عام غدار وطن کہہ کر گولی مارو! والے نعرے ،بھید بھاؤ اورنفرت و عداوت والی سازشیں رچی جارہی ہیںیہاں تک کہ ہندومسلم فساد کی آگ سلگانے کے لئے مافیاؤں کو میدان میں اتارا جارہا ہے ۔جنکی وجہ سے دہلی ، یوپی اور گجرات جیسے شہروں میں مسلم کش فسادات رونما ہوئے۔مگر مسلمانوں کی بدقسمتی ہی کہیے کہ ـ جسکی لاٹھی اسکی بھینس !! ظلم و فساد اور خون کی ہولی کا پورا الزام انہیں نہتھے مظلوموںکی عزت و آبرو، جان ومال اور دولت و ثروت لوٹنے اور جلانے کے باوجود بھی انہیں مسلمانوں کے سر پر ڈال کرظالم اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر مسکرارہاہے ۔مگر یہ بات ہمیشہ یاد رکھیے کہ! ظلم آخر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے!!! خون آخر خون ہے گرتا ہے توجم جاتا ہے۔
ان تمام غیر دستوری قوانین و کارروائیوں کے خلاف ملک میں کہیں اگر مظلوم پرامن احتجاجات ومظاہرے پر اتر آئیں توانکو بھی اس بات کی اجازت نہیں دی جارہی ہے، بلکہ اس پرامن احتجاج کو ہی غیر دستوری عمل قرار دے کرجرم کی فہرست میںشامل کیا جارہا ہے، اب تو کورونا وبااور لاک ڈاؤن کے عرصے میں بھی سی اے اے کے پر امن مظاہرین کی بے جا گرفتاریاں ہورہی ہیں اوران پر سنگین الزامات ودفعات کے ذریعے انکی زندگیوں کو دوبھربنائی جارہی ہے اوراسطرح مظلوموں کو صدائے حق بلند کرنے کی آزادی کو کچلنے کی کوشش ہورہی ہے اورسیاسی حربوں اورسازشوں کا جال پھیلا کر ظالموں کے حوصلے بلند اور مظلوموں کے عزائم پست کئے جارہے ہیں؟مگر سن لیجئے کہ!اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے!!!!اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کے دباؤگے۔
جب کہ مسلمانوں نے کورونا وبا کی اس آزمائش کی گھڑی میںبے شمار مصائب و تکالیف کے باوجود حکمراں طبقے کے ہر حکم کی تعمیل پر تعمیل کرتے چلے آرہے ہیں، مدرسوں،مسجدوں اور دین وشریعت کی تمام اجتماعی سرگرمیوں کی قربانیاںبھی پیش کرکے اپنی انسانیت اور ملک دوستی کا فریضہ ادا کررہے ہیں ،آفتوں کے اس عالم میں بھی بلاامتیازمذہب و ملت پوری انسانیت کی ہر ممکن خیر خواہی کررہے ہیںاور خصوصا مزدور اور کمزور طبقوں کو بھر پور مددفراہم کررہے ہیں، مگر افسوس کہ حکومت انکی ستائش و حوصلہ افزائی کے بجائے انہیں سازشوں کے نرغے میں ڈالتی جا رہی ہے حتی کہ کورونا وباکا براہ راست مسلمانوں پرالزام لگا کر دعوت و تبلیغ،اجتماعی عبادت و ریاضت اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکے شاندار فریضے پرہی اپنی سرکاری اور سیاسی تلوار لٹکا رکھی ہے نیز جماعت تبلیغ کے سر براہ مولانا سعدصاحب مسلسل پولیس کے عملہ کی نظروںمیںمقیدہیں۔جوکافی دکھ اور افسوس کی بات ہے۔ اس سلسلے میں راقم السطور کا تازہ شعرہے کہ ۔ نہ توبہ کی جفاؤں سے نہ خالق کا خیال آیا!!!!!! ہزاروں آفتیں لے کر کورونا کا وبال آیا۔
اسی طرح چند ماہ قبل سی اے اے کے خلاف ملک کے مختلف صوبوں میں مسلم مخالف قانون سی اے اے کے خلاف شاہین باغ میں جو احتجاج قائم ہوا تھا، خاص طور سے دہلی کی شاہینوں نے دیگر مذاہب و ادیان کی بہنوں اور ماؤں کے ساتھ مسلسل تین ماہ سے زائدکے عرصے تک اپنا گھر باڑ چھوڑ کر سراپا احتجاج بنی رہیں اور حکومت سے مطالبات پیش کرتی رہیں،جسکا کوریج پوری دنیا میں ہوا۔ مگربی جے پی کی برسر اقتدارمرکزی حکومت اور اس کے اوچھی سیاستدانوںنے تمام اقلیتوں خصوصامسلمانوں کے دستوری مطالبات کو نہ صرف غیر اخلاقی اور تخریبی تنقید کا ہدف بنادیا اور انکے خلاف محاذ آرائی ہی کھول دی،گودی میڈیااور شرپسندوں نے مختلف نازیبا الزامات،ناپاک سازشوں اورمتعدد ظلم وستم کاپے در پے نشانہ بنایا۔مگر کورونا وبا اور شرپسندوں کی سازشوں نے انہیںبادل نخواستہ جگہ سے کھسکنے پر آمادہ کیا اورخیر کے کاموں میں حکومت کا ساتھ دے کر اپنا مقام اونچا کیا مگر آج بھی ہماری وہ خواتین حوصلہ مند ہیں اوراس بات کی منتظر ہیں کہ سی اے اے، این پی آر + اور این آر سی جیسے سیاہ اور غیر آئینی قوانین اور بلوں کو حکومت واپس لے گی اور انکاطویل احتجاج رنگ لائیگا! مگرحکومت ہرگز یہ سمجھے کہ ہمارے مطالبات اور ارادے پست پڑ گئے ہیںاگرچہ فی الوقت مطالبات کی تسلیم کا مسئلہ موہوم نظر آر ہا ہے ، فی الوقت کورونا وبا نے دشمنوں کے عزائم بلندکردیے ہیں اورپرامن مظاہرین کو مجبور محض بناکر رکھ دیا ہے۔
مگر ہمارا ضمیر زندہ ہے ہم آخری دم تک ہر ممکن دستوری جد وجہد کریں گے ؟افسوس ہے کہ حکومت کی نیت صاف نہیں ہے وہ کورونا وبا کے باوجود اپنے کسی بھی عمل اور سازش سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹی ہے، بلکہ اس نے موقع کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی راہیں صاف کر نے کی کوشش کی ہے اور ہم کو ہرطرح سے پارالائز بنا کر اپنے گھر وں میں مقید اور گرفتارکردیا ہے، اور ڈر اور خوف پھیلانے کا ہنوز سلسلہ جاری ہے ،نہ توہمارے مدرسے کھلے ہیں اور نہ ہی ہماری مسجدیں سب کے لیے کھلی ہیں ۔مسلمان اپنے سکون واطمینان کو دوسروں کے لئے قربان کر رہے ہیں حتی کہ مسجدوں میں طویل دیر رہ کر اپنے رب سے راز و نیاز کی باتیں اور مناجات مقبول کرنے سے بھی عاجز بنا دیے گئے ہیں۔ عید کا عظیم تہواربھی عظیم طریقے پر منانے سے اسی کورونا کی نذر ہوگیا ہے۔ مسلمان اپنی ہرطرح کی قربانیاں پیش کرتے آرہے ہیںاور اپنے صبر کا بھر پور مظاہرہ پیش کررہے ہیں۔ اس بات سے مخالفین کواس خوش فہمی میں مبتلا نہ رہنا چاہیے کہ مسلمان کمزور پڑ گئے ہیںاور انکے جذبات و احساسات ماند پڑ گئے ہیں۔
ہماری نگاہیں الحمد للہ بلندہیں، ہم سخن ور ہیں اور سخن نواز بھی ۔کوئی ہمارے صبر و آزمائش کاہرگز ناجائز فائدہ نہ اٹھائے!!مگرمسلمانو! یہ خاموش مزاجی تجھے جینے نہیں دے۔ہمیں اپنی صدائے حق کو بلند کرنے کے لئے کوئی راہ اور شکل تلاش کرنی ہی ہوگی۔ہماری خاموشی ہمیں آخرت کی سرخروئی حاصل کرنے سے بھی روکے ہوئے ہے، جبکہ حکومت کو کوروناوبا نے انکے سیاسی مفادات کے حصول، حکومتوں کے الٹ پھیر، الیکش کی تیاری اور کامپیننگ وغیرہ سے مانع نہیں بنی ہے۔سارے سرکاری دفاتر کھلے ہوئے ہیں، اب تو ہمارے تعلیمی ادارے کھلنے چاہیے! مسجدیںکسی کے لیے مقفل نہیں رہنی چاہیے! وغیر ہ وغیرہ۔کیونکہ یہ وبا لاک ڈاؤن سے جاتی تو کب کی ختم ہو گئی ہوتی ! ہر تجربہ کر کے دیکھ لیا گیا !مگر ایک تجربہ یہ بھی کر لیا جائے کہ حقیقت میں یہ وبا اسی وقت ماند پڑے گی ۔جب تک ہم اپنی روش اور رفتار بے ڈھنگی نہ بدل لیں! تمام پاپوںاور گناہوں سے توبہ و استغفار نہ کرلیں! ہر طرح کی جفاؤں اور مظالم و جرائم سے باز نہ آجائیں! انسانیت کے حقیقی خیر خواہ نہ بن جائیں! اقلیتوں کو اپنابھائی اورمخلص نہ سمجھنے لگیں!بیہقی کی روایت کا مفہوم ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا :کہ’’ کیا میں تم کو تمہاری بیماری اور اسکا علاج نہ بتادوں؟۔ صحابہ کرام نے عرض کیا۔ضرور بالضرور یا رسول اللہ !جب آپ نے ارشاد فرمایا کہ تمہاری بیماری تمہار گنا ہ و جرم ہے اور تمہارا حقیقی علاج ومعالجہ ۔۔اپنے تمام گناہوں اور جرائم سے حقیقی توبہ و استغفار ہیـ‘‘۔ اللہ ہم سب کو بشمول ارباب اقتدار کے اس بات کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
نہ توبہ کی جفاؤں سے نہ خالق کا خیال آیا
ہزاروں آفتیں لے کر کورونا کا وبال آیا
Comments are closed.