آؤمر جائیں!

سمیع اللہ ملک
آئے روز مسلمانوں کے خون کی بڑھتی ہوئی ارزانی سے دل ڈوب جاتا ہے ایسے لگتا ہے جیسے میں مر گیا ہوں، بس میرا جسم لوگوں کے ہجوم میں ایک تنکے کی طرح معلوم ہوتا ہے کبھی کبھی ایسے لگتا ہے کہ یہ جو سارا لہو بہہ رہا ہے یہ مسلمانوں کا نہیں بلکہ یہ لہو ہی نہیں،لہو کیا یہ کچھ بھی نہیں، مجھے لگتا ہے یہ خواب ہے یہ دنیا بھی کچھ نہیں۔ اگر اس دنیا پہ کسی کو جینے کا حق ہے تو بس ظالم کو ہے۔ مولوی اور زاہدان دین بھی مجھے مورد الزام ٹھہراتے ہیں کہ یہ سب تیری وجہ سے ہے لیکن افسوس وہ یہ کیوں نہیں جانتے کہ میں تو مرا ہوا ہوں، میں تو ایک لاش کی مانند اس دھرتی پہ پڑا ہوں کوء مجھے اس دھرتی میں مدفن کر دے تو میں احسان مند رہوں گا۔ میری روح بس ہوا میں اڑتی رہتی ہے اور اسی کی وجہ سے مجھے تکلیف پہنچتی ہے۔
میں ایک لکھاری ہوں، بکا ہوا یا مرا ہوا یا جو مرضی سمجھیں آپ کو حق حاصل ہے۔ لوگو! میں بھی خوش رہنا چاہتا ہوں، میں اپنے حکمرانوں کی طرح بے حس رہنا چاہتا ہوں کتنی سکون والی زندگی ہوگی حکمرانی والی زندگی، جس میں اپنے سوا، اپنے خاندان کے سوا کچھ دکھائی اور سنائی نہیں دیتا مگر میں تنگ ہوں آپ کی وجہ سے نہیں، مجھے اپنی روح سے پریشانی ہے. کاش کہ میری روح کو کوئی قتل کردے۔
آپ کو معلوم ہوگا کہ انسان کبھی کبھی مرنے سے پہلے مرجاتا ہے اسی طرح جب ایک فرد مرتا ہے تو اسی کی وجہ سے پورا سماج مرنے لگتا ہے اوریوں ایک بے حس معاشرہ بن جاتا ہیاور کبھی کبھی میں خود کو مضبوط کر لیتا ہوں اور ایک سنگدل سا انسان بن جاتا ہوں تب مجھے لگتا ہے میں زندہ ہوں لیکن پھر میرے زندہ ہونے سے مجھے لگتا ہے معاشرہ مرا ہوا ہے، یعنی میرا دل نرم ہوجائے یا پتھر بن جائے دونوں صورتوں میں معاشرے کو نقصان پہنچتا ہے۔ آپ ہی دیکھ لیں ہم بطور مسلمان کیا مسلمان ہیں۔ کتنی حقیر سوچ ہے میری کہ میں آج کے مسلمان کے ایمان کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھتا ہوں اس وجہ سے بھی معاشرے کو یعنی مسلم معاشرہ کو تکلیف ہوگی۔
ہم نے ٹوپی ، تسبیح کے منکوں، مسجد کے میناروں،عید کی مٹھائی،قربانی کے گوشت لمبے لمبے جبوں میں اسلام کو چھپانے کی کوشش کی ہے اورمزید دفنانے کی کوشش میں ہم سب عالم، استاد،ڈاکٹرز،مفتی،امام، سکالرزسب غیروں کی مدد کررہے ہیں،اتنا کچھ ہورہا ہے مسلمان کی عزت کی ہر روز طرح طرح سے تذلیل جاری ہے اور مسلمان کی غیرت کو سلایا اور سہلایا جا رہا ہے،آج ہے ہمت کسی کے پاس کہ جہاد کا نام لے کر دکھائے؟ نہیں بلکہ اپنے ہی مسلمان افواج کے ہاتھوں مرنے کا شرف عطا ہوگا اسے دہشت گردی اور انتہا پسندی کہا جائے گا یعنی ہمارادشمن کامیاب ہوگیا وہ جہاد کو دہشتگردی کہلوانے میں کامیاب ہوچکا۔ مسلمان کو امن کا سبق دے کرمحبت کے جال میں پھنسا کران گنت نعشیں گرائی جارہی ہیں۔
کون ہے دہشتگرد ؟ کیا یہ جو ڈراموں اور چینلز پہ داڑھی والوں کو دہشتگرد کہا جاتا ہے وہ ہیں دہشتگرد؟ اوئے مت ماری گئی اے تیری! رب کی قسم! تیری سوچ ہی یہی بنائی جارہی ہے کہ یہ داڑھیوں والے ہیں دہشتگردہیں۔ ذرا اپنے کلین شیو،کالا کولا لگائے ہوئے حکمرانوں میں بھی دیکھ اگر وقت ملے تو اپنے لکھاریوں میں بھی دیکھ، اگر وقت ملے تو صحافیوں اور ڈاکٹرز میں بھی دیکھ ۔
دہشتگردی ۔۔۔۔۔۔روہنگیا برما میں یاغزہ فلسطین میں،بغدادعراق میں کی جائے تووہ کیا ہے؟غوطہ شام میں یامقبوضہ کشمیر میں مسلمان حوا کی بیٹی لوٹی جائے، بوسنیا مسلمان کے بچوں کو مشینوں میں کاٹ کرچارہ بنا دیا جائے توکیا ہے؟اوراگر یورپ میں ایک پٹاخہ بھی پھٹ جائے تومورد الزام مجھے ٹھہرایا جاتاہے،کیوں؟ ہمارے خون کی کوئی قدرومنزلت نہیں؟ ان کی شاہراہوں،کتوں بلیوں کی ہمارے جسموں سے بھی زیادہ قدرہے۔مسلمان کہاں ہیں؟ کیا مسلمان ایسے ہوتے ہیں، جیسے میں اورہم ہیں؟ مسئلہ کہاں ہے،مسئلہ ختم کیوں نہیں کیا جاتا؟؟ہمارے تمام اسلامی ممالک کی افواج اسلام کی کارکردگی اورایمان پررب العزت کی قسم ایک سوالیہ نشان ہے؟؟؟؟ مجھے تو لگتا ہے میں لاش ہوں کھاتی پیتی،چلتی پھرتی لاش کیونکہ زندگی تووہ ہے جس میں زندہ رہا جائے اورزندہ ہونے کا ثبوت دیا جائے۔شائد مجھے اس لیے لگتا ہے کہ میں ایک بے حس لاش ہوں جس کے ساتھ جو مرضی چاہے رویہ رکھے۔ سوال ایک آپ سے بھی ہے کہ کیا میں تنہا لاش ہوں یا آپ پربھی یہی گزررہی ہے مجھے توخوف آتاہے ایسی زندگی سے۔ اگرآپ پریہی گزررہی ہے تو آؤمر جائیں روہنگیا،غزہ، غوطہ،یمن،مقبوضہ کشمیرکے مظلوم ومقہوراورمعصوم بچوں،بہنوں اوربھائیوں کوبچانے کیلئے وگرنہ ان کی چیخوں، فریادوں کی دہلادینے والی آوازآسمانوں تک پہنچ چکی ہے جس کے جواب میں ہی یہ ان دیکھاجرثومہ کروناکی شکل میں ہمارے تعاقب میں ہے ! میری آپ سے گزارش ہے کہ میری یہ فریادبغورپڑھیں تاکہ آپ بھی میری اس فریادمیں شامل ہو سکیں۔ میرے مضطرب دل کیلئے دعابھی فرمائیں کہ میرارب روزقیامت مجھے رسول اکرم ﷺ کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچالے آمین
Comments are closed.