سنن و نوافل کی شرعی حیثیت اور حدیث ضمام بن ثعلبہؓ کی تشریح

امانت علی قاسمی
استاذ و مفتی دارالعلوم وقف دیوبند
مسلم شریف میںحضرت ضمام بن ثعلبہؓکی حدیث ہے جس میں وہ آپ ﷺ کی خدمت میں اپنی قوم کی طرف سے نمائندہ بن کر آئے تھے اور اسلام کی ماہیت و حقیقت کے بارے میں نہیں ؛ بلکہ شرائع اسلام کے بارے میں سوال کیا ، آپ ﷺ نے پہلے نماز کے بارے میں بتایا کہ پانچ نمازیں فرض ہیں، انہوں نے پوچھا کہ کیا اس کے علاوہ بھی نمازیں فرض ہیں توآپ ﷺ نے جواب دیا کہ اس کے علاوہ فرض نہیں ہیں الا یہ کہ تم نفل نماز پڑھو تو اب شروع کرنے کی وجہ سے وہ تمہارے اوپر لازم اور ضروری ہوجائیں گی اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ رمضان کے روزے فرض ہیں انہوں نے سوال کیا کہ کیا اس کے علاوہ اور بھی روزے فرض ہیں،آپ نے فرمایا نہیں مگر یہ کہ تم نفل روزے رکھو ،پھر آپ نے زکوۃ کا تذکرہ کیا انہوں نے پـوچھا کیا فرض زکوۃ کے علاوہ مزید مال کا کوئی حق ہے، توآپ ﷺ نے فرمایا نہیں مگر یہ کہ تم نفلی صدقات ادا کیا کرو، وہ صحابی چلے گئے اور جاتے وقت یہ کہا کہ خدا کی قسم میں نہ اس پر اضافہ کروں گا اور نہ ہی میں اس میں کوئی کمی کروں گاآپﷺ نے ان جذبہ اور خلوص کو محسوس کرکے فرمایا یہ کامیاب ہوگیااگر اپنی بات میں سچا ہے ۔مسلم کی روایت میں اسی قدر ہے لیکن بخاری(حدیث نمبر : ١٨٩١)میں اسمعیل بن جعفر کی روایت میں یہ اضافہ ہے فاخبرہ رسول اللہ ﷺ بشرائع الاسلام کہ آپ ﷺ نے ان کو اسلام کے تمام احکام ہی بتلائے ،ان الفاظ کے عموم میں تمام مامورات ، منہیات حج ، وتر ، صدقہ فطر ، اور نوافل و سنن وغیرہ تمام احکام آگئے ۔اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ آپ ﷺ نے ان کو تمام احکام کی اطلاع دی ، اور انہوں نے جاتے ہوئے یہ کہا کہ خدا کی قسم میں ان باتوں کی تبلیغ میں اور خود بھی ان باتوں پر عمل کرنے میں کوئی کمی زیادتی نہیں کروں گا ۔
مذکورہ باتوں سے حدیث کا مطلب بالکل واضح ہوجاتا ہے، بعض حضرات اس روایت سے نفل کے غیر ضروری ہونے پر استدلال کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے صرف پانچ نمازوں کو فرض قرار دیا اور باقی کو آپ نے نفل قرار دیا اس کا مطلب یہ ہے کہ فرض پڑھنا ضروری ہے اور اس کےعلاوہ ضروری نہیں ہے ۔حالاں کہ اگر روایت کے ظاہر کو دیکھا جائے تو جو حضرات یہ استدلال کرتے ہیں ان پر بھی اعتراض ہوجائے گا ۔روایت میں صدقہ فطر کا تذکرہ نہیں ہے جب کہ بہت سے ائمہ کے یہاں صدقہ فطر واجب اور فرض ہے ۔اسی طرح وتر کا تذکرہ نہیں ہے جب کہ وتر کے بارے میں خودحضور پاک ﷺ نے فرمایا الوتر حق فمن لم یوتر فلیس منی ، وتر واجب ہے جو وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ہے یہ جملہ آپ نے تین مرتبہ فرمایا (ابوداؤد حدیث نمبر : ١٤١٨)۔اسی طرح حدیث میں صرف مامورات کا بیان ہے منہیات کا بیان نہیں ہے کیا کوئی شخص صرف فرائض کو بجالاکر منہیات سے بچے بغیر کامیاب ہوسکتا ہے اور کیا کوئی اس حدیث کی بناء پر ترک منہیات کو غیر ضروری کہہ سکتا ہے ؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے؛ بلکہ فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ منہیات سے بچنا بھی ضروری ہے ،اس لیے مذکورہ روایت سے سنت کے ترک یا فرض کے علاوہ تمام نوافل کے غیر ضروری ہونے پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے ۔ بخاری کی روایت کو سامنے رکھ کر یہی کہا جائے گا کہ آپ ﷺ نے تمام احکام کا تذکرہ کیا تھا اور انہوں نے ان تمام احکام کو قبول کرتے ہوئے یہ کہا کہ میں ان احکام میں کمی یا زیادتی نہیں کروں گا۔ بخاری کی بعض روایت میں یہ بھی ہے کہ لا اتطوع شئا ولا انقص مما فرض اللہ علی شیئایعنی صرف فرائض پر عمل کر وں گانہ فرائض میں کمی کروں گا اور نہ ہی نفلی عبادت کروں گا۔ بظاہر اسمعیل بن جعفر کی دونوں روایت میں تعارض ہے اس لیے ان میں سے ایک کے الفاظ صحیح ہیں اور دوسری روایت بالمعنی ہیں ۔لا ازید علی ہذا و لاانقص کا حضرات محدثین نے مختلف جواب دیا ہے،علامہ ابن بطال فرماتے ہیں ؛اس حدیث کا مطلب اوامر کی محافظت کا اور اہتمام سے اسے بجالانے کا عہد او رخبر ہے اوریہ قول اس درجہ میںہے کہ جب جب اس کے سامنے اللہ یا رسول اللہ کا کوئی امر آئے گا خواہ فرض سے متعلق ہو یا سنت سے متعلق ہو وہ اس کی طرف سبقت کرے گا۔لہذا یہ کہناکہ سنت کے ترک میں کوئی حرج نہیں اور کوئی گناہ نہیں اس کا مذکوہ حدیث سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ يحتمل أن يكون قوله: تمت والله لا أزيد على هذا ولا أنقص – على معنى التأكيد فى المحافظة على الوفاء بالفرائض المذكورة، من غير نقصان شىءٍ من حدودها، كما يقول العبد لمولاه إذا أمره بأمر مهم عنده: والله لا أزيد على ما أمرتنى به ولا أنقص، أى أفعله على حسب ما حددته لى، لا أخل بشىءٍ منه، ولا أزيد فيه من عند نفسى غير ما أمرتنى به، ويكون الكلام إخبارًا عن صدق الطاعة وصحيح الائتمار. ومن كان فى المحافظة على ما أُمِرَ به بهذه المنزلة، فإنه متى ورد عليه أمرٌ لله تعالى أو لرسوله فإنه يبادر إليه، ولا يتوقف عنه، فرضًا كان أو سُنَّةً. فلا تعلق فى هذا الحديث لمن احتج أن تارك السُّنن غير حَرِجٍ ولا آثمٍ، لتوعد الله تعالى على مخالفة أمر نبيه. وبهذا التأويل تتفق معانى الآثار والكتاب، ولا يتضاد شىء من ذلك.(شرح صحیح البخاری لابن بطال ١/١٠٥) علامہ کشمیری ؒ فرماتے ہیں کہ صحابی رسول نے اپنے لیے خصوصی رخصت کا مطالبہ کیا تھا اس لیے ٖآپ ﷺ نے ان کو خصوصی رعایت دے دی تھی اس طرح کی بہت سی مثالیں کتب حدیث میں موجود ہیں، شہادت کے باب میں دو گواہی ضروری ہے لیکن ایک صحابی کو آپ نے تنہا دو کے قائم مقام کردیا تھا تو اس طرح کی مثالیں عام قاعدے سے مستثنی ہوتی ہیں ،اسے عام قاعدے کے طور پر پیش کرنا درست نہیں ہے ۔والوجه عندي أن هذا الرجل جاء إلى صاحب الشريعةَ واسترخَص منه بلا وَاسطة، فرخَّصَ له الشارع خاصة، فيصير مستثنى من القواعد العامة، كما في الأضحية «ولا تجزىء عن أحد بعدك». وهذا أيضًا باب يعلمه أهل العرف، فلا أثر له على القانون العام، فمن أراد أن يترخصَ برخصتِهِ فليسترخَّص من الشارع، وإذ ليس فليس(فیض الباری ١/٢١٧)ایک جواب حضرت شیخ الہند نے دیا ہے ،کبھی کبھی ایک چیز کی نفی مقصود ہوتی ہے مگر ساتھ ہی میں تحسین کلام یا تاکید و مبالغہ کے لیے اس کی ضد کی بھی نفی کردی جاتی ہے مثلا بیچنے والے سے خریدار پوچھتا ہے قیمت میں کمی بیشی ہوگی یا نہیں ؟ اسی طرح تولتے وقت خریدار کہتا ہے کہ اچھی طرح وزن کرو کم و بیش نہ ہو ، ظاہر ہے کہ یہاں مقصود کمی کی نفی ہے زیادتی کی نفی نہیں اور پہلی مثال میں کمی مقصود ہے نہ کہ زیادہ کرانا تو اسی طرح صحابی کا مقصود کلام لا انقص ہے لا ازید تحسین کلام کے لیے ہے یا تاکید و مبالغہ کے لیےہے  (نفع المسلم ص: ١٢٣)اس لیے روایت کےظاہر سے یہ سمجھنا کہ صرف فرض پر عمل کرنا ضروری ہے اور فرض کے علاوہ پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے یہ غلط ہے ،اس طرح کے ایک واقعہ سے جس میں تخصیص یا استثناء کا احتمال ہو استدلال کرنا درست معلوم نہیں ہوتا ہے بلکہ صحابہ کا تعامل اور آپ ﷺ کا توارث بھی پیش نظر رہنا چاہیے آپ ﷺ سنت کا اس قدر اہتمام فرماتے تھے کہ اگر کبھی کوئی سنت وقت سے فوت ہوجائے تو آپ نماز کے بعد اس کی قضا ء کیا کرتے تھے۔
فرض نمازوں کے علاوہ جو نمازیں ہیں اس میں بعض نمازیں وہ ہیں جن کے ادا کرنے کا آپ نے حکم دیا اور ترک پر آپ نے وعیدبیان کی ہے ایسے امور فقہاء کے یہاں واجب کہلاتے ہیں جیسے وتر کی نماز آپ نے سخت لفظوں میں کہا من لم یوتر فلیس منا جو وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ہے ، بعض وہ نمازیں ہیں جن کی آپ نے بڑی شدت سے ترغیب دی ، فجر کی سنت کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ فجر کی سنت تم ضروری پڑھو اگر چہ گھوڑے تمہیں روند دیں ظاہر ہے کہ اس تاکید کے باوجود اس کو صرف نفل سممجھ کر اس کو ترک کرنے کا جواز نکالنا کسی طرح بھی درست نہیں معلوم ہوتاہے ۔
سنت مؤکدہ کا بلا عذر ترک کرنا اور ترک پر اصرار کرنا یہ باعث گنا ہ ہونے کے ساتھ ساتھ شفاعت سے محرومی کا باعث ہے اس لیے کہ جس کا کو آپ ﷺ اہتمام سے کیا ہو، اوراس کے کرنے کی تاکید ہو پھر بلا عذر کے اس کو ترک کرنا بہت بڑی محرومی اور شقاوت کی بات ہے ، حضرات فقہاء نے تصریح کی ہے کہ سنت مؤکدہ کے ترک پر اصرار یہ گناہ کا باعث ہے؛ اس لیے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : من ترک سنتی لم تنلہ شفاعتی ( فتح القدیر ، کتاب الضحیۃ :۹/۵۰۹) جس نے میری سنت کو ترک کردیا وہ میری شفاعت نہیں پائے گا۔ ایک حدیث میں ہے آپ نے فرمایا : من رغب عن سنتی فلیس منی(صحیح ابن خزیمۃ حدیث نمبر : ۱۹۷) جو میری سنت سے اعراض کرے وہ میرے طریقہ پر نہیں ہے۔امام مکحول حدیث کے بڑے امام گزے ہیں وہ لکھتے ہیں : السنۃ سنتان :سنۃ اخذہا ہدی و ترکہا ضلالۃ و سنۃ اخذدہا حسن و ترکہا لا بأس بہ (اصول السرخسی ۱/۱۱۴))سنت کی دو قسمیں ہیں ایک وہ سنت ہے جس پر عمل کرنا ہدایت اور ترک کرنا گمراہی ہے اور ایک وہ ہے جس پر عمل کرنا ہدایت ہے اور ترک کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب ۔
کتبہ امانت علی قاسمی۔دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند ۔
23/10/1441ھ

Comments are closed.