چین کو ہر محاذ پر معقول جواب دینے کی ضرورت۔۔؟

عارف شجر
حیدرآباد، تلنگانہ ۔8790193834
ٓٓ آخرکار جس بات کا دو ڈھائی مہینے سے خوف تھا، وہی حالت سامنے آہی گئے، چین نے ہندوستان سے دوستی نہ توڑنے کی قسم تو کھائی لیکن اسکی دغا بازی اور بے وفائی نے یہ ثابت کر دیا کہ یہ ہر حال میں دشمنی کا کردار ادا کرنے میں ماہر ہے اور وہ اپنے فائدے کے لئے گہری دوستی کو بھی داغدار کر سکتا ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے پوری دنیا جب کورونا وائرس جیسی خطرناک وباء سے پریشان ہے اور اسے جڑ سے ختم کرنے کے لئے ہر محاذ پر لڑ رہی ہے تو اس حالات میں بھی چین اپنی دوغلی پالیسی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔چاروں جانب سے ہندوستانی سرحدوں پر جبراًقبضہ کرنے کی حماقت کر رہا ہے۔ چینی فوجیوں کے ذریعہ پورے لداخ کے سرحد پر اس کورونا دور کے بیچ دیڑھ دو ماہ سے جس طرح بدستور کشیدگی کا ماحول بنایا جا رہا ہے اس سے ہندوستان بخوبی واقف ہے کیوں کہ وادی گلوان میں چینی فوجیوں نے جو ناجائز در اندازی کی ہے اس کے خلاف ہندوستان نے ہمیشہ اسے کرارا جواب دیا ہے لیکن چین کی حرکتیں ہمیشہ سے پیٹھ پیچھے چھرے گھونپنے کی رہی ہے۔جب فوجی افسران سطح پر دو ہفتہ سے بات چیت چل رہی ہے اس کے باوجود پیر کی نصف شب چینی فوجیوں کے ذریعہ ہندوستانی فوجیوں پر پرتشدد جھڑپ کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ سرحد تنازعہ اور اسکے لئے طے قائدے قانون پر عمل آور نظر نہیں آتااس میں کوئی شک نہیں کہمشرقی لداخ میں وادی گلوان میں پیر کی شب ہندوستان اور چین کے فوجیوں کے درمیان پرتشدد محاذ آرائی ہندوستان کے 20 فوجیوں کے شہید ہونے کی بات کہی گئی جبکہ چین کے 45سے زائد فوجیوں کے مارے جانے کی بھی بات کہی جا رہی ہے۔ مجھے کہہ لینے دیجئے کہ اتنے جان جانے کے بعد بھی گلوان وادی میں کشیدگی ختم ہونے والا نہیں ہے کیوں کہ 1975 کے بعد چین کے ساتھ ہندوستان کی پہلی بار اس طرح کی کشیدگی اور جانی نقصان ہوا ہے۔ اس سے پہلے بھی ڈوکلام اور لداخ تک میں چینی اور ہندوستانی فوجیوں کے بیچ ٹکرائو ہوتا رہا ہے لیکن یہ پہلی بار ہے کہ دونوں طرف سے فوجیوں نے اپنی جان گنوائی ہے۔وہیں وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ شریواستو نے یہ بات واضح کی ہے کہ اگر چینی فریق نے دونوں ممالک کے مابین ایک اعلی سطحی رضامندی اور اتفاق رائے پر عمل کیا ہوتا تو یہ واقعہ پیش نہ آتا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان دونوں ممالک کی سرحدوں پر امن و استحکام کو برقراررکھنے کی اہمیت کو سمجھتا ہے لیکن اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کے لئے مضبوطی کے ساتھ انتہائی پرعزم ہے۔ترجمان نے کہا کہ ہندوستان اور چین مشرقی لداخ خطے میں سرحدی صورتحال میں تناؤ کو کم کرنے کے لئے فوجی اور سفارتی چینلز کے ساتھ بات چیت کر رہے تھے۔ سینئر کمانڈروں کے مابین 6 جون کو ایک معنی خیز میٹنگ ہوئی اور تناؤ کو کم کرنے کے عمل پر اتفاق رائے ہوا۔ اسی کے مطابق علاقائی کمانڈروں کے درمیان مذکورہ اعلی سطحی اتفاق رائے اور رضامندی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے متعدد راؤنڈز کی میٹنگیں ہوئیں۔سریواستو نے یہ بھی کہا کہ ’’ہم امید کر رہے تھے کہ یہ سب آسانی سے عمل میں لایا جائے گا ، لیکن چینی فریق وادیگلوان سے لائن آف کنٹرول کا احترام کرنے کی رضامندی سے دستبردار ہوگیا‘‘۔ 15 جون کی رات دونوں طرف سے پرتشدد جھڑپیں شروع ہوئیں کیونکہ چینی فریق نے یکطرفہ طور پر حالات کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ دونوں جانب کے فوجی ہلاک ہوئے،اس سے بچا جاسکتا تھا اگر چینی فریق اعلی سطح پربننے والے اتفاق رائے کے معاہدے پر عمل کیا ہوتا‘‘۔انہوں نے کہا کہ سرحدی انتظامات کے حوالہ سے ذمہ داری ادا کرتے ہوئے ہندوستان شروع سے ہی بہت واضح رہاہے کہ اس کی سبھی سرگرمیاں لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے اندر اپنے علاقہ میں ہی محدود ہیں۔ ہم چین سے بھی اسی کی توقع کرتے ہیں۔انہوں نے کہا’’ہم اس بات کو پوری طرح سے مانتے و سمجھتے ہیں کہ سرحدی علاقوں میں امن و استحکام برقرار رکھنے اور بات چیت کے ذریعے اختلافات کو حل کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ہم ہندوستان کی خودمختاری اورعلاقائی سالمیت کو یقینی بنانے کے لئے پر عزم ہیں۔‘‘۔وزارت خارجہ کی جانب سے یہ بیان وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے درمیان اس معاملہ پر ہونے والی میٹنگ کے بعد سامنے آیا ہے۔اب یہ معاملہ پوری طرح سیاسی صورت اختیار کر چکا ہے اپوزیشن قائدین نے سرحدی تنازعہ پالیسی کو پی ایم مودی کی ناکامی قرا ر دیا ہے راہل گاندھی کا کہنا ہے کہ پی ایم مودی کو پورے حالات کے بارے میں سامنے آنا چاہئے اور ملک کے عوام کو بتانا چاہئے کہ اصل حقیقت کیا ہے۔
بہر حال! اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستانی فوج چین کو منھ توڑ جواب دے رہا ہے چاہے وہ لداخ ہو یا پھر ڈوکلام لیکن چین کو اچھی طرح سبق سکھانے کے لئے انکے پروڈکٹوں پر بھی ہندوستان میں پابندی لگانی ہوگی۔ اس کے پروڈکٹوں پر اگر ہندوستان نے پابندی لگائی اور اسے خریدنا بند کر دیا تو یقیناً اقتصادی مار بھی چین کو جھیلنی پڑے گی لیکن ایسا تب ہوگا جب ہندوستانی حکومت اس معاملے میں سختی دکھائے گی ابھی تک جو سامنے نظر آ رہا ہے اس سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ مرکزی حکومت اس معاملے میں نہ تو اپنا کوئی موقف واضح کر رہا ہے اورنہ ہی کھل کر عوام کے سامنے یہ کہہ رہاہے کہ چین کے سبھی پروڈکٹوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔ ہندوستانی حکومت کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ چین ہمارا دوست کبھی بھی نہیں بن سکتا اور نہ ہی وہ ہماری کسی طرح کی مدد ہی کر سکتا ہے اسکے ذریعہ کیا گیا قائرانہ حرکت آج ہمارے سامنے ہے اس لئے اب ضروری ہو گیا ہے کہ چینی سامانوں کی خرید و فروخت پر پوری طرح پابندی لگائی جائے اب وقت آ گیا ہے کہ چین کے سازشوں کا منھ توڑ جواب دیا جائے کیوں کہ چین امن کی زبان نہیں سمجھتا ہے اور اس عمل کرنا چین کی فطرت میں شامل نہیں ہے اس لئے ضروری ہے کہ مودی حکومت کو چینی دوغلی پالیسی کا ہر محاذ پر کرارا جواب دے تاکہ چین کو بھی یہ سمجھ میں آ جائے کہ ہندوستان 1962 والا ہندوستان نہیں ہے بلکہ یہ فوجی سطح پر پوری طرح مضبوط ہے اور مستحکم ہے چین کو ہندوستان کی سرحدوں پر لوہے کے چنے چبانے ہونگے ہندوستان ہر محاذ پر چین سے کسی بھی طرح کم نہیں ہے ہندوستانی جواب اینٹ کا جواب پتھر سے دینا جانتی ہے جس کی تازہ مثال لداخ ہے جہاں اگر20 ہندوستانی فوج شہید ہوئے ہیں تو چین کے45 فوجیوں کو بھی اپنی جان گنوانی پڑی ہے۔ اس لئے چین کو چاہئے کہ وہ اپنی ناپاک سازشوں سے باز آئے اور ناجائز طور سے قبضہ کئے گئے زمین سے فوراًہٹ جائے یا پھر انجام بھگتنے کے لئے تیار رہے۔
Comments are closed.