لداخ تاریخ کے آئینے میں

عبدالرافع رسول
جغرافیائی لحاظ سے منفرداورکافی دشوارگذارسری نگرسے 418کلومیٹرکی مسافت پرشمال میں قراقرم کے سلسلہ کوہستان اوردریائے سندھ ، جنوب میں ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان میںگھرا ہوادواضلاع لہیہ اورکرگل پرمشتمل خطہ لداخ 9,800فٹ سطح مرتفع پرواقع ہے ۔بنیادی طورپرخطہ لداخ سنگاخ چٹانوں بے آب و گیاہ اورچھوٹ چھوٹے سردصحرائوں،کھاری جھلیوں ، برف سے ڈھکے فلک بوس پہاڑوں اورزمہریری گلیشیروں کی سرزمین ہے ۔تاریخی لحاظ سے یہ علاقہ اس متنازعہ ریاست جموںوکشمیرکاحصہ ہے جس پر1947سے بھارت کاجابرانہ قبضہ اورجارحانہ تسلط ہے ۔لداخ کی حدود مشرق میں چین کے علاقے تبت، جنوب میں بھارت کی ریاست ہماچل پردیش، مغرب میں جموں اور شمال میں چین سے اور جنوب مغرب میں پاکستان سے ملتی ہیں۔
لداخ کا کل زمینی رقبہ 59,146مربع کلو میٹریعنی22,836مربع میل پرمشتمل ہے۔اس کاقدرتی راستہ سری نگرسے جاتاہے لیکن وادی کشمیرکے ضلع گاندربل کے سونامرگ علاقے سے ہی بھاری برفباری کے باعث لداخ کی طرف جانے والایہ راستہ6ماہ تک تقریباََ بندرہتاہے۔لداخ ریاست جموںوکشمیرکے کم آباد علاقوں میں سے ایک ہے۔2001میں لداخ کے ضلع لہیہ کی آبادی 117637جبکہ ضلع کرگل کی 115287آبادی تھی۔تاہم2011میں بھارتی فوج کے زیرنگرانی کی جانے والی مردم شمار ی کے بعد جواعدادوشمارپیش کئے جاتے ہیں اس کے مطابق لداخ کے ان دونوں اضلاع کی کل آبادی 274,289نفوس پرمشتمل بتائی گئی ہے ۔یہاں تین زبانیں لداخی ،بلتی اورشینابولی جاتی ہیں۔لداخ کے دو اضلاع ہیں لداخ لیہ اور کرگل جبکہ چھ تحصیلیں ہیں۔لداخ کی لیہ،نوبرا،خالسی جبکہ ضلع کارگل کی سنکو،کارگل اور زنسکار تحصیلیں ہیں۔لداخ کاضلع لیہ بودہسٹوں کی آبادی پرمشتمل ہے جبکہ کرگل ضلع میں اہل تشیع آبادہیں۔
لداخ خطے کی کل آبادی کا 39.7 فیصد بودہسٹ ہے۔46.7فیصداہل تشیع جبکہ21.1فیصدہندویہاں آباد ہیں۔ لیہہ کی بودھ اکثریت کے باعث بھارت نے اسے خطہ لداخ کے مرکز کی حیثیت دے رکھی ہے۔لہیہ کومرکزیت کامقام ملنے اوراس انتظامی ڈھانچے پرکرگل کے اہل تشیع روزاول سے شکوہ کناں اور نالاں وناراض ہیں۔ واضح رہے کہ لداخ کے ان دو اضلاع کو پہلے سے ہی وادی کشمیرکی کٹھ پتلی انتظامیہ سے کاٹ دیاگیاتھااور 1993میں’’لداخ خود مختار ہل ترقیاتی کونسل‘‘ قائم ہوئی اوراسی کے ذریعے سے لداخ خطے کوچلایا جا رہا تھا۔ ماضی میں یہ علاقہ بھی ریاست گلگت سے منسلک ہوکر سنٹرل ایشاکے لئے تجارتی راستہ تھااور سلک روڈ یاشاہراہ ابریشم کے ساتھ منسلک تھاتاہم1962میں چین ،بھارت جنگ کے باعث لداخ شاہراہ ریشم یاسلک روڈ سے مکمل طورپر منقطع ہوا۔ لداخ پر تبتی ثقافت کی گہری چھاپ ہے اور اسے ’’تبت صغیر‘‘((Little Tibetبھی کہا جاتا ہے۔ لداخی کھانے بھی تبتی کھانوں کے ساتھ مماثلت رکھتے ہیں ۔ان کے کھانوں اور غذائوں میں ٹھوکیا،نوڈل،سویاں سونپا جو لداخی میں نیمیی کے نام سے جانا جاتا ہے عام استعمال کرتے ہیں مکھن اور نمک کے ساتھ سبز چائے پیتے ہیں۔جبکہ تیر اندازی اور پولو لداخیوں کے مشہور کھیل ہیں۔
گلوان وادی جہاں گذشتہ دنوں چینی فوج نے بھارت کے کم ازکم 20فوجی اہلکاراپنے کمانڈنگ آفیسرکرنل سنتوش کمارکے ساتھ ہالاک اوردرجنوں گرفتارکردیئے تویہ وادی لداخ اور اکسائی چن کے درمیان واقع ہے۔گلوان وادی کے قرب وجوارمیںچین مضبوط پوزیشن میں ہے اور وہ یہاں بھارت کو جتناچاہے نقصان پہنچا سکتا ہے۔5اگست 2019کو بھارتی سرکار نے متنازعہ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت سے جڑے آرٹیکل370 اور 35اے کے خاتمہ کے بعد 31اکتوبر2019سے ان خطوں کو باضابطہ طور پر دوالگ الگ اکائیوں میں تقسیم کر دیا ہے۔اس نئے معائدہ کے تحت جموںو کشمیر کے ایک کروڑ بائیس لاکھ افراد پر مشتمل ایک الگ اکائی جبکہ لداخ کے دو لاکھ سترہزار افراد پر مبنی دوسری اکائی قراردی گئیں ہیںاور دونوں اکائیاں براہ راست نئی دہلی کے زیر انتظام چلائی جارہی ہیں۔
بھارت کی نئی منصوبہ بندی کے تحت مستقبل قریب میں جموں وکشمیرمیں بھارت کے ایک لیفٹننٹ گورنرکی نگرانی میںپانچ سالہ مدت کے لئے ایک قانون ساز اسمبلی’’کٹھ پتلی‘‘اسمبلی قائم ہو اکرے گی ۔تاہم اصل اختیارات دہلی کے پاس رہیں گے۔جبکہ دوسری جانب لداخ کا براہ راست زیر انتظام بھارت کاتعینات کردہ ایک لیفٹینٹ گورنر لداخ کو چلائے گااوریہاںکوئی قانون سازاسمبلی’’کٹھ پتلی اسمبلی‘‘ قائم نہیں ہوگی ۔ بھارت نے فی الوقت مقبوضہ جموں وکشمیر کے لیے گریش چندر اور لداخ کے لیے آر کے ماتھر کو لیفٹننٹ گورنر نامزدکر دیا ہے۔اس طرح31اکتوبر2019سے بھارت نے مقبوضہ جموں کشمیر و لداخ میں بھارتی آئین و قوانین کا نفاذ ہو چکا ہے۔لداخ اور جموں پر دہلی کے نئے قوانین کے تحت بھارت کی تمام ریاستوں سے ہندو ئوں کو جموں کشمیر اور لداخ میں جائیداد خریدنے،شہریت حاصل کرنے کا باقاعدہ حق دے چکی ہے۔جس سے کشمیرکی ریاستی حیثیت و قانون ریاست باشندہ کے اطلاق کا خاتمہ ہو چکا۔
1841میںکشمیر پر سکھوں نے افغانیوں کو شکست دیکر ظالم سکھ سلطنت نے ریاست کشمیرپرقبضہ جمایااوریہاں ظلم کابازارگرم کردیاجامع مسجد سری نگر کونمازیوںکے لئے بندکردیاگیااوراس کے ایک حصے کوآگ لگاکرشہیدکردیاگیا۔سکھ سلطنت نے لداخ سے لیکرموجودہ ہزارہ تک کشمیرکوڈیکلیئرکرکے اس علاقے کے مسلمانوں پرخوفناک مظالم ڈھائے جنہیں دیکھ کر عظیم جہادی کمانڈرز شاہ اسماعیل شہید اور سید احمد شہیدنے ظالم سکھ سلطنت کے خلاف علم جہادبلندکیااورپشاوراورموجودہ خیبرپختونخواہ کے کئی علاقوں ہزارہ وغیرہ سے سکھوں کوپیچھے کھدیڑ کربالاکوٹ تک سکھوں کامقابلہ کیا بالآخر بالا کوٹ میں دونوں عظیم مجاہدین راہنمااپنے پاکبازمجاہدین کے ساتھ علاقے کے مسلمان نمامنافقوںکی غداریوں کے باعث شہید ہوگئے۔1846میں سکھ سلطنت کے زوال کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے ساری سکھ سلطنت پر تسلط جما لیااورپورے خطے کی طرح ریاست جموںو کشمیر بھی انگریزکے زیرتسلط آگیا۔16مارچ1846کو معاہدہ امرتسرکی رو سے جموں کے ڈوگرہ مہاراجہ گلاب سنگھ نے سکھوں سے غداری اورانگریزکی وفاداری اورچندنقدنانک شاہی ٹکوں کے عوض ریاست جموںو کشمیر کا اقتدار اعلیٰ انگریزوں سے حاصل کیا۔
16مارچ 1846کو ایسٹ انڈیا کمپنی اور مہاراجہ گلاب سنگھ کے مابین دس دفعات پر مبنی معائدہ طے پایا۔جس کے تحت ریاست جموںوکشمیر کا سارے کاساراعلاقہ جموں کے ڈوگرہ مہاراجہ کے کلی اختیار میں دیا گیا اور طے پایا کہ ان علاقوں پر حق حکمرانی کے لیے مہاراجہ،برطانیہ سرکار کو 75 لاکھ نانک شاہی سکے کے طور پر ادا کریں گے۔اس معاہدے کے بعدجموں کے ڈوگرہ خاندان 1846سے 1947تک جموں کشمیر پر برسراقتدار رہا۔اس طرح انتظامی اعتبار سے 101سال تک ڈوگرہ خاندان ریاست جموںوکشمیرپرراج کرتارہا۔لیکن 1947میںجب تقسیم برصغیرہوا،اوراس فارمولے کے تحت ریاست جموں وکشمیرکوپاکستان کاحصہ بن جاناتھامگراس دوران برطانیہ اورانڈیاکی بانی قیادت کے درمیان سازبازہوا،اس سازبازکے تحت ڈوگرہ عہدزوال پذیرہواتو خطے کے دوعلاقوں گلگت و بلتستان اورآج کے آزادکشمیرکے باسیوں نے جہاد بالسیف کے ذریعے سے ان دونوں علاقوں سے ڈوگرہ حکومت کی علمبرداری سے آزادکرالیا۔ایک طرف مجاہدین بے سروسامانی کے باوجود سری نگرکے قریب پہنچے دوسری طرف کرگل اورزانسکارتک وہ قبضہ کرتے رہے لیکن مہاراجہ ڈوگرہ نے بھارت کے ساز بازکرکے بھارت کی فوج منگوائی جاس کے باعث نہتے مجاہدین بارہمولہ اورسری نگراورادھر لداخ کے پیچھے دھکیل دیئے گئے یوںلداخ اورجموںوکشمیرپربھارت کاقبضہ ہوگیا۔
لداخ بنیادی طورپرایک غیرزرعی علاقہ ہے تاہم جدیدٹیکنالوجی کوبروئے کارلاکریہاں اب جو، گندم اورمٹر کاشت ہوتاہے ۔جبکہ پھلوں میں یہاں خوبانی اورچیری کاشت ہوتی ہے ۔اس طرح کہاجاسکتاہے کہ لداخیوں نے منفرد موسم اورمخصوص آب وہوا کے تحت چھوٹے پیمانے پر کاشتکاری کانظام تیار کیاہے جوکم ہی سہی لیکن کسی حدتک ان کی معیشت کومدددے رہی ہے۔سیاحت سے بھی اس علاقہ کے لوگوں کے ذرائع آمدن بڑھانے میں خاطرخواہ مدد مل رہی ہے ۔لداخ میں ایڈونچر ٹورازم کا آغاز انسیویں صدی میں شروع ہوا۔بیسیویں صدی کے اختتام تک برطانوی عہدیدراروں نے عام طور پر اپنی سالانہ چھٹی کے حصے کے طور پر سری نگر سے لیہہ تک چودہ تا سولہ دن کا سفر کیا۔ہر سال تیس ہزار سیاح لداخ سیاحت کے لیے آ تے ہیں۔سیاحت کے مقامات میں لیہہ،ڈریس وادی،سورو وادی،کارگل،زنسکر،زنگلہ، رنگنڈم،پدم،نوگتھل، ثانی، وادی شیوک، سانکو،نمک وادی اور متالی لداخ تک متعدد مشہور ٹریک روٹس شامل ہیں یہی وجہ ہے کہ لداخ کو سیاحوں کی جنت کہا جاتا ہے ایشا جنوبی ایشیا میں لداخ کے حوالہ سے منفرد خصوصیات کا حامل ہے۔سری نگرسے گاندربل اورپھرسونامرگ سے بل کھاتی ہوئی 418کلومیٹرلداخ سری نگر روڈ لداخ اور سری نگر کو آپس میں ملاتی ہے۔
بنیادی طورپر مال ومویشی پالنا لداخ کے مکینوں کااصل ذریعہ آمدن ہے۔یہاں کے مکین خاص طور پر ’’یاک ‘‘ جسے جنگلی یاپہاڑی نسل کی گائے کہاجاتاہے اور بھیڑ اور بکریاں پالتے ہیں اوربکریوں میں بھی ایک خاص نسل یہاں پائی جاتی ہے جوشایددنیامیں اورکہیں نہیں پائی جاتی ہے۔پشمینہ جوایک قسم کااعلی درجے کا اون ہوتاہے پیدا کرنے والی یہ خاص نسل کی بکریاں لداخ میں کثیر تعداد میں پائی جاتی ہیں چنانچہ ان کی پشم سے کشمیر میں قیمتی پشمینہ تیار ہو کر ساری دنیا میں جاتا رہا ہے۔یہ پشمینہ جموں کشمیر کا سفید سونا کہلاتا ہے اور سوائے لداخ اور تبت کے کہیں پیدا نہیں ہوتا۔کہاجاتاہے کہ برطانیہ اور روس نے ان بکریوں کو اپنے ملکوں میں منگوا کر پشمینہ پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے کیونکہ ان مخصوص بکریون کو ان ملکوں کی آب و ہوا راس نہیں آئی۔اس کے علاوہ ماضی قریب ہمارے پچنے میں لداخی اون سے بنے ہوئے موٹے قسم کے گرم سویٹر،اونی مفلر،ٹوپیاںاورمختلف رنگوںکی اونی جرابیں بناکرسری نگرمیں سٹال لگاتے ہوئے گاہکوں کوبیچتے تھے تاہم شایداب نہیں۔
پشمینہ بکریوں سے حاصل ہونے والی اون کی طلب اور قیمت بہت زیادہ ہے۔ انتہائی بلند، سرد اور آسائشوں سے عاری لداخ میں خانہ بدوش ان پشیمنہ بکریوں کی افزائش کرتے ہیں۔پشمینہ بکریوں سے حاصل ہونے والی اون کی طلب اور قیمت بہت زیادہ ہے۔ انتہائی بلند، سرد اور آسائشوں سے عاری لداخ میں خانہ بدوش ان پشیمنہ بکریوں کی افزائش کرتے ہیں۔بھارت اور چین کے درمیان لداخ میں سرحدی تنازع کی وجہ سے انتہائی مہنگی اور نرم پشمینہ کشمیری اون کی کمی ہوتی جا رہی ہے۔ یہ اون جن پشمینہ بکریوں سے حاصل کی جاتی ہے، ان کے ریوڑ سب سے زیادہ لداخ کے اس متنازع علاقے میں پائے جاتے ہیں جہاں ان دنوں بھارت اور چین کی افواج آمنے سامنے ہیں۔
انتہائی بلند، سرد اور آسائشوں سے عاری لداخ میں خانہ بدوش پشمینہ بکریوں کی افزائش کرتے ہیں۔ جن سے حاصل ہونے والی اون کی طلب اور قیمت بہت زیادہ ہے۔جن بکریوں سے اون کے لیے سوت حاصل کی جاتی ہے، وہ بھارت اور چین میں جاری تنازع کی وجہ سے اپنی چراگاہیں چھوڑنے پر مجبور ہو گئی ہیں۔ مقامی چرواہوں کا کہنا ہے کہ حالیہ کشیدگی کے دوران ان بکریوں کے ہزاروں بچے بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔لداخ کے بھارتی علاقے میں پشمینہ اون کی پیداوار کے لیے کام کرنے والی ‘پشمینہ گرورز کوآپریٹیو مارکیٹنگ سوسائٹی کا کہنا ہے کہ پشمینہ بکری کا بچہ لگ بھگ تین سال کی عمر میں پشمینہ اون دینا شروع کرتا ہے لیکن ان بچوں کی تعداد میں تیزی سے کم ہو رہی ہے۔بھارت اور چین کے درمیان دونوں ممالک کے فوجی متعدد بار آمنے سامنے آ چکے ہیں کیوں کہ اس علاقے کے بیشتر حصے کی واضح حد بندی نہیں ہوئی ہے۔
ان کاکہناہے کہ چین کے آگے بڑھنے کی وجہ سے پشمینہ بکریوں کی چراگاہوں کے لیے روایتی طور پر مخصوص علاقہ ہر سال کم ہوتا جا رہا ہے۔بھارت اور چین کی موجودہ کشیدگی کی وجہ سے لداخ کے گلہ بانوں کو کاک جونگ، تم سیلے، دمچوک اور کروزوک میں واقع چرا گاہوں کے قریب جانے نہیں دیا گیا اوربھارتی فوج نے انہیں ان گلہ بانوں کوپیچھے دھکیل دیاہے۔جس کے باعث رواں برس پشمینہ اون والی ان بکریوں کے 85فی صد بچے مر چکے ہیں۔ ان کے مرنے کی وجہ ان بکریوں کے ریوڑوں کا اس بار روایتی چرا گاہوں کے بجائے ان علاقوں کی جانب جانا ہے جہاں ان کے لئے گھاس اورچارہ نہیں ہے۔لداخیوں کا کہنا ہے کہ کچھ سال قبل تک سردی کے موسم میں وہ جم جانے والے دریائوں کو عبور کر کے ان چرا گاہوں تک پہنچ جاتے تھے۔ لیکن اب ان علاقوں پر چین کی فوج کا قبضہ ہے۔
ماہرین حیوانات کاکہناہے کہ بڑے پیمانے پر پشمینہ بکریوں کی ہلاکتیں آنے والے برسوں میں اس شعبے کے لیے تباہ کن ثابت ہوں گی۔خیال رہے کہ لداخ میں پائی جانے والی ان خاص بکریوں سے سالانہ 50ٹن تک انتہائی اعلی اور مہنگی اون’’پشمینہ‘‘ حاصل کی جاتی ہے۔ اس پشمینہ اون سے وادی کشمیر میں صنعت وحرفت سے منسلک دست کاروں کے ہاتھ سے بنائے گئے’’پشمینہ شال‘‘ بنتے ہیں جس سے ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔
پشمینہ بکریوں سے حاصل ہونے والے سوت کو اون کی شکل دی جاتی ہے اور عمومی طور پر اس سے شال بنائی جاتی ہیں۔ پشمینہ اون کی شالیں دنیا کے مہنگے ترین اسٹورز پر فروخت ہوتی ہیں۔ ان شالز کی قیمت 800ڈالرز تک ہوتی ہے۔خانہ بدوشوں کے قبیلے چنگ پہ کے ایک ہزار خاندان ہر سال گرمیوں کے موسم میں اپنی ہزاروں پشمینہ بکریوں، تبتی بیل اور گھوڑوں کے ہمراہ پانچ ہزار میٹریعنی 15ہزارفٹ کی بلندی پر واقع پہاڑی علاقے چانگ تنگ کا رخ کرتے ہیں۔وہ عمومی طور پر ان کم بلندی والی چرا گاہوں میں جانور چراتے تھے جو تبت اور دیگر دریائی علاقوں کے ساتھ واقع ہیں۔ ان علاقوں میں سخت سردی کے مہینوں یعنی دسمبر سے فروری میں درجہ حرارت منفی 50 ڈگری تک گر جاتا ہے۔ریوڑ چرانے والے ان خانہ بدوشوں کے لیے بھارت اور چین کا تنازع مشکلات میں مزید اضافہ کر رہا ہے کیوں کہ وہ پہلے ہی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث سردیوں میں سخت حالات اور گرمیوں میں خشک موسم کا سامنا کر رہے ہیں۔مشکلات میں اضافے کے باعث کئی افراد اپنے اس خاندانی کام کو چھوڑ رہے ہیں اور لداخ کے دوسرے علاقوں میں منتقل ہو رہے ہیں تاکہ زندگی گزارنے کے لیے نئی راہیں تلاش کر سکیں۔
منفرد نسل کی یہ لداخی بکریاں اپنے اعلیٰ ترین معیار کی اون کی بنا پر دنیا بھر میں شہرت رکھتی ہیں۔مگر ان کی گھٹتی ہوئی تعداد اس صنعت کے لیے سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ پشمینہ اون، وزن میں انتہائی ہلکی ہوتی ہے جب کہ یہ کسی دوسری اون کے مقابلے میں سردی سے محفوظ رکھنے کی زیادہ صلاحت رکھتی ہے۔ پشمینہ سے تیارکردہ شالیں، سوئیٹر اور ملبوسات دنیا بھر کی مارکیٹوں میں انتہائی مہنگے داموں فروخت ہوتے ہیں جس کا اندازہ صرف اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ کشمیر وول کا ایک عام مردانہ سویٹر امریکی مارکیٹ میں ڈیڑھ سو سے دو سو ڈالر میں بیچا جاتا ہے۔ مگر اعلی اور منفرد اون مہیا کرنے والی اس نسل کی بکریاں کی تعداد انتہائی کم ہے۔اور ان کی نسل میں بڑھوتری کی رفتار بھی بہت سست ہے۔ جس کی بنا پر پشمینہ کی رسد اس کی طلب کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اون کی اس ورائٹی کے مہنگا ہونے کا یہ ایک اہم سبب ہے۔
ایک اندازے کے مطابق وادی کشمیر میں دست کاروں کے ہاتھوں سالانہ 8 کروڑ ڈالر مالیت کی تیارشدہ پشمینہ شالیں فروخت ہوتی ہیں جولداخ کی ان خاص بکریوں کے اون سے تیارکی جاتی ہیں۔وادی کشمیر میں اعلی معیار کی اون فراہم کرنے والی بکریوں کی کئی نسلیں موجود ہیں، جن میں تبتی اور منگولیا نسل کی بکریاں خاص طورپر شہرت رکھتی ہیں۔ ان بکریوں کو چھوٹے چھوٹے ریوڑوں کی شکل برف پوش بالائی پہاڑی علاقوں میں پالا جاتا ہے۔اگرچہ ان کی اون بہت گرم ہوتی ہے لیکن اس میں پشمینہ جیسی نرمی اور ملائمت نہیں ہوتی ۔کہاجاتاہے کہ چین اپنے علاقے میں لداخی بکریوں کی افزائش نسل پر خاصی توجہ دے رہاہے۔اقتصادی ماہرین کا کہناہے کہ کشمیر کے تاجر بیرونی منڈیوں میں کشمیری شالوں کی مانگ پوری کرنے کے لیے پشمینہ اون کا ایک بڑا حصہ اب چین سے درآمد کررہے ہیں۔

Comments are closed.