کرائے دار چینل

ارشد بستوی
گزشتہ دو چار دنوں سے ایک نیوز اینکر سے ساری مسلم دنیا ناراض ہے، ناراضگی کی وجہ بھی بڑی دردناک ہے، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں اس ڈرامے باز اینکر نے بڑے نازیبا کلمات کہے،بتایا جارہا ہے کہ وہاں اکاد مولوی جی بھی تھے،جو اس سے کسی موضوع پر بحث کر رہے تھے؛ انتہائی افسوس ناک بات یہ ہے کہ شاید وہ اسے کچھ جواب نہ دے سکے۔ایسے موقعے پر یہ سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ آخر ایسے لوگوں کو کیوں اپنا نمائندہ منتخب کیا جاتا یا مانا جاتا ہے جنہیں بحث و مباحثے کا ڈھنگ بھی معلوم نہ ہو، جو بڑے ڈرپوک اور بڑے جاہل ہوں، اور وہ مسلم رہنما جو فکر امت اور درد ملت رکھتے ہیں وہ ہماری اس خامی پر کیوں نظر نہیں کرتے، ایسے لوگوں کو کیوں ان نیوز چینلوں پر جانے سے سختی سے نہیں روکتے جو اسلام اور مسلمانوں کی صحیح ترجمانی نہیں کر پاتے اور ان کرائے دار اینکروں کو ان کے چینلوں پر ہی منہ توڑ جواب نہیں دے پاتے؛ کیوں کہ اگر بالکل کوئی نہ جائے تو اس سے اتنا بڑا نقصان نہیں جتنا ان نا اہلوں کے جانے سے ہے،جوکہ صحیح طور پر اسلام اور مسلمانوں کی ترجمانی نہیں کر پاتے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ڈبیٹ اور بحث و مباحثہ میں سوال گندم اور جواب چنا ہوتا ہے اور کوئی بھی اسلام کو اس طرح پیش کرنے والا نظر نہیں آتا جیسا کہ خود اسلام ہے۔مگر یہ وقت کی شدید ضرورت اور بڑا تقاضا ہے کہ ایسے نوجوانوں کو اس میدان کے لیے تیار کیا جائے جو محمد بن قاسم جیسا دل، اس کے جیسی فکر اور اسی جیسی عبقریت رکھتے ہوں، اور پھر ان کرائے داروں کے سامنے کھڑا کردیا جائے جو ذہن و دماغ اور شکل و صورت سے ہی بڑے ڈرپوک، کم ہمت، کج فہم اور بزدل معلوم ہوتے ہیں، لیکن لمبی زبان،ٹیڑھا دل اور ٹیڑھی سوچ رکھتے ہیں۔ یہ تو ہے وقت کا تقاضا؛ لیکن اس سے بھی زیادہ ضرورت جس کام کی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارا ایک ذاتی اور طاقت ور ترین ”چینل“ ہونا چاہیے،جو صدیق کی صداقت،فاروق کا عدل و دبدبہ، عثمان کی زندہ دلی اور علی کی جرأت و شجاعت رکھتا ہو(رضی اللہ عنہم)، جو ہر اعتبار سے سب سے لائق اور سب پر فائق ہو اور ظلم و ستم پر کچھ اس انداز سے تبصرہ کرے کہ لوگ اس سے قریب ہوتے چلے جائیں اور سارے غیر مسلم خواہ وہ یہودی ہوں یا عیسائی ہوں یا سکھ ہوں یا اور کچھ، اگر وہ انصاف پسند اور حق پرست ہوں تو اسے اپنے دل کا ترجمان سمجھیں؛ جب کبھی کوئی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زبان کھولے یا آگ اگلے تو اسے منہ توڑ جواب دے کر اسلام کا صحیح موقف اور اس کی صحیح شکل و صورت لوگوں کے سامنے پیش کرے؛ ہمیشہ مظلوم کے حق میں بات کرے چاہے وہ مظلوم دلت ہو، سکھ ہو، عیسائی ہو یا کوئی اور غیر مسلم ہو یا مسلم ہی کیوں نہ ہو، تاکہ انجان اور نادان لوگوں کو لفظ اسلام اور لفظ ایمان کا معنی معلوم ہوسکے اور ظاہر ہے کہ اس لفظ کی تشریح پورا دین اسلام ہے جو کہ بڑی وسعت رکھتا ہے؛ جب کبھی محمد بن قاسم، محمود غزنوی یا ٹیپو سلطان کے خلاف کوئی اپنی زبان میلی کرے تو ان شخصیات کی صحیح تصویر و سیرت لوگوں کے سامنے پیش کرے، بالخصوص جب ہندوستان اور پھر جدید ہندوستان کی بات آئے تو اس کی سچی تاریخ اور سچی داستان سے لوگوں کو آگاہ کرے، کیوں کہ اگر آپ کبھی بھولے بھٹکے بھی اسکولی نصاب کی تاریخ کی کتابیں اپنے ہاتھوں میں لیں گے تو آپ خواہ بن عینک دیکھیں یا مقعر و محدب عدسوں کے واسطے سے دیکھنا چاہیں، آپ سچی تاریخ اور سچے مجاہدین آزادی کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے اپنی آنکھیں گنوا بیٹھیں گے اور اپنے کئی عدسوں کو تبدیل کرچکے ہوں گے لیکن آپ اپنے مقصد میں ناکام ہی رہیں گے اور ہوسکتا ہے بلکہ ہے بھی یہی کہ جس نے کبھی سچی تاریخ نہ سنی، نہ دیکھی اور نہ ہی تصور کی ہو، وہ اسی لکھاوٹ و بناوٹ اور یک طرفہ تاریخ پر ایمان لے آئے۔
یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ کتابوں کے اوراق کھنگالنے، پلٹنے یا الٹنے سے زیادہ، لوگ اب ٹویٹر، یوٹیوب اور فیس بُک کے صفحات الٹتے پلٹتے ہیں اور کتابوں میں غرق ہوکر مطالعہ کرنے کے بجائے موبائل، لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر کے سمندروں میں غواصی اور غوطہ زنی کرکے لعل و گہر ڈھونڈتے ہیں اور اسی تلاش میں ڈوبتے چلے جاتے ہیں۔ اور اب تو مجھے اس بات کا بھی ڈر ہے کہ اس کاغذ پر لکھے ہوے مضمون کا کیا ہوگا، کہیں اسے بھی نہ کوئی بچوں کو بہلانے کے لیے ناؤ بنا کر پانی پر چلا دے اور میں کہیں دور خشکی پر آسمان تلے، ذرا اور مایوس ہوکر کسی درخت تلے اس کے اثمار و نتائج کا منتظر رہوں!
خیر میں کرائے داروں کی بات کر رہا تھا اور بات میں بات آتی چلی جارہی ہے۔ تو میں یہ بات اب واضح کر دوں کہ میرے اصل مخاطب علماء کرام اور مذہبی رہنماء و مفکرین ہیں، جو اس کا سامان کر سکتے ہیں اور اچھی طرح کر سکتے ہیں اور اپنی نگرانی میں ایک اچھا چینل شروع کرکے اسے بڑھاوا دے سکتے ہیں؛ میں ایسا اس لیے کہہ رہا ہوں کہ فرداً فرداً بڑے بڑے ذہین و مفکرین اپنا اپنا یوٹیوب چینل چلا رہے ہیں، مگر ضرورت کے مطابق وہ ہر گز کام نہیں کرسکتے اور ہر قسم کے لوگ ان کو پر اعتماد ہوکر بھی نہیں دیکھ سکتے، وہ آسمان کے تارے ہو کر بھی بادلوں کے اندر چھپے رہ جائیں گے؛ ضرورت صرف ایک چینل کی ہے جس کی آواز ہر قسم کے لوگوں تک بآسانی پہنچ سکتی ہو، جس کے سرپرست و نگراں وقت کے سبھی بڑے مفکرین و مذہبی رہنما (ضرورت پڑنے پر اکادکا غیر مذہبی بھی) ہوں، کیوں کہ ہم دوسروں کے بھروسے اپنے ذمہ کے کام کو نہیں چھوڑ سکتے اور نہ ہی ٹال سکتے ہیں، اور وہ بھی ہماری چاہت و آرزو کے مطابق ہر گز نہ بول سکتے ہیں نہ لکھ سکتے ہیں!
یہ بات تو ہرکوئی اچھی طرح سے جانتا ہے کہ سارے نیوز چینلز اور اس کے اینکرس کرائے دار ہیں اور اگر لوگ اکاد کاچینل پر بھروسا کرتے ہیں تو وہ بھی اس قدر بھروسے کے لائق نہیں ہیں، اس لیے مجھے اس کی وضاحت و تفصیل کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں نے، ان کا کیا علاج ہے، وہ شروع ہی میں لکھ ڈالا ہے، بات اور ضرورت صرف ایک ہی کام کی رہ جاتی ہے اور مجھے امید ہے آپ بھولے نہیں ہوں گے، میں اسے بھی شروع ہی میں لکھ چکا ہوں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا سچ مچ اس پر عمل کیا جاتا ہے یا اسے بھی کسی داستان پارینہ یا انجان چڑیا کا نام دیا جاتا ہے۔ ایک بار پھر یہ بات کہتا ہوں کہ آپ چاہے مجھ سے متفق ہوں یا نہ ہوں لیکن یہ وقت کی ضرورت ہے ضرورت ہے اور شدید ضرورت ہے۔

Comments are closed.